Tuesday 6 November 2012

مولانا شہوار نقوی صاحب قبلہ مجلس کو خطاب فرماتے ہوئے

فارم برائے کتاب ،،پندرہویں صدی کے شیعہ مصنفین،،محقق مولانا سید شہوار حسین نقوی

فارم برائے کتاب ،،پندرہویں صدی کے شیعہ مصنفین،،محقق مولانا سید شہوار حسین نقوی 
تمام معاصر علماء ومحققین سے گذارش ہے اس فارم کو پر فرماکر مذکورہ ایمیل پر ارسال فرمائیں نیز دیگر علماء کو بھی مطلع فرمائیں

Friday 2 November 2012

Molana Shahwar Hussain Amrohavi Syed Moon 4

Maulana Shawar Naqvi 5th Muharram A.wmv

تذکرہ مفسرین امامیہ برّصغیر

تذکرہ مفسرین امامیہ 
برّصغیر 
مؤلف ڈاکٹر مولانا سید شہوار حسین نقوی 
جملہ حقوق بحق ناشر نام کتاب : تذکرۂ مفسرین امامیہ تالیف : ڈاکٹر مولانا سید شہوار حسین امروہوی e-mail:ssnaqvia@gmail.com Mob.: 09319901464 طبع : ۱۴۳۳ھ/۲۰۱۲ء تعداد اشاعت : ناشر : مطبوعہ : ہندوستان قیمت : بسم اﷲ الرحمن الرحیم پیش گفتار الحمدﷲ الذی فضّل مدادالعلماء علی دماء الشہداء کفضل القمر علی سائرالنجوم فی آفاق السماء والصلوٰۃ والسلام علی النبی الکریم و آلہ الطیبین الطاہرین قرآن مجید وہ آفاقی کتاب ہے جس کی تفسیریں اور ترجمے دنیا کی تقریباً ہر زبان میں موجود ہیں۔ ہر دور میں علماء و مفکرین نے اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق مختلف طریقوں سے آیات قرآنی کی تشریح اور مطالب کی تبین کی۔ برّ صغیر ہند و پاک میں اولین ترجمہ کا تعین نہایت دشوار ہے مگر کتاب عجائب الہند مؤلفہ ۹۵۳ء میں راجہ بلہرا (ملک را) کے حالات میں درج ہے کہ: ’’ابو محمد حسن بن عمرو بن حمویہ نے بصرہ میں مجھ سے بیان کیا کہ جب میں منصورہ میں تھا تو وہاں کے شیخ نے مجھ سے بتایا کہ بلہرا نے راجگان ہند میں جو سب سے بڑا راجہ ہے جس کی حکومت کشمیر بالا اور کشمیر زیریں کے درمیان واقع ہے جس کا نام مہروگ بن رائگ ہے۔ ۲۷۰ھ/۸۸۳ء میں منصورہ کے سلطان عبداﷲ بن عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ مجھے ہندی زبان میں اسلام کے اصول اور آئین لکھ کر بھیج دے۔ سلطان نے منصورہ کے ایک شخص کو بلایا جس کا آبائی وطن تو عراق تھا لیکن ہندوستان میں پلا بڑھا تھا اور ہندوستان کی مختلف زبانوں سے واقف تھا۔ راجہ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے راجہ کے پاس چند سال ٹھہر کر آئین اسلام سے واقف کرایا راجہ نے اس سے خواہش ظاہر کی کہ ہندوستانی زبان میں میرے لیے تفسیر قرآن لکھ دے۔ ‘‘ اِنَّہ سَالَہُ اَن یُفَسِّرَ لہ القرآن بالہندیۃ ففسّرہ لہ قال فانتہیت من التفسیر الی سورۃ یاسین چنانچہ اس نے تفسیر لکھنا شروع کی جب مفسر سورہ یاسین تک پہنچا اور تفسیر راجہ کو سنائی تو راجہ پر رقت طاری ہوئی وہ فوراً تخت سے اتر کر زمین پر سجدہ ریز ہوگیا اور زار وقطار رونے لگا اس کا چہرہ گرد آلود ہو گیا۔‘‘ (قرآن پاک کے اردو تراجم ص ۱۰۹) اس طرح برّ صغیر میں تفسیرقرآن کا سلسلہ شروع ہوا۔ عرصہ دراز سے علمی حلقوں میں بر صغیر کے مفسرین قرآن کی خدمات کے تفصیلی جائزہ کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ جب کتاب ’’تالیفات شیعہ‘‘ سے فارغ ہوا تو احباب نے اصرار کیا کہ ایک ایسا تذکرہ منظر عام پر آنا چایئے جس میں مفسرکی سوانح کے ساتھ تفسیر و ترجمہ کی خصوصیات اور ضروری معلومات فراہم ہوں۔ توفیق الٰہی شامل حال ہوئی بطفیل حضرات محمد و آل محمد علیھم السلام ناچیز نے موضوع کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس کام کو انجام دینے کی جرأت کی۔ حسن اتفاق کہ حجۃ الاسلام والمسلمین آقای غلام رضا مہدوی دامت برکاتہ امروہہ تشریف لائے دوران گفتگو اس کتاب کا تذکرہ ہوا۔ آپ بہت خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اشاعت کی ذمہ داری قبول کی۔ ہمت بندھی کام میں تیزی پیدا ہوئی بیرون ملک کا سفر کیا۔ وہاں کے علماء و مفسرین اور کتبخانوں سے مراجعہ کیا۔ ہندوستان کے ارباب علم اور مختلف کتبخانوں سے رابطہ قائم کیا۔ کوشش یہی رہی کوئی مفسر یا مترجم رہ نہ پائے۔ مگر اس کے باوجود بھی اگر کسی کا تذکرہ رہ گیا ہو تو وہ قصداً نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ ارباب علم متوجہ فرمائیںگے۔ میں نے مقدمہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم و ائمہ علیھم السلام کی تفسیری خدمات کا ذکر کیا۔ دوسرے حصے میں اصحاب کرام، تابعین اور علماء عظام کی تفاسیر کا مختصر جائزہ لیا ہے۔ تاکہ اردو داں طبقہ بھی ان کی خدمات سے آشنا ہو سکے۔ اس کتاب میں بر صغیر کے شیعہ اثنا عشری مفسرین کا تذکرہ طبقات کے اعتبار سے کیا ہے۔ صدی کے تعین میں مفسر کے سال وفات کا خیال رکھا۔ جن کا سال وفات معلوم نہ ہو سکا یا جو بحمدﷲ حیات ہیں ان کی صدی کا تعین سال اشاعت کے اعتبار سے کیا ہے۔ اس تذکرہ میں دسویں صدی ہجری سے پندرہویں صدی ہجری کے مفسرین و مترجمین کا ذکر ہے۔ افادیت کے پیش نظر آخر کتاب میں ’’متعلقات قرآن‘‘ کا باب قائم کیا ہے جس میں علوم قرآن و قرآنیات سے متعلق کتب کا ذکر ہے۔ بعون اﷲ عز و جل کتاب پائے تکمیل کو پہونچی۔ مفسر کی سوانح حیات کے سلسلے میں کتاب’’ مطلع انوار‘‘ و ’’تذکرۂ بے بہا‘‘ اور مقدمہ میں ’’طبقات مفسران شیعہ‘‘ سے بھرپور استفادہ کیاہے۔ اس کاوش کی تکمیل کے سلسلے میں ان تمام کرم فرما ارباب علم و فضل کا شکر گذار ہوں جن کا مسلسل تعاون رہا۔ بالخصوص حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر غلام رضا مہدوی نمایندہ جامعۃ المصطفیٰ العالمیۃ کا سپاس گذار ہوں جن کی ہمت افزائی سے یہ کتاب منظر عام پرآرہی ہے۔ استاذالعلماء محترم علامہ سید محمد شاکر نقوی، ڈاکٹر مولاناسید محمد سیادت امام جمعہ امروہہ اور مولانا سید غلام عباس نقوی پرنسپل دارالعلوم سیدالمدارس کا ممنون ہوں جنھوںنے مفید مشوروں سے نوازا۔ برادران عزیز جناب سید تاجدار حسین صاحب، جناب سید شاندار حسین صاحب، جناب سید اقتدار حسین صاحب کا صمیم قلب سے شکر گذار ہوں جنھوںنے اس خدمت کو انجام دینے کے لیے مواقع فراہم کئے۔ مولوی غلام حیدر صاحب لائق تشکر ہیںجنھوںنے پروف ریڈنگ کی ذمہ داری نبھائی ۔ جناب توفیق احمد صاحب قادری کا ممنون و متشکر ہوں جنھوںنے اپنے کتب خانہ سے استفادہ کا موقع دیا اور ضروری کتب فراہم کیں۔ خداوند عالم بحق محمد و آل محمد علیھم السلام اس ادنیٰ سی کاوش کو قبول فرمائے اور والد ماجد مرحوم سید علمدار حسین بن سید اختر حسین مرحوم کی بخشش کا ذریعہ قرار دے۔ (آمین) وما توفیقی الاباﷲ و آخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین خادم الشریعۃ المطہرہ السید شہوار حسین الامروہوی الاستاذ دارالعلوم سید المدارس امروہہ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ/مارچ ۲۰۱۱ء امامیہ ریسرچ سینٹر حقانی اسٹریٹ، امروہہ،یو۔پی۔ ہندوستان تقریظ مقدمہ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے مفسرقرآن قرآن مجید خداوند عالم کا وہ کلام ہے جو حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم (۱۱ھ) پر بطور معجزہ نازل ہوا۔ جس کی تفسیر سب سے پہلے حضور اکرمؐ نے صحابہ کے درمیان بیان فرمائی۔ اکثر صحابہ خدمت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم میں حاضر ہوکر آیات قرآنی کے معانی و مطالب کے سلسلے میں سوال کرتے تھے اور حضور نامدارؐ آیات کے معنی اور رموز و اسرار انھیں سمجھاتے تھے۔ یہ سلسلہ تا وفات جاری رہا۔ مثلاً حضرت عبداﷲ بن عباس نے آیہ کریمہ ’’فَاذْ کُرُوْنِیْ اَذکُرُکُمْ‘‘ کا مطلب حضرت رسول اکرمؐ سے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا’’اَذْکُرُوْنِیْ یَا مَعَشَرَ العِبَادِ بِطَاعَتِی اَذْکُرْکُمْ بِمَغْفِرَتِی‘‘ اے لوگو! مجھے میری اطاعت کرکے یاد کرو، میں تمہیں تمہارے گناہ معاف کرکے یاد کرونگا۔ عدی بن حاتم نے آیۂ کریمہ ’’حَتٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الخَیطُ الاَبَیَضْ مِن الخَیْطِ الاَسود‘‘ کے بارے میں حضور اکرمؐ سے سوال کیا کہ خیط ابیض سے کیا مراد ہے۔ آپ نے فرمایا ’’سپیدہ صبح‘‘ ہے۱؎۔ آقائے نامدار صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم سے ’’الصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘ کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے فرمایا اس سے ’’نماز عصر‘‘ مراد ہے۱؎۔ عقیبہ بن عامر نے آیہ شریفہ ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْن‘‘ کی تفسیر کے بارے میں حضرت رسول اکرمؐ سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ‘ ‘سے مراد یہودی اور ’’وَلَاالضَّالّیْن‘‘ سے مراد عیسائی ہیں۔ آیۂ شریفہ ’’وَلَمْ یَلْبَسوْا اِیْمَانَہُمْ بِظُلمٍ‘ ‘ کے بارے میں آپ نے فرمایا ظلم سے مراد شرک ہے کیونکہ ارشاد قدرت ہے ’’یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ اِنَّ الشِرکَ لَظْلم عَظِیمٌ‘‘ اے میرے بیٹے! اﷲ کا شریک قرار نہ دینا بیشک شرک عظیم ظلم ہے۲؎۔ اس طرح بیشمار آیات قرآنی ہیں جن کی تفسیر آنحضرتؐ نے بیان فرمائی جو کتب معتبرہ میں محفوظ ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام اور تفسیر قرآن حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے بعد قران مجید کی تفسیر بیان کرنے میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام (۴۰ھ) کی ذات ’’صدرالمفسرین‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی تفسیر میں تاویل، تنزیل اور آیات کی تشریح حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان کے مطابق کی گئی تھی جسے آپ نے دربار خلافت میں پیش کیا مگر سیاسی مصلحت کے سبب قبول نہیں کی گئی۔آپ سے بڑی تعداد میں آیات کی تفسیر مروی ہے جن میں سے چند آیات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شعبی سے مروی ہے کہ حضرت علیؑ نے آیۂ کریمہ ’’اِنَّ اَوَّلَ بیتٍ وُضِع لِلناسِ للذی ببکۃ مبارکاً‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’لوگوں کے گھر پہلے بھی تھے مگر اﷲ کی عبادت کے لیے سب سے پہلا یہی گھر بنایا گیا۔ ‘‘۱؎ حضرت علی علیہ السلام نے آیۂ ’’یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ ٰ امنُوا اَنفقوا مِن طیبات ما کسبتُم‘‘ کے بارے میں فرمایا سونا چاندی میں سے جو کمایا اور آیۂ ’’ومما اَخرجنا لکم من الارض‘‘ کے بارے میں فرمایا اس سے اناج، کھجور اورہروہ چیز مراد ہے جس میں زکوٰۃ دینی واجب ہے۲؎۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے آیۂ ’’وَ عَلٰٰی الذینَ یطیقونہ‘‘ کے بارے میںفرمایا اس سے مراد بہت بوڑھا شخص ہے جو روزہ کی طاقت نہ رکھے تو وہ افطار کرے اور ہر دن کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ حضرت علیؑ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲعلیہ و آلہ سلم نے فرمایا آیۂ ’’اَفَمَن کَانَ عَلٰی بَیَّنَۃٍ مِن رَبِّہٖ‘‘ سے مراد میں ہوں اور ’’‘وَیَتلوہ شاہدٌ منہٗ سے مراد علیؑ ہیں۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے آیۂ ’’الا کباسط کفیہ ا لی المآئِ لیبلغ فاہ وما ہو ببالغہ‘‘ کے بارے میں فرمایا اس کی مثال اس پیاسے شخص کی ہے جو کنویں سے پانی نکالنے کی کوشش کرے لیکن اس کا ہاتھ پانی تک نہ پہنچے۱؎۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے آیۂ ’’الذین بدلوا نعمۃ اﷲ کفراً‘‘کے بارے میں فرمایا اس سے مراد بنو امیہ اور بنو مخزوم ہیں۔ ابن ابی الحسین سے روایت ہے کہ حضرت علی کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مجھ سے قرآن کے بارے میں سوال کرے؟ قسم خدا کی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ کوئی قرآن کا جاننے والا ہے تو اس کے پاس حاضر ہوتا۔ چاہے سمندروں کا سفر طے کرکے جانا پڑتا۲؎۔ یہ شان تھی آپ کے علم کی کہ جب بھی تفسیر قرآن کے بارے میں آپ سے سوال کیا جاتا تھا فوراً آپ اس کا جواب دیتے تھے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا اور قرآن دختر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام (۱۱ھ) کو قرآن مجید سے خاص انس تھا آپ اکثر اوقات قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں اور مدینہ کی خواتین کو تفسیر قرآن کا درس دیتیں۔ آپ کا کلام آیات قرآنی کی روشنی میں ہوتا تھا۔ گفتگو میں بھی آیات کا استعمال فرماتیں۔ آپ نے اپنے خطبہ میں جسے ’’خطبہ فدک‘‘ کہا جاتا ہے آیات قرآنی سے استدلال کرکے اپنے حق کا مطالبہ کیا جس کے اقتباسات ہدیۂ ناظرین ہیں: ’’اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ تم تن پرور ہوگئے ہو۔ اور اسے تم نے الگ کر دیا جو زمام اپنے ہاتھ میں لینے کا زیادہ حق دار تھا۔ اور آرام طلب ہو گئے ہو۔ زندگی کی سختی سے نکل کر عیش کی وسعت میںپہنچ گئے ہو یہی وجہ ہے کہ تم نے جو بچایا تھا اسے گنوا دیا اور جس کو نگل چکے تھے اس کو اگل دیا دیکھو ’’فَاِن تکفروا انتم و من فی الارضِ جمیعاً فان اﷲ لغنیٔ حمید(سورہ ابراہیم ۸)‘‘ اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سبھی کافر ہوجائیں تو خدا سب سے بے نیاز ہے‘‘ دوسرا اقـتباس: حضرت ابوبکر نے کہا رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’نحن معاشر الانبیاء لانرث ولانورث‘‘ ہم گروہ انبیاء نہ وارث بنتے ہیں اور نہ وارث بناتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا نے جواب دیا: سبحان اﷲ! مجھے اس تہمت پر تعجب ہے، رسول خداؐ کتاب خدا سے منحرف نہیں تھے۔ اور نہ قرآن کے احکام کے مخالف تھے بلکہ آپ ہمیشہ قرآن مجید کی پیروی کرتے تھے اور اس کے سوروں کے موافق عمل کرتے تھے۔کیا تم مکر و فریب پر متحد ہوکر رسول اکرمؐ پر جھوٹ کا الزام لگانا چاہتے ہو۔ آنحضرت کی وفات کے بعد تمہارا یہ کام انھیں فتنوں جیسا ہے جو تم نے ان کی حیات میں انہیں قتل کرنے کے لیے بپا کئے تھے۔ اﷲ کی کتاب میرے اور تمہارے درمیان عادل، حاکم ہے اور حق و باطل کو جدا کرنے والی ہے۔ جو یہ کہتی ہے ’’یَرِثُنی و یَرثُ مِن آلِ یعقوبَ‘‘ (سورہ مریم :۶) حضرت زکریا نے خدا سے دعا کی ’’مجھے ایک فرزند عطا فرما کہ جو میری اور آل یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔’’وَوَرِثَ سُلَیْمانَ دَاؤدَ‘‘ (سورہ نمل ۱۶) اور سلیمان نے داؤد کی میراث پائی۔ میراث کی تقسیم کو خدا نے واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے اور میراث میں سے ہر ایک کے حصہ کو معین کر دیا اور میراث میں لڑکے لڑکیوں کے حصہ کی اس طرح وضاحت کی ہے کہ جس سے اہل باطل کے بہانے نقش بر آب ہوگئے ہیں اور اس سلسلہ میں قیامت تک کے لئے شک و تردید کے راستوں کو بند کر دیا ہے۔ ’’کلَّا سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنَفسکم امراً فصبر جمیل واﷲ المستعان علی ما تصفون‘‘ (سورہ یوسف :۱۸) حقیقت وہ نہیں جو تم کہتے ہو بلکہ تمہارے دلوں نے ایک بہانہ تراش لیا ہے پس صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے ہو اس پر خدا ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۱؎۔ اس طرح آپ نے اپنے کلام کو کلام الٰہی سے مزین کیا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور تفسیر قرآن نواسہ رسولؐ حضرت امام حسن علیہ السلام (۵۰ھ) جن کی تربیت و پرورش آغوش رسالت میں زبان وحی چوس کر ہوئی ان سے بہتر تفسیر قرآن کون بیان کر سکتا ہے چنانچہ امام علیہ السلام نے وقتاً فوقتاً لوگوں کے سامنے رسول اکرم کے لب و لہجہ میں تفسیر قرآن بیان کی۔ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کتاب خدا میں جہاں بھی ’’الابرار‘‘ آیا ہے اس سے مراد علی و فاطمہ اور حسنین ہیں۔کیونکہ ہم بلحاظ ابناء و امہات ابرار ہیں۔ ہمارے قلوب اطاعت اور نیکی میں بلند ہیں۔ ہم دنیا اور اس کی محبت سے آزاد ہیں۔ ہم نے خداوند عالم کی اطاعت تمام فرائض میں کی ہے ہم اس کی وحدانیت پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے اس کے رسول کی تصدیق کی ہے۔ آیۂ ’’فی ایّ صورۃٍ رکبک‘‘کے متعلق فرمایا کہ اﷲ نے پشت ابو طالب میں علی کو صورت محمدی عطا کی آپ سب سے زیادہ رسول اﷲ مشابہ تھے، حسین فاطمہ زہرا سے زیادہ مشابہ ہیں اور میں خدیجۃ الکبریٰ سے مشابہ ہوں۲؎۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا ہم وہ اہلبیت ہیں خدا نے جن کی محبت کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا۔ہمارے ہی لیے خداوند عالم نے فرمایا ’’قل لا اسئلکم علیہ اجراً الّا المودۃ فی القربیٰ‘‘ آیۂ ’’رَبَّنَا ٰ اتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃ و فی الٓاخِرَۃِ حَسَنَۃ‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ’’قال: ہی العلم والعبادۃ فی الدنیا و الجنۃ فی الاخرۃ‘‘ حسنۂ دنیا سے مراد علم و عبادت ہے اور حسنۂ آخرت سے مراد بہشت و جنت ہے۔ حضرت امام حسن سے شاہد اور مشہود کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے فرمایا شاہد سے مراد ذات رسولؐاور مشہود سے مراد قیام قیامت ہے کیونکہ رسول اکرمؐ کے بارے میں ارشاد ہوا ’’یا ایہاالنبی اِنَّا ارسلنک شاہداً و مبشراً و نذیرا‘‘ اور قیامت کے بارے میں ارشاد ہوا ’’ذٰالِکَ یَوْمٌ مجموع لہ الناس و ذالک یومٌ مشہود‘‘۱؎ امام حسن علیہ السلام بہترین لباس زیب تن کرکے نماز پڑھتے تھے لوگوں نے اس کا سبب پوچھا آپ نے فرمایا ’’اِنَّ اﷲَ جَمِیْلٌ یُحبُّ الْجَمال‘‘ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ’’یا بنی آدم خذوا زینتکُم عِندَ کُلِّ مسجدٍ‘‘ اے اولاد آدم عبادت کے وقت مزین ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور قرآن نواسہ رسول اکرمؐ حضرت امام حسین علیہ السلام (۶۱ھ) پروردۂ آغوش رسالت جو ہر وقت زبان نبوت سے آیات الٰہی سنتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ آپ کو قرآن سے والہانہ عشق تھا۔ آپ بکثرت اپنے کلام میں آیات قرآن کا استعمال کرتے اور ان کی تشریح فرماتے تھے۔ آپ نے آیۂ ’’الذین ان مکنّاہم فی الارضِ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا یہ آیت ہم اہلبیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ایک خطبہ میں فرمایا: اے اہل عراق! میری بات سنو۔ میرے قتل میں عجلت سے کام نہ لو تاکہ میں تمہیں ایسا موعظہ کروں جس سے تم پر میری حجت تمام ہو جائے اور اس کے بعد کسی کا بہانہ نہ رہ جائے۔ اگر تم نے میرے ساتھ انصاف سے کام لیا تو سعادت مند ہو جاؤگے او راگر انصاف نہ کیا تو جو تمہاری سمجھ میں آئے وہ کرو۔ پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی ’’ثُمَّ لا یکن امرکم علیکم غمۃ ثم اقضوا الیّ ولا تنظرون‘‘ (سورہ یونس؍۷۱) اور تمہاری کوئی بات تمہارے اوپر مخفی بھی نہ رہے پھر جو چاہو کر گزرو اور مجھے کسی طرح کی مہلت نہ دو۔ ’’اِنَّ وَلِیَ اﷲُ الَّذی نَزَلَ الکتابَ وَہُو یَتَولّی الصَالحِیْنَ‘‘ (سورہ اعراف۱۹۶) یقینا میرا ولی خدا ہے جس نے کتاب (قرآن) نازل فرمائی اور وہ صالحین کا ولی اور سرپرست ہے۔ ۱؎ حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : ’’قائم آل محمد کے ظہور سے پہلے خدا کی جانب سے مومنین کے واسطے علامتیں ظاہر ہونگی اور یہ خداوند عالم کے اس قول سے ثابت ہے۔ ’’وَلَنَبَلُونَّکُمْ‘‘ اور ہم تمہیں ضرور بالضرور آزمائیںگے یعنی ہم قائم آل محمد کے ظہور سے پہلے مومنین کو آزمائیںگے۔ ’’بشیٍ من الخوف‘‘ خوف کے ذریعہ سے یعنی حضرت قائم کے آنے سے پہلے بنی عباس کے آخری دور حکومت میں خوف سے آزمائیںگے۔ ’’وَالْجُوعِ‘‘ مہنگائی کے سبب بھوک سے آزمائیںگے۔ ’’وَنَقصٍ مِن الاموال‘‘ اموال کی کمی تجارت میںنقصان پھلوں کی کمی ، اچانک موت آنے، اچھی فصل نہ ہونے اور کھیتوں کی فصل کی زکوٰۃ نہ نکالنے سے آزمائیںگے۔ ’’وَبَشَّرِ الصَّابِرِیْنَ‘‘ (سورہ بقرہ ۱۵۵) ایسے موقع پر صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے۔ ۱؎ خطبہ کا اقـتباس: ’’… خدا کی قسم ہرگز میں ذلت کے ساتھ اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دینے والا نہیں ہوں اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار کرنے والا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا اے اﷲ کے بندو: ’’اِنِّیْ عُذتُ بِرَبِّیْ وَ رَبِّکُمْ اَنْ تَرجُمُوْن‘‘(سورہ دخان ۲۰) میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں تم رحمت الٰہی سے محروم نہ ہو جاؤ اور اپنے اور تمہارے پروردگار کی بارگاہ میں ہر تکبر اور غرور کرنے والے سے جو روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتا پناہ مانگتا ہوں۔۲؎ اس طرح آپ کے بیشمار خطبات ہیں جن میں آیات قرآنی کو بطور استشہاد پیش فرمایا امام زین العابدین علیہ السلام اور قرآن چوتھے امام علی بن الحسین علیہ السلام (۹۵ھ) نے قرآن مجید کی تفسیر اور اس کے معانی و مطالب کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ وقتاً فوقتاً لوگوں کو قرآن مجید کے معانی سے آشنا کرتے تھے۔ ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ خدمت امام علی بن الحسین علیہ السلام میں حاضر ہوئے اور اس آیت کے بارے میں استفسار کرنے لگے ’’وجعلنا بینہم و بین القری التی بارکنا فیہا‘‘ آپ نے دریافت کیا لوگ اس آیۂ کریمہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں انھوںنے جواب دیا لوگ ’’قریٰ‘‘ سے مراد شہر مکہ لیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں اس سے مراد اہل قریٰ یعنی لوگ مراد ہیں۔ انھوںنے کہا قرآن مجید سے اس کا ثبوت ہے آپ نے فرمایا کہ کیا تم لوگوں نے یہ آیات نہیں پڑھیں و تلک القریٰ اہلکناہم قریہ ہلاک ہوتاہے یا اہل قریہ؟ و اسئل القریہ قریہ سے پوچھا جاتا ہے یا اہل قریہ اور قافلہ سے وکای من قریۃ عتت امور بہا قریہ سرکشی کرتا ہے یا اہل قریہ؟ انھوںنے پوچھا پھر اس سے کون مراد ہے امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا اس آیت سے مراد ہم اہل بیت ہیں۱؎۔ آیۂ ’’اُدخلوا فی السلم کافّۃً‘‘ (بقرہ ۲۰۷) امام علیہ السلام نے فرمایا ’’سِلم‘‘ سے مراد ولایت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے۔ آیۂ ’’واعتصموا بجبل اﷲ جمیعاً ولا تفرقوا‘‘(آل عمران ۱۰۳) امام سجاد نے فرمایا اس سے مراد محبت علی علیہ السلام ہے۔۲؎ آیۂ ’’لولا ان یکون الناس امۃً واحدۃً‘‘(سورہ زخرف ۳۳) امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا امت سے مراد امت محمدی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے کیونکہ یہ کامل ترین امت ہے۔ آیۂ ’’اِنَّ الَّذِیْ فَرضَ عَلیکَ القرآنَ لَرادُّکَ اِلی مَعادٍ واﷲ خیر حافظاً وہو ارحم الراحمین‘‘آپ نے فرمایا اس سے مراد انبیاء علیھم السلام اور ائمہ علیھم السلام کی دنیا کی طرف دوبارہ رجعت کرنا ہے۔ روی علی بنُ الحسین عن ابیہٖ عن علیٍ قال سمِعتُ النبی صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم یقول ’’لِکُلِ شیٍٔ عروس و عروس القرآنِ (سورۃ الرحمٰن) آپ نے فرمایا ہر شیٔ کی عروس ہوتی ہے، قرآن کی عروس سورہ رحمن ہے۔۱؎ اس طرح امام سجادؑ نے اپنے عہد میں لوگوں کو قرآن مجید سے آشنا کرکے معاشرہ میں قرآن کو رائج کیا۔ امام محمد باقر علیہ السلام اور تفسیر قرآن امام پنجم باقرالعلوم حضرت امام محمد باقر علیہ السلام (۱۱۴ھ) نے اپنے عہد میں تفسیر قرآن کو عام کیا اور آسان لفظوں میں قرآن مجید کے مفاہیم لوگوں کے سامنے بیان فرمائے۔ آپ سے منسوب تفسیر قرآن کا ذکر علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں کیا ہے۔ آیہ ’’وکذالک جعلنا کم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس‘‘کے متعلق امام سے سوال کیا گیا آپ نے فرمایا ہم خدا کی مخلوق پر خدائی گواہ ہیں اور روئے زمین پر حجت ہیں۔ آیۂ ’’یَوم نبعث من کل امۃ شہیداً‘‘ کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہم اس امت کے گواہ ہیں۔ آیہ ’’قل کفیٰ باﷲِ شہیداً‘‘ کے متعلق آپ نے فرمایا شہید سے مراد ہم ہیں۔ آیۂ ’’مافرطت فی جنب اﷲ‘‘ جنب اﷲہم ہیں اور آیۂ ’’الذین اخرجوا من دیارہم‘ ‘ سے مراد بارہ ائمہ ہیں۔ آیۂ ’’یایہاالذین امنوا اتقوا اﷲ وکو نوا مع الصادقین‘‘ میں صادقین سے مراد آل محمد ہیں۱؎۔ آیۂ ’’واسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃو باطنۃ‘‘سے متعلق فرمایا نعمت ظاہری سے مراد بنی اور ماجاء بہ النبی ہیں اور نعمت باطنی سے مراد ہم اہلبیت کی ولایت و محبت ہے۔ آیۂ ’’وَ فَضَّلنا ہُم علٰی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً‘‘ (سورہ اسراء آیہ ۷۰) امام محمد باقر علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ خداوند عالم نے تمام مخلوقات کو پست اور رو افتادہ خلق کیا سوائے انسان کہ اسے مستوی القامت معتدل خلق فرمایا۔ آیۂ ’’وہوالَّذی اَنزلَ السکینۃ فِی قلوبِ المومنین‘‘ (سورہ فتح ۴) ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر علیہ السلام سے ’’سکینہ‘‘ کے بارے میں سوال کیا آپ نے فرمایا اس سے مراد ایمان ہے۔ آیۂ ’’ماَ منعک ان تسجُدَ لَمَا خلقتُ بِیَدی‘‘ (سورہ ص۷۵) محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقرؑ سے اس آیت کے معنی دریافت کئے آپ نے فرمایا ’’ید‘‘ سے مراد قوت اور قدرت الٰہی ہے۔ آیۂ ’’وَجَزا ہُم بِمَا صَبَرُوا جنَّۃً و حریراً‘‘ (دہر۱۲) امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا صبر سے مراد وہ صبر ہے جو انسان مصائب و آلام پر دنیا میں کرتا ہے۔ آیۂ ’’وَ عَلَامَاتٍ وَ بِالنجم ہُم یَہتدون‘‘(سورہ نحل ۱۶) ابو الورد نے امام محمد باقر سے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان فرمائی کہ نجم سے مراد ذات رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم ہے اور علامات سے ائمہ علیھم السلام مراد ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اور تفسیر قرآن امام ششم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام (۱۴۸ھ) نے معارف قرآن کے سلسلے میں مدینہ منورہ میں اسلامی دانشگاہ کا قیام فرمایا جس میں ہزاروں طلباء علم دین حاصل کرنے میں مشغول تھے جہاں حدیث و کلام کے علاوہ تفسیر قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ اس دانشگاہ سے حضرت ابان بن تغلب محمد بن مسلم، زرا رہ بن اعین جیسی علمی ہستیاں منصہ شہود پر آئیں۔ عمار بن مروان سے روایت ہے کہ میں نے آیۂ ’’اِنَّ فی ذالک لآیات ِلاُ ولی النہیٰ‘‘ کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا آپ نے فرمایا اﷲ نے اپنے رسول کو خبر دی ہے ان امور کے متعلق جو آپ کے بعد ہونے والے تھے یعنی امر خلافت اور رسول اکرمؐ نے خبر دی ان کے متعلق علی کو اور ان سے ہم تک یہ خبر پہنچی یعنی آنحضرت کے بعد امور ملکی میں جو کچھ تغیرات ہونے تھے۔ ہم خدا کی مخلوق پر قوام اﷲ ہیں اس کے علم دین کے خزانے ہیں۔ ۱؎ یحییٰ بن عبداﷲ بن الحسن نے روایت کی ہے کہ آیۂ ’’ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا‘‘ کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا وہ ہم ہیں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کی اطاعت خدا نے فرض کی۔ ہمارے لیے انفال ہے ہمارے لیے مال ہے ہم را سخون فی العلم ہیں ہم وہ محسود ہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ’’ام یحسدون الناس‘‘ آیۂ ’’وکل شیٍٔ ہالک الا وجہہ‘‘ کے متعلق حضرت صادق آل محمدؐ نے فرمایا ہم ہیں وہ جن سے خدا کی طرف توجہ کی جاتی ہے۔ آیۂ ’’وکرہ الیکم الکفر و الفسوق والعصیان‘‘ کے متعلق امام نے فرمایا ہمارا بغض ہے اس شخص سے جس نے مخالفت کی رسول اور ہم سے۔ سورہ توحید کی اس طرح آپ نے تفسیر فرمائی ’’واحد صمد اَزلی صمدی لا ظلّ لہ یمسکہ وہو یُمسک الاشیاء باظلِّتہَا عارفٌ بالمجہولِ معروفٌ عند کل جاہلٍ ہو فی خلقِہٖ‘‘۱؎ حضرت نے فرمایا آیۂ ’’استکبرت ام کنت من العالین‘‘ کے متعلق کہ عالین سے مراد ہم ہیں ہمارے سوا زمین پر کوئی مخلوق نہیں تھی ابلیس نے اس پر حسد کیا جن کلمات سے آدم کی توبہ قبول ہوئی وہ ہم ہی ہیں۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور تفسیر قرآن امام ہفتم حضرت امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام (۱۸۳ھ) نے الٰہی علم کے ذریعہ معارف قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور کلام الٰہی کے رموز و اسرار سے لوگوں کو آشنا فرمایا۔ آیۂ ’’بل ہو آیات بینات فی صدورالذین اوتوالعلم‘‘ کے متعلق امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا اس سے مراد ہم ائمہ اہل بیت ہیں۔ آیۂ ’’لا تتبعوا السبیل‘‘ کے متعلق فرمایا ہم ہیں وہ راستے جن میں لوگ ہماری اقتدا کرتے ہیں۔ ہم جنت کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں۔ ہم ہیں اسلام کی رسیاں۔ آیۂ ’’ومن یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ وہو فی الآخرۃِ من الخاسرین‘‘ امام نے فرمایا جس نے ہماری ولایت کو تسلیم نہیں کیا وہ خسارہ میں رہے گا۔ آیۂ ’’والذین جاہدوا فینا لنہدیّنہم سبلنا‘‘کے متعلق فرمایا یہ آیت آل محمد اور ان کے شیعوں کے متعلق نازل ہوئی۔ ایک شخص امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے مال کثیر راہ خدا میں صدقہ دینے کی نذر کی تھی میں ایفائے نذر کرنا چاہتاہوں کتنا مال صدقہ دوں۔ کتنے مال پر مال کثیر کا اطلاق ہو گا؟ آپ نے فرمایا ۸۴ کے عدد پر مال کثیرکا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے ’’ولقد نصرکم اﷲ فی مواطن کثیرہ ویوم حنین‘‘ ۸۴ مقامات تھے جہاں خداوند عالم نے اپنے حبیب رسول اکرمؐ کی مدد فرمائی تھی۔ ۱؎ امام علی رضا علیہ السلام اور تفسیر قرآن امام ہشتم حضرت امام علی رضا علیہ السلام (۲۰۳ھ) نے اپنے زمانے میں تفسیر قرآن کو عام کرنے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کے سامنے تفسیر قرآن مجید بیان فرماتے تھے۔ اور تفسیر کے ذیل میں جو سوالات کئے جاتے تھے ان کے شافی جوابات دیتے تھے۔ آیۂ’’و نزعنا ما فی صدورہم من غل‘‘ آپ نے فرمایا یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آیۂ ’’ماسلککم فی سقرٍ قالوا لم نک من المصلین‘‘ کے متعلق امام علی رضاؑ نے فرمایا اس سے مراد اتباع ائمہ علیھم السلام ہے۔ ایک مرتبہ مامون رشید، فضل اور امام رضا علیہ السلام دسترخوان پر کھانا کھا رہے تھے۔ مامون نے امام سے پوچھا رات پہلے ہے یا دن؟ امام نے فرمایا قرآن سے جواب دوں یا علم حساب سے ۔ فضل نے کہا دونوں سے۔ آپ نے فرمایا سنو طالع دنیا سرطان ہے اور کواکب اپنے موضع شرف میں پس زحل میزان میں اور مشتری سرطان میں، سورج حمل میں چاند ثور میں دلیل ہے آفتاب کے حمل میں ہونے کی دسویں درجہ پر وسط آسمان میں اور یہ ثبوت ہے اس کا کہ دن کو رات سے پہلے پیدا کیا گیا۔ رہا قرآن مجید سے ثبوت تو خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے ’’لا الشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر ولااللیل سابق النہار‘‘۱؎ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا آٹھ چیزوں کی پیروی آٹھ چیزوں کو پیدا کرتی ہے۔ متابعت نفس ندامت کو پیدا کرتی ہے جیسا کہ قصہ قابیل میں ہے ’’فطوعت لہ نفسہ ‘‘متابعت شہوات کے ساتھ کفر ہے’’واتبعوا الشہوات‘‘ شیطان کی پیروی نار ہے ’’ان عبادی لیس لک علیھم سلطان‘‘ متابعت فراعنہ دنیا میں غرق ہونا اور جہنم میں جلنا ہے ’’واتبعوا او فرعون‘‘ گمراہوں کی متابعت روز قیامت ان کے ساتھ ہونا ہے ’’یوم ندعوا کل اناسٍ‘‘ متابعت ہوائے حسناست کو پیدا کرتی ہے جیسا کہ قصہ بلعم باعور میں ہے ’’واتبع ہواہ فمثلہ کمثل الکلب‘‘ متابعت رسولؐ محبت خدا ہے ’’فاتبعونی یحببکم اﷲ‘‘ متابعت اہل بیتؑ حشر میں ان کے ساتھ ہونا ہے ’’الذین آمنوا واتبعتہم ذریتہم‘‘ غور کیا جائے تو اﷲ نے اشیاء کو آٹھ پر رکھا ہے۔ ’’و یحمل العرش ربک الخ، ابواب جنت وسیق الذین اتقوا ربہم الی الجنۃ زمراً حتیٰ اذا جاؤ ہا فتحت ابوابھا‘‘ ارباب صدقات آٹھ ہیں ’’انماالصدقات الفقرائ‘‘ جانوروں کے جوڑے آٹھ ’’ثمانیۃ ازواج من ضان الخ‘‘ اور اصحاب کہف کے متعلق ہے ’’سبعۃ ثامنہم کلبہم‘‘ اور شعیب نے فرمایا ’’فاجرنی ثمانی حجج ‘‘مولود کی حرکت اس کی قوتیں اور اس کی خلقت آٹھ ماہ میں کامل ہوتی ہے۔ ۱؎ اس طرح امام علی رضا علیہ السلام نے قرآن سے جوابات دئیے اور لوگوں کے درمیان آیات کی تشریح اور ان کے مصادیق کی نشاندہی کی۔ امام محمد تقی علیہ السلام اور تفسیر قرآن امام نہم حضرت امام محمدتقی علیہ السلام (۲۲۰ھ) نے اپنے مختصر دورِ امامت میں قرآن مجید کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپ نے الٰہی علم کے ذریعہ آیات قرآن کی تشریح اور تاویل بیان فرمائی۔ آیہ ’’قل ہذہ سبیلی اُدعوا الی اﷲ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی‘‘ کے متعلق فرمایا اس سے مراد حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اوصیاء ہیں۔ آیۂ ’’والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا‘‘ کے متعلق فرمایا اس سے ہم اہل بیت مراد ہیں۲؎۔ ’’عن ابی ہاشم الجعفری قال: سالت ابا جعفر الثانی مامعنی الواجد؟ قال الذی اجتماع الالسن الیہ بالتوحید کما قال اﷲ عز و جل وَ لَئن سئلتہم من خَلَقَ السّموات والارض لیقولن اﷲ۳؎‘‘ ابو داؤد عہد بنی عباس کا زبردست عالم تھا اس کا دوست زرقان نقل کرتا ہے کہ ایک روز ابن ابی داؤد معتصم عباسی کے دربار سے انتہائی محزون حالت میں آیا میں نے اس سے حزن و ملال کا سبب معلوم کیا ابو داؤد نے کہا کاش بیس سال قبل ہی مر گیا ہوتا اور اس رسوائی کا سامنا نہ ہوتا۔ میں نے معلوم کیا کیا قضیہ ہے؟ اس نے جواب دیا معتصم کے دربار میں ایک چور لایا گیا جس کا جرم ثابت تھا معتصم نے مجھ سے پوچھا اس کا ہاتھ کہاں سے کٹے؟ میں نے فوراً جواب دیا گٹے سے اس نے دلیل معلوم کی میںنے تیمم کی آیت پڑھی ’’فَامْسَحُوا بِوُجوہِکُمْ وَ اَیدیَکم‘‘ معتصم نے دوسرے علماء سے دریافت کیا انھوںنے کہا کہنی سے ہاتھ کٹنا چاہئے اس نے دلیل پوچھی انھوںنے وضو کی آیت پیش کی ’’فاغسلوا وجوہکم و ایدیکم الی المرافق‘‘اس آیت میں کہنی تک ہاتھ کا اطلاق ہوا ہے۔ معتصم نے پھر امام محمد تقی سے دریافت کیا آپ فرمائیں شریعت کا کیا حکم ہے۔ آپ نے انکار فرمایا مگر معتصم کا اصرار ہوا تو آپ نے فرمایا چور کی صرف چار انگلیاں کٹیں گی۔ اس نے کہا دلیل دیجئے آپ نے فرمایا سجدہ سات اعضاء پر واجب ہے۔ پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دو پیر کے انگوٹھے۔ اگر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو پھر سجدہ کیسے کرے گا پھر آپ نے قرآن مجید کی آیت سے ثبوت پیش کیا خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے ’’اِنَّ الْمَسَاجِد لِلّٰہِ فَلَا تَدعُوا مَعَ اﷲِ اَحداً‘‘ پس اعضائے سجدہ اﷲکے لیے ہیں اس کی صرف انگلیاں کٹیںگی یہ سن کر معتصم بہت خوش ہوا اور آپ کے حکم کے مطابق حد شرعی جاری کی۔ ۱؎ یہ تھا آپ کا تبحر علمی جس کا مقابلہ بڑے بڑے علماء نہیں کر پائے۔ امام علی نقی اور تفسیر قرآن امام دہم حضرت امام علی نقی علیہ السلام (۲۵۲ھ) سے بڑی تعداد میں آیات قرآن کی تفسیر مروی ہے۔ جب بھی سوالات کئے گئے آپ نے آیات قرآنی کے تناظر میں جوابات دئیے۔ یحییٰ بن اکثم نے ابن سکیت کو چند سوالات لکھ کر دئیے کہ ان کے جوابات امام علی نقیؑ سے معلوم کرے۔ ابن سکیت نے وہ سوالات امام کی خدمت میں پیش کئے۔ سوال: ’’قال الّذی عِندہ عِلمٌ مِن الکتابِ اَنَا آتیکَ بہ قَبلَ اَن یَر تَدّ اِلیک طرفُک‘‘(نمل ۴۰) سے مراد آصف بن برخیا ہیں تو کیا ان کا علم حضرت سلیمان سے زیادہ تھا؟ جواب: حضرت سلیمانؑ عاجز نہیں تھے اس چیز کی معرفت سے جس کی معرفت آصف کو تھی۔ لیکن وہ چاہتے یہ تھے کہ تمام جن و انس یہ جان جائیں کہ میرے بعد حجت خدا آصف ہونگے۔ یہ تو در حقیقت حضرت سلیمانؑ کا علم تھا جو انھوںنے آصف کو بتایا تھا۔ سوال: خداوندعالم سورہ یوسف میں فرماتا ہے ’’وَرَفَعَ اَبَویہ عَلٰی العرشِ و خَرّو الہ سُجّداً‘‘ کیا یعقوب کو سجدہ کرنا جائز تھا۔ جواب: یہ سجدہ اطاعت خدا میں شکر انے کا سجدہ تھا جیسا کہ ملائکہ کا سجدہ آدم کے لیے نہیں تھا بلکہ حکم الٰہی کو سجدہ تھا۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ شکر خدا میں یوسف نے کہا تھا ’’رَبِّ قدا تیتنی من الملک الخ‘‘ سوال: آیۂ ’’فاِنْ کُنتَ فی شَکٍ مِمَّا اَنزَلَنا اِلِیکَ فَسأَل الَّذِیْنَ یَقر ء وُنَ الکتاب مِن قَبلِکَ‘‘ کیا رسول خدا کو کسی طرح کا تردد تھا؟ جواب: حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کو کسی طرح کا تردد و شک نہیں تھا بلکہ ان کی قوم کے جاہلوں کو شک تھا وہ کہتے تھے خدا نے ملائکہ میں سے کسی ملک کو رسول بنا کر کیوں نہیں بھیجا؟ اور عام لوگوں اور نبی کے درمیان اس طرح فرق کیوں نہیں رکھا کہ نہ وہ کھاتا پیتا اور نہ باز اروں میں چلتاپھرتا۔ پس خداوند عالم نے اپنے نبی پر وحی نازل کی کہ جو آسمانی کتابیں پڑھتے ہیں جاہلوں کے سامنے ذرا ان سے یہ تو پوچھو کہ کیا تم سے پہلے خدا نے کوئی نبی ایسا بھیجا تھا جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو؟ بس جیسے وہ تھے ویسا ہی میں ہوں۔ آنحضرت شک میںمبتلا نہیں تھے بلکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے مباہلہ میں کہا گیا ہے ’’فَقُل تَعالو نَدعُ اَبناء نَا وَاَبنَاء کُم و نِسَاء نَا و نَسائکُم وَانفسُنا و اَنفسکم ثم نبتہل فنجعل لعنۃَ اﷲِ علی الکاذبین‘‘ (آل عمران ۶۱) یعنی ایسا نہیں تھا کہ ان کے ابناء اورنساء کے متعلق یہ خیال ہوکہ اگر وہ مباہلہ میں لعنت کرینگے تو ان کی بدعا قبول ہو جائیگی یعنی استجابت دعا میں ان کو برابر کا شریک نہیں سمجھا گیا تھا بلکہ اپنی دعا کی قبولیت کا یقین تھا لیکن مصلحتاً ان کو شریک کیا گیا اگریوں کہا جاتا ’’تعالوا نبتہل فنجعل لعنۃ اﷲ علیکمٔ ‘‘ آؤ ہم مباہلہ کریں اور اﷲ کی لعنت تم پر قرار دیں تو وہ مباہلہ قبول نہ کرتے خدا کو اس کا علم تھا کہ آنحضرت اس کے سچے رسول ہیں اور ان کو کسی طرح کا شک نہیں ہے۔ سوال: آیۂ ’’وَ لو اَنَّ ما فِی الاَرضِ مِن شجرۃٍ اقلام والبحر یمدُّہ من بعدَہِ سبعۃ ابحر ما نفدت کلماتُ اﷲِ اِنَّ اﷲَ عزیزٌ حکیمٌ‘‘ (سورہ لقمان ۲۷) کلمات کیا تھے اور سات دریا کون سے ہیں۔ جواب: آپ نے فرمایا وہ سات دریا ہیں عین الکبریت، عین الیمین عین برہوت، عین طبریہ، عین ماسیدان، عین افریقہ، عین باحوران، اور ہم وہ کلمات ہیں جن کے فضائل کا کوئی احصاء نہیں کر سکتا۔۱؎ امام حسن عسکری علیہ السلام اور قرآن امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام (۲۶۰ھ) کے دور میں کچھ لوگوں نے قرآن مجید کے سلسلے میں شکوک و شبھات پھیلانے کی کوشش کی آپ نے اپنے علم و فراست کے ذریعہ ان کی کوشش کو ناکام کیا چنانچہ ایک عظیم فلسفی اسحق کندی کو یہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تناقض ثابت کرے اور یہ بتائے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے اور ایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتا ہے۔ اس نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے کتاب ’’تناقض القرآن‘‘ لکھنا شروع کی اور اس درجہ منہمک ہو گیا کہ لوگوں سے ملنا جھلنا ترک کر دیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کا ارادہ فرمایا۔ آپ کا خیال تھا کہ اس پر کوئی ایسا اعتراض کیا جائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے اور مجبوراً اپنے ارادہ سے باز آجائے۔ اتفاقاً آپ کی خدمت میں اس کا ایک شاگرد حاضر ہوا۔ حضرت نے اُس سے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسحاق کندی کو کتاب ’’تناقض القرآن‘‘ لکھنے سے باز رکھ سکے۔ اس نے عرض کی مولا میں اس کا شاگرد ہوں بھلا اس کے سامنے لب کشائی کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ تو کر سکتے ہو کہ جو میں کہوں وہ اس تک پہنچا دو۔ اس نے کہا کر سکتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا پہلے تو تم اس سے موانست پیدا کرو جب تم سے مانوس ہو جائے اور تمہاری بات توجہ سے سننے لگے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایک شبہ پیدا ہو گیا ہے آپ اس کو دور فرما دیں۔ جب وہ کہے بیان کرو تو کہنا کہ ’’اِن اتاک ہذا المتکلم بہذا القرآن کل یجوزُ اَن یکونَ مرادُہ بِما تَکلم مِنہُ عَنِ المعانِی الّتی قد ظنتہا اِنک ذہبتہا الیھا‘‘ اگر اس کتاب یعنی قرآن کا مالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جو مطلب اس کا ہو وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو۔ جب وہ تمہارا اعتراض سنے گا تو چونکہ ذہین آدمی ہے فوراً کہے گا کہ بے شک ایسا ہو سکتا ہے۔ جب وہ یہ کہے تو تم اس سے کہنا کہ پھر کتاب ’’تناقض القرآن‘‘ لکھنے سے کیا فائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جو معنی سمجھ کر اس پر اعتراض کر رہے ہو ، ہو سکتا ہے وہ خدائی مقصد کے خلاف ہو۔ ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اور برباد ہو جائے گی کیونکہ تناقض تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا سمجھا ہوا مطلب صحیح اور مقصود خداوندی کے مطابق ہو اور ایسا یقینی طور پر نہیں تو تناقض کہاں رہا؟ الغرض وہ شاگرد اسحاق کندی کے پاس گیا اور اس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا۔ اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ پھر سوال کو دھراؤ اس نے اعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیر کے لیے محو تفکر ہو گیا۔ اور دل میں کہنے لگا کہ بے شک اس قسم کا احتمال باعتبار لغت اور بلحاظ فکر و تدبر ممکن ہے۔ پھر اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہو کر بولا بتاؤ یہ اعتراض کس نے بتایا اس نے جواب دیا یہ میرے ہی ذہن کی پیداوار ہے۔ اسحاق نے کہا ہرگز نہیں یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی بات نہیں تم سچ بتاؤ یہ کس نے کہا ہے۔ شاگرد نے کہا سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے بتایا تھا اور میں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پر آپ سے سوال کیا ہے۔ اسحاق کندی بولا ’’الان جئت بہ‘‘اب تم نے سچ کہا ایسے اعتراضات اور ایسی اہم باتوں کا صدور خاندان رسالتؐ ہی سے ہو سکتا ہے۔ ’’ثُمَّ انہ دَعا بِالنارِ وَ اَحَرقَ جمِیعُ مَا کَانَ اَلفَہ‘‘ پھر اس نے آگ منگائی اور کتاب کا سارا مسودہ نذر آتش کر دیا۔۱؎ اس طرح آپ نے قرآن کے وقار و عظمت کا تحفظ فرمایا اور لوگوں کو اس کے مرتبہ سے آگاہ کیا۔ امام مہدی علیہ السلام اور قرآن امام دوازدہم حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ۱۵؍شعبان ۲۵۵ھ بروز جمعہ ہوئی۔ آپ حکم خدا سے پردۂ غیب میں ہیں۔ جب آپ کا ظہور ہوگا تو آپ قرآنی حکومت قائم فرمائیںگے۔ تعلیمات قرآن عام ہونگی، ہر طرف سے قرآن کی تلاوت کی آواز آئے گی اور آپ حضرت محمد مصطفی ؐ کی طرح قرآن مجید کے اسرار و رموز کا انکشاف کرینگے ۔صحیح معنوں میں حدود قرآنی کا اجرا ہوگا۔ اور آپ محکم، متشابہ، ناسخ اور منسوخ آیات کی بالتفصیل تفسیر فرمائینگے اور لوگ ان پر عمل پیرا ہونگے۔ پہلی صدی حضرات ائمہ علیھم السلام کے بعد جن صحابہ کرام نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دیں ان میں حضرت عبداﷲ بن عباس بن عبدالمطلب کا نام سر فہرست ہے۔ آپ نے حضرت رسول اکرمؐ اور حضرت علیؑ سے تفسیر قرآن کا علم لیا۔ ’’ترجمان قرآن‘‘ صدر المفسرین جیسے القابات سے یاد کئے جاتے ہیں۔ ابن ندیم نے ’’الفہرست‘‘ میں تفسیر ابن عباس کا ذکر کیا ہے۔۱؎ آقا بزرگ تہرانی نے ابن عباس کی دو تفسیروں کا ذکر کیا ہے۔تفسیر ابن عباس عن الصحابہ تالیف ابی احمدعبدالعزیز بن یحییٰ بن احمد بن عیسیٰ جلودی (متوفی ۳۲۲ھ) تفسیر تنویر المقیاس ۔ مصر سے ۱۲۹۰ھ میں شائع ہوئی۔ عبداﷲ بن عباس کی ۶۸ھ میں وفات ہوئی۔ عبداﷲ بن مسعود: لقب ’’سیدالقرائ‘‘ تھا قرآن فہمی میں مہارت رکھتے تھے آپ کا شمار اہم مفسرین قرآن میں ہوتا ہے۔ وفات ۳۲ھ میں ہوئی۔ میثم تمار:کوفہ کے رہنے والے تھے۔ عشق مولا علیؑ سے سرشار مکتب علوی کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت علی سے تفسیر کا علم لیا ۔ آپ کی تفسیر انہی مطالب پر مشتمل تھی جو حضرت علی سے حاصل کئے تھے۔ ’’کشی‘‘ نے رجال میں تفسیر کا ذکر کیا ہے۔۲؎ جابر بن عبداﷲ انصاری:رسول اکرم کے اجلہ صحابہ میں سے تھے۔ آپ کو پیشوائے تفسیر قرآن مجید کہا جاتا ہے۔ ابوالخیر نے طبقہ اول کے مفسرین میں شمار کیا ہے۔ سیوطی نے اتقان میں صحابہ کے درمیان اہم مفسر قرآن تسلیم کیا ہے۔ ابوالدردائ: حضرت رسول اکرم کے جلیل القدر صحابی تھے ۔ دوسری ہجری میں جنگ بدر کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ قرآن فہمی میں مہارت رکھتے تھے۔ ۳۲ھ میں دمشق میں وفات پائی۔۱؎ سعید بن جبیر: آپ تابعین میں سے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس سے تفسیر نقل کی۔ تفسیر سے متعلق آپ کی روایات مستند و معتبر مانی جاتی ہیں۔ طبقہ سوم کے مفسرین میں آپ کا شمارہوتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے صحابی تھے۔ عشق اہلبیت کے سبب حجاج بن یوسف ثقفی نے شہید کیا۔ جلال الدین سیوطی نے اعلم تابعین در علم تفسیر تحریر کیا ہے۔؎۲ ابوالاسود دوئلی بصری: علم تفسیر میں تبحر رکھتے تھے۔ علم نحو حضرت علیؑ سے سیکھا ’’طبقات سیوطی‘‘ میں ہے کہ ’’کان ابوالاسود اول من نقط المصحف و من شعرّہ‘‘ ابوالاسود نے سب سے پہلے قرآن مجید پر نقطہ اور علامت گذاری کی۔ آپ ہی نے علم نحو کی تدوین کی۔ ۸۵ سال کی عمر میں ۶۹ھ میں وفات پائی۔ ابو صالح میزان بصری:حضرت عبداﷲ بن عباس کے شاگرد رشید تھے۔ تابعین میں شمار ہوتا ہے۔ محمد بن سائب کلبی صاحب تفسیر معروف نے آپ سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں۔ ابن عباس کی تفسیر ’’تنویرالمقیاس‘‘ آپ ہی سے مروی ہے۔ شیخ مفید نے ’’الکافیہ فی ابطال توبۃ الخاطئہ‘‘ میں ابو صالح کی روایت کو معتبر تسلیم کیا ہے۔ دوسری صدی مجاہدبن جبر:علم تفسیر میںاعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ تیس بار عبداﷲ بن عباس کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ صاحب معجم المؤلفین نے آپ کو مفسر قرآن لکھا ہے اور ان کی تفسیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ مکہ کے رہنے والے تھے۔ ۲۱ ہجری میں متولد ہوئے اور ۱۰۴ھ میں حالت سجدہ میں وفات ہوئی۔ ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ آپ کی عمر ۸۳ سال تھی۔ طاؤس بن کیسان یمانی:ابوعبدالرحمن طاؤوس بن کیسان یمانی تابعی، صحابی امام زین العابدین علیہ السلام داودی نے لکھا ہے کہ ’’طاوؤس اہل علم و عمل میں سے تھے۔ حضرت رسول اﷲ کے ۵۰ اصحاب کی صحبت اختیار کی۔ ۴۰ بار زیارت بیت اﷲ سے مشرف ہوئے۔ مستجاب الدعوات تھے۔‘‘ ابن تیمیہ نے تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اعلم الناس تسلیم کیا ہے۔ ۷؍ذی الحجہ ۱۰۶ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎ عطیہ بن سعد عوفی:مشہور مفسر قرآن اور امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میں تھے۔ نجاشی نے بلاذری سے نقل کیا ہے کہ عطیہ، ابان بن تغلب کے استاد تھے۔ پانچ جلدوں میں تفسیر لکھی۔ ’’تین مرتبہ قرآن بصورت تفسیر، ابن عباس کے سامنے پڑھا۔اہلبیت علیہم السلام کے شیدائی تھے۔ آقا بزرگ تہرانی : ’’عطیہ صاحب تفسیر تھے۔ ابان بن تغلب، خالد بن طھمان اور زیاد بن منذر کے استاد تھے۔ ۲؎ ۱۱۱ھ میں وفات ہوئی۔‘‘ زید بن علی الشہید:امام زین العابدین کے فرزند تھے نامور مفسر قرآن،شجاع بہادر، سخی اور مجاہد تھے۔ آپ نے کتاب قرأت کو اپنے جد حضرت امیرالمومنین سے روایت کیا ہے۔ ہشام بن عبدالملک کے زمانہ میں اپنے جد کے خون کا بدلہ لینے کے لیے قیام کیا۔ماہ صفر میں ۱۲۱ھ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ ابو محمد اسماعیل سدی: امام سجاد اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھم السلام کے صحابی اور کوفہ کے رہنے والے تھے۔ داؤدی کا بیان ہے کہ آپ نے ابن عباس، انس اور جمعی سے روایت کی ہے۔ طبقہ چہارم میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ ۱۲۷ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎ جلال الدین سیوطی : ’’اسماعیل سدی نے اپنی تفسیر کی اسناد ابن مسعو د اور ابن عباس سے نقل کی ہیں۔ یہ تفسیر بہترین اور کامل تفسیر ہے۔۲؎‘‘ جابر بن یزید جعفی: آپ کا شمار دوسری صدی کے نامور تابعین میں ہوتا ہے۔ امام محمدباقرؑ کے خاص شاگرد تھے، انھیں سے درس تفسیر لیا ۔ ۱۲۸ھ میں وفات ہوئی۔ نجاشی لکھتے ہیں: ’’ابو جعفر جعفی عربی الاصل تھے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کا زمانہ درک کیا۔ ۱۲۸ھ میں وفات ہوئی، آپ کی تالیفات میں تفسیر قرآن کے علاوہ ’النوادر ‘، ’الفضائل‘، ’الجمل‘، ’الصفین‘، ’النہروان‘، ’مقتل امیر المومنین‘، مقتل الحسین‘ ہیں۔۳؎‘‘ یحییٰ بن یعمر:دوسری صدی کے مشہور قاری، لغت شناس تابعی تھے۔ علم و معارف ابوالاسود دوئلی سے حاصل کیا۔ ابن خلکان کا بیان ہے کہ ’’آپ علم تفسیر کے بزرگ عالم تھے۔ عبداﷲ بن اسحاق، اور شیعیانی کے مشائخ میں سے تھے۔ محبت اہل بیت کے سبب۔ حجاج نے خراسان جلا وطن کر دیا تھا۔ ۱۲۹ھ میں وفات ہوئی۔‘‘۱؎ ابن ابی شعبہ حلبی:امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی، مفسر اور فقیہ تھے۔ صاحب معجم رجال الحدیث لکھتے ہیں کہ حلب میں تجارت کرنے کی وجہ سے حلبی مشہور ہوئے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔ آپ ہی سے تفسیر آیۂ ’’رب اغفرلی ولوالدی و لمن دخل بیتی مومناً‘‘ تفسیر قمی میں نقل ہوئی ہے۔۱۳۵ھ میں وفات ہوئی۲؎ زید بن اسلم عدوی:امام زین العابدین کے صحابی تھے۔ شیخ طوسی نے فہرست رجال میں امام صادق کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تفسیر خط سکریّ میں ہے۔ آپ کی وفات ۱۳۶ھ میں ہوئی۳؎۔ داؤد بن ابی ہند:امام محمد باقرؑ کے صحابی اور نامور مفسر قرآن، تابعی تھے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا تذکرہ کیا ہے۴؎۔ صاحب الذریعہ آقا بزرگ تہرانی نے تفاسیر شیعہ میں آپ کی تفسیر کوشمار کیا ہے۵؎۔ ۱۳۹ھ میں مکہ کے راستہ میں وفات ہوئی۔ ابان بن تغلب:امام زین العابدین امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام کا زمانہ درک کیا، ان کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور احادیث بھی نقل کیں۔ تفسیر و علوم قرآنی میں تبحر رکھتے تھے۔ نجاشی: ’’کان قاریاً من وجوہ القراء فقیہا لغویاً سمع من العرب و حکی عنہم‘‘۱؎ محمد بن عبداﷲ شافعی کا بیان ہے کہ ’’ابان اہل علم و فن کے پیشوا ہیں جن میں قرآن، فقہ، حدیث، ادب، لغت، نحو جیسے علوم شامل ہیں۔ آپ کی دو کتابیں ’’تفسیر غریب القرآن‘‘ اور کتاب ’’الفضائل‘‘ مشہور ہیں۔۲؎ صاحب ’’تاسیس الشیعہ‘‘ کا بیان ہے کہ ’’ابان ہی نے سب سے پہلے معانی قرآن کے سلسلے میں کتاب لکھی۔ ۱۴۱ھ میں آپ کی وفات ہوئی۳؎۔ محمد بن سائب کلبی:امام محمد باقر اور امام صادق کے اصحاب میں تھے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں علوم قرآن سے متعلق کتابوں میں ’’آیات الاحکام کلبی‘‘ کا ذکر کیا ہے۴؎۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی اس تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں کہ : ’’آپ امام جعفر صادق کے خاص شیعوں میں تھے۔ مفسر اور کوفہ کے مشہور نساب تھے۔ اور آپ نے تفسیر قرآن لکھی۔ ۱۴۶ھ میں وفات ہوئی۵؎۔ ہشام بن سالم: امام جعفر صادقؑ اور امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ نجاشی نے آپ کو ثقہ تحریر کرتے ہوئے تین تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ (۱)تفسیر قرآن (۲) کتاب الحج (۳) کتاب المعراج۱؎ ہشام نے امام جعفر صادق سے ’’کامل الزیارات‘‘ نقل کی ہے۔ ۱۴۸ھ میں وفات ہوئی۔ اعمش کوفی:امام جعفر صادقؑ کے صحابی اور مفسر قرآن تھے، کوفہ میں رہتے تھے اور ۵۰ااحادیث کے راوی ہیں۔ ۱۴۸ھ میں وفات ہوئی۲؎۔ اسماعیل سکونی:امام صادق کے صحابی تھے اور علم تفسیر میں مہارت رکھتے تھے۔ نجاشی نے رجال میں ان کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر قمی میں تفسیر آیہ سورہ نحل ’’اِنَّ اﷲ یا مربالعدل والاحسان‘‘انہی سے مروی ہے۳؎۔ ابو خالد کابلی:امام زین العابدین اور امام محمد باقر کے صحابی تھے تفسیر قمی میں تفسیر آیۂ سورہ قصص’’اِنَّ اﷲَ فرض علیک القرآن لراّدک الی معاد‘‘ آپ ہی سے مروی ہے۴؎۔ وہیب بن حفص:امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظمؑ کے چاہنے والے ، ثقہ اور مورد اعتماد تھے۔ آپ کی دو تالیفات ’’تفسیر قرآن‘‘ ’’شرائع و احکام‘‘ منظم و مرتب ہیں۵؎۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۔ ابو حمزہ ثمالی:کوفہ کے رہنے والے تھے۔ امام زین العابدین سے امام موسیٰ کاظم تک چار اماموں کی زیارت کا شرف حاصل تھا، ابن ندیم نے الفہرست میں اور ثعلبی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی جو آپ سے مروی ہے بہت مشہور ہے، کتاب النوادر اور رسالہ الحقوق آپ کی یادگار ہیں۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ منخل بن جمیل اسدی:صحابی امام جعفر صادق اور مفسر قرآن تھے۔ تفسیر قمی میں تفسیر سورہ نور آپ سے مروی ہے۔ نجاشی نے تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ آپ کی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی۔ حسن بن واقد مروزی:امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیف ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے ابن ندیم کے حوالے سے دوسری تالیف ’’الرغیب فی علوم القرآن‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۲؎۔ محمد بن فرات:صحابی امام محمد باقر اور مفسر قرآن تھے۔ اصبغ بن نباتہ سے روایت نقل کی ہے۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے مفصل حالات تحریر کئے ہیں۔ ابن کثیر ھاشمی:امام جعفر صادقؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات میں ’’کتاب فضل سورۃ القدر‘‘، کتاب ’’صلح الحسن‘‘ ، کتاب ’’فدک‘‘ اور کتاب ’’الاظلہ۳؎‘‘ مشہور ہیں۔۱۵۵ھ میں وفات ہوئی۔ حمزہ بن حبیب زیات:دوسری صدی کے ’’امام القرأ‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی تالیفات ’’متشابہ القرآن‘‘ ’’مقطوع القرآن‘‘ اور ’’کتاب القرأت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔ ۱۵۶ھ میں وفات ہوئی۴؎۔ ابن شعبہ حلبی:ابو جعفر محمد بن علی بن ابی شعبہ حلبی۔ دوسری صدی کے معتبر مفسر قرآن تھے۔ تفسیر قرآن کے علاوہ احکام فقہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ آپ سے مروی امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کے گریہ کی روایت کامل الزیارات میں نقل کی گئی ہے۔ ۱۶۰ھ میں رحلت فرمائی۱؎۔ مالک بن عطیہ:امام جعفر صادقؑ کے صحابی، کوفہ کے رہنے والے تھے۔ نجاشی نے موثق اور مورد اعتماد تحریر کیا ہے۔ سورہ یٰس کی تفسیر آپ سے مروی ہے۔ تفسیر قمی میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ۱۶۰ھ میں رحلت فرمائی۲؎۔ ابو جنادہ سلولی:امام جعفر صادق و امام موسیٰ کاظم کے صحابی تھے۔ نجاشی لکھتے ہیں کہ: ’’ان کی تفسیر ’’ تفسیر والقرأت‘‘ ہے۔ مبسوط تفسیر ہے جس کی سند تین واسطوں سے نقل کی گئی ہے۔۳؎‘‘ ابن ندیم نے شیعیان متقدمین میں شمار کیا ہے اور ان کی تالیفات میں کتاب التفسیر اور کتاب جامع العلم کا ذکر کیا ہے۴؎۔۱۸۰ ھ میںرحلت فرمائی۔ علی بن ابی حمزہ سالم بطائنی:صحابی امام موسیٰ کاظمؑ، نجاشی نے تفسیر قرآن کے علاوہ کتاب فضائل القرآن، القائم الصغیر، کتاب الرجعہ، کتاب فضائل امیرالمومنین، کتاب الفرائض کا بھی ذکر کیا ہے۵؎۔ محمد بن خالد برقی: امام علی رضا اور امام محمد تقی کے صحابی تھے۔ نجاشی نے تفسیر قرآن کے علاوہ، کتاب مکہ و مدینہ، جنگھای اوس و خزرج، العلل، علم الباری کا بھی ذکر کیا ہے۱؎۔ ۱۸۳ھ میں رحلت فرمائی۔ ابوالحسن علی بن حمزہ بن عبداﷲ کسائی:مشہور نحوی تھے۔ اطراف کوفہ میں متولد ہوئے۔ عاشق اہلبیتؑ تھے۔ قرأت اور تفسیر میں تبحر رکھتے تھے۔ زرکلی نے الاعلام میں معانی القرآن، المصادر، الحروف، القرأت، النوادر، المتشابہ فی القرآن کا ذکر کیا ہے۲؎۔ ۱۸۹ھ میں رحلت ہوئی۔ سفیان بن عیینہ: رجال طوسی میں آپ کو امام جعفر صادقؑ کا صحابی شمار کیا گیا ہے۔ مکہ میں قیام تھا۔ ۹۱ سال کی عمر میں ۱۹۸ھ میں رحلت کی۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۳؎۔ دارم بن قبیصہ:امام علی رضاؑ کے صحابی تھے۔ قرآن کے موضوع پر دو تالیفات ۱: الوجوہ والنظائر ۔ ۲: الناسخ والمنسوخ آپ کی یادگار ہیں۔ نجاشی نے تین واسطوں سے روایت نقل کی ہے۔ ۲۰۰ھ۴؎میں رحلت کی۔ ابن اسباط کندی:امام رضاؑ اور امام محمد تقیؑ کے صحابی تھے۔ نجاشی نے کتاب التفسیر کے علاوہ الدلائل، المزار، النادر کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں رحلت فرمائی۵؎۔ ابو صلت قمی: امام رضاؑ کے صحابی اور امام محمد تقیؑ کے وکیل تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں وفات پائی۔۶؎ ابن یسار بصری: امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے صحابی تھے۔ امام باقر سے آیۂ ’’یوم ندعو کل اناس باما مہم ‘‘کی تفسیر نقل کی ہے۔ کامل الزیارات میں ثواب زیارت رسول خداؐ آپ سے مروی ہے۔ ۱۴۷ھ میں وفات پائی۱؎۔ محمد بن علی بن ابی شعبہ: دوسری صدی کے نامور مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۱۹۵ھ میں رحلت کی۲؎۔ معلی بن محمد بصری: امام موسیٰ کاظم کے صحابی تھے۔ علامہ کلینی اور ابن قولویہ نے آپ کی روایات نقل کی ہیں۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں رحلت کی۳؎۔ احمد بن صبیح: ابو عبداﷲ احمد بن صبیح اسدی کوفی مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے آپ کی تالیفات میں ’’کتاب التفسیر‘‘ اور ’’النوادر‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں رحلت پائی۴؎۔ تیسری صدی ابوالعباس احمد بن اسفر اینی:تیسری صدی کے نامور مفسرقرآن تھے۔ آپ نے تفسیر میں ان آیات کی تفسیر لکھی جو اہلبیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے نے تفسیر کا نام ’’المصابیح فیما نزل من القرآن فی اہل البیت‘‘ لکھا ہے۔۱؎ نجاشی: ’’اس تفسیر کی تعریف میں نے احمد بن علی بن نوح سے سنی ہے۲؎۔‘‘ یونس بن عبدالرحمن:امام موسیٰ کاظم و امام رضا کے صحابی تھے۔ نجاشی نے قرآن سے متعلق دو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ ۱: تفسیر قرآن۔ ۲: فضل القرآن۔ ۲۰۸ھ میں وفات پائی۳؎۔ عبدالرزاق ابن ھمام صنعانی: ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں آپ کو محب علیؑ اور مولا کے قاتل کا دشمن تحریر کیا ہے۔ ۲۱۱ھ میں وفات ہوئی۔ ابن ندیم نے قرآن سے متعلق آپ کی ان تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ ’’نظم القرآن‘‘ ، ’’قواعدالقرآن‘‘ ، ’’تفسیر الفاتحہ‘‘ ، ’’الحروف المقطعہ فی اوائل السور‘‘ محمد بن ابی عمیر:امام موسیٰ کاظمؑ کے صحابی تھے۔ تفسیر قمی میں تفسیر آیۂ ’’الحمدﷲ رب العالمین‘‘آپ ہی سے مروی ہے۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے آپ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ تفسیر آیۂ ’’ولو تری اذ فزعوا فلا فوت‘‘ آپ سے منقول ہے۔ ۲۱۷ھ میں رحلت ہوئی۔ ابن فضّال کبیر:فطحی شیعہ، بعد میں توبہ کرکے امامیہ ہو گئے تھے۔ بہت زیادہ عبادت گذار تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی ان تفاسیر کا ذکر کیا ہے۔ ’’‘‘الشواہد من الکتاب‘‘، ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ ۲۲۴ ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ محمد بن یقطینی: امام علی نقیؑ کے صحابی تھے۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے ان کی تالیفات کے ذیل میں ’’تفسیر القرآن‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۲۲۴ھ میں حیات تھے۲؎۔ حسن بن محبوب: کوفہ کے رہنے والے ، امام علی رضاؑ کے صحابی تھے۔ شیخ طوسیؒ نے بڑے احترام کے ساتھ ان کے حالات لکھے ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ۲۲۴ ھ میں رحلت ہوئی۳؎۔ علی بن مہزیار:امام محمد تقیؑ اور امام علی نقی کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات کی تعداد ۳۳ ہے۔ قرآنیات سے متعلق ’’حروف القرآن‘‘ ہے۔ ۲۲۹ ھ کے بعد وفات ہوئی۴؎۔ ابوعبداﷲ محمد برقی:امام محمد تقی کے صحابی اور نواح قم کے رہنے والے تھے نجاشی نے تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۲۳۰ھ میں وفات پائی۵؎۔ حسن بن اہوازی: حسین بن سعید اھوازی کے بھائی تھے۔ تفسیر القرآن کے علاوہ ۳۰ سے زائد تالیفات تھیں۔ ۲۴۰ھ میں وفات ہوئی۶؎۔ ابو عبداﷲ سیاری بصری: امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات میں ’’ثواب القرآن‘‘، ’’کتاب القرأت‘‘، ’’النوادر‘‘، ’’الغارات‘‘ شامل ہیں۔ ۲۴۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ بکر بن محمد مازنی: تیسری صدی کے مفسر تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی ’’کتاب فی القرآن الکریم‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۲۴۸ھ میں وفات پائی۲؎۔ ابو جعفر محمد بن اورمہ قمی: نجاشی نے آپ کی ۳۶کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں ’’کتاب تفسیر القرآن‘‘ بھی شامل ہے۔ تفسیر قمی میں آپ سے مروی تفسیر موجود ہے۔ ۲۵۰ھ میں وفات ہوئی۳؎۔ ابو جعفر محمد بن علی بن عبدک جرجانی: جلیل القدر فقیہ، متکلم، صحابی تھے۔ نجاشی نے کتاب تفسیرقرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۲۵۰ھ میں رحلت ہوئی۴؎۔ فضل بن شاذان: عالی مرتبت متکلم، فقیہ اور صحابی تھے۔ نجاشی نے ۱۸۰ تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ جس میں تفسیر قرآن بھی شامل ہے۔ ۲۶۰ھ میں وفات پائی۵؎۔ علی بن حسن فضّال: معتبر بزرگ تھے۔ آقا بزرگ تہرانی نے توصیف و تمجید کے بعد تفسیر کا ذکر کیا ہے جس کا نام ’’کتاب التنزیل من القرآن والتحریف‘‘ ہے ابن عقدہ اور ابن زبیر نے آپ سے روایت کی ہے۔ ۲۷۰ھ میں وفات ہوئی۶؎۔ ابوالاسحاق ثقفی: زیدیہ فرقہ سے تعلق تھا۔ پھر امامیہ ہو گئے ۔ کوفہ سے اصفہان میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ’’کتاب مانزل من القرآن فی امیرالمومنین‘‘ اور ’’کتاب التفسیر‘‘ ۲۸۳ھ میں رحلت کی۱؎۔ حسین بن سعید اہوازی: امام رضا امام محمد تقیؑ امام علی نقیؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی ۵۰ سے زائد تالیفات تھیں۔ جس میں تفسیر قرآن بھی شامل ہے۔ ۳۰۰ھ میں وفات ہوئی۲؎ ۔ ۱۹۔حسن بن موسیٰ نوبختی: تیسری صدی کے شیعہ اکابرین میں شمار ہوتا تھا۔ آپ کی مشہور تالیف ’’التنزیہ و متشابہ القرآن۳؎‘‘ ہے۔ ۳۰۰ھ میںوفات پائی۔ ۲۰۔ ابوعبداﷲ غاضری: معتبر اور موثق مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے ’’کتاب التفسیر۴؎‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۳۰۰ھ میں رحلت کی۔ حسّان رازی: نجاشی نے کتاب ’’ثواب انّا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘ اور کتاب ’’ثواب القرآن‘‘۵؎ کا ذکر کیا ہے۔ محمد بن محمد حارثی: جید شیعہ علماء میں شمار ہوتا تھا۔ نجاشی نے کتاب نوادر علم القرآن اور کتاب الامامۃ کا ذکر کیا ہے۶؎۔ چوتھی صدی علی بن ابراہیم قمی: ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینیؒ نے کافی میں آپ سے بہت زیادہ روایتیں نقل کی ہیں۔ امام حسن عسکریؑ کے ہم عصر اور شیخ کلینی کے مشائخ میں سے تھے ۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر قمی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔ آپ ۳۰۷ھ تک حیات تھے۱؎۔ فرات بن ابراہیم کوفی: آپ کی تفسیر ’’فرات کوفی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس تفسیر میں آیات کے ذیل میں ائمہ علیھم السلام سے مروی روایات نقل کی گئی ہیں۔ مگر سلسلہ روایت محذوف ہے۔ شیخ صدوق نے آپ سے روایتیں نقل کی ہیں۔ ۳۰۷ ھ تک حیات تھے۲؎۔ ابونضر محمد مسعود عیاشی: کشی (۳۲۸ھ) کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر عیاشی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تفسیر دو جلدوں میں علامہ طباطبائی کے مقدمہ کے ساتھ تہران سے شائع ہوئی۔آپ کی تالیفات ۲۰۰ سے زائد ہیں۔ آپ کی وفات ۳۲۰ھ میں وفات ہوئی۳؎۔ ابو جعفر محمد بن علی جرجانی: فقیہ، متکلم، مفسر تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیاہے۴؎۔ آقا بزرگ تہرانی نے چوتھی صدی کے اہم مفسرین میں شمار کیا ہے۔ ۳۳۰ھ میں رحلت کی۔ ابن دُول قمی: آپ کی ۱۰۰ سے زائد تالیفات ہیں، قم کے رہنے والے تھے۔ زرکلی صاحب الاعلام نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ۳۵۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ محمد بن حسن شیبانی: شیخ مفیدؒ کے استاد تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’نھج البیان عن کشف معانی القرآن‘‘ ہے۔ مقدمہ قرآن میں علوم قرآن کی قسمیں،ناسخ، منسوخ، محکم، متشابہ کی وضاحت کی ہے۔ علماء بزرگ نے اس تفسیر سے استفادہ کیا ہے۔ ۳۵۵ھ میں رحلت کی۲؎۔ شیخ صدوق: فقیہ بزرگ تھے۔ ۳۵۵ھ میں وارد بغداد ہوئے۔ وہاں شیوخ سے احادیث سنیں۔ آپ کی تالیفات کی تعداد تقریباً ۱۹۸ ہے۔ جن میں تفسیر قرآن بھی ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے تفسیر کا نام ’’الخاتم‘‘ تحریر کیا ہے۳؎۔ ۳۸۱ھ میں وفات ہوئی۔ ابو علی محمد اسکافی: فقہ، ادب، تفسیرمیں تبحر رکھتے تھے، آپ کی تفسیر قرآن مشہور ہے۔ ۳۸۱ھ میں رحلت کی۴؎۔ عباد بن عباس طالقانی: آپ کے والد آل بویہ کے وزاء میں سے تھے۔ عمر رضا کحالہ نے معجم المولفین میں آپ کی تفسیر کا نام ’’احکام القرآن‘‘ لکھا ہے۔ ۳۸۵ھ میں وفات ہوئی۵؎۔ ۔محمد بن علی جنّی: ابن ندیم نے شیعہ تفاسیر میں ’’تفسیر ابن جنّی‘‘ کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تفسیر کئی جلدوں میںہے۶؎۔ آپ کی وفات ۳۹۰ھ میں ہوئی۔ پانچویں صدی سید شریف رضیؒ: عالم بزرگوار، ادیب نامور نقیب سادات، جامع نھج البلاغہ۔ آپ کی تفسیر قرآن کا نام ’’حقائق التاویل‘‘ ہے جس میں متشابہ آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ تفسیر ۱۳۵۵ھ میں نجف اشرف سے شیخ عبدالحسین حلی کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۴۰۶ھ میں نبیاد نھج البلاغہ تہران سے شائع ہوئی۔ نجاشی نے بھی اس تفسیر کا ذکر کیا ہے۱؎۔ محمد بن نعمان مفید: شیخ مفید نامور عالم، فقیہ، متکلم، مفسر قرآن تھے۔ علم کلام میں تبحر رکھتے تھے۔ تفسیر قرآن پر بھی عمیق نظر تھی۔ کئی کتابیں تفسیر سے متعلق ہیں۔ مثلاً: الکلام فی وجوہ، اعجاز القرآن، النصرہ فی فضل القرآن، البیان فی تالیف القرآن، الکلام فی حدوث القرآن، الرد علی الجبائی فی التفسیر، تفسیر آیۂ ’’فاسئلو اہل الذکر۲؎‘‘ ۱۱؍ذی قعدہ ۳۳۶ھ میں آپ کی ولادت ہوئی اور شب جمعہ ۳رمضان ۴۱۳ھ میں وفات ہوئی’’عَلَم الہدی‘‘ سید مرتضیٰؒ نے نماز میت پڑھائی۔ سید مرتضیٰ عَلم الہدیٰ: شیخ مفید کے شاگرد تھے۔ فقہ، کلام، ادب میں جید الاستعداد تھے۔ اپنے زمانے میں اعلم الناس تھے۔ نجاشی نے آپ کی متعدد تفسیروں کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر سورہ الحمد وبقرہ، تفسیر آیہ ’’وَلَقد کرمنا بنی آدم و حملنا ہم فی البرّ والبحر‘‘تفسیر آیۂ ’’لیس علی الذین آمنوا و اعملوا الصالحات جناحٌ فی ما طعموا‘‘ کتاب الموضع عن وجہ اعجاز القرآن ۲۵ ربیع الاول ۴۳۶ھ میں وفات پائی۳؎۔ شیخ احمد تیمیمی: فرزند عمار تمیمی اندلسی شیعہ مفسرین میں سے تھے، تفسیر کا نام ’’التحصیل فی مختصر التفصیل‘‘ روش ادبی و کلامی ہے۔ ۴۴۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ ابوسعید سمّان: حافظ، مفسرقرآن سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کے معاصر تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’البستان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے جو دس جلدوں میں ہے۔ ۴۴۷ھ میں وفات ہوئی۔ ابوالفتح کراجکی: فقیہ ، متکلم، نحوی، طبیب تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’کنزالفوائد‘‘ ہے۔ آقا بزرگ تہرانی کا بیان ہے کہ یہ تفسیر پانچ جلدوں میں ہے جو علمی اور ادبی نکات پر مشتمل ہے۔ اس کا خطی نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی میں موجود ہے جس کا سال کتابت ۶۷۷ھ ہے۔ یہ تفسیر ایران سے ۱۳۲۲ھ میں شائع ہوئی۔ ۴۴۹ھ میں وفات ہوئی۲؎۔ ۷۔شیخ طوسی: شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی عالم، فقیہ، متکلم، محدث، مفسرقرآن تھے۔ شیخ مفید اور سید مرتضیٰ کے شاگرد اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کے مؤسس تھے۔ آپ کی مشہور اور جامع تفسیر ’’التبیان‘‘ ہے جو دقیق مطالب پر مشتمل ہے جسے علماء نے علوم کا ذخیرہ اور منبع قرار دیا ہے شیعوں کی اہم ترین تفسیر شمار کی جاتی ہے۔ آپ کی وفات ۴۶۰ھ میں ہوئی۔ چھٹی صدی ابو علی محمدفتّال نیشاپوری: خطیب، واعظ، فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ ابن شہر آشوب نے آپ کی دو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ تفسیرمیں ’’التنویر فی معانی التفسیر‘‘ دوسری ’’روضۃ الواعظین‘‘ ہے آپ نے اس تفسیرمیں تفسیر شیخ طوسی ابوالفتوح رازی سے استفادہ کیا ہے۔ ۵۰۸ھ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ ۲۔ابوعلی فضل بن حسن طبرسی: مشہور ونامور شیعہ مفسر قرآن، آپ کی تفسیر ’’مجمع البیان‘‘ جامع اور کامل ترین تفسیر ہے۔ جس کی عظمت کا اقرار علماء فریقین نے کیا ہے۔ شہیدثانیؒ نے اس تفسیر کے بارے میں فرمایا ’’اس جیسی تفسیر ابھی تک نہیں لکھی گئی ہے۱؎۔‘‘ ذہبی : ’’یہ تفسیر حسن ترتیب، زیبائش تہذیب، اور دقت تعلیل، قوی حجت و برہان کے اعتبار سے بے مثال ہے۲؎۔‘‘ آپ کی دوسری تفسیر کا نام ’’جامع الجوامع ‘‘ ۴ جلدوں میں ہے۔ آپ کی وفا ت ۵۴۸ھ میں واقع ہوئی۔ سید ضیاراوندی: شیخ منتجب الدین رازی کا بیان ہے کہ ’’آپ کمال علم و فضل رکھتے تھے۔ میں نے ان کی تفسیر کو دیکھا اور کچھ حصہ کی میں نے تلاوت بھی کی۳؎۔‘‘ آپ ابن شہر آشوب، شیخ منتجب الدین، شیخ محمد حسن پدر خواجہ نصیرالدین طوسی کے استاد تھے۱؎۔۵۴۹ھ میں رحلت کی۔ ابوالفتوح جمال الدین رازی: ابوالفتوح شہرری میں رہتے تھے۔ اس لئے آپ کو رازی کہا جاتا ہے۔ آپ کی تفسیر ’’روض الجنان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ فارسی زبان میں ۲۰جلدوں میں شائع ہوئی۔ شیعوں کی اہم ترین تفسیر شمار کی جاتی ہے۲؎۔ ۵۵۶ھ میں آپ کی رحلت ہوئی۔ قطب راوندی: عالم، فاضل، محقق، متکلم، ادیب تھے۔ ابن شہر آشوب، شیخ منتجب الدین رازی کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’خلاصۃ التفاسیر‘‘ بہترین تفسیر ہے۔ ۵۷۳ھ میں وفات ہوئی۳؎۔ محمد بن ادریس حلی: کتاب السرائر کے مصنف، فحول العلماء کے لقب سے مشہور تھے۔ فقہ میں تبحر رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’مختصرالتبیان من تفسیر القرآن‘‘ ہے یہ تفسیر ۵۸۲ھ میں لکھی گئی۔ ۲جلدوں میں یہ تفسیر کتابخانہ آیت اﷲ مرعشی قم سے ۱۴۰۹ھ میں شائع ہوئی ۔ ۵۹۸ھ میں وفات ہوئی۴؎۔ برہان الدین ابی الخیر حمدانی: شیخ منتجب الدین رازی کا بیان ہے کہ ’’آپ عالم، واعظ اور مفسر تھے۔ تالیفات میں مفتاح التفسیر، دلائل القرآن، عین الوصول و شرح الشہاب شامل ہیں۔ چھٹی صدی کے اواخر میںوفات پائی۔ ساتویں صدی ابوالحسن علی نیریزی: فقیہ ،محدث، مفسر قرآن تھے۔ حاج خلیفہ نے آپ کی تفسیر ’’مجمع البحرین‘‘ کا ذکر کیا ہے۱؎ ۔ داودی نے آپ کا سال وفات ۶۰۵ھ لکھا ہے۔ سید رضی الدین ابن طاؤوس:خاندان ابن طاؤس کے نامور عالم تھے۔ آپ کی تفسیر ’’سعدالسعود‘‘ تھی۔ آپ کی وفات ۶۶۴ھ میں ہوئی۲؎۔ سید احمد بن طاؤوس: متکلم اور فقیہ اہلبیتؑ تھے۔ محکمات کی تفسیر اور متشابہات کی تاویل کرنے میں بے مثال تھے۔ آپ پہلے عالم تھے جنھوںنے حدیث کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ صحیح، حسن، موثق اور ضعیف۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’شواہدالقرآن‘‘ ہے دوسری کتاب ’’عین العبرۃ‘‘ ہے جس میں اہلبیت کی فضیلت سے متعلق آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ شیخ محمد تقی شوشتری : ’’آپ کی وفات ۶۷۳ھ میں ہوئی، متقی و پرہیزگار عالم تھے۔ ان کے بھائی علی بن طاؤس علامہ حلی کے مشائخ میں تھے۔ ابوزکریا یحییٰ حلی: علامہ حلی کے مشائخ میں سے تھے۔ فقہ میں اعلیٰ استعداد کے حامل تھے۔ آپ کی تفسیر ’’الفحص والبیان‘‘ ہے۔ آپ کی وفات ۶۸۹ھ یا ۶۹۰ھ میں ہوئی۔ آٹھویں صدی عبدالرزاق کاشانی: عارف، محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام’’تاویل الآیات‘‘ ہے جو عرفانی مطالب پر مشتمل ہے۔ شہید ثانی کا بیان ہے کہ ’’ابھی تک ایسی جامع تفسیر تالیف نہیں ہوئی ہے۔‘‘ اس کی تالیف ۲۸؍رمضان ۷۲۹ھ کو مکمل ہوئی۔ ۷۳۵ ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎ کمال الدین ابن عتایقی:آپ کی تفسیر سے متعلق دو کتابیں ہیں:’’الناسخ والمنسوخ‘‘ تلخیص تفسیر علی بن ابراہیم‘‘ آپ عالم، فاضل، محقق تھے۔ علامہ حلی کے شاگردوں کے معاصر تھے۔ آپ نے نھج البلاغہ کی شرح بھی لکھی ۔ ۷۸۸ھ میں باحیات تھے۔۲؎ فخرالدین احمد بن متوج:عالم ، فاضل، ادیب، شاعر تھے۔ شہید اور فخرالمحققین کے شاگرد تھے۔ ابن فہد حلی کے اساتذہ میں شمار کئے جاتے تھے۔ جید الحافظہ تھے۳؎۔ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کی دو تفسیروں کا ذکر کیا ہے۔ ’’النہایۃ‘‘ اس میں احکام سے متعلق آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ دوسری ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ آٹھویں صدی کے اواخر میں رحلت کی۔ شیخ حسن بن محمد دیلمی:معاصر شہید اول (م ۷۸۶ھ) اکابرین محدثین امامیہ میں سے تھے۔ آپ کی مشہور کتاب ’’ارشاد القلوب‘‘ ہے۔ عالم، عارف، واعظ تھے۔ آپ نے تفسیر قرآن لکھی ۔ آٹھویں صدی کے اواخر میں وفات ہوئی۴؎۔ نویں صدی فاضل مقداد:شاگرد شہید اول صاحب ’’باب حادی عشر‘‘فقہ و کلام میں تبحر علمی رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر قرآن ۱۳۱۳ھ میں ایران سے شائع ہوئی۔ تفسیر، ’’مجمع البیان‘‘ طبرسی کے نھج پر لکھی ہے۔ آپ کی وفات ۸۲۶ھ میں ہوئی۔ ۱؎ طیفور بن سراج الدین:حافظ، واعظ اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر قرآن روائی نھج پر ہے۔ آیات کے ذیل میں روایات ائمہ علیھم السلام کے ذریعہ تفسیر بیان کی ہے۔ تفسیر فرات کوفی سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ یہ تفسیر بروز غدیر ۸۷۶ھ میں مکمل ہوئی۔ ۸۷۶ھ کے بعد وفات ہوئی۔۲؎ زین الدین بیاضی عاملی: محدث، محقق، ادیب اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر ’’زبدۃ البیان فی مختصر مجمع البیان‘‘ ہے۔ آپ نے علامہ طبرسی کی معروف تفسیر ’’مجمع البیان‘‘ کا خلاصہ کیا ہے۔ ۸۷۷ھ میں رحلت ہوئی۳؎۔ کمال الدین حسن استرآبادی نجفی:آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں کہ آپ کی تفسیر ’’معارج السؤول فی مدارج المعمول‘‘ ہے جس میں احکام کی ۵۰۰ آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ سال تالیف ۸۹۱ھ ہے۔ ۸۹۱ھ کے بعد وفات ہوئی۴؎۔ شیخ تقی الدین ابراہیم کفعمی:آپ کی تفسیر قرآن ’’المقام الاسنی فی تفسیر الاسماء الحسنی‘‘ ہے۔ جو لغوی، ادبی، عرفانی تفسیر ہے۔ مؤسسہ قائم آل محمدؑ قم سے شائع ہو چکی ہے۔ آپ کی مشہور تالیف ’’المصباح ‘‘ ہے۔ ۸۹۵ھ کے بعد وفات پائی۔ دسویں صدی کمال الدین حسین واعظ کاشفی:سبزوار کے رہنے والے تھے، تیموری دور میں زندگی گذاری۔ آپ کی تفسیر ’’المذاہب العلیۃ فی تفسیر کتاب خالق البریہ‘‘ المعروف ’’تفسیر حسینی‘‘ یہ فارسی زبان کی پہلی تفسیر ہے۔ وزیر کبیر نظام الدین امیر علی شیرنوائی کے لیے لکھی۔ ۹۱۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ شرف الدین الہٰی:عالم، فاضل، جامع معقول و منقول تھے۔ آپ کی تفسیر کو ’’تفسیرالہی‘‘ اور ’’تفسیر اردبیلی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تفسیر فارسی زبان میں ہے صاحب کشف الظنون کا بیان ہے کہ : ’’صفوی دور میں آپ ہی نے سب سے پہلے علوم و معارف اسلامی کے سلسلے میں فارسی زبان میں تصنیف و تالیف کیں۔‘‘ آپ کی وفات ۹۵۰ھ میں ہوئی۲؎۔ میرابوالفتح حسینی: صاحب کتاب احسن التواریخ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’آپ اعلم، افہم، جامع العلوم تھے اور سادات کرام میں سے تھے۳؎۔ ‘‘ آپ کی تفسیر کا نام ’’تفسیر شاہی‘‘ ہے جس میں احکام سے متعلق آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ ۹۷۶ھ میں وفات ہوئی۔ ملا فتح اﷲ کاشانی: عالم، فاضل اور مفسرقرآن تھے۔ آپ کی تفسیر ’’منھج الصادقین‘‘ فارسی زبان میں ہے۔ قبلاً ۵ جلدوں میں ایران سے شائع ہوئی تھی۔ انتہائی معلوماتی تفسیر ہے ۔ آپ کی وفات ۹۸۸ھ کاشان میں ہوئی۔ مقدس ارد بیلی:فقیہ، محقق، مدقق اور مفسر قرآن۔ زہد و تقویٰ اور پرہیزگاری میں اشہرالناس تھے۔ عرب و عجم پر مرجعیت رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’زبدۃ البیان‘‘ ہے۔ آیات احکام کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ فقہی ترتیب سے آیات کی تفسیر کی ہے۔ ۱۸ ابواب پر محیط ہے۔ ۹۸۹ھ میں یہ مکمل ہوئی۔ جید علماء نے اس پر حاشیے لکھے ہیں۔ ۹۹۳ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ محمد بن احمد خواجکی حیدر آبادی:مفسر قرآن تھے۔ ان کا ذکر مفصلاً اس کتاب میں آئے گا۔ گیارہویں صدی شیخ مبارک بن خضر یمانی ناگوری:آپ کی تفسیر ’’منبع العیون المعانی‘‘ ہے۔ آپ کا ذکر اس کتاب میں آئے گا۔ شیخ ابو الفضل فیاضی:فاضل، ادیب، محقق اور مفسر قرآن آپ کی تفسیر ’’سواطع الالہام‘‘ بغیر نقطہ کی ’’ صنعت مہملہ میں لکھی گئی ہے۔ مفصلاً ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے۔ قاضی نوراﷲ شوشتری:معروف بہ ’’شہید ثالث‘‘ صاحب ’’احقاق الحق‘‘ و ’’مجالس المومنین‘‘۔ آپ کا ذکر اس کتاب میں آئے گا۔ میرزا محمدبن علی استرآبادی:عالم،فاضل اور مشہور رجالی تھے۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر آیات الاحکام‘‘ ہے۔ فقہی ترتیب کے اعتبار سے آیات کی تفسیر لکھی ہے۔ ۱۰۲۶ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ میر محمد باقر میرداماد:حکیم، فلسفی، محقق، مفسر قرآن اور جامع معقول و منقول تھے۔ آپ کی تفاسیر میں ’’تفسیر سورہ توحید‘‘ ’’تفسیر سدرۃ المنتہی‘‘ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ فلسفہ میں گرانقدر تالیفات آپ کی یادگار ہیں۔ ۱۰۴۲ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ابوالمعالی شوشتری:حکیم، متکلم، فقیہ تھے،قاضی نوراﷲ شوشتری کے فرزند تھے۔ آپ نے تفسیر ’’تفسیرسورہ توحید‘‘ لکھی۔ اس کے علاوہ ’’انموذج العلوم‘‘ آپ کی یادگار ہے۔ ۱۰۴۶ھ میںوفات ہوئی۲؎۔ ملا یعقوب بختیاری : تفسیر ’’صوافی الصافی‘‘ آپ کی یادگار ہے۔ یہ تفسیر ۱۰۴۰ھ میں مکمل ہوئی۔ مفصل تفسیر ہے۔ ۱۰۴۷ ھ میں وفات ہوئی۔ ملا صدرا شیرازی: صدر المتہالین صدرالدین شیرازی مشہور فلسفی، حکیم، محقق نابغۂ روزگار تھے۔ آپ کے فلسفی آثار کے علاوہ قرآن مجید کے متعدد سوروں کی فلسفی کلامی تفسیریں ہیں جن میں سورہ فاتحہ، بقرہ، سجدہ، حدید، اعلیٰ، طارق، نور، زلزال، واقعہ، جمعہ، یس، کافرون، شامل ہیں۱؎۔ سیدامیر معزالدین حیدرآبادی:اردستان سے حیدرآباد وارد ہوئے۔ محمد بن خاتون کے حکم سے تفسیر قرآن لکھی جو سلطان عبداﷲ قطب شاہ کے نام معنون کی۔ ’’تفسیر قطب شاہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ماہ رجب ۱۰۴۴ھ میں مکمل ہوئی۔ ۱۰۵۸ھ میں رحلت کی۲؎ شیخ فاضل جواد:فقیہ عالیقدر، شیخ بہائی کے شاگردوں میں تھے۔ آپ کی تفسیر ’’مسالک الافہام الی آیات الاحکام‘‘ ہے۔ ۱۰۴۳ھ میں مکمل ہوئی۔ دوسری تالیف ’’غایۃ المامول فی زبدۃ الاصول‘‘ ہے۔ ۱۰۶۵ھ میں وفات ہوئی۔ شیخ عبدعلی بن جمعہ حویزی:محدث بزرگ، مفسرعالیشان، معاصر شیخ حرعاملی اور سید نعمت اﷲ جزائری کے استاد تھے۔ آپ کی مشہور تفسیر ’’نورالثقلین‘‘ ہے جو روایات ائمہ علیھم السلام کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ آپ ۱۰۷۳ھ میں حیات تھے۳؎۔ محمد مومن بن شاہ قاسم سبزواری:محقق، متکلم، محدث، اور مفسرقرآن تھے۔ مشہد میں قیام تھا۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر مشہدی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ روایات ائمہ علیھم السلام کی روشنی میں لکھی ہے۔ ۱۰۷۷ھ میں وفات ہوئی۳؎۔ ملا محمد محسن فیض کاشانی:محد ث اور مفسر عظیم الشان تھے۔ آپ کی تین تفسیریں مشہور ہیں۔ تفسیر ’’الصافی‘‘ ’’الاصفیٰ‘‘ ’’المصفیٰ‘‘ تفسیر صافی روایات کی روشنی میں مبسوط تفسیر ہے۔ ’’الاصفی‘‘ تفسیر صافی کا خلاصہ ہے۔ ’’المصفیٰ‘‘ ’’تفسیرالاصفیٰ‘‘ کی تلخیص ہے۔ ۱۰۹۱ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ بارہویں صدی سید ہاشم بحرانی:محدث خبیر، مفسر بصیر، آپ کی مشہور تفسیر ’’البرہان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے۔ روایات کے تناظر میں آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ۱۲۹۵ھ میں تہران سے پانچ جلدوں میں شائع ہوئی۔ شیخ حرعاملی نے آپ سے روایات کی ہیں۔ ۱۱۰۷ھ میں وفات پائی۱؎۔ میر محمد خاتون آبادی:آپ مدرسہ جامع عباسی اصفہان میں مدرس تھے۔ آپ کی تفسیر ۱۴ جلدوں میں ہے۔ ۱۱۶۶ ھ میں وفات ہوئی۲؎۔ میرزا محمد مشہدی:عالم،مفسرکبیر، آپ کی تفسیر ’’کنزالدقائق‘‘ ہے۔ روایات کے ذریعہ آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ۱۰ جلدوں میں شائع ہوئی۔ محدث نوری فرماتے ہیں کہ ’’یہ تفسیر بہترین اور تمام تفاسیر سے جامع ہے۳؎۔‘‘ ۱۱۲۵ھ میں وفات ہوئی۔ سید محمد رضا بن محمد مومن خاتون آبادی:اصفہان کی سادات میں سے تھے۔ علامہ مجلسی کے معاصر تھے۔ آپ کی تفسیر ’’خزائن الاسرار فی تفسیر القرآن‘‘ ہے۔ ۱۱۲۸ھ میں وفات ہوئی۴؎۔ علی بن حسین عاملی:عالم جلیل، محدث شہیر، مفسر نامور۔ آپ کی تفسیر دو جلدوں میں ہے۔ جس کا نام ’’الوجیز فی تفسیر القرآن العزیز‘‘ ہے۔ ۱۱۳۵ھ میں آپ کی وفات ہوئی۵؎۔ فاضل ہندی:بہاء الدین محمد اصفہانی معروف بہ ’’فاضل ہندی‘‘ صاحب ’’کشف اللثام‘‘ آپ کی مبسوط اور مفصل تفسیر ’’البحرالمواّج‘‘ ہے۔ ۱۱۱۳ھ میںمکمل ہوئی۔ منظم اور مرتب تفسیر ہے۔ شیخ ابن سینا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کے نظریات بھی بیان کئے ہیں۔ ۱۱۳۷ھ میں وفات ہوئی۱؎۔ تیرہویں صدی علی بن قطب الدین بہبہانی:آپ معاصر علامہ وحید بہبہانی تھے۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر بہبہانی‘‘ تین جلدوں میں ہے ،دوسری تفسیر بغیر نقطہ کی ہے۔ تین جلدوں میں نجف اشرف میں کتابخانہ شیخ محمد سماوی میں محفوظ ہے۔ آپ کی وفات ۱۲۰۶ھ میں ہوئی۱؎۔ سید ابراہیم بن محمد صنعائی:آپ کی تفسیر ’’فتح الرحمن فی تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ ہے۔ قرآن مجید کی آیات کے ذریعہ ہی آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ ۱۲۱۳ھ میں وفات ہوئی۔ شیخ حسین بن محمد عصفوری بحرانی:آپ کی تفسیر ’’مفاتیح الغیب والتبیان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے۔ علامہ امینی : ’’آپ خواص علماء اور فضلاء محقق میں سے تھے۔ حدیث شناس اور اپنے زمانہ میں ماہر علم رجال تھے۔‘‘ آپ کی شہادت ۱۲۱۶ھ میں ہوئی۲؎۔ سید عبداﷲ شبر: علامہ، محقق جلیل القدر اور مفسر بصیر تھے۔ آپ کی تفسیر ’’صفوۃ التفاسیر‘‘ روایات کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ ۱۲۴۲ھ میں وفات ہوئی۳؎۔ شیخ محمد علی قمشہ ای:۱۱۸۸ھ نجف میںمتولد ہوئے۔ آپ کا شمار مراجع کرام میں ہوتا تھا۔ آپ کی تفسیر ’’البدر الباہر‘‘ ہے۔ ۱۲۴۵ھ میں وفات ہوئی۴؎۔ ملا محمد صالح برغانی:محقق و مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر ’’کنزالعرفان فی تفسیر القرآن‘‘ ۲۷ جلدوں میں ہے۔ یہ تفسیر بارہ کنز پر مشتمل ہے۔ جس کے ذیل میں آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ۱۲۷۱ھ میں آپ کی وفات ہوئی۱؎۔ چودھویں صدی میرزا محمد باقر لنگرودی:آپ کی تفسیر قرآن مفصلاً ۳۰ جلدوں میں ہے جس کا نام ’’کشف الکشاف‘‘ ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۲۹۶ھ میں مکمل ہوئی۔ اس کا خطی نسخہ کتابخانہ آیت اﷲ مرعشی قم میں محفوظ ہے۔ ۱۳۰۱ھ میں باحیات تھے۱؎۔ سید محمد کاشانی:آپ کی تفسیر ’’کشف التنزیل‘‘ ہے جس میں روایات اہلبیت علیھم السلام کی روشنی میں تفسیر لکھی گئی ہے۔ ۱۳۱۰ھ میں وفات ہوئی۲؎۔ علی اصغر قائینی بیرجندی:آپ شیخ محمد باقر بیرجندی کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ نے روایات کی روشنی میں تفسیر لکھی۔ ۱۳۲۵ھ میں وفات پائی۳؎۔ سید امیر محمد صادق خوانساری:آپ کی تفسیر ’’ضیاء التفاسیر‘‘ فارسی زبان میں ہے روایات ائمہ کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ آپ کی وفات ۱۳۳۳ھ میں ہوئی۴؎۔ شیخ محمد جواد بلاغی:مفکر، متکلم اور مفسرقرآن آپ کی تفسیر ’’الآء الرحمن‘‘ ہے جو تفسیر سورہ الحمد، بقرہ اور آل عمران پر مشتمل ہے۔ ۱۳۵۲ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ڈاکٹر محمد صادق تہرانی:آپ حوزہ علمیہ نجف میں تفسیر قرآن کا درس دیتے تھے۔ تفسیر قرآن پر گہری نظر تھی۔ آپ کی تفسیر ’’الفرقان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے جو عراق، لبنان، ایران سے متعدد زبانوں میں چھپ چکی ہے۔ ۱۳۶۷ھ میں وفات ہوئی۵؎۔ شیخ محمد نہاوندی: آپ کی تفسیر ’’نفحات الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘ ۴ جلدوں میں ہے۔ علمی اور تحقیقی تفسیر ہے۔ آپ کی ۱۳۷۰ھ میں وفات ہوئی۔ شیخ زین العابدین مازندرانی:آپ کی تفسیر ’’تفسیرراھنما‘‘ ۴ جلدوں میں سادہ اور سلیس تفسیر ہے آپ کی وفات ۱۳۸۰ھ میں ہوئی۱؎۔ سید محمد حسین طباطبائی:محقق، متکلم چودہویں صدی کے مفسر کبیر۔ آپ کی معرکۃ الارا تفسیر ’’المیزان‘‘ ۲۰ جلدوں میں ہے۔ جسے ام التفاسیر بھی کہا جاتا ہے۔ ۱۳۹۲ھ میں مکمل ہوئی۔ اس تفسیر کا فارسی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ مختلف خصوصیات کی حامل تفسیر ہے۔ اس میں تفسیر بالقران کے علاوہ کلامی و فلسفی مطالب کا بھی ذکر ہے۔ روایات ائمہ علیھم السلام کی روشنی میں نتیجہ گیری کی گئی ہے۔ عہدحاضر کی بے مثال اور بے نظیر تفسیر ہے۔ جس کے معیار کی ابھی تک تفسیر نہیں لکھی گئی ۔ کچھ جلدوں کا اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ آپ کی وفات ۱۴۰۲ھ میں ہوئی۔ یعقوب الدین رستگار جویباری:مفکر، محقق اور مفسر قرآن آپ کی تفسیر ’’البصائر‘‘ ۶۰ جلدوں میں ہے۔ عہد حاضر کی مفصل ترین تفسیر ہے جس میں فقہی، کلامی، ادبی، تاریخی، سیاسی ، معاشرتی مطالب زیربحث لائے گئے ہیں۔ آپ قم مقدسہ میں تفسیر لکھنے میں مصروف ہیں۔ ۱۳۹۸ھ میں اس تفسیر کا آغاز فرمایا تھا۔ سید مصطفی خمینی:امام خمینی رحمۃ اﷲ علیہ کے بڑے فرزند تھے۔ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی۔ وہیںدرس دیتے تھے۔ آپ کی تفسیر علمی، عرفانی، کلامی مطالب پر ۴ جلدوں میں ہے۔ یہ تفسیر قم میںشائع ہوچکی ہے۔ ۱۳۹۷ھ میںنجف اشرف میںشہادت پائی۲؎۔ پندرہویں صدی میرزا حسن مصطفوی: آپ کی تفسیر’’تفسیر روشن‘‘ ۳۰جلدوں میں ہے، پہلی جلد ۱۴۰۸ھ میں منظر عام پر آئی جدید اسلوب کی تفسیر ہے جس کا سلسلہ ابھی جاری ہے۱؎۔ شیخ جعفر سبحانی:عالم جلیل القدر استاد سبحانی پندرہویں صدی کے عظیم مفسرین میں سے ہیں۔ آپ کی تفسیر ’’منشور جاوید‘‘ سب سے پہلی کامل تفسیر موضوعی ہے۔ ا س کی پہلی جلد ۱۴۰۱ھ میں منظر عام پر آئی۔ یہ تفسیر ۱۲جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ علامہ صفدر حسین نجفی لاہوری نے کیا ہے۔ ا س تفسیر میں توحید، نبوت، امامت، قیامت، اخلاق، تربیت جیسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ یہ عہدحاضر کی مقبول ترین تفسیر قرآن ہے۔ خداوند عالم مفسر کو طول عمر عطا فرمائے۔ شیخ ناصر مکارم شیرازی:مرجع عالیقدر، آیت اﷲ العظمی ناصرمکارم شیرازی، استاد ما، آپ کی تفسیر ’’نمونہ‘‘ ۲۷ جلدوں میں اپنی سادگی اور سلاست کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۴۰۰ھ میں منظر عام پر آئی آپ کی دوسری تفسیر موضوعی ’’پیام قرآن‘‘ ہے جو اپنے نھج و اسلوب کے سبب انفرادیت کی حامل ہے۔ علامہ سید صفدر حسین نجفی نے دونوں تفسیروں کو اردو قالب میںڈھالا اور جامعۃ المنتظر لاہور سے شائع کیا۔ میرزا محمد ثقفی تہرانی:فقیہ، اور مفسر قرآن آقای سید ابوالحسن رفیعی کے شاگرد تھے۔ آپ کی تفسیر ’’روان جاوید‘‘ تین جلدوں میں ہے۔ پہلی مرتبہ ۱۳۸۳ھ میں شائع ہوئی۔ آپ کی وفات ۱۴۰۵ھ میں ہوئی۲؎۔ سید علی اکبر قرشی ارموی:آپ کی تفسیر ’’احسن الحدیث‘‘ ۱۲ جلدوں میں ہے۔ یہ تفسیر بنیاد بعثت تہران سے ۱۴۰۷ھ میں شائع ہوئی جدید لب و لہجہ کی تفسیر ہے۔ آپ نے چھ جلدوں میں ’’قاموس قرآن‘‘ بھی تحریر کی ہے۱؎۔ سید عبدالحسین طیب:آپ کی تفسیر ’’اطیب البیان فی تفسیر القرآن‘‘ ۱۴ جلدوں میں ہے۔ ۱۳۹۳ھ میں بنیاد فرہنگ تہران سے شائع ہوئی۲؎۔ سید ابوالقاسم خوئی:مرجع عالی قدر آیت اﷲ العظمی سید ابو القاسم خوئی (م۱۴۱۳ھ) زعیم حوزہ علمیہ نجف اشرف فقہ و اصول کے استاد الکل، علم رجال اور تفسیر میں تبحر کامل رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’البیان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے جو اپنے مشمولات کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ عوام و خواص میں بیحد مقبول ہوئی۔ اردو، فارسی، انگریزی زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں اور ساری دنیا میں لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ تفسیر مکمل نہیں ہے اس میں مقدمہ قرآن اور سورہ الحمد کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ علم رجال میں آپ کی شاہکار کتاب ’’معجم رجال الحدیث‘ ۲۳ جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی:سابق صدر جمہوریہ اسلامی ایران آپ کی تفسیر قرآن ’’راہنما‘‘ ۱۴ جلدوں میں ہے ۱۴۱۴ھ میں شائع ہوئی جدید اسلوب اور نئے لب و لہجہ کی تفسیر ہے۔ مضامین نو، اور عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ خداوند عالم آپ کو سلامت رکھے۔ عبداﷲ جوادی آملی:عارف، سالک، فقیہ اور مفسر عظیم الشان، حوزہ علمیہ قم کے جید اساتذہ میں ہیں۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر موضوعی‘‘ علمی عرفانی اور کلامی نکات پر مشتمل ہے۔ اس کی متعدد جلدیں قم مقدسہ سے شائع ہو چکی ہیں۔ پہلی جلد ۱۴۱۶ھ میں شائع ہو ئی تھی۔ راقم کو حوزہ علمیہ قم میں قیام کے دوران آپ سے اکثر نیاز حاصل ہوتا رہتا تھا۔دوسری تفسیر ’’تفسیر تسنیم‘‘ ہے۔ محسن قرائتی کاشانی:مبلغ اسلام اور مفسر قرآن آپ کی تفسیر ’’تفسیر نور‘‘ متعدد جلدوں میں ایران سے شائع ہو چکی ہے۔ عصر جدید کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی تفسیر ہے۔ نکات کے ذریعہ تفسیر کا خلاصہ بیان کیا ہے نوجوانوںکے لیے بیحد مفید ہے۔ آپ کے دروس قرآن ریڈیو ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے رہتے ہیں۔ بحمداﷲ قرآن مجید کی تفاسیر لکھے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ارباب علم و ادب اسرار قرآن کے انکشاف میں مصروف ہیں ہر سال نئی تفسیر منصہ شہود پر آرہی ہے انشاء اﷲ یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ محمد طاہر بن مہدی دکنی (م ۹۵۲ھ) آپ نے تفسیر بیضاوی پر تحقیقی حاشیہ لکھا۔آپ کی ولادت۸۸۰ھ/۱۴۷۵ء میں ہوئی۔ آپ کا رتبہ علوم ظاہری و باطنی، فصاحت بیان، طلاقت لسان، صورت وسیرت میں اعلیٰ تھا صاحب تاریخ فرشتہ لکھتے ہیں: مصر ،بخارا، سمرقندو قزوین کے لوگ آپ کے معتقدتھے شاہ اسمٰعیل صفوی شہنشاہ ایران آپ سے بدظن ہوئے تو اواخر ۹۲۶ھ موسم سرما میں عازم ہند ہوئے اور بروز جمعہ بندرحیرون پہنچے، اسی دن کشتی چھوٹی اور دوسرے جمعہ کو بندرگوا پہونچے وہاں سے بیجاپور آئے اسمعٰیل عادل شاہ کازمانہ تھا وہ سوائے ارباب شمشیر کے اور کسی پر توجہ نہ کرتا تھا آپ کی طرف التفات نہ کی تو آپ حج کو روانہ ہوگئے اور بعد ادائے حج و زیارات مدینہ منورہ و زیارات عراق وغیرہ سے مشرف ہوکرپھر قلعہ پرندہ میںواردہوئے جہاں مخدوم خواجہ جہاں دکنی، امراء سلاطین ہمیشہ سے تھے اور نظام شاہ سے ملتجی ہوکر اس قلعہ میں رہتے تھے۔ملا صاحب کی تشریف آوری کی خبرپاکرنہایت احترام و اکرام سے اپنے پاس بٹھایا اورنہایت اصرار سے ٹھہرایا اور ان کے فرزندکتب علمیہ پڑھنے میں مشغول ہوئے۔ اتفاقاً اسی عرصہ میں برہان شاہ نے اپنے استاد اور مولانا پیرمحمدشیروان کوبہ رسم رسالت خواجہ دکنی کے پاس پرندہ میں بھیجا وہاںوہ شاہ طاہر کی خدمت میں پہنچے دیکھا تو ایک فرشتہ بصورت بشرہے ملا پیرمحمد نے اس وجود کونعمت غیرمترقبہ سمجھ کر وہاں سال بھرقیام کیا اورکتاب مجسطی پڑھی اب توتمام دکن میں یہ غل ہو گیا کہ پرندہ میںایسا بزرگوار ہے کہ پیرمحمد جیسااستاد اسکا شاگردہوگیا جب ملاپیر محمدپھر احمد نگرمیںواپس آئے اوربرہانشاہ کی خدمت میںحاضر ہوئے تووجہ توقف بیان کرکے شاہ صاحب کی بہت تعریف کی کہ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے اور عمربھر میں نے ایساعالم وفاضل ایران و توران اورہندوستان میں نہیں دیکھا اس جامع فیوض نامتناہی کی برکات مجھ بے بضاعت کے شامل حال ہوئیں اور ایسے مجہولات اور اسرار منکشف ہوئے کہ طائر بلند پروازفہم انسانی اس کے مدارج عالیہ کے کنہ کمال میںراہ نہیںپاتا اورعقول نکتہ داں عقلائے زمان کواس اطوار سے نہ آگاہی نہیں ؎ دروصف کمالش عقلا حیراں اند بقراط حکیم وبو علی ناداں اند بایں ہمہ علم و حکمت و فضل و کمال در مکتب علم او الف باخوانند اب تو برہان نظام شاہ کو بھی قدم بوسی کاشرف ہوااورایک عریضہ لکھ کرپیرمحمداستادکے ہاتھ قلعہ پرندہ میںبھیجا پھر تو خواجہ جہاںنے مجبور ہوکر شاہ صاحب کو ۹۲۸ھ میں احمدنگربھیج دیا تمام اراکین دولت واشراف واعیان سلطنت چارکوس تک استقبال کوآئے اورشاہ صاحب کو نہایت اعزازواکرام سے شہرمیںلائے برہان شاہ نے تمام مقربین سے آپ کی قدر ومنزلت زیادہ کی اور خواہش کی کہ قلعہ احمدنگر کی جامع مسجدمیںمجلس درس منعقد فرما دیں شاہ صاحب اس کے کہنے کے موافق ہفتہ میں دوروز علمائے دارالسلطنت کے ساتھ بحث علمی میںمشغول ہوتے تھے اوربڑا مجمع ہوتاتھا اوراکثر خودبرہان شاہ بھی آکرمودب بیٹھتا اورجب تک مباحثہ رہتا مجلس برخواست نہ ہوتی تھی اسی زمانہ میںچھوٹا شہزادہ عبدالقادر تپ محرقہ میںمبتلا ہوا برہان شاہ اس سے بہت مانوس تھامضطرہوکرحکیم قاسم بیگ اور دیگرحکماء سے فرمایاکہ اگرمیراجگربھی دوا میں کام آجائے تودریغ نہیںاوراپنی حیات پر اس کی زندگانی کو بہتر جانتا ہوں مگر ع مرض بڑھتاہی گیا جوں جوںدوا کی اب طاقت طاق ہو گئی حکماء نے جواب دے دیا برہان شاہ نے ہر مسلم و غیر مسلم سے التماس دعا کی شاہ طاہر نے موقع پاکر کہا کہ شاہزادہ کی صحت کے بارے میںمیری ایک تجویز ہے مگر اس کے اظہار میں خطرات بے شمار ہیں برہان شاہ نے کہا کہ بیان کرو میں بھی حتی الامکان کوشش کروں گا اور آپ کوکوئی گزندنہ پہنچے گا شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہ خوف ہے کہ آپ کے مزاج کے خلاف ہو اورمیں معتوب ہوں اوردشمنوں کوہنسی کاموقع ہاتھ آئے بادشاہ نے حدسے زیادہ مبالغہ کیاتو آپ نے جرأت کرکے اول اتناہی کہا کہ اگرشاہزادہ آج ہی کی شب شفاپائے تو آپ نذرمانیں کہ زرکثیر سادات اولاد دوازدہ ائمہ معصومین کو دونگا بادشاہ نے کہا کہ کون بارہ امام شاہ صاحب نے اسمائے مقدسہ اور ان کے اوصاف دل نشین کرائے بادشاہ نے کہا کہ یہ نام میں نے اپنی والدہ سے سنے تھے یا آج آپ سے سنتاہوں شاہ طاہرنے کہاکہ میرا مطلب یہی ہے مگرجب کہوںگا کہ جب آپ مجھ سے عہد کریںگے کہ اگر آپ کوناگوار ہوتومجھے مع میرے عیال کے مکہ کواجازت دی جائے بادشاہ نے عہدکیا قرآن اٹھایاقسم شرعی کھائی کہ ہرگز آزارنہ دوںگا تب شاہ صاحب نے فرمایاکہ آج شب جمعہ میں نذرکیجئے کہ حضرت باری چہاردہ معصومین علیھم السلام کی برکت سے آج شب کوشہزادہ کو شفا فرمائے توخطبہ ائمہ علیھم السلام کے ناموںکا پڑھواکران کے مذہب کورواج دوںگا چونکہ بادشاہ شہزادہ سے مانوس تھااوراس کی حیات سے مایوس تو یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اپنا ہاتھ ملا صاحب کے ہاتھ پر رکھ کر عہد کیا بادشاہ تمام رات شہزادہ کے پلنگ کے پاس بیٹھا رہا ہر چند چاہتا تھا کہ شاہزادہ کو لحاف اڑھائے مگر وہ بچہ شدت حرارت سے ہاتھ پاؤں مار کر لحاف پھینک دیتا تھا بادشاہ یہ حالت دیکھ کر جانتا تھا کہ یہ بچہ آج کی رات کا مہمان ہے اب اس پر لحاف ڈالوتاکہ ایک ساعت تو خوش حال رہے اوردنیا کی ہوا کھا لے باشاہ صبح تک بیٹھا رہا اور سر عبدالقادر کے پلنگ پررکھ دیا تو ذرا غنودگی آگئی ناگاہ ایک بزرگوار نورانی صورت مع بارہ بزرگوار تشریف لائے بادشاہ نے ان کااستقبال کیا اور سامنے مودب کھڑا ہوا ان میںسے ایک صاحب نے فرمایاکہ تو جانتاہے یہ صاحب کون ہیں یہ جناب رسول خدا صلی اﷲعلیہ و آلہ و سلم اور یہ بارہ ائمہ ہدیٰ ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بارہ اماموں کی برکت سے عبدالقادر کوشفابخشی مگرمیرے فرزند شاہ محمد طاہر کے کہنے سے تجاوز نہ کرنابادشاہ خوش خوش بیدارہوا دیکھا کہ عبدالقادر لحاف اوڑھے پڑا ہے اس کی ماںاور دایہ دونوںبیدار تھیں پوچھا کہ یہ لحاف اس پر کس نے اڑھایا انھوںنے کہا کہ لحاف خود بخود جاپڑا ہم ڈرے اور طاقت کلام ہم میں نہ رہی اب جو بادشاہ نے دیکھاتو تپ ندارداورشاہزادہ آرام سے سو رہا ہے بادشاہ شکرخدا بجالایا اور فوراً چوبدار بھیجا کہ شاہ صاحب کو لاؤ اس نے دروازہ کی زنجیر ہلائی دستک دی اورادھر شاہ صاحب کی یہ حالت تھی کہ سربرہنہ خشوع وخضوع سے سجدہ میں بچہ کی صحت کی دعا کر رہے تھے چوبدار کی آواز سن کر پریشان ہوئے کہ یا توبادشاہ کے خلاف مزاج ہوا یا شاہزادہ مر گیا اور یہ موت کا فرشتہ ہے۔ ناگاہ دوسرا آدمی آیا اورفکر ہوئی اور چاہا کہ مکان کی پشت کی طرف سے کود کر بھاگ جائیں ناگاہ چھ سات آدمی متواتر آئے شاہ صاحب خدا پر توکل کرکے عازم ہوئے اہل و عیال کو رخصت کیا اوروصایا فرما کر بادشاہ کے پاس آئے جب بادشاہ کوآنے کی خبر ملی تو دروازہ تک استقبال کیا ہاتھ پکڑ کرعبدالقادر کے سرہانے لائے اورکہا کہ مذہب شیعہ مجھ کو تعلیم کرو شاہ صاحب نے کہا کہ پہلے حقیقت حال بیان فرمایئے توکچھ عرض کروں بادشاہ نے کہا کہ مجھے صبر نہیں پہلے مذہب شیعہ تعلیم کرو شاہ صاحب نے پھر وہی جواب دیاتو بادشاہ نے ساراقصہ کہا تب شاہ صاحب نے اسمائے معصومین ان کوتعلیم کئے اور فضائل ومناقب بیان فرمائے۔بادشاہ اورشاہزادہ حسین اورعبدالقادر اور ان کی والدہ بی بی آمنہ اور بھی مرد عورت اورمتعلقین کوشاہ صاحب نے ولائے اہل بیتؑ سے سرشار کر دیا الغرض صبح طالع ہوئی برہان شاہ نے چاہاکہ خطبہ میںبارہ اماموںکے نام داخل ہوںشاہ صاحب نے فرمایا کہ ابھی یہ رازفاش نہ کیا جائے۔بلکہ چاروںمذہب کے علماء جمع کرکے حکم دیجئے کہ میںمذہب حق کاجویا ہوں تمام اتفاق کرکے اسی کواختیار کریںاورمیںبھی وہی مذہب اختیار کروںگابادشاہ نے ملا پیر محمداستاد اورافضل خاںاور ملا داؤد دہلوی وغیرہ جو احمدنگرمیںتھے جمع کیا اورمدرسہ شاہ طاہرمیںمباحثہ ہواہرعالم اپنے مذہب کی تائید اوردوسرے مذہب کی تردید کرتااکثراوقات برہان شاہ بھی موجود ہوتاچندماہ مباحثہ رہامگرکچھ نہ ہوا تب بادشاہ صاحب سے کہا کہ اب تک کسی مذہب کو ترجیح ثابت نہیںہوئی لہٰذا کوئی اورمذہب بھی ہے کہ وہی اختیار کروں اور اس کے حق وبطلان میںغور کیا جائے شاہ صاحب نے فرمایا کہ ایک مذہب اثنا عشری اور ہے اگرہو تو اس کی کتابیںحاضرکردوںبادشاہ نے حکم دیا اور ایک عالم بھی بہت تلاش سے ملے جن کا نام نامی شیخ احمد نجفی تھا ان کا چاروں مذہب کے علماء سے مناظرہ ہوا اور شاہ صاحب بھی ان کی مدد کرتے تھے اب معلوم ہوا کہ شاہ صاحب شیعہ ہیں تو سب کو عداوت ہوگئی اور بحث کتب اہل سنت سے چھڑ گئی تو سب مغلوب ہوگئے تو بادشاہ نے عبدالقادر کی بیماری اور صحت کا قصہ بہ تفصیل سب کو سنایا تو اسی وقت اکثر علماء ومقربین اور ہر طبقہ کے اور غلامان ترکی و ہندی و حبش وامراء ومنصب دار و سپاہی وشاگرد و پیشہ و رو جاروب کشان وفراشان و فیل بانان وغیرہ تقریباً تین ہزار آدمی شیعہ ہوکر بایمان ہوئے اوربارہ ائمہ کے نام خطبہ میںداخل کئے گئے اورمومنیت کی بنیاد پڑ گئی جب ملا پیر محمد استاد اور دیگر علماء نے یہ رنگ دیکھا تواس جلسہ سے پریشان اورپشیمان ہوکر نکلے اوراحمدنگر میںشور وغوغا ہوگیارات کے وقت بہت سے امراء ومنصبدار پیر محمد کے مکان پر جمع ہوئے اور کہا ع اے بادصبا این ہمہ آوردہ تست، اس سید بلائے دل ودین کو کہاں سے لے آئے چونکہ علوم عربیہ سے واقف ہے تو بادشاہ کو گمراہ اور علماء پرافسوں کرکے ان کی زبانوں کو بند کردیا اب کیا کرنا چاہئے بعض نے قتل کا مشورہ دیا مگر پیر محمدنے کہا کہ جب تک بادشاہ زندہ ہے یہ نہیںہو سکتا۔لہٰذا اول بادشاہ کوتخت سے معزول کرو اورشہزادہ عبدالقادر کوتخت نشین کرو توپھرملا طاہر کوعبرت کے لیے قتل کرو بارہ ہزارسوار پیادہ اجماع کرکے پیر محمد کے ساتھ قلعہ کے دروازہ پر کالے چبوترہ کے پاس جمع ہوکر محاصرہ پر تیار ہوئے اورشاہ صاحب کے گھر کو مع ان کے فرزندوںکے موکلوں کے حوالہ کردیا برہان شاہ نے سن کر حکم دیاکہ قلعہ بندکرلواور قلعہ کی برجوںپر جاکر توپ سے کام لو جب بہت غوغاں ہوا تو شاہ صاحب سے مضطر ہوکر پوچھا کہ اب کیا ہوگا شاہ صاحب علم جفرمیں ملا شمس الدین جعفر کے شاگرد تھے قرعہ ڈال کرحکم دیاکہ ابھی فتح ہوگی دروازہ قلعہ کا کھول دو اورسوار ہو بادشاہ فوراً مسلح ہوکرسوار ہوا اورایک ہزارپیدل اور پانچ ہاتھی مع چترسبزعلم شاہ صاحب کے ساتھ نکلے شاہ صاحب نے ایک مٹھی خاک لے کر اس پرآیہ الجمع آخر تک پڑھ کر ہوا کی طرف پھینکی اورچند نقیبوں کوحکم دیاکہ دشمنوںکے پاس جاکر پکارو کہ جو خیرخواہ سلطنت ہو وہ چترسبز کے نیچے آجائے اور جو حرام خور ہو وہ پیر محمد کے ساتھ منتظر قہر سلطانی کا رہے اور افسران سپاہ امان لے کر بادشاہ کے ہم رکاب ہو گئے اورپیرمحمدمع چندسپاہیوں کے گھر کوچلاگیا بادشاہ نے ملک احمد تبریزی اورخواجگی محمود کومع فوج معتمدپیر محمد پرمقرر کیا کہ اس کو پکڑ کر لاؤ جب وہ پکڑاہواآیا تو بادشاہ نے حکم دیا لیکن شاہ صاحب کی سفارش سے کسی قلعہ میںقیدکردیااورچار سال قید رہااورشاہ صاحب کی سفارش سے رہائی پائی اورپھر مقرب شاہی کرایا گیا اورجہاں برہان شاہ نے خواب دیکھا تھاوہاں عالیشان عمارت بنوائی اور مسجد شروع کی جواوائل عہدمرتضیٰ نظام شاہ میںپوری ہوئی اور مذہب حق کاعروج شروع ہوا اورایک چار دیواری پختہ عالیشان قلعہ احمد نگرکے سامنے بنوائی اور اس کانام لنگردوازدہ امام رکھااورچند گاؤںاس کے نام وقف کئے اور ہر روز صبح کوکھانا مومنین کوتقسیم ہوتا تھا اورخزانہ شاہی سے زرکثیرعراق وخراسان وغیرہ پہنچتے تھے اورشیعوںکوادھر ادھرسے بلاتے تھے پھر توتھوڑے ہی زمانہ میںساتوںولایت کے قابل ولایق شیعہ جمع ہوگئے مثل شاہ جعفربرادر شاہ طاہر اورملاشاہ محمدنیشاپوری اورملاعلی کلاسترآبادی اورملارستم جرجانی اورملاعلی مازندانی اورایوب ابو برکت اورملاعزیزاﷲگیلانی اورمحمدامامی استرآبادی اورافاضل واکابردکن آئے اور احمد نگر کو گلستان ارم بنادیا جب شاہ اسمٰعیل صفوی شہنشاہ ایران نے برہان شاہ کا شیعہ ہوناسناتو ۹۵۰ھ میںبہت سے تحائف برہان شاہ کے واسطے اورتہنیت نامہ بھیجاتوعقیق کی ایک انگشتری کہ جومدتوںشاہ ایران کی انگلی میںرہی تھی اوراس پر کندہ تھاالتوفیق من اﷲ)شا ہ صاحب کے لیے بھیجی تو شاہ صاحب نے بھی اپنے فرزند شاہ حیدر کے ہاتھ تحائف ہند بھیجے اور شاہ حیدر بھی بڑے فاضل وباکمال تھے۔شاہ طاہر نہایت ذہین وذکی تھے اورطبیعت نکتہ رس تھی چنانچہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ سرگیں بخارا طاہر ہے یانجس توآپنے فوراً فرمایا کہ کتاب دیکھ کر کہوںگا اورشاہ صاحب نے ۹۵۶ھ میںانتقال فرمایاشہرکے چھوٹے بڑوں کو صدمہ ہوا۔ اس وقت آپ کی لاش امانت رکھی گئی اورپھر روانہ کربلائے معلی کی گئی اور امام حسین کے گنبد کے اندر قبر مقدس سے تخمیناً ڈیڑھ گز کے فاصلے سے آپ کو دفن کیا۔ تین لڑکیاں اورچارلڑکے وارث چھوڑے لڑکوںکے نام یہ تھے شاہ حیدر شاہ رفیع الدین حسین شاہ ابوالحسن شاہ ابو طالب شاہ حیدرعراق میں رہے اور باقی دکن میں اور شاہ حیدر شاہ صاحب کی وفات کے وقت ایران میں شاہ طہماسب کے پاس تھے واپسی کے بعد حسب الوصیت سجاہ نشین ہوئے اور مقتدائے ارباب عقیدت گزین ہوئے شاہ صاحب عفت و ورع،تقوی و دینداری ومروت وسخاوت وعلم وتواضع سے متصف اوروجیہ وخوش بیان اموراسلام میں نہایت سرگرم تھے ہر صغیر وکبیر کے دلوںپرخیرخواہی کا سکہ تھا زبان گوہر افشان حقائق مصحف آسمانی کے مفسراور بیان ہدایت نشان دقائق کتب سبحانی کامظہر اور قلب مبارک آثار ولایت و ارشاد کا مطلع اور خاطر فرخندہ مآثر مہبط انوار ہدایت ارشاد تھا مشائخ کبار اوراہل دل کی صحبت اٹھائے ہوئے علم تفسیر وحدیث و فقہ واصول و ریاضی اورتمام حکمیات ورمل وجفرمیںبے مثل اور نظم و نثر کے ماہر دیوان قصائد وکتاب انشاء آپ کی تمام ہندو غیر ہ میںمشہور ہیں تصانیف آپ کی یہ ہیں شرح باب حادی عشر علم کلام میں اور شرح جعفریہ فقہ میںاورحاشیہ تفسیر بیضاوی اورحواشی شرح اشارات ومحاکمات شفا اورمجسطی ومطول و گلشن زار اور شرح تحفہ شاہی اوررسالہ پالکی کہ کسی سفر ہند میں پالکی میں سوار تھے اوراثنائے راہ میںلکھا تھاجب کہ آپ بطریق رسالت احمد نگر میںگئے توتمام طلاب وعلماء آپ سے ملنے آئے مگر ایک عالم دکن کہ اپنے کو اعلم علمائے جفر جانتاتھا نہ آیابعدچند رو ز کے شاہ صاحب کودعوت کے بہانے سے اپنے مکان پربلاناچاہااوراپنے آدمی کے ہاتھ یہ سطر لکھ بھیجی کہ قال النبیؐ الاجابۃ سنۃ موکدۃ آپ نے نیچے لکھ دیاالزیارۃ القادم فاذاتعارضاتساقطا اس نے آپ کی جودت ذہن اورپایۂ علم سمجھ لیا اور ملاقات کے لیے آیا تو اپنے کو بحرذخار کے پہلو میںایک قطرہ پایا پشیمان ہو کرآپ کے ہاتھ پر بوسہ دیا اورعذر کیا مجلہ شیعہ کھجوہ اگست ۱۹۰۸ء میں یہ شعر نمونہ کے طور پر لکھے ہیں ؎ مطلع ایجاد احمد حسن مطلع بوتراب ہست بیت اہلیتش شاہ فرد انتخاب مرتضیٰ آنکہ شہ مسند عالی نسبی ست دیگر آفتابیست کہ برج شر فش دوش نبی ست اورمرغوب دل میںمفتاحالتواریخ کے حوالہ سے تاریخ وفات شاہ صاحب تابع اہل البیت)ممکن ہے ۹۵۲ھ میںانتقال فرمایا اورلاش اقدس آپ کی کربلائے معلی ۱۵۵۹ء میںبھیجی گئی ہو۱؎۔ حاشیہ تفسیربیضاوی عربی: یہ تحقیقی حاشیہ ہے۔ صاحب طبقات مفسران: ’’شاہ طاہربن رضی الدین اسماعیل حسینی کاشانی ازسادات خاندیہ یکی ازاعیان تفسیری قرن دہم ہجری می باشد اویکی از اکابر علماء امامیہ اثنا عشری از تلامذۂ محمدبن احمدخضری معرفی می نماید کہ در دکن ہند اقامت گزید نظام شاہ وعادل شاہ و قطب شاہ از ملوک ہند از برکت ارشاد او مستبصر شد، ومذہب تشیع را پذیر فتہ اند۱؎۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’وسافرالی الہند فدخل فی بندرگوا وجاء الی بیجاء پور فلم یلتفت الہ اسماعیل عادل شاہ البیجاپوری فسار الی قلعۃ پریندہ ولقی بہاالشیخ پیرمحمدالذی ارسلہ برہان نظام شاہ الی صاحب القلعۃ بالرسالۃ ماعتقدپیر محمد بفضلہ وکمالہ و قرأ علیہ المجسطی ولما رجع پیر محمد الی احمد نگر ذکرہ عند صاحبہ فطلبہ سنۃ ثمان و عشرین و تسعائۃ واحتقی بہ۔ خطایت لہ الاقامۃ باحمد نگر و کان یذہب الی قلعۃ احمد نگر یومین فی کل اسبوع و یدرس و یحضر العلماء کلہم فی دروسہ،وکان برہان نظام شاہ ایضاً۔ یحضردروسہ ویستلذ بکلامہ، ولم یزل کذالک حتی مرض عبدالقادر ابن برہان نظام شاہ المذکور و اشرف علی الموت وکان البرہان مشغوفا بحبہ،فقام الطاہر و بشرہ بالشفاء العاجل لولدہ واخذ العہدعلیہ ان یدعو فی خطب الجمعۃ والاعیاد للائمۃ الاثنا عشر و یروج مذہبہم فی بلادہ،فعاہد برہان نظام شاہ،فلقنہ الطاہر مذہب الشیعۃ من حب ورفض، و تشیع برہان نظام شاہ و معہ اہل بیتہ و خدمہ نحو ثلاثۃ الٓالاف من الرجال والنساء ونال الطاہر ما رامہ من الدعوۃ‘‘ ولہ مصنفات کثیرۃ: ’’منہا شرح الباب الحادی عشر فی الکلام ،و شرح الجعفریۃ فی فقہ الامامیۃ و حاشیۃ علٰی تفسیر البیضاوی و لہ حواشی علی الاشارات والمحاکات والمجسطی والشفاء والمطول وگلشن زار وشرح تحفہ شاہی۱؎‘‘ محمد بن احمد خواجگی شیرازی (م۹۸۸ھ) ملا محمد بن احمد خواجگی بن عطاء اﷲ شیرازی۔ جامع معقول و منقول تھے۔ نظام شاہ دکن کے عہد میں وارد ہندہوئے اور بیجاپور میں قیام کیا۔ خواجہ جلال الدین محمد کے شاگرد خاص تھے۔ جو فلسفہ و کلام کے مسلم الثبوت استاد تھے۔ ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی جونپوری نے آپ سے کسب علم کیا۔ آپ کی وفات ۹۸۸ھ میں ہوئی۔ تفسیر بحرالمعانی: آپ نے فارسی زبان میں معرکۃ الآرا تفسیر لکھی جس میں معقولات کے مباحث زیر بحث لائے ہیں۔ اسی تفسیر کو بعض محققین نے تفسیر مجمع البیان کا خلاصہ تحریر کیا ہے۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’نواح حیدرآباد دکن میں رہتے تھے دسویں صدی کے ممتاز علماء میں شمار ہوتا تھا۔ آپ نے تفسیر مجمع البیان کا خلاصہ سلطان ابراہیم قطب شاہ کے لیے کیا۔‘‘ تلخیص مجمع البیان: اس تفسیر کا خطی نسخہ جو سورہ نساء تک ہے کتابخانہ آستان قدس رضوی مشہدمیں محفوظ ہے۔ ابتدائ: ’’الحمدﷲالذی انزل القرآن ہدی للناس‘‘ نسخہ کی پشت پر قاضی نور اﷲ شوشتری کے دستخط ہیں جس کی تاریخ ۱۰۱۱ھ ہے اور یہ عبارت تحریر ہے۔ ’’یہ کتاب ان اشیاء میںسے ہے جنھیں از بکیان خزانہ امام رضاؒ سے ہندوستان لے گئے تھے۔قاضی نوراﷲ نے اسے حاصل کیا اوردوبارہ اسے مخزن کتابخانہ امام رضاؑمیں واپس پلٹایا۔۱؎‘‘ دوسری تالیف: شرح باب حادی عشر ہے جس کی تالیف سے ۹۵۲ء میں فراغت پائی۲؎۔ مبارک، شیخ، ناگوری(م ۱۰۰۱ھ) گیارہویں صدی کے نامور مفسر قرآنشیخ مبارک بن خضر یمانی کے جد موسیٰ یمن سے آکر نویں صدی ہجری میں صوبہ سندھ کے علاقہ ایل میں مقیم ہوئے۔ شیخ موسیٰ کے پوتے رکن الدین ان کے بیٹے شیخ خضر سندھ سے نکل کر شہر ناگور (راجستھان) میں رہنے لگے۔ شیخ مبارک ۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء میں ناگور میں متولد ہوئے بلاکے ذہین وفطین تھے۔ ۱۴ سال کی عمر میں علوم متداولہ میں سے ہر فن کا ایک ایک متن حفظ تھا۔ شیخ عطن شیخ سالار ناگوری اوربقول بعض حضرات عبداﷲ احرار سے بھی کسب فیض کیا۔ خطیب ابوالفضل گا زرونی سے بھی عقیدت و تلمذ کا رشتہ رہا۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد ۶؍محرم ۹۵۰ھ کو آگرے کے قریب جمنا پار اترے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ گوشہ نشینی اور تصنیف و تالیف مشغلہ تھا۔ خود داری کا یہ عالم تھا کہ شیر شاہ سوری نے بلایا نہیں گئے، معاصرین نے مخالفت شروع کر دی شیعیت کے الزام میں بہت زیادہ ستائے گئے۔ میر حبش کو شیعہ کہہ کر قتل کیا گیا۔ جس کے سبب شیخ مبارک کو اپنا عقیدہ پوشیدہ رکھ کر روپوش ہونا پڑا۔ جنگلوں صحراؤں کی خاک چھاننا پڑی جس کا تذکرہ شیخ ابوالفضل نے آئینہ اکبری میں کیا ہے۔ آپ سختی سے شریعت پر عمل پیرا تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے جس کو بھی خلاف شریعت عمل کرتے ہوئے دیکھتے تھے فوراً ٹوک دیتے تھے جس کا تذکرہ ملا عبدالقادر بدایونی نے اس طرح کیا ہے جوکہ فکری اعتبار سے ان کے مخالف تھے۔ ’’شیخ مبارک اپنے عہد کے جلیل القدر عالم تھے تقویٰ، توکل اور صلاح میں ممتاز تھے۔ ابتداء میں انھوںنے بڑی ریاضتیں اور مجاہدے کیے، ان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہر وقت خیال رہتا تھا۔ اگر ان کی مجلس میں کوئی شخص سونے کی انگوٹھی یا ریشم یا سرخ و زرد موزے یا کپڑے پہن کر آجاتا تھا تو اس کوفوراً مجلس ہی میں ان چیزوں کو اتار دینے کا حکم دیتے۔ اس طرح جن لوگوں کا جامہ دراز ہوتا تو اسے پھاڑ دینے کا حکم دیتے۔ اگر راستہ چلتے کسی مقام پر راگ یا نغمہ کی بھنک کان میں پڑ جاتی تو تیزی سے قدم بڑھاکر نکل جاتے تھے۱؎۔‘‘ خواجہ نظام الدین بخش: ’’از فحول علمائے روزگار و مشائخ کرام بود شان عظیم داشت۲؎۔ ‘‘ صاحب اخبار الاخیار : ’’ان کے کتاب خانہ میں پانچ سو کتابیں خود ان کے قلم سے لکھی ہوئی موجود تھیں۔۳؎‘‘‘ جلال الدین محمد اکبر کے ابتدائی دور میں جاہ طلب شیعہ دشمن علماء کا بہت زور تھا یہ طبقہ شیخ مبارک اور ان کے فرزندوں سے بہت زیادہ حسد اور دشمنی رکھتا تھا اور ہمیشہ ان کے درپئے آزار رہتا تھا جس کی وجہ سے شیخ مبارک کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آگرہ چھوڑنا پڑا جس کا تذکرہ ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں بھی کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ جن دنوں میر حبش اور دوسرے اہل بدعت گرفتار اور قتل ہوئے۔انھیں ایام میں شیخ عبدالنبی صدرالصدور اور مخدوم الملک نے مل کر بادشاہ کے کان بھرے کہ شیخ مبارک مہدوی ہے اور اس پر مستزاد کہ اہل بدعت یعنی شیعہ بھی ہے۔ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رہتا ہے۔یہ کہہ کر ان لوگوں نے بادشاہ سے برائے نام اجازت لی اور شیخ مبارک کا خاتمہ کرنے کے در پئے ہو گئے انھوںنے محتسبوںکو روانہ کیا کہ شیخ کو دربار میں حاضر کریں مگر وہ بچوں سمیت روپوش ہوگئے اور محتسب ان کی مسجد کا منبر توڑ کر واپس لوٹ آئے۱؎۔ ہاشم علی خاں لکھتے ہیں کہ شیخ مبارک نے ایران سے آنے والے علماء سے استفادہ کیا اور ان کی صحبت میں رہ کر شیعہ مذہب کی طرف مائل ہو گئے تھے۲؎۔ صاحب حدائق الحنفیہ مولوی فقیر محمد جھلمی: ’’شیخ مبارک بن شیخ خضرناگوری اکبرآبادی والد شیخ ابوالفیض فیضی ہند کے علماء فحول میں سے فقیہ فاضل مفسر کامل، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے اپنی تمام عمر افادہ و افاضہ اور تنشیر علوم میں صرف کی۔ اخیر عمر میں باوجود یکہ آپ کی بینائی کم ہو گئی تھی مگر قوت حافظہ سے تفسیر ’’منبع عیون المعانی‘‘ چار جلد کلاں میں تصنیف کی اور ۱۰۰۱ھ میں وفات پائی اور آگرہ میں دفن کئے گئے۔ ’’فخرالملک‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔۳؎‘‘ میر غلام علی آزاد بلگرامی : ’’آپ کا ایک نہایت ہی حیرت انگریز کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے پانچ سو ضخیم کتابیں خود اپنے قلم سے تحریر کیں۔آخری عمر میں آنکھ کی روشنی زائل ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود اپنی قوت حافظہ سے پورے قرآن پاک کی تفسیر چار جلدوں میں تصنیف فرمائی اور تفسیر مذکور کا نام ’منبع عیون المعانی‘‘ رکھا۔ قوت حافظہ کایہ عالم تھا کہ تفسیر کی عبارت آپ مسلسل بلا تکلف بیان کرتے جاتے تھے اور املا نویس حضرات اس تقریر کو تحریر کرتے جاتے تھے۱؎۔‘‘ وفات:۱۷؍ذی القعدہ ۱۰۰۱ھ/ ۵؍اگست ۱۵۹۳ء کو بمقام لاہور ہوئی۔ آگرہ میں سپرد خاک کئے گئے آپ کا مزار لاڈلی بیگم کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہاں آپ کی بیٹی لاڈلی مدفون ہے۔ فیضیؔ نے ’’فخرالکمل‘‘ اور ملا عبدالقادر بدایونی نے ’’شیخ کامل‘‘ سے مادہ تاریخ نکالا۲؎۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’کان عالماً کبیراً بارعاً فی الفقہ و اصولہ عارفاً بدقائق العربیۃ ماہراً بالتصوف والشعر و فنون اخریٰ وکان یقرا القرآن بالقرأت العشر و یدرس ’’الشاطبی‘‘ وکان کثیراً المطالعۃ دائم الاشتغال بالدرس والافادۃ سریع الادراک قوی الحفظ لم یکن یحفظ شیئاً فینساہ و لما ضعف بصرہ لکبرسنہ و عجز عین المطالعہ اشتغل بتفسیر القرآن و صنف تفسیراً کبیراً فی اربع مجلدات کبار سماہ ’’منبع نفائس العیون۳؎‘‘ صاحب طبقات مفسراین شیعہ: ’’مؤلف بزرگوار تفسیر ’’منبع العیون‘‘ شیخ مبارک بن خضر یمانی ہندی (م ۱۰۰۱ھ) پدر دو مفسر عالیقدر ابوالفیض فیاضی و ابوالفضل علامی، یکی از بزرگان علمای وقت ہندوستان و یکی از اعلام قرن دہم و آغاز قرن یازدہم می باشد۔ او در عصر خود مرجعیت شیعیان آن خطہ را عہد دار و خود او بی سبھرہ از اصول عرفان و تصوف نیز نبودہ است۔ قرآن را باقرائات دہگانہ حفظ کردہ بود و در پایان عمر تفسیری بہ نام ’’منبع العیون‘‘ در چہار جلد بہ یادگار داشت او درسن ۹۰ سالگی بہ سال ۱۰۰۱ھ در لاہور از دنیا رخت بربست۱؎۔‘‘ تفسیر منبع عیون المعانی مطلع شموس المثانی: خطی عربی زبان میں پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر کتب خانہ ممتاز العلماء جنت مآب لکھنؤ میں محفوظ ہے۔ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی: پہلی جلد میں شروع کے اوراق نہیں ہیں اس کے بعد کی عبارت اس طرح ہے ’’للاٰثار مستکملا للعلوم سیما استماع الحدیث و اصولہ مضغا مسلسلامتنا اسنادآ و ضبط رجالہ و رواتہ تحقیقا و اتفاقاً من السنۃ بعض المشاہیر الصادرین من الحرمین الشریفین زادہا اﷲ شرفاً۔۔۔‘‘ اس تفسیر میں جن امور کو بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے ’’اس کتاب میں وجوہ نظم قرآن، قرات عشرہ، انواع وقوف و خواص آیات کا ذکر کرونگا نیز علمائے راسخین ، حکماء اور صاحب کشف عارفین نے جو معانی و مطالب بیان کئے ہیں انہیں بتاؤنگا جملوں کے ربط اور آیتوں اور سوروں کے درمیان جو مناسبت ہے اسے واضح کرونگا۔ انبیاء علیھم السلام کے قصص اقوام و ملل کے واقعات، اسباب نزول اور ناسخ و منسوخ کو بیان کرونگا اور یہ بتاؤںگا کہ سورتیں جن آیات پر ختم کی گئی ہیں ان کی وجہ کیا ہے۱؎۔‘‘ اس تفسیرپر مفصل مقدمہ لکھا ہے جس میں علوم قرآنی کا مفصل ذکر ہے۔ عرب کون تھے سب سے پہلے عربی زبان کس نے استعمال کی۔ اس زبان کی فضیلت کیا ہے۔ نزول قرآن کا بیان، وحی کا تذکرہ، نزول کی مدت، سورتوں کی تنزیل و ترتیب، مکی و مدنی سورتوں کا بیان، اعجاز قرآن، قرات قرآن، تعلیم قرآن، تلاوت کے فوائد، معانی کا ذکر، قاریوں کا اختلاف، الفاظ کی کتابت کا بیان، اہل لغت کاتذکرہ غرض کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا ذکر مقدمہ میں نہیں کیا گیا ہو جس سے شیخ مبارک کی وسعت علمی اور گہرے مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹرمحمد سالم قدوائی لکھتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ کے تیس نام انھوںنے بیان کئے ہیں فاتحہ ، حمد، شکر، منتہ، سبع مثانی، ام الکتاب، ام القرآن، نور، کنز، دعا، مناجات، شافیہ، اساس، وافیہ وغیرہ اس میں سے ہر ایک نام کی الگ الگ توجیہ بھی بیان کی ہے اور یہ بیان کیا کہ یہ نام کیوں رکھا گیا اس کے بعد اس سورہ کی مفصل تفسیر کی ہے۔ پہلی جلد پارہ سیقول کی پہلی آیت کی تشریح پر ختم ہوتی ہے۔ دوسری جلد’’قال رب انی لا املک الانفسی واخی فافرق بیننا بین القوم الفاسقین ‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔ تیسری جلد :’’ فہل ینتظرون الامثل ایام الذین خلوا من قبلہم قل فانتنظروا انی معکم من المنتظرین ‘‘تک ہے۔ چوتھی جلد :’’ فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا پر ختم ہوتی ہے یعنی سورہ کہف کے خاتمے تک۔ پانچویں جلد : شروع سے ایک صفحہ غائب ہے’’ وما علمناہ الشعرو ما ینبغی لہ ‘‘ختم قرآن تک یہ تفسیر تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں مصنف نے اپنے حالات اور اس دور کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تفسیر کی ضرورت و اہمیت کے علاوہ، علوم قرآنی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس تفسیر کے مطالعہ سے آپ کی رقت نظر اور عمیق بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شیخ نے سورہ کو شروع کرتے وقت ابتداء میں اس کا مضمون بطورخلاصہ بیان کر دیا ہے تاکہ سورہ کے مطالب ذہن نشین ہو جائیں۔ سوروں کے درمیان ارتباط کو بھی واضح کیا ہے۔ سورہ کے اختتام پر دعائیہ کلمات ہیں جو مفہوم کے اعتبارسے تو یکساں ہوتے ہیں مگر الفاظ مختلف ہوتے ہیں۱؎۔ اولاد: شیخ ابوالفیض فیضی، شیخ ابوالفضل، شیخ ابوالخیر، شیخ ابوالبرکات، شیخ ابوالکلام، شیخ ابو تراب، شیخ ابوالحامد۔ لڑکیوں میں لاڈلی بیگم زوجہ خاوند خاں شیعی و زوجہ فرزند راجہ علی خاں۔ ابوالفیض، فیضی(م ۱۰۰۴ھ) گیارہویں صدی کے قابل فخر مفسرن قرآن آپ کا تخلص فیضی اورفیاضی تھا۔ شیخ مبارک ناگوری کے سب سے بڑے فرزند تھے۔بچپن سے ذہین وفطین تھے۔ ۹۵۴ھ/۱۵۴۷ء آگرہ میں متولد ہوئے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی اور کم سنی میں فارغ التحصیل ہوکر درجۂ کمال پر پہنچے جس کااعتراف خود فیضی نے اپنے دیوان کے آغاز میں کیا ہے۔ ’’ولی نعمت من پدر حقیقی و خدائی مجازی استکہ از ریحان طفولیت کہ عقل ہیولانی در شتم صور معنی بمن والی نمود قریحہ جامدہ رابہ بلندی راہمنون شد۔‘‘ شیخ کو مختلف علوم وفنون میں مہارت تھی۔ شعر،معمہ گوئی، علم عروض وقوافی،تاریخ،لغت،طب،انشاء علم ہیئت،ہندسہ میں ملکہ حاصل تھا۔عربی ، فارسی،سنسکرت زبانوںمیں مہارت تامہ رکھتے تھے۔فیضی جب بڑے ہوئے تو تلاش معاش میںاپنے والد کے ہمراہ شیخ عبدالنبی صدرالصدور کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے منصب کے طلبگار ہوئے شیخ عبدالنبی ان کے والد سے خلش رکھتے تھے۔ اس لیے انھوںنے ان پراور ان کے والد شیخ مبارک پر شیعیت کا الزام لگا کر دونوں کواپنی مجلس سے باہر نکال دیا۱؎۔ یہی نہیں بلکہ شیخ عبدالنبی اورمخدوم الملک نے ان کی بادشاہ سے شکایت کی جس کے نتیجہ میںشیخ مبارک اور ان کے لڑکوں کو آگرہ چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ ۹۷۵ھ/۱۵۶۷ء میں فیضی اپنی شاعری کی بدولت دربار شاہی میں باریاب ہوئے اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی وہ جب دربار میںپہنچے توایک نقرئی پنجرہ کے پاس سے جہاںوہ کھڑے تھے برجستہ قطعہ کہا بادشاہان درون پنجرہ ام از سر لطف خود مراجادہ زانکہ من طوطی شکر خوائم جائے طوطی درون پنجرہ بہ فی البدیہ قطعہ بادشاہ کو بہت پسند آیا اس نے فوراً اسے اپنے قریب بلایا۔ اسی روز سے فیضی کو اکبر سے تقرب حاصل ہوا۔ اس کے چند روز بعد اس نے ڈھائیسو اشعار پرمشتمل ایک پرزور قصیدہ بادشاہ کی شان میں کہا جس کا مطلع یہ ہے سحر نویدرسان قاصد سلیمانی رسید ہم چو سعادت کشادہ پیشانی اکبربادشاہ کے دل میں روز بروزفیضی سے محبت بڑھتی چلی گئی۔جب بھی وہ کسی مہم پرجاتا فیضی کو ساتھ لے کر جاتا۔۹۸۲ھ/۱۵۷۴ء میں بنگال کی مہم میںبھی وہ اکبرکے ہمراہ تھے۔فیضی اپنی گوناگوں صلاحیتوںکی بنا پر سلطنت کے انتظامی امور ومعاملات میں دخیل ہوگئے نورتن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اکبر نے فیضی کی ادبی اعلیٰ صلاحیتوں کودیکھ کر ’’ملک الشعرائ‘‘کاخطاب دیا۱؎۔ ابوالفیض فیضی کوائمہ علیھم السلام سے خاص عقیدت تھی۔ان کا ذکر منقبت میںانتہائی عقیدت واحترام سے کیا ہے۔منقبت میںچودہ اشعار میں بارہ اماموں کانام لے کر مدح سرائی کی ہے آخر میںکہتے ہیں۔ فیضی نشودخاتمۂ مابہ ہدایت گرختم امامان ھدیٰ را نہ شناسیم۲؎ تفسیرسواطع الالھام: یہ تفسیر فیضی کا عظیم الشان علمی کارنامہ ہے جوغیر منقوط تفسیر ہے۔جس سے فیضی کی عربی زبان پر گرفت اور عربی لغت پر عبور کااندازہ ہوتاہے۔ فیضی نے تفسیر لکھنے سے پہلے بطور مشق علم اخلاق میں ’’مواردالکلم‘‘ کتاب صنعت مہملہ میں لکھی ۔ فیضی کو اس صنعت میں نثر ونظم دونوں میں مہارت حاصل تھی۔ اس تفسیر کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں نولکشور لکھنؤ سے ۱۳۰۶ھ/۱۸۸۹ ء میں شائع ہوئی اس کے علاوہ ایران سے بھی طبع ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر دو سال کی مدت میں بتاریخ ۱۰؍ربیع الثانی ۱۰۰۲ھ بروز دو شنبہ مکمل ہوئی۔ڈاکٹر حامد علی خاں لکھتے ہیں: فیضی نے تفسیر کے آخر میں تتمہ لکھا جس میں خداوند عالم کی توصیف اور حضرت رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ و سلم کی تعریف تحریر کرکے والد کے لیے دعائے مغفرت کی ۔تتمہ کی عبارت کو پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ فیضی کو تاریخ گوئی کے فن میں بھی اعلیٰ قدرت تھی۔خاتمہ میں ننانوے جملے ہیں جن میںسے چورانوے جملوں سے ایک ہزار دوہجری تاریخ برآمد ہوتی ہے: ’’الحمدﷲمحصل المرام لکمل سواطع الالہام۔الہم المحرر و حدہ لا طراء اُسّ الکلام۔واﷲمسرّد الامور ومسہّل کمل المہام۱؎‘‘ ترجمہ: اس اﷲ کی تعریف جو مقصد و مراد کو پورا کرنے والا ہے کہ تفسیر ’’سواطع الالھام‘‘کی تکمیل ہوئی محررکو اﷲ کی طرف سے الہام ہوا کہ وہ اﷲ کے کلام کے اساسی مفہوم کو بطور احسن بیان کرے۔اﷲ امور کو اچھے طریقے سے انجام دینے والا اور مشکل ترین مہموں کوآسان بنادینے والاہے۔ فیضی نے آخرمیں بہ ترتیب حروف تہجی مشکل الفاظ کی فہرست درج کی ہے۔ تفسیر دیکھنے کے بعد ہم عصر علماء نے منظوم ومنثورتقریظیں لکھیںنولکشور لکھنؤ سے طبع ہونے والے نسخہ میں کچھ تقاریظ چھپی ہیں۔ جن میں قاضی نوراﷲ شوشتری معروف بہ شہید ثالث نے بھی بغیر نقطہ کے تقریظ تحریر کی۔ سید محمد حسینی، فضیل بن جلال کالپوری، محمدیعقوب صیرفی کشمیری،عبدالعزیز، احمد بن مصطفیٰ شریف، امان بن غازی قابل ذکر ہیں۔ ملاظہوری ترشیری نے صنعت مہملہ کے محاسن میں ایک زبردست قصیدہ اور تقریباً سترہ رباعیاں لکھیں۔ میر حیدر معمائی کاشانی نے سورہ اخلاص سے ’’سواطع الالھام‘‘ کی تاریخ نکالی فیضی اس تاریخ سے اسقدر خوش ہوئے کہ انھوںنے میر حیدر کو دس ہزار روپیہ بطور انعام دئیے۔ سواطع الالھام کی ایک عمدہ تاریخ ’’لارطب ولا یابس الافی کتاب مبین‘‘ ہے۱؎۔ بادشاہ اکبر نے اس تفسیر کو دیکھ کر فیضی کو دس ہزار روپیہ بطور انعام دئیے۔ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی: ’’شیخ فیضی کی علمی لیاقت و فضیلت کی دلیل ان کی قرآن پاک کی بے نقطہ تفسیر ’’سواطع الالھام‘‘ ہے۔ ایسی تفسیر اس سے قبل ایک ہزار سال کی مدت میں کسی عالم یا مصنف کو لکھنا نصیب نہیںہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے دشوار کام کا انھوںنے صرف دو سال کی مدت میں تکملہ کر دیا۲؎۔ ‘‘ ملا عبدالقادر بدایونی نے فیضی کے عقائد کا مذاق اُڑایا اور انھیں راہ راست سے بھٹکا ہوا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ یہ سب کچھ شیعہ دشمنی کے سبب تھا۔ اگر فیضی کے عقائد خلاف شریعت ہوتے تو اس کا اظہار ان کی تحریروں سے ہوتا پھر انھیں تفسیر قرآن لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ مولانا محمد حسین آزاد: ’’زبانی باتوں میں ملا صاحب جو چاہیں کہیں مگر نفس مطالب میں جب نہ اب کوئی دم مار سکتا ورنہ ظاہر ہے کہ وہ بے دینی اور بد نفسی پر آجاتے تو جو چاہتے لکھ جاتے انھیں ڈر کس کا تھا۱؎۔‘‘ علامہ شبلی نعمانی: ’’فیضی نے تفسیران واقعات کے بعد لکھی ہے لیکن ایک ذرہ مسلمات کی شاہراہ سے نہیں ہٹا حالانکہ تفسیر میں ہر قدم پر اس کو آزاد خیالی دکھانے کا موقع حاصل تھا۔ ملا صاحب تو فرماتے ہیں کہ وہ تمام عقائد اسلام کا منکر تھا لیکن وہ ان تمام عقائد کا معترف نظر آتا ہے جن کو معتقدات عوام کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ فیضی کی مذہبی آزادی ہم جو کچھ سنتے ہیں زبانی سنتے ہیں تصنیفات میں تو وہ ملائے مسجد ہی نظر آتے ہیں۔۲؎‘‘ تفسیر کی خصوصیت: یہ تفسیر جامع و مانع ہے۔ محدود الفاظ میں وسیع مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نمونہ تفسیر:سورہ کوثر بسم اﷲ الرحمن الرحیم ’’لما رحل ولد رسول اﷲ صلعم و ادر کہِ السلام و سمعہ العاص و کلم و ہو عسور لا ولد لہ لو ادر کہ السام ہلک و حسم اسمعہ صلعم ارسل اﷲ اِنَّا اَعْطَیْنَکَ محمد الکوثر العطاء الکامل علماً و عملاً و المورد الامرء ماء والا حمد ہداء و ورد ماء المدام و ہو مورد رسول اﷲ صلعم اعطاہ اﷲ صلعم کرما او المراد الا ولاد او علماء الاسلام او کلام اﷲ المرسل فَصلِّ دواماً لِربک اﷲ لا لما سواہ کما ہو عمل مرء مراء عمد الاسہواً وَ انْحر و اسرح ﷲ واعطہ اہل السوال وہو عکس الکلام الاول المصرح لا حوال اہل السہو و الصد و اعمالہم ان شَانِئَکَ عدوک ہوا الابتر المعدوم لا ولد لہ و ادام اﷲ اولادک و مراسم او امرک و مکارم عصرک و محامد مراسمک‘‘ فیضی نے تفسیر میں لغوی بحث بھی کی ہے ’’الاسم اصلہ سمؤ کعلم و مصدرہ السمّو وہوالعلو واحد سماء و ورد اُسُمٌ وَسِم وَ سمٌ اُوہم اسمہ اعلمہ و الموسم المعلم والاسم العلم والاول اصح لعدم و رود الاسام مکسّرا‘‘ فیضی نے ہر ایک سورہ کا مکی یا مدنی ہونا ’’موردھا ام الرحم و مورد ھا مصر رسول اﷲ کہہ کر بتایا ہے ۔ آپ نے مختلف علماء کے اقوال نقل کرکے اپنے خیال کا بھی اظہار کیا ہے۔ مالک یومٍ دین ’’رود ملک و ہوالاصح لما ورد کل مالکٍ ولا عکس فکل مالکٍ مامور ملکٍ لا عکسہ۔‘‘ ہر سورہ کے شروع میں اس سورہ کا مفہوم بطور خلاصہ بھی لکھا ہے۔ سورۃ البقرہ: ’’سمّوہا لورود احوالہا و محامد اطوار ہا وسطوع اسرار ہا علاء امورہا مماطال کلامہ‘‘ سورہ بقرہ کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ گائے کے حالات اس کے طور طریقوں کی تعریف اس کے اسرار و اموز کی رفعت اور اس کے ایسے امور کی بلندی کا ذکر ہے جس کے لیے تفصیلی کلام درکار ہے۔ ابوالفیض نے تفسیر کا آغاز ان جملوں سے کیا ’’اﷲ لا الہ الاہو لا اعلمہ ماہو وما ادرکہ کما ہو احامد المحامد و محامد الا حامد اﷲ مصعد لو امع العلم و ملہم سواطع الالھام‘‘ اس کے بعد دعا کی پروردگارا اس کام کو آسان فرما۔ اور اپنی تعلیم و تربیت کا ذکر کرتے ہوئے شہر کی تعریف بیان کی علما کی مجلسوں، مساجد، مدارس دیگر عبادت خانوں کا ذکر کیا۔ اس کے بعد بادشاہ کی تعریف کی اس کا نام اور فضائل اسی صنعت مہملہ میں تحریر کئے ہیں۱؎۔ اپنے والد شیخ مبارک اور بھائیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ چونکہ ہر نام میں نقطے ہیں اس لیے معموں سے کام نکالا والد کا ذکر اس طرح ہے ’’وہو اساس العلم واصل الروع و مطلع الالھام و راس الرؤس و امام الکرام۲؎‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’در دیار ہند یکی از عجائب و غرایب جہان خلقت و از شاہکار ہا طبیعت وصناعت بہ شمار می آید ’’تاج محل‘‘ آن در آگرہ خود، یکی از عجائب ہفتگانہ جہان محسوب است، بس تعجبی ندارد کہ تفسیر آن قرآنی ہم کہ در آن دیار بہ رشتۂٔ تحریر در آمد۔ باشد یکی از عجایب حیرت انگیز جہان تفاسیر شیعہ بہ شمار می آید۱؎‘‘ وفات: ۱۰؍صفر ۱۰۰۴ھ/۱۶؍اکتوبر ۱۵۹۵ء کو بروز یکشنبہ ہوئی آگرہ میں تدفین ہوئی۔ وفات کے بعد فیضی کی متروکہ میں چار ہزار چھ سو مجلد نفیس کتابیں نکلیں ان میں سے اکثر خود ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں اور یہ سب شاہی کتب خانہ میں داخل کر دی گئیں۔ دیگر آثار: مواردالکلم مرکزِ ادوار مثنوی نل و دمن ہفت کشور اکبر نامہ سلیمان و بلقیس ابوالفضل، علّامی(م ۱۰۱۱ھ) شیخ مبارک کے دوسرے فرزند تھے ۹۵۸ھ/۱۴؍جنوری ۱۵۵۱ء کو آگرہ میں متولد ہوئے۔ پندرہ سال کی عمر میں علوم عقلیہ و نقلیہ سے فارغ ہوکر امتیازی حیثیت حاصل کی۔ گوشہ نشینی کی زندگی گذارنا چاہتے تھے مگر احباب کے اصرار کی وجہ سے اکبربادشاہ کے جلوس تخت کے انیسویں سال ان کی خدمت میں پہنچ کر ملازمت اختیار کی۔ پہلے منشی گری کی خدمت ملی پھر ذہانت کے ذریعہ عہدۂ وزارت تک پہنچ گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنی لیاقت کا سکہ بادشاہ کے دل میں ایسا بٹھا یا کہ بادشاہ کو ان کے علاوہ کسی پر اعتبار ہی نہیں رہا۔ شیخ عبدالنبی صدر الصدور ابوالفضل کی شیعیت کے سبب ان سے حسد کرتا تھا اور شیخ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتا تھا۔ مگر شیخ کی اعلیٰ صلاحیتوں اور نظم و نسق میں مہارت کے سبب کسی کی کچھ نہیں چلتی تھی۔ دکن سے واپسی کے موقع پر جہانگیر کے اشارہ سے راجہ ہرسنگھ دیو نے ’’رندیلہ‘‘ مقام پر ۱۰۱۱ھ/۱۶۰۲ء میں شیخ ابوالفضل کو قتل کر دیا۱؎۔ تفسیر اکبری: شیخ ابوالفضل نے آیت الکرسی کی دقیق اور پرمغز تفسیر تحریر کی جس کا تاریخی نام تفسیر اکبری ۹۸۳ھ ہے۔ بادشاہ کی خدمت میں پیش کی۔ اکبر بادشاہ نے تفسیر کو بہت پسند کیا اور انعام و اکرام سے نوازا۔ ملاعبدالقادر بدایونی : ’’شیخ نے دوسری بار یابی کے موقع پر آیت الکرسی کی تفسیر پیش کی جس میں بہت سے قرآنی دقیق نکات تھے۱؎۔‘‘ سید صباح الدین عبدالرحمن: ’’ان ہی دنوں جب کہ وہ ان ذہنی پریشانیوں میں مبتلا تھا تو اس نے آیت الکرسی کی ایک تفسیر لکھی اور اکبر کے حضور میں پیش کی اکبر نے اس کو حسن قبول عطا کیا اور اپنی نوازشوں سے نواز کر اپنی ملازمت میں داخل کر لیا۔۲؎ ‘‘ صاحب نزہۃ الخواطرـ: ’’الشیخ العالم الکبیر العلامۃ ابوالفضل بن المبارک الناگوری اعلم و زراء الدولۃ التیموریۃ و اکبر ہم فی الحدس والفراسۃ و اصحابۃ الرای و سلامۃ الفکر و حلاوۃ المنطق والبراعۃ فی الانشائ… ودعاء السلطان اکبر بن ہمایو التیموری بمدینۃ اکبرآباد مع والدہ فادرکہ فی حدود سنۃ احدی و ثمانین و تسعمائۃ مرۃ اولیٰ و اہدیٰ الیہ کتابۃ فی تفسیر آیۃ الکرسی ثم ادرکہ فی حدود سنۃ اثنتین و ثمانین مرۃ اخریٰ و اہدیٰ الیہ کتابہ فی تفسیر سورۃ الفتح فاستحسنہ السلطان و قربہ الی نفسہ۳؎‘‘ دیگر آثار علمی: آئین اکبری جامع اللغات عیار دانش مکاتبات علامی۴؎ نوراﷲ شوشتری ، شہید ثالث(م۱۰۱۹ھ) قاضی نوراﷲ شوشتری کی ولادت ۹۵۶ھ/۱۵۴۹ء میں ہوئی۔ آپ کے والد سید شریف حسینی مرعشی اور چچا سید صدر حسینی فقہ، اصول، تفسیر، حدیث کے بلند پایہ استاد تھے۔ آپ نے انھیں بزرگوں اور معاصرین سے کمال علم حاصل کیا۔ ۹۷۴ھ میں مشھد مقدس گئے اور آقایٔ عبدالواحد کے درس میں شرکت کی۔ درجہ فضل و کمال پر فائز ہوکر اساتذہ سے اجازے حاصل کئے۔ ۹۹۱ھ میں حکیم فتح اﷲ شیرازی دربار اکبری میں کرسی نشین ہوئے تو انھوںنے اپنے ذوق و مسلک کے ارباب کمال کو جمع کیا ان میں قاضی نوراﷲ شوستری بھی شامل تھے۔ حکیم فتح اﷲ نے موصوف کو آگرے بلایا اور دربار اکبری میں پہنچایا۔ قاضی صاحب نے اپنے علم و فضل کے ذریعہ دربار میں ایک مقام بنایا فتح پور سیکری، اکبرآباد، لاہور، کشمیر میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔ قاضی معین لاہوری م ۹۹۵ھ) ضعف و پیری کی وجہ سے عہدہ قضاوت سے ہٹائے گئے تو ان کی جگہ سید نوراﷲ شوستری کو قاضی دار السلطنت لاہور مقرر کیا۔ آپ نے عہدہ قبول کرتے وقت یہ شرط کی تھی کہ مذاہب اربعہ فقہ میں سے وہ کسی کے پابند نہیں ہوںگے۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، جس فقہ کی رو سے چاہیں گے فیصلہ کریں گے۔ جس سے آپ کے تبحر علم کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ نے لاہور، آگرے کے مرکزی شہروں میں مذہب امامیہ کی ترویج کی، عقائد امامیہ کا کھل کر دفاع کیا۔ ۱۰۱۴ھ میں قاضی صاحب آگرہ میں تھے اسی دوران شیخ روز بہان نے کتاب ’’ابطال باطل‘‘ ۔ آپ نے اس کے جواب میں ’’’احقاق الحق‘‘ نام سے معرکۃ الآرا کتاب لکھی جو ربیع الاول ۱۰۱۴ھ میں مکمل ہوئی۔ اسی سال ۱۳ جمادی الثانی ۱۰۱۴ھ میں اکبر بادشاہ کی رحلت ہوئی۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا جہانگیر آیا نظام بدلا افراد بدلے۔ قاضی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے وہ گروہ جو شیعہ دشمنی میں نمایاں تھا۔ سامنے آگیا بادشاہ کو آپ کے خلاف بھڑکا نے لگے غرضکہ آپ ثبات قدم، ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ جہانگیر نے علماء سے فتوے مانگے بیالیس مہروں اور فتوؤںکے ذریعہ فیصلہ دیا گیا۔ (۱) سوخاردار درّے لگائے جائیں۔ (۲) سیسہ پگھلاکر پلایاجائے۔ (۳)گدی سے زبان کھینچی جائے۔ (۴) سر قلم کیا جائے۔ شہادت: ۲۶؍ربیع الاول ۱۰۱۹ھ کو آپ جلاد کے سامنے لائے گئے۔ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی نماز کے بعد ایک ٹھیکرے پر یہ آیت لکھ کر فضا میں پھینکی ’’رب انی مغلوبٌ فانتصر‘‘ ٹھیکری واپس آئی تو لوگوں نے دیکھا اس پر لکھا تھا ’’ان کنت عبدی فاصطبر۱؎‘‘ اس کے بعد بادشاہ کے حکم سے بدترین اذیتیں پہنچا کر ۱۰۱۹ھ میں شہید کر دیا گیا جب سے آپ کو شہید ثالث کہا جاتا ہے۔ آپ کا مزار آگرہ میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ ملا عبدالقادر بدایونی: ’’شیعہ مذہب کے پیروکار تھے اور نہایت منصف مزاج، عادل، نیک نفس، حیادار متقی تھے۔ شرفاء کی تمام خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ علم و فن، جدت طبع، تیزی فہم، اور ذہانت و ذکاوت جیسی تمام خوبیوں سے آراستہ تھے۔ ان کی بڑی اچھی اچھی تصانیف ہیں۔ شیخ فیضی کی مہمل بے نقط تفسیر پر انھوںنے سرنامہ لکھا جو حدتعریف سے ماورا ہے۔ شعر گوئی کا طبعی ملکہ ہے نہایت دلکش اشعارکہتے ہیں۔ شیخ ابوالفتح کے توسط سے بادشاہ کی بارگاہ میں رسائی ہوئی تھی۔‘‘ ملا صاحب آگے لکھتے ہیں : ’’انھوںنے لاہور کے شرپسندمفتیوں اور مکار محتسبوں کو جو معلم الملکوت شیطان کے بھی کان کاٹتے تھے۔ سیدھا کر دیا اور رشوت کے دروازے بخوبی بند کر دئے اور ان پر کڑی نگرانی رکھی کہ ان سے بڑھ کر انکا انتظام نہیں کیا جا سکتا تھا۱؎۔‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’آن شہید سعید سید جلیل القدر عالم نبیل قاضی سید نور اﷲ شوستری (شہید ۱۰۱۹ھ) یکی از اعلام قرن دہم و اوائل قرنی یازدہم ہجری است اویکی از اعاظم علمای نامی در عہد صفویہ می باشد کہ در رشتہ ہای فقہ، اصول، حدیث، تفسیر و کلام سر آمد بود۔۲؎‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’السید الشریف نوراﷲ بن شریف بن نوراﷲ الحسینی المرعشی التستری المشہور عندالشیعۃ بالشہید الثالث ولد سنۃ ست و خمسین و تسعمائۃ بمدینۃ تستر و نشاء بھا، ثم سافرالی المشہد و قراء العلم علی اساتذۃ ذالک المقام ثم قدم الہند و تقرب الی ابی الفتح بن عبدالرزاق الگیلانی فشفع لہ عند اکبر شاہ، ؤن گفولاہ القضاء بمدینۃ لاہور فاستقل الی ایام جھانگیر۱؎‘‘ آپ قرآنیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ متعدد حاشیے لکھے اور مختلف آیات قرآنی کی تفسیریں لکھیں۔ حاشیہ تفسیر بیضاوی: انتہائی معلوماتی حاشیہ قلمبند کیا۔ اس کا مخطوطہ دو جلدوں میں کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے، دوسرا نسخہ کتب خانہ شہید مطھری تحت شمارہ ۲۰۹۵ میں محفوظ ہے۔ حاشیہ ثانی تفسیر بیضاوی: مختصر عربی، اس کا نسخہ کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ مختلف آیات کی تفسیریں بھی لکھیں۔ انس الوحید فی تفسیر آیت العدل والتوحید: عربی قلمی۔ ’’شہد اﷲ اَنّہ لا الہ الا ہو‘‘ اس آیت کے ذیل میں علامہ تفتازانی کی جانب سے زمخشری پر کئے گئے اعتراضات کے جوابات دئے ہیں۲؎۔ نیز فخرالدین رازی کے سوالات کے جواب بھی دئیے ۔ صاحب ریاض العلماء لکھتے ہیں کہ اس کا نسخہ میرے پاس موجود ہے۔۳؎ تفسیر انماالمشر کون نجس۔ عربی خطی سحاب المطیر فی تفسیر آیت التطہیر عربی مطبوعہ یہ تفسیر کتب خانہ ناصریہ میں محفوظ ہے۔ رفع القدر فی تفسیر آیۃ شرح الصدر عربی، قلمی یہ تفسیر ایشیاٹک سوسائٹی، بنگال میں موجود ہے۔ بعض آثار علمی: مجالس المومنین، مصائب النواصب، الصوارم المھرقہ، شرح تہذیب الاحکام، حاشیہ برشرح ہدایۃ الحکمۃ، حاشیہ برشرح ملا جامی، حاشیہ بر شرح تجرید، حاشیہ بر قواعد علامہ، شرح بدیع المیزان، اللمعہ فی صلوٰۃ الجمعہ، عدۃ الابرار، نور العین، تحفۃ العقول، عشرہ کاملہ، گوہر شہوار، حاشیہ برشرح مختصرالاصول، حاشیہ بر مطوّل، رسالہ در اثبات مسح رجلین، حاشیہ خطبہ شرح مواقف، رسالہ فی غسل الجمعۃ، رسالہ انموذج، حاشیہ بر تحریر اقلیدس، حقیقت العصمت، حاشیہ برخلاصۃ الرجال، رسالہ فی رکنیۃ السجدتین، شرح دعا صباح، رسالہ در فضیلت عید شجاع وغیرہ۔ شریف الدین شوشتری(م ۱۰۲۰ھ) آپ قاضی نوراﷲ شوستری کے بڑے فرزند تھے۔ یکشنبہ ۱۹؍ربیع الاول ۹۹۰ھ/۱۵۸۲ء کو پیدا ہوئے۔ والد ماجد کے علاوہ آقائی عبداﷲ شوشتری، آقای سید تقی الدین شیرازی سے شیراز میں فقہ اور اصول کا درس لیا۔ شیخ بہاء الدین عاملی سے تفسیر و حدیث اور میرزا ابراھیم ھمدانی سے معقولات کی تعلیم حاصل کی اور اجازے لیے۔ بائیس سال کی عمر میں درجہ اجتھاد پر فائز ہوئے۔ قاضی نوراﷲ شوشتری اپنے اس فرزند سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ ہندوستان آنے کے بعد والد کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ والد کی شہادت کے بعد گیارہ ماہ زندہ رہ کر جمعہ ۵؍ربیع الثانی ۱۰۲۰ھ/۱۶۱۱ء کو آگرہ میں وفات پائی او ر والد کے پاس آسودہ لحد ہوئے۔ حاشیہ تفسیر بیضاوی: یہ علمی اور تحقیقی حاشیہ ہے۔ دیگر تالیفات: حاشیہ مبحث جواہر، حاشیہ قدیم، حاشیہ شرح مختصر عضدی، حاشیہ برشرح مطالع الانوار، رسالہ فی عویصات العلوم۱؎۔ ابوالمعالی،سید(۱۰۴۶ھ) آپ حضرت قاضی نوراﷲشوشتری شہید ثالث کے چوتھے فرزندتھے۔ آپ کی ولادت پنجشنبہ ۳؍ذیعقدہ ۱۰۰۴ھ کو ہوئی آپ نے ہندوستان میں گرانقدر خدمات انجام دیں اور ترویج علوم اہلبیت میں دل و جان سے منہمک رہے۔ عقائد و کلام فلسفہ و الہیات میں ملکہ حاصل تھا اور ادب سے خاص شغف تھا۔ فقہ و اصول کا سلسلہ اکابر علماء عرب سے ملتا ہے۔ شعر گوئی میں اعلیٰ دستگاہ حاصل تھی صاحب دیوان اور علم عروض کے ماہر مانے جاتے تھے۔ آپ کی وفات ۱۰۴۶ھ کو بنگال میں ہوئی۱؎۔ صاحب نجوم السمائ: ’’ازامل الآمل نقل می کند کہ اوفاضل،عالم، حکیم، متکلم سار می باشد و گوید من برخی ازخطوط اورا کہ بہ سال ۱۰۲۶ھ نوشتہ شدہ ا ست دیدہ ام۔اودار ای تالیفات وآثاری است۲؎‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’ابوالمعالی المرعشی شوشتری فرزند قاضی نوراﷲ شہید، درہند یکی ازاعلام تفسیری قرن یازدہم ہجری می باشد۳؎‘‘ صاحب نزہۃالخواطر: ’’الشیخ الفاضل الکبیر ابوالمعالی بن العلامۃ نوراﷲ الحسینی المرعشی احد کبار العلماء لہ مصنفات عدیدۃمنہا انموذج العلوم، ورسالۃ فی العدل وتفسیر علی سورۃ الاخلاص و دیوان الشعر الفارسی، مات سنۃ ست و اربعین و الف بارض بنگالہ۔۱؎‘‘ تفسیرسورۂ اخلاص: علمی اور تحقیقی تفسیر ہے جس میں توحید باری تعالیٰ کو عقلی و نقلی ادلہ کے ذریعہ اس طرح ثابت کیا جو دیگر کتب میں ناپیدہے دیگر تالیفات شرح الفیہ (فقہ) رسالہ نفی رؤیت انموذج العلوم دیوان فارسی۲؎ عبدالحکیم ملا سیالکوٹی(م۱۰۶۷ھ) جناب ملا عبدالحکیم سیالکوٹی، شمس الدین کے فرزند تھے۔ مولانا کمال الدین کشمیری سے کسب علم کیا۔ جامع معقول و منقول تھے۔ جہانگیر بادشاہ کے عہد میں سیالکوٹ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ صاحب ریاض العلمائ: ’’عبدالحکیم سیالکوٹی اکابر اور مشاہیر فضلاء میں تھے۔ زندگی بھر سنی مشہور رہے لیکن مرنے کے بعد جب وہ وصیت نامہ کھولا گیا جو اپنے فرزند ابوالہادی کے نام تھا تو اس میں اپنے شیعہ عقیدہ کا اظہار کیا تھا اور ایک مقفل صندوق میں ایک رسالہ اثبات امامت امیرالمومنین علیہ السلام اور ابطال دلائل مخالفین ان کا تصنیف کیا ہوا ملا۔ نیز شیعہ مذہب کی دوسری کتابیں اسی صندوق میں ملیں۱؎۔‘‘ صاحب تذکرہ علماء ہند رحمان علی: ’’جس وقت شاہ جہاں ولد جہانگیر تخت شاہی پر بیٹھا اور اس کی طرف سے علماء و فضلاء کی قدردانی کی شہرت اطراف عالم میں پہنچی تو ملا موصوف بھی سلطنت عالیہ کے آستانہ تک آکر انعام و اکرام کے فخر کے ساتھ مشرف ہوئے اور شاہ جہاں نے ملا صاحب کی بہت قدر کی دو مرتبہ آپ کو چاندی سے تول کر کل روپیہ آپ کے حوالے کیا دونوں مرتبہ چھ ہزار چھ روپئے ہوئے۔ اس کے علاوہ چند دیہات آپ کو معافی میں دئیے۲؎۔‘‘ سید اطہر عباس رضوی: ’’ملا عبدالحکیم سیالکوٹی اور ایک ایرانی امیر دربار کے درمیان ۹؍ذی الحجہ ۱۰۱۰ھ/۲۳؍نومبر ۱۶۵۰ء کو ایک مباحثہ دربار شاہجہانی میں ہوا شاہ جہاں نے علامی سعداﷲ خاں وزیر کو حکم مقرر کیا تھا موضوع مباحثہ آیۃ ایاک نعبد و ایاک نستعین کے ’’و‘‘ کا معنی تھا ایک طویل مباحثہ کے بعد سعداﷲ خاں نے دونوں فریقوں کو یکساں قرار دیا۱؎۔‘‘ سبحۃ المرجان میں آپ کی تاریخ وفات ۱۸؍ربیع الاول ۱۰۶۷ھ ق اور صاحب تذکرہ علماء ہند نے ۱۶؍ربیع الاول ۱۰۶۷ھ تحریر کی ہے۔ آ پ نے تفسیر بیضاوی پر علمی و تحقیقی حاشیہ تحریر کیا تھا جس کا ایک حصہ شاہجہاں کی خدمت میں پیش کیا ۔ جسے بادشاہ نے بہت پسند کیا۲؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’او حاشیہ بر تفسیر بیضاوی دارد کہ یک جلد ازآن را کہ در رابطہ باجزء اول قرآن مجید می باشد در شہر ہرات رؤیت نمودم کہ بہ سلطان شاہ جہاں تقدیم نمودہ بود۔۳؎‘‘ دیگر آثار علمی: حاشیہ فوائد ضیائیہ حاشیہ مقدمات تلویع حاشیہ مطول حاشیہ شرح مواقف حاشیہ شرح شمسیہ قطبی حاشیہ شرح مطالع الدرالثمینہ فی اثبات الواجب تعالی حاشیہ شرح حکمت العین حاشیہ شرح ہدایت الحکمت حاشیہ مراح الارواح۱؎ حسین بن شہاب الدین العاملی (م ۱۰۷۶ھ) علامہ شیخ حسین بن شہاب الدین بن حسین بن محمد بن حسین بن حیدر عاملی کرکی ۱۰۱۴ھ کے قریب متولد ہوئے۔ ’’کرک‘‘ وطن تھا بزرگ اساتذہ سے کسبِ علم کرکے فقہ ،اصول، تفسیر، حدیث، فلسفہ، منطق، طب میں مہارت حاصل کی ادبیات میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ آقای سید علی مدنی نے سلافۃ العصر اور شیخ حر عاملی نے امل الآمل میں آپکی توصیف بیان کی ہے اور بطور نمونہ آپ کے اشعار بھی نقل کئے ہیں۔ مولانا اعجاز حسین مرحوم نے شذور العقیان میں شیخ حسین کے نام شیخ بہاء الدین عاملی کا اجازہ نقل کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ حسین انکے شاگردوں میں تھے۔ آپ عربی النسل تھے۔ ایران کے شہر اصفہان میں ایک مدت تک قیام کیا پھر حیدر آباد دکن آگئے۔ دکن میں عبد اللہ قطب شاہ کی حکومت تھی۔ عرب و عجم کے علماء عزت و احترام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ بادشاہ آپکا بہت زیادہ خیال رکھتا تھا اور آپکے علم و فضل کا قدرداں تھا۔ شیخ حسین اپنی شگفتہ مزاجی، حاضر جوابی، خوش اخلاقی اورعلمی وجاہت کی وجہ سے مقبول خاص و عام ہوئے آپ نے چونسٹھ سال کی عمر میں دوشنبہ ۱۹؍ صفر ۱۰۷۶ھ؍۱۶۶۵ء کو رحلت کی اور حیدر آباد میں آسودئہ لحد ہوئے۱؎۔ صاحب نجوم السمائ: ’’وی بغایت فصیح اللسان و حاضر جواب و متکلم و حکیم تیز فکر و کثیرالحفظ و عظیم الاستحضار بود سلافۃ العصر اسم و نسب او را باین عنوان آوردہ شیخ حسین بن خاندار شہاب الدین بن حسین بن محمد بن محمد حسین بن خاندار الشامی العاملی الکرکی۔۱؎‘‘ حاشیہ تفسیر بیضاوی: آپ نے مشہور تفسیر قرآن ’’ تفسیر بیضاوی ‘‘ پر انتہائی عالمانہ اور محققانہ حاشیہ لکھا جو دیگر حاشیوں میں ممتاز اور نمایاں ہے جس سے آپکے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ دیگر تالیفات: شرح نھج البلاغہ ھدایۃ الابرار( اصول دین) الاسعاف رسالہ رائقۃ فی طریقۃ العمل عقود الورد فی حل ابیات المطول المختصر حاشیہ المطّول مختصر الاغانی دیوان الشعر (عربی ) کتاب کبیر فی الطب ارجوزۃ فی النحو ارجوزۃ فی المنطق علاء الدولہ شوشتری (م ۱۰۸۰ھ) سید علاء الدولہ قاضی سید نور اﷲ شوشتری کے پانچویں فرزند تھے۔ آپ کی ولادت ۴؍ربیع الاول ۱۰۱۲ھ/۱۶۰۳ء بتائی جاتی ہے۔ والد علام اور بھائیوں سے کسب علم کیا اور ان کے علاوہ مولانا محمد خطاط سے بھی استفادہ کیا۔ اس سبب سے آپ اعلیٰ درجے کے خطاط بھی تھے۔ علوم دین میں فقہ و اصول، تفسیر و حدیث، عقائد و کلام اور ادب نثر و نظم پر ماہرا نہ قدرت رکھتے تھے۔ آقای سید علی طباطبائی نے اپنا معاصر تحریر کیا ہے۔ صاحب تصانیف و تالیفات تھے۔ آپ نے صواعق محرقہ ابن حجر مکی کی رد میں کتاب ’’بوارق الحاطفہ والراعدہ العاصقہ‘‘ لکھی۔ بنا بر قول صاحب کشف الحجب آپ کے صاحبزادے میر محمد علی تھے جنھوںنے سلطان محمد قطب شاہ (متوفی ۱۰۳۵ھ) کے اشارے پر مصائب النواصب کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ سید علاء الدولہ نے حاشیہ تفسیر بیضاوی لکھا جو انتہائی دقیق مطالب کا حامل ہے اس کے علاوہ حاشیہ شرح لمعہ، حاشیہ مدارک اور دیوان اشعار آپ کی علمی یادگار ہیں۔ آپ کی تاریخ وفات معلوم نہیں۔ صاحب مطلع انوار نے تخمینے کے طور پر ساٹھ، ستر کے درمیان عمر تحریر کی ہے جس سے ۱۰۸۰ھ کے لگ بھگ وفات ہوئی ہوگی۱؎۔ علی رضا تجلی(م ۱۰۸۵ھ) ملا علی رضاشیرازی کا شمار جید علماء و فقہا میں ہوتا ہے ۔ آپ آیت اللہ سید حسین خوانساری کے شاگرد اور ان سے اجازہ یافتہ تھے۔ عہد شباب میں ۱۱ جلوس شاہجہانی میںہندوستان تشریف لائے۔ شاہ جہاں نے شاندار استقبال کیا۔ شاہ جہاں آپکے علم و فضل کا قدردان تھا۔ پہلے نظیری نیشاپوری نے گجرات میں رکھا پھر علی مردان خان نے اپنے فرزند ابراہیم خاں کا اتالیق مقرر کیا۔ تمام امراء اور ارکان حکومت بے حد احترام کرتے تھے۔ علی مردان خان کی توجہ سے دہلی،لاہور، کشمیر میں جید علماء جمع ہوئے جن میں ملا سعید اشرف ما زندرانی اور ملا علی رضا تجلی کے نام بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ آپکی محفل ہر وقت علماء اور طلباء سے بھری رہتی تھی اور آپ شب و روز تدریس میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کے نابیناوالد خستہ حال معمولی لباس میں وارد مجلس درس ہوئے۔ مولانا دیکھتے ہی سر و قد تعظیم کو اٹھے دست بوسی کی اور اپنی مسند پر بیٹھایا اور مؤدب ہو کر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ فرمایا میرے والد بزرگوار، تمام مجمع دوڑا اور سب نے انکا احترام کیا۔ مولانا علی رضا گجرات، آگرہ ، دہلی، لاہور سوہدرہ، کشمیر میں سیر و گردش کے بعد اپنے وطن لوٹ گئے۔ وہاں شاہ عباس صفوی نے پذیرائی کی والدۂ شاہ کے مدرسہ میں درس دیتے رہے۔ ۱۰۷۲ھ میں اردکان کے قریب جاگیر ملی لیکن شاہی پابندیوں سے دل برداشتہ ہوکر حج و زیارات کا سفر کیا واپسی میں شیراز آئے اور شیراز ہی میں ۱۰۸۵ھ؍۱۶۷۴ء میں وفات پائی۱؎۔ تفسیر قرآن مجید : یہ تفسیر علمی و تحقیقی ہے ۔ صاحب مخزن الغرائب تحریر کرتے ہیں۔ تفسیر کلام مجید بعبارت فصیح و واضح نوشتہ درمیان ما متد اول است۱؎ ۔ احمد علی خاں سندیلوی: ’’ یہ تفسیر انکے عہد (۱۲۸۱ھ) تک متد اول رہی۔ ان تحریر وں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تفسیر ایک زمانے تک رائج رہی اور اہل علم نے اس سے بھرپور استفادہ کیا۔‘‘ دیگر تالیفات : رسالہ فی المنع من صلٰوۃ الجمعہ حال الغیبۃ رسالہ سفینہ النجاۃ (بحث امامت) رسالہ در رد محمد باقر دیوان نعمت خان عالیؔ، مرزا محمد علی (م ۱۱۲۱ھ) مرزا محمد علی نعمت خان عالیؔ۔ حکیم فتح الدین شیرازی کے فرزند تھے۔ ہندوستان میں متولد ہوئے۔کمسنی میں والد ماجد کے ہمراہ شیراز چلے گئے تھے اوروہیں تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصے بعد ہندوستان واپس آئے تو ملا شفیعائی یزدی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ مولانا مرتضیٰ حسین فاضلؔ کے مطابق آپکی سن ولادت ۱۰۵۰ھ؍۱۶۴۰ء ہے ۔ آپ کی ذات علوم عقلیہ و نقلیہ کی جامع تھی ۔ جس سے متاثر ہو کر بادشاہ اورنگ زیب نے اپنے خاص ملازمین میں شامل کر لیا۔ اورنگ زیب نے جب حیدر آباد فتح کیا تو نعمت خان نے یہ تاریخ کہی۔ از نصرت بادشاہ شاہ غازی گردیددل جہانیان شاد آمد بقلم حساب تاریخ شد فتح بجنگ حیدر آباد اورنگ زیب نے خوش ہو کر خلعت و انعام سے نوازا۱؎ ۔ ۱۱۰۴ھ میں’’ نعمت خان‘‘ کا خطاب ملا اور باورچی خانہ کا داروغہ مقرر ہوئے۔ آخر عہد میں اورنگ زیب نے ’’ مقرب خان‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ اور ’’ جواہر خانہ نگین دولت‘‘ کا داروغہ مقرر کیا۔ شاہ عالم کے زمانے میں ’’ دانشمند خان‘‘ کا خطاب ملا۔ ’’بہادر شاہ نامہ‘‘ لکھ رہے تھے کہ ۱۱۲۱ھ؍۱۷۰۹ء میں رحلت کی اور دائرہ میر مومن حیدر آباد میں دفن ہوئے۔ میر غلام علی آزاد: ’’ حاوی فنون وافر بود و جامع علوم متکاثر۔۔۔۔ مرزا محمد در نظم و نثر قدرت عالی دارد۔ خصوص در وادی نثر طلسم حیرت می بندد۔۱؎‘‘ نعمت خاں کو نثر و نظم دونوں پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ انکی تفسیر قرآن علمی شاہکار ہے جسکا خطی نسخہ راجہ محمود آباد کی لائبریری میں موجود ہے۔ اس تفسیر کا ذکر سید العلماء سید علی نقی نقوی نے مقدمہ قرآن میں بھی کیا ہے۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’ میرزا نور الدین محمد متخلص بہ ’’ عالی‘‘ یکی از اعیان تفسیری ھندستان در قرن دوازدہم ھجری می باشد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسیری است کہ در سال ۱۱۱۲ھ بہ آن آغاز و در سال ۱۱۱۵ھ بہ انجام رساندہ و بہ اورنگ زیب پیشکش و ھدیہ کر دہ است۔۲؎ ‘‘ تفسیر قرآن ج ۱: ’’فارسی زبان میں علمی وتحقیقی تفسیر ہے اس جلد میں سورہ نحل تک کی تفسیر مندرج ہے۔ نسخہ کی جمادی الثانی ۱۲۳۶ھ میں بخظ نسخ کتابت ہوئی۔ ۷۹۶ صفحات میں ہر صفحہ پر ۲۱ سطریں ہیں۔۳؎‘‘ دیگر آثار علمی: د یوان عالیؔ وقائع نعمت خاں عالی جنگ نامہ بہادر شاہ نامہ رسالہ حسن و عشق رقعات و مضحکات منثورات عالیؔ مثنوی نعمت خاںعالی۱؎ صفی الدین بن ولی قزوینی آپ کاتعلق علمی خانواد ہ سے تھا۔ ۱۰۲۹ھ میں کربلا معلی میں متولد ہوئے۔ زیور علم سے آراستہ ہو کر ہندوستان تشریف لائے اور دہلی میں قیام پذیر ہوئے۔ زیب النساء (متوفیٰ ۱۱۱۳ھ/۱۷۰۱ئ) بنت اورنگ زیب شاہ آپ کی علمی جلالت سے بیحد متاثر تھیں انھوںنے آپ سے تفسیر کبیر کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کی۔ آپ نے اسے قبول کیا۔ اور دہلی میں ۱۰۷۷ھ میں اس مفصل تفسیر کے ترجمہ کا آغاز فارسی زبان میں کیا۔ اس وقت آپ کی عمر شریف ۴۸؍سال تھی۔ آٹھ سال کی مدت میں ۹؍جلدیں لکھ کر تفسیر کلام پاک کا ترجمہ مکمل کیا۔ آپ نے زیادہ تر کام کشمیر میں انجام دیا جیسا کہ آخری جلد میں ۱۰۸۷ھ کی تصریح کی گئی ہے۱؎۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’اما زیب التفاسیر فہو ترجمہ التفسیر الکبیر للرازی بالفارسی نقلہ من العربیۃ الی الفارسیۃ الشیخ صفی الدین الاردبیلی ثم الکشمیری بارہا ولذالک سماہ باسمہا۔۲؎‘‘ ابوالحسن تانا شاہ(م ۱۱۱۱ھ) ابوالحسن تاناشاہ کا شمار بارہویں صدی کے اہم محشین قرآن میں ہوتا ہے علم و فضل کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے ۔ طبیعت میں سادگی پائی جاتی تھی۔ حیدرآباد دکن میں چغتائی خانوادے سے تعلق تھا۔آپ کی ذہانت و فطانت اور ہوشمندی سے متاثر ہو کر عبداﷲ قطب شاہ نے اپنی لڑکی کی شادی کر دی۔ قطب شاہ کی وفات کے بعد ۱۰۲۳ھ میں ابوالحسن تاناشاہ تخت نشین ہوئے اور زمام حکومت سنبھالی۔ آپ نے حسن تدبر اور اعلیٰ سیاست کے ذریعہ ملک میں ایک اچھا نظام قائم کیا جس سے رعایا کا اعتماد حاصل ہوا۔ آپ کو علماء اور صالحین کی صحبت کا بڑا شوق تھا۔ ہر وقت ارباب علم سے بحث و مباحثہ میں مصروف رہتے تھے۔ علمی مسائل زیر بحث رہتے تھے۔ آپ کے دور میں علم و ادب کو ارتقاء ملا۔ علماء سے کتابیں لکھوائیں اور ان کی اشاعت کا معقول انتظام کیا ۔ مطالعہ کے لیے کتبخانوں کا قیام عمل میں آیا جس سے عوام میں بھی کتب بینی کا رجحان پیدا ہوا۔ آپ کے دور حکومت کو فروغ علوم کے سلسلے میں زرین دور کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف دشمنوں کے حملوں کا بھی مقابلہ کرتے رہے اورنگ زیب نے زبردست حملہ کیا جس کا جواب تاناشاہ کی فوجوں نے دیا مگر ایک طویل جنگ کے بعد تاناشاہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح قطب شاہی دور کا خاتمہ ہو گیا۔ آپ کے علمی ذوق کا یہ عالم تھا ایسے پر آشوب حالات میں بھی تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ آپ کا علمی کارنامہ تفسیر کشاف پر عربی زبان میں یادگار حاشیہ ہے جو حبیب الرحمن خان شیروانی کے کتابخانہ میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ دیوان اشعار فارسی و اردو ہے۔ بروز جمعرات ۱۲؍ربیع الاول ۱۱۱۱ھ کو قلعہ دولت آباد میں بحالت اسیری رحلت فرمائی۱؎۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’کان تانا شاہ من کبار العلماء رایت حواشیہ علی الکشاف للز مخشری فی خزانۃ حی فی اﷲ ربی العلامۃ حبیب الرحمن الشروانی بقلعۃ ’’حبیب گنج‘‘ من اعمال علیگرہ و کان چغتائیا فی النسب ولد و نشاء بحیدرآباد و قراء العلم ثم لاز م الفقراء والدرویش مدۃ طویلۃ ثم طلبہ عبداﷲ قطب شاہ و زوجہ بابنۃ و اتفق علیہ الناس بعد موت صھرہ لما جمع اﷲ فیہ من حسن الخلق و طلاقۃ الوجہ واتفحص عن اخبار الناس و حسن المعاشرہ بہم فی جمیع الامور۔۲؎‘‘ محمد سعید اشرف،ملا، مازندرانی ( م ۱۱۱۶ھ) آپ ملا صالح مازندرانی (متوفی ۱۰۸۱ھ) کے فرزند اور علامہ محمد تقی مجلسی کے نواسے تھے۔ اصفہان مین ۱۰۵۰ھ؍۱۶۴۰ء کو متولد ہوئے اور وہیں نشوونما ہوئی۔ تعلیمی مراحل میرزا قاضی، آقا حسین خوانساری کے زیر سایہ طے کئے۔ شعر و سخن کا بھی شوق تھا ۔ میرزا صائب کی شاگردی اختیار کی اور شاعر خوش کلام بنے۔ ابتدائے عہد عالمگیری میں ہندوستان آئے اور شاہی ملازمت اختیار کی۔ عالمگیر نے زھد و تقویٰ دیکھکر اپنی بیٹی زیب النساء کا اتالیق مقرر کیا۔ گیارہ سال تک ہندوستان میں رہنے کے بعد عازم وطن ہوئے۔ زیب النساء کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا جسمیںرخصت کی درخواست بھی تھی۔ درخواست منظور ہوئی۔ ۱۰۸۳ھ میں اصفہان گئے کچھ عرصے قیام کے بعد پھر ہندوستان واپس آئے تو پٹنہ شاہزادہ عظیم الشان خلف شاہ عالم بہادر کے پاس پہونچے۔ شاہزادہ موصوف اس زمانے میں وہاں کے حاکم تھے۔ شاہزادہ نے اعزاز و اکرام سے نوازا اور دربار میں جگہ معین کی۔ آخری عمر میں آپنے حج کا ارادہ کیا مونگیر تک پہونچے تھے کہ ۱۱۱۶ھ؍۱۷۰۴ ء میں رحلت فرمائی اور وہیں دفن ہوئے۔ نواب صاحب نے تاریخ وفات کہی ۔ زدھررفت چو ملائے من بن صالح بباغ خلد بنو شید آب پاک از نہر پئے نوادہ ملائے مجلسی گفتم ارم نشین محمد سعید ھادی دھر ۱۱۱۶ھ تفسیر قرآن کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل محمد سعید بن محمد صالح الشیعی المازندرانی کان ابن بنت العلامۃ محمد تقی مجلسی، قدم الہند فی عہد عالمگیر فجعلہ معلماً لبنتہ زیب النساء بیگم فاستقام علی تلک الخدمۃ زمانا طویلا، ثم اشتاق الی بلادہ فانشاء قصیدۃ فی مدح زیب النساء المذکورۃ۱؎‘‘ ترجمہ تفسیر طبری: آپنے تفسیر طبری کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دیگر تالیفات دیوان اول دیوان دوم سفر نامہ حج باتصویر۲؎ میرزا ارجمند (م ۱۱۳۴ھ) آپ کا تعلق کشمیر کی سرسبز وادیوں سے تھا۔ آپ کے والد عبدالغنی کشمیری اپنے عہد کے جلیل القدر شاعر و ادیب تھے۔ میرزا ارجمند، عالم، فاضل، ادیب اور مفسرقرآن تھے۔ تفسیر سورہ یوسف: آپ نے بادشاہ عالم شاہ غازی (عہد۱۱۱۸ھ-۱۱۲۴ھ) کے عہد میں یہ تفسیر لکھی، علمی نکات پر مشتمل ہے۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’میرزا ارجمند پسر عبدالغنی کشمیری شاعر، یکی از مفسران شیعی در قرن دوازدہم می باشد…وی تفسیر سورۂ یوسف را بہ روزگار پادشاہ عالم شاہ غازی نگاشتہ است۔ این تفسیر در خانقاہ احمدی نگہداری می شود۔۲؎‘‘ یہ تفسیر خانقاہ احمدی میں محفوظ ہے۔ اس تفسیر کا ذکر فہرست کے صفحہ ۵۳۰ پر شمارہ ۲ کے تحت کیا گیا ہے۔ مفسر(نا معلوم) تفسیر قرآن: غیر مطبوعہ امامیہ عقائد کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ یہ نسخہ ادارۂ ادبیاب اردو حیدرآباد دکن میں موجود ہے۔ ۱۲۰۰ھ سے ما قبل کی تفسیر ہے۱؎۔ محمد کاظم (۱۱۴۹ھ) مولانا محمد کاظم، عالم، فاضل تھے جناب عبدالحکیم آپ کے والد تھے۔ آپ نے فارسی زبان میں تفسیر لکھی جس کا نام ’’نخبۃ التفاسیر‘‘ ہے۔ اس تفسیر کے سلسلے میں مولانا سید مرتضیٰ حسین فاضل : ’’اس کا ایک نفیس اور نہایت ہی عمدہ نسخہ مصنف کی مہرکے ساتھ کتب خانہ دانش انارکلی لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر ہندوستان میں تحریر کردہ ہے تاہم مصنف کی شرح زندگی کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے۔۱؎‘‘ محمد علی، حزیں لاھیجی (م ۱۱۸۰ھ) شیخ محمد علی حزیں بارہویں صدی کے اہم مفسرین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ شیخ ابوطالب کے فرزند تھے، ۲۷؍ربیع الثانی ۱۱۰۳ھ/۱۹؍جنوری ۱۶۹۲ء اصفہان میں متولد ہوئے ، ملا شاہ محمد شیرازی نے تقریب بسم اﷲ کرائی۔ بچپن سے علم وادب کا شوق تھا علماء اصفہان سے کسب علم کیا والدماجد سے شرح نظام، تہذیب، شرح ایساغوجی، شرح مطالع الانوار، شرح ہدایت الحکمۃ کا درس لیا۔ اس کے علاوہ شرائع الاسلام، معالم الدین، تفسیر صافی کی تعلیم حاصل کی۔ عارف کامل شیخ خلیل اﷲسے روحانی تربیت حاصل کی۔ آیت اﷲ آقای ہادی بن ملا صالح مازندارنی سے تہذیب الاحکام کا درس خارج لیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ ۱۱۳۴ھ میںمحمود نے اصفہان پر حملہ کیا حزیں تین ماہ تک خانہ نشین رہے خوانسار سے خرم آباد آئے۔ بیماری اور پریشان حالی کے باوجود طلباء کے اصرار پر تفسیر بیضاوی اصول کافی، اور شرح اشارات کا درس دینا شروع کیا اور دو سال تک پڑھاتے رہے۔ اتنے میں ترکوں نے حملہ کر دیا ، ایران ایک اور زلزلہ سے دوچار ہو گیا۔ ان ہنگاموں میں صفویوں کی حکومت ختم ہو گئی۔ امرائ، علمائ، حکمائ، سب مارے گئے۔ خرم آباد دشمن کی زد میں آگیا۔ حزین نے ہمدان کا رخ کیا راستہ میں رومیوں نے گرفتار کر لیا۔ ممکن چوٹیں کھا کے بچ نکلے ہمدان پہنچے تو شہر لاشوں سے پٹا پڑا تھا۔ اس طرح مختلف شہروں میں سرگرداں رہے کہیں سکون نہ ملا غرض کہ یکم شوال ۱۰۶۴ھ/۲۴؍فروری ۱۷۳۴ء ٹھٹھہ پہنچ گئے دو ماہ قیام کے بعد ملتان گئے۔ ملتان میں سیلاب اور اس کے بعد وبا پھیلی تو آپ بھی زد میں آگئے۔ غموںسے نڈھال یہاں کے حالات اور وطن کی یاد میں پریشان، نہ کوئی نوکری ، نہ کوئی ساتھی مجبوراً لاہور کا راستہ اختیار کیا تین ماہ میں رو بصحت ہوئے تو دہلی کا سفر شروع کیا۔ دہلی میں ایک سال رہ کر ہمت جواں ہوئی اورمشہد کے لیے کمربستہ ہوکر لاہور آئے تو نادرشاہ کے حملے اور راستوں کے خطرے معلوم ہوئے مجبوراً لاہور سے سرہند آئے اور وہاں سے دہلی واپس چلے گئے۔ ہندوستان میں مخالفین سے مقابلہ رہا کئی شہروں میں قیام کے بعد بنارس پہنچے اس وقت شجاع الدولہ اور راجہ بنارس سے معاہدہ ہو رہا تھا وہاں ایرانی و ترک امراء کی چشمک بھی نہیں تھی لہٰذا بنارس میںقیام کو بہتر سمجھا۔ بنارس میں شہر سے باہر ایک شاندار مکان باغ اور فاطمان نام کا حسینیہ بنوایا وہاں خوشحالی کی زندگی گذارنے لگے۔ نواب شجا ع الدولہ ان سے ملنے بنارس گئے گویا حزیں بنارس میں مرکز عقیدت بن گئے اور بنارس علم و معرفت، شیعہ عقائد و اعمال سے منور ہو گیا۔ حزیں نے بنارس میں درس تو جاری نہیں کیا مگر ان کی علمیت اور ذوق شاعری اور پرہیزگاری، عبادت و ریاضت کے سبب عقیدت مندوں کی بھیڑ رہتی تھی۱؎۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل محمد علی بن ابی طالب بن عبداﷲ بن عطاء اﷲ الشیعی الاصفہانی المتلقب فی الشعر بالحزین کان من الشعراء المفلقین ولد لثلاث بقین من ربیع الآخر سنۃ ثلاث و مائۃ والف باصفہان و قراء العلم علی والدہ و علی کمال الدین حسن الفسائی و عنایۃ اﷲ الگیلانی والسید حسن الطالقانی و محمد طاہر بن ابی الحسن القائنی۲؎‘‘ وفات: ۱۱؍جمادی الاول ۱۱۸۰ھ/۱۷۶۶ء کو رحلت کی اور فاطمان بنارس میں محو آرام ہوئے۔حزیں کو قرآنیات میں گہری مہارت حاصل تھی انھوںنے تفسیر قرآن اور علوم قرآن سے متعلق کئی کتابیں تحریر کیں۔ تفسیر شجرۃ الطور فی شرح آیت النور: سورہ نور کی ۳۵آیت ’’‘اﷲ نورالسموات والارض۔۔۔واﷲ بکل شی علیم‘ کی عربی تفسیر ہے جو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی لکھتے ہیں: ہندوستان میں اس کے دو قلمی نسخے موجود ہیں۔ ایک رامپور رضالائبریری میں دوسرا انڈیا آفس میں۔ رضا لائبریری والے نسخے کا آغاز: ’’نحمدک یا نور النور و نور مافوق نور و نصلی علی نبیک المحبور محمد و آلہ فی البطون والظہور‘‘ انڈیا آفس والے نسخے کا آغاز: ’’قال اﷲ سبحانہ و تعالی اﷲ نور السموت والارض۔۔۔۔ واﷲ بکل شی علیم اﷲ نورالسموت والارض ای اﷲ ظاہر فی السموات والارض وما فیہا و ما بینھا بذاتہٖ ووجودہ‘‘ خاتمہ : ’’محمد المشتہر بعلی بن ابی طالب بن عبداﷲ بن علی الزاہدی الجیلانی فی عام الاربعین بعد المآۃ والالف من الہجرۃ المبارکۃ حین اقامتی بمشہد طوس مولای رضا علیہ التحیۃ الثناء حامداﷲ وحدہ۱؎‘‘ تفسیر سورۃ الاخلاص: ۔ علمی و تحقیقی تفسیر ہے۲؎۔ تفسیر سورہ حشر: ۔ (فارسی)۳؎ تفسیر سورہ دہر: ۔ (فارسی)۴؎ ان کے علاوہ علوم قرآن سے متعلق بھی تالیفات ہیں۔ خواص السورو الآیات: یہ کتاب نجف اشرف میں قیام کے دوران تحریر کی۔ الناسخ والمنسوخ فی القرآن۵؎: ۔ فضائل القرآن: ۔ (عربی)۶؎ تجوید القرآن: ۔ (عربی) آپ کی تالیفات کی طویل فہرست ہے جسے ہم نے اپنی کتاب ’’تالیفات شیعہ‘‘ میں مفصلاً ذکر کر دیا ہے۔ ذاکر علی جونپوری(م ۱۲۱۱ھ) مولانا ذاکر علی کا شمار تیرہویں صدی کے نامور مفسرین قرآن میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق مفتی ابوالبقاء کے خانوادے سے تھا۔ جونپور میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خاندان کے علماء سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم مولانا عبدالعلی خاں، ملا سید محمد عسکری مرحوم جیسے جیداساتذہ سے حاصل کرکے علوم عقلیہ ونقلیہ میں مہارت حاصل کی۔ ایک مدت تک لکھنؤ میں قیام کیا۔آخر عمر میں جونپور چلے گئے ۲۳؍محرم سہ شنبہ ۱۲۱۱ھ کو رحلت کی اور مفتی محلہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۱؎۔ آپ نے قرآن مجید کی بعض آیات کی علمی و تحقیقی تفسیر تحریر فرمائی جس کا نام ’’ذریعۃ المغفرت‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ شرائع الاسلام کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’او از علماء نامور آن جونپور سلسلہ نسبش بہ مفتی ابوالبقاء می پیوندند در اکتساب علوم آغاز از ملا محمد عسکری نمودہ و از مولوی عبدالعلی خاں بیایان رسانیدہ در جمیع علوم متعارفہ عالم مستحضر و از دانایان روزگار بود بالخصوص در علم نحو و صرف زیادہ تر دستگاہ داشت۔ چندیں سال باستادی رفیع الدرجات ویلی صاحب ر زیڈنٹ لکھنو مامور بود۲۔‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل ذاکر علی الحسینی الشیعی الجونفوری، کان من نسل المفتی ابی البقاء بن محمد درویش الحسینی الواسطی، ولد ونشاء بجونفور، وقراء بعض الکتب الدرسیۃ علی السید محمد عسکری الجونفوری و اکثر ہا علی عبدالعلی بن علی عظیم، ثم جعل معلمالمستر ویلی سفری الانکلیز ببلدۃ لکھنو، فخدمہ مدۃ طویلۃ ثم اعتزل عنہ و رجع الی بلدۃولہ ترجمۃ شرائع الاسلام بالفارسیۃ ولہ ذریعۃ المغفرۃ کتاب لہ فی تفسیر بعض آیات القرآن وہو ایضاً بالفارسیۃ۔۱؎‘‘ قطعہ تاریخ میر ذاکر علی پاک سرشت زین جہان سوی خلد کرد خرام قدسیاں سال رحلتش گفتند بہ ارم رفت عالم اعلام ۱۲۱۱ھ غلام مرتضیٰ فیض آبادی(حیات در ۱۲۱۲ھ) مولانا سید غلام مرتضیٰ فیض آبادی کا شمار عہد نواب آصف الدولہ کے ممتاز علماء میں ہوتا ہے۔ مولانا کو ادب پر عبور حاصل تھا۔ آپ نے نواب آصف الدولہ کی فرمائش پر قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کیا ۔ نواب آصف الدولہ کا عہد حکومت ۱۷۷۵ء تا ۱۷۹۷ء کی مدت پر محیط ہے اور یہ زمانہ تمدنی، تہذیبی اور معاشرتی ارتقاء کے لحاظ سے اودھ کا سنہری دور کہے جانے کا مستحق ہے۔ اس زمانہ میں فنون لطیفہ کے تمام دبستانوں نے اودھ میں ترقی کی۔ میر حسین عطا خاں تحسین نے ۱۷۸۱ء ’’نوطرزمرصع‘‘مکمل کی شاہ کمال نے اردو کا ضخیم ترین تذکرہ بھی اسی عہد میں ترتیب دیا۔ میر حسن نے اردو کی شہرۂ آفاق مثنوی’’سحرالبیان‘‘ بھی اسی عہد میں لکھی اور اسی زمانہ میں مولانا سید غلام مرتضیٰ فیض آبادی نے قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کیا۱؎۔ احمد آقا بہبہانی (حیات در ۱۲۲۳ھ) آقا احمد بن محمد علی بن آقا باقر ۱۱۹۱ھ/۱۷۷۷ء میں متولد ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں قرآن مجید اور ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ مقدمات کی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔ پندرہ سال کی عمر میں تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ سب سے پہلے فوائد حمیدیہ کا حاشیہ لکھا۔ ۱۲۱۰ھ میں عراق گئے اور آقا ملا محمد اسماعیل یزدی اور شیخ مہدی سے معالم الاصول کا درس لیا۔ اور ان کے دروس کو ضبط تحریر میں لائے۔ آپ جامع معقول و منقول تھے۔ فقہ و اصول کے علاوہ تفسیر کا بھی گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ آپ نے ۱۲۲۳ھ میں حیدرآباد دکن اور عہد نواب سعادت علی خاں میں لکھنؤ، فیض آبادو فرخ آباد کا سفر کیا۔ نواب بہو بیگم صاحبہ کی سرکار میں معزز تھے۔ قیام لکھنؤ و فیض آباد کے دوران نمایاں طور پر تبلیغی امور انجام دئیے۔ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کی تفسیر لکھی۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل احمد بن محمد بن باقر الشیعی البھبھانی الا صفہانی احد الرجال المشہورین، ولد بکرمانشاہ فی محرم سنۃ احدی و تسعین و مائۃ والف و قراء النحو والعربیۃ والمنطق و الحکمۃ علی جماعۃ من الاعلام، ثم تفقہ علی والدہ ولازمہ الی سنۃ عشر و مائتین والف ثم سارا الی النجف و قراء ’’معالم الاصول‘‘ علی الشیخ اسماعیل الیزدی قراء ۃ بحث و اتقان و قراء ’’الاستبصار‘‘ علی جعفر النجفی۱؎‘‘ نورالانوار تفسیر بسم اﷲ : یہ تفسیر علمی و تحقیقی تفسیر ہے جس میں ہر ہر لفظ کی تشریح محققانہ انداز میں کی گئی ہے۔ دیگر آثار علمی: درر الغرر فی الاصول الاحکام الھیہ، شرح مختصر النافع، رسالہ قوت لایموت، جواب مسایل مرشدآباد، ربیع الازہار، تحفۃ المحبین، تحفۃ الاخوان، تنبیہ الغافلین، کشف الرین۱؎ نجف علی خاں،دہلوی(متولد ۱۲۴۰ھ) مولانا سید نجف علی خاں ۱۲۴۰ھ کو دہلی میں متولد ہوئے۔ آپ کا تعلق علمی خانوادہ سے تھا۔ آپ کے چھوٹے بھائی مولانا سید غضنفر علی خاں بھی جید عالم تھے۔ مولانا نجف علی نیک سیرت نیک کردار اور اعلیٰ اخلاق پر فائز تھے۔ زہد و تقویٰ میں بے مثال آپ کو تصنیف و تالیف کا شوق جوانی سے تھا۔ سو سے زائد کتابوں کے مؤلف ہیں۔ آپ کی بیشتر کتابیں عربی و فارسی میں ہیں اور اہم موضوعات پر مشتمل ہیں۔ تفسیر غریب القرآن: صاحب تذکرہ علماء امامیہ پاکستان نے آپ کی تالیفات میں ’’تفسیر غریب القرآن‘‘ کا ذکر کیا ہے جو فارسی زبان میں تحقیقی اور تاریخی تفسیر ہے۔ دیگر تالیفات: سحر الکلام شرح مقامات حریری بے نقطہ (عربی) فتوحات چغمینی (فارسی) ترجمہ صواعق محرقہ ابن حجر مکی (فارسی) مجموعہ لغات بے نقطہ (عربی) شرح حماسہ(فارسی) شرح قصیدہ بردہ (فارسی) شرح سبعہ معلقات (فارسی) درۃ التاب شرح منیہات بن حجر عسقلانی (منظوم فارسی)۱؎ ابراہیم،سید(طبع ۱۲۴۰ھ) تیرہویں صدی کے ممتاز مترجم قرآن مولانا ابراہیم، مرزا ابو علی خان اصفہانی کے فرزند تھے۔ جامع معقول و منقول تھے۔ آپ نے نواب حامد علی خانصاحب والیٔ رامپور کی فرمائش پر قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو پہلی بار ۱۲۴۰ھ میں مطبع مولوی محمد باقر، دہلی سے شائع ہوا۱؎۔ وزیر علی(تالیف ۱۲۵۰ھ) آپ نے ’’تفسیرالقرآن‘‘اردو زبان میں لکھی اس تفسیر میں لغات قرآن بھی حل کی گئی ہیں۔ اس کا خطی نسخہ کتاب خانہ آصفیہ حیدرآباد دکن میں موجود ہے۔ ۳۳۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر ورق پر ۱۳سطریں ہیں۔ خط نستعلیق ہے۔ ۱۲۵۰ھ میں تالیف ہوئی۔ ۱۲۷۳ھ میں اس کی کتابت ہوئی۱؎۔ یاد علی نصیرآبادی(م ۱۲۵۳ھ) تیرہویں صدی کے نامور مفسر قرآن مولانایاد علی نصیرآبادی کا تعلق آیۃ اﷲ سید دلدار علی غفرن مآب کے علمی و ادبی خانوادے سے تھا۔ آپ کی ولادت نصیرآباد جیسی مردم خیز سرزمین پر ہوئی۔ مختلف اساتذہ سے کسب فیض کیا مگر حضرت آیۃ اﷲ غفرانمآب سے خصوصی تلمذ رہا۔ آپ نے غفرن مآب علیہ الرحمہ سے فقہ و اصول کا درس لیا اور اعلیٰ استعداد حاصل کی۔ قواعد علامہ حلی پڑھنے کے بعد آپ کو اجازہ عطا کیا۔ غفرانمآب کو اپنے اس شاگرد پر بڑا ناز تھا۔ لکھنؤ میں رومی گیٹ کے پاس آپ کا مکان تھا اور وہیں طلباء کو منقولات و معقولات کا درس دیتے تھے۔ بڑی تعداد میں طلباء نے آپ سے استفادہ کیا اور وہ علوم جو آپ نے حضرت غفرانمآب سے حاصل کئے تھے طلباء تک منتقل کئے۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے کامل انسان تھے اور اپنے استاد مکرم کی بولتی تصویر تھے۱؎۔ کتاب حصن متین میں ذکر تلامذۂ غفران مآب میں آپ کے بارے میں تحریر ہے ’’و منہم السید یاد علی کان من اقرباء السید العلامۃ طاب ثراہ عالماً کاملاً فقیہاً جیدًا محققاً مدققاً۲؎‘‘ آپ کا علمی کارنامہ تفسیر قرآن مجید موسوم بہ منہج السداد (فارسی) دو جلدوں میں ہے۔ اس تفسیر کے بارے میں سید مہدی عظیم آبادی تذکرۃ العلماء المحققین میں رقمطراز ہیں: ’’تفسیر مبسوط بزبان فارسی از تصانیف او بنظر حقیر الکثیر التقصیر رسید چند سال است کہ وفات یافت۔۱؎‘‘ یہ تفسیرعلمی نکات کی حامل ہے۔ آیات قرآنی کو عالمانہ انداز سے حل کیا ہے۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’مؤلف تفسیر منہج السداد، مرحوم سید یاد علی نصیرآبادی یکی از اعیان تفسیری قرن سیزد ھم ہجری می باشد۔ تفسیر او در کتاب کشف الحجب والاستار عن الکتب، معرفی شدہ است۔۲؎‘‘ صفدر علی رضوی، دہلوی(م ۱۲۵۳ھ) تیرہویں صدی کے ممتاز مفسر قرآن مولانا صفدر علی کا تعلق فیض آباد کے معزز خاندان سے تھا۔ آپکے والد حیدر علی رضوی دیندار اور مذھبی بزرگ تھے۔ مولانا صفدر علی صاحب محمد علی شاہ اودھ کے زمانے میں اہل علم و فضل میں شمار کئے جاتے تھے۔ آپ نیک کردار اعلی اخلاق اور پاک سیرت کے حامل تھے۔ تفسیر احسن الحدائق ـ: سورہ یوسف کی تفسیر ہے جو فارسی زبان میں ہے۔ یہ نسخہ جناب علی اکبر صاحب مالک پاک کارپٹ کراچی کے پاس محفوظ تھا۔ یہ تفسیر محمد علی شاہ اودھ کی تخت نشینی کے سال شنبہ ۴ ربیع الثانی ۱۲۵۳ھ کو فیض آباد میں لکھی تھی۔ جناب سید علی اکبر رضوی کا مملوکہ نسخہ ۲۹ جمادی الثانی ۱۲۹۱ھ کا مخطوطہ ہے ۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’سید صفدر علی بن سید حیدر علی رضوی دہلوی، یکی از اعیان تفسیری ہندوستان در قرن سیزدہم ہجری می باشد۔ مؤلف محترم آن یکی از مجتہدین متمکن ہندوستان بودہ است۔ و در فیض آباد می زیستہ است۔ در سال ۱۲۵۳ھ درگذشتہ است تفسیر او بہ نام ’’احسن الحدائق‘‘ پیرامون سورہ یوسف می باشد۲؎‘‘ اس کا نسخہ بانکے پور میں محفوظ ہے۔ آپ کی وفات ۱۲۵۳ھ میں ہوئی۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل صفدر علی بن حیدر علی الحسینی الدہلوی ثم الفیض آبادی کان من العلماء المشہورین فی الشیعۃ لہ ’’احسن الحدائق‘‘ فی اربعین کراسۃ فی تفسیر ’’سورۃ یوسف‘‘ صنفہ سنۃ ثلاث و خمسین و مائتین و الف۱؎‘‘ علی، سید،بن غفرانمآب(م ۱۲۵۹ھ) تیرہویں صدی کے مایہ نازمفسر قرآن حضرت مولانا سید علی، آیۃ اﷲ سید دلدار علی غفرانمآب کے فرزند تھے۔ ۱۸؍شوال المکرم ۱۲۰۰ھ کو لکھنؤ میں متولد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانوادے کے جید علماء سے حاصل کی نہائی دروس کے لیے عازم عراق ہوئے۔ ۱۲۴۵ھ میں کربلائے معلی پہنچے۔ علماء اعلام نے بڑی تعظیم و تکریم کی آیۃ اﷲ سید کاظم رشتی نے گرانقدر اجازہ سے نوازا۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد تبلیغ دین اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے۔ ۱۲۵۶ھ میں دوبارہ عازم سفر ہوئے خراسان ہوتے ہوئے عراق پہنچے اور کربلا میں ۱۸؍رمضان ۱۲۵۹ھ میں رحلت فرمائی اور روضہ امام حسین علیہ السلام میں آقای سید علی طباطبائی کے پہلو میں آسودۂ لحد ہوئے۱؎۔ مولانا سید اعجاز حسین کنتوری صاحب نے آپ کے بارے میں تحریر فرمایا: ’’الامام الہمام السید السند مولانا السید علی بن آیت اﷲ فی العالمین مولانا السید دلدار علی النصیر آبادی کان عالماً فاضلاً خبیراً بالمعانی والبیان و اقضا علی الفروع و تفسیر القرآن قاریاً صالحاً متدیناً۲؎‘‘ صاحب ورثۃ الا نبیائ: ’’در فضل و تقدس یکتای زمان بود۔ و ہمیشہ مصروف مواعظ و ہدایت خلائق و اقامت جماعت بودہ وعظ آنجناب کہ در غایت خوش بیانی بود تاثیری عظیم در قلوب مردم داشت جمال باکمال از ناصیہ منورہ اش تابان بود و لمعہ تقویٰ و مروت از جبین مقدسش درخشاں در محاسن اخلاق و محامد صفات و اعانت محتاجان و اکرام مومنان و در اکثر فضایل شہرۂ آفاق بودہ بشری ملکی صورت و عالمی قدسی سیرت بودہ در جود و سخاوت و صلاح و مروت مرتبہ عالی داشت۱؎‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل علی بن دلدار علی بن محمد معین الشیعی النقوی اللکھنوی احدالعلماء الشیعۃ ولد لثمان عشرہ خلون من شوال سنۃ مائتین والف بمدینۃ لکھنو و قراء العلم علی والد۔ و تفقہ علیہ، فدرس و افاد زماناً بلکھنو ثم سافرالی العراق سنۃ خمس و اربعین فدخل کربلا ادرک بھا علماء العراق فاجازہ السید کاظم الرشتی و رجع الی الہند سنۃ ست و اربعین و مکث ببلدۃ لکھنو مدۃ، ثم سافرالی العراق سنۃ ست و خمسین و زار مشہد الرضا بخراسان ثم رحل الی کربلا و مات بھا۔ ومن مصنفاتہ ترجمۃ القرآن بالہندیۃ فی مجلدین وقد طبع فی عہد امجد علی شاہ۲؎‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’التوضیح المجید فی تنقیح کلام اﷲ الحمید‘‘ این تفسیر شریف در سال ۱۲۵۳ھ جھت سلطان امجد علی شاہ بہ زبان اردو تالیف، و در ہندوستان در دو مجلد بہ چاپ رسیدہ است۔۱؎‘‘ آپ نے اردو زبان میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی جو آپ کا شاہکار ہے۔ تفسیر توضیح المجید فی تنقیح کلام اﷲ الحمید یہ تفسیر ۱۲۵۳ھ/۱۸۳۷ء میں ۔ ثریاجاہ امجد علی شاہ کی فرمائش پر تحریر کی جس کا ذکر مقدمہ میں کیا ہے اور بادشاہ اودھ کی نظم و نثر میں تعریف کی۔ یہ تفسیر اپنی مخصوص صنعت کے سبب ’’تفسیر زبروبینہ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ تفسیرسات جلدوں میں ہے جلد اول، سورۂ بقرہ تا سورۂ نساء ۶۸۲ صفحات جلد دوم، سورۂ مائدہ تا سورۂ توبہ ۳۰۴ صفحات جلد سوم، سورۂ یونس تا سورۂ نحل ۳۰۸ صفحات جلد چہارم، سورہ بنی اسرائیل تا سورۂ فرقان ۲۹۳ صفحات جلد پنجم، سورۂ شعراء تا سورۂ یٰس ۲۱۸ صفحات جلد ششم، سورۂ صافات تا سورۂ حجرات ۲۰۰ صفحات جلد ہفتم ،سورۂ ق تا سورۂ والناس ۴۴۲ صفحات یہ تفسیر بعد میں دو جلدوں میں بھی شائع ہوئی۔ تفسیر مذکور ۱۲۵۷ھ میں شائع ہوئی جیسا کہ قطعۂ تاریخ اور مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہوتا ہے۔ ’’توضیح مجید تفسیر فرقان حمید بزبان اردو عام فہم‘‘ قطعہ تاریخ وقف تفسیر ہندی ’’حامی مذہب آئمہ معصومین صلوٰۃ اﷲ علیھم اجمعین مجتہدالعصر والزماں اعنی جناب سید علی صاحب کہ بہ فرمائش آیۂ رحمت ذوالجلال سورۂ فتح و اقبال ابوالمظفر ثریا جاہ سپھر شکوہ بھادر دام اقبالہ تصنیف فرمودہ بودند در ۱۲۵۷ھ حلیہ طبع پوشیدہ بر مومنان وقف شد‘‘ قطعۂ تاریخ نواب مقبول الدولہ مقبولؔ ولی عہد فیاض زماں است نمود اکثر کتب بر اہل دیں وقف چو ایں تفسیر مطبوع جھان است لھذا گشت بر اہل زمیں وقف چو خاص و عام از وے بھرہ یابند جھاں خوشنود شد از ہم چنیں وقف ز امداد حسین ایں امر خیر است شد از تحریک او این طبع و این وقف قبول از بہر سال وقف بنویس بود تفسیر بہر طالبین وقف۱؎ ۱۲۵۷ھ نمونۂ ترجمہ سورہ انا انزلنا ’’بدر ستیکہ نازل کیا ہم نے اس کو بیچ شب قدر کے، اور کیا جانا تونے کہ کیا ہے شب قدر؟ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے، نازل ہوتے ہیں ملائکہ اور جبرائیل بیچ اس کے، ساتھ حکم پروردگار اپنے کے ہرا مرسے سلامتی ہے اس شب میں تااینکہ صبح طلوع ہو‘‘ سورۂ والناس کا ترجمہ ’’کہہ تو پناہ مانگتا ہوں میں ساتھ پروردگار آدمیوں کے بادشاہ مردمان کے معبود مردمان کے شر سے دیووسوسہ کرنے والے کے ایسا کہ وسوسہ ڈالتا ہے بیچ سینہ ہائے آدمیوں کے جنات اور آدمیوں سے۔‘‘ مذکورہ ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور کے لحاظ سے زبان انتہائی سادہ و سلیس استعمال کی گئی ہے اور تفسیر میں احادیث ائمہ علیھم السلام سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر اردو زبان میں پہلی تفسیر ہے کیونکہ اس سے قبل اردو ترجمے تو کئے گئے مکمل تفسیر نہیں لکھی گئی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی : ’’جہاں تک مجھے علم ہے یہ اردو زبان میں قرآن مجید کی پہلی تفسیر ہے قرآن پاک کے تراجم تو اردو میں اس سے پہلے بھی ہو چکے تھے۔ لیکن اردو میں تفسیر اور اتنی ضخیم تفسیر یہ پہلی ہی ہے اور اپنی اس خصوصیت کے اعتبار سے کہ اس میں آیات قرآن کے اعداد بہ حساب زبر اور بہ حساب بینہ نکال کے انھیں کے ہم عدد عبارتوں سے تفسیر کی گئی ہے۔ شاید یہ دنیائے اسلام میں اپنی آپ مثال ہے۔ عربی، فارسی اور اردو میں قرآن پاک کی سینکڑوں تفسیریں موجود ہیں اور ان میں سے بعض اپنی خصوصیات کے اعتبار سے بے حد شہرت رکھتی ہیں۱؎۔‘‘ زبر و بینہ کا نمونہ: اہل الذکر۔ اس میں آٹھ حروف ہیں بینات اس کے چار سو سولہ ہوتے ہیں۔ مطابق اس کے یہ عبارت نکلی المصطفیٰ و ابن ابی طالب و اٰ لہ ل ف ا ا م ل ف ا م ا ل ۳۰ ۸۰ ۱ ۱ ۴۰ ۳۰ ۸۰ ۱ ۴۰ ۱ ۳۰ ۱ ف ۱ ۱ ۸۰ ۱ = ۴۱۶ المصطفیٰ و ابن ابی طالب و آلہ ا ل م ص ط ف ی و ا ب ن ۱ ۳۰ ۴۰ ۹۰ ۹ ۸۰ ۱۰ ۶ ۱ ۲ ۵۰ ا ب ی ط ا ل ب و ا ل ہ ا ۲ ۱۰ ۹ ۱ ۳۰ ۲ ۶ ۱ ۳۰ ۵ =۴۱۶ لہٰذا یہ تفسیر اپنے فن کے اعتبار سے منفرد ہے مگر افسوس ہے کہ کم ہی لوگ اس سے آشنا ہیں۔ دیگر آثار علمیـ: رسالہ مبحث فدک اثبات متعہ رسالہ قرأت تردید اخباریین جواز عزاداری تجوید۱؎ محمد حسین(کتابت ۱۲۵۹ھ) تیرہویں صدی کے ممتاز مفسر قرآن مولانا محمد حسین جامع معقول و منقول، جیدالاستعداد عالم دین تھے۔ آپ کے والد کا نام محمد باقر ۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا شوق تھا علمی شاہکار تفسیر قرآن ہے۔ خلاصۃ التفاسیر: ڈاکٹر محمد سالم لکھتے ہیں: یہ تفسیر عربی زبان میں معلوماتی تفسیر ہے اس کا دوسرا حصہ کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے جو ۲۸۴ صفحات پر مشتمل ہے جس کی تاریخ کتابت ۱۲۵۹ھ ہے۔ پہلے صفحہ پر علامہ سید محمد قلی کی مہر ثبت ہے اور ایک مختصر عبارت فارسی میں لکھی ہے۔ ابتدائی عبارت: ’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی الحمدﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین و آلہ الطیبین الطاہرین المعصومین‘‘ یہ نسخہ سورۂ مریم سے شروع ہو کر سورہ حمٓ السجدہ کی اس آیت پر ختم ہوتا ہے فلنذ یقنّ الذین کفروا عذاباً شدیداً و لنجزینہم اسوا الذی کانوا یعملون اسلوب تفسیر: کسی بھی سورہ کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے اس سورہ سے متعلق تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ پہلے سورہ کا نام پھر آیات کی تعداد پھر مکی یا مدنی کی تفریق، کلمات کی تعداد، حروف کی تعداد اور سورہ کی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورہ مریم کی تفسیر میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں ۹۸ آیات ۹۶۲الفاظ اور ۳۸۰۲ حروف ہیں پھر اس کے فوائد اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ مشکل آیات کی توضیح و تشریح کی گئی ہے۔ عبارت آرائی، لغوی بحثوں سے گریز کیا گیا ہے۔ البتہ اگر کوئی ضروری بات کسی آیت یا سورہ سے متعلق ہے تو اسے حاشیہ پر بیان کیا گیا ہے اور جہاں مناسب سمجھا اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کر دیا ہے۔ اس تفسیر کا مقصد صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں جو مشکل مقامات یا الفاظ ہیں ان کی ضروری تشریح کر دی جائے۔دوسری تفسیروں سے بہت کم جگہوں پر مدد لی گئی ہے۱؎۔ محمد قلی،مفتی کنتوری (م ۱۲۶۰ھ) تیرہویں صدی کے گرانقدر مفسر قرآن مفتی محمدقلی، سید محمد حسین طاب ثراہ کے فرزند تھے جو اکابر متکلمین واجلہ علماء اعلام میں سے تھے۔ آپ کی ولادت بروز دو شنبہ وقت صبح صادق ۵؍ذیقعدہ ۱۱۸۸ھ/۱۷۷۴ء میں ہوئی۔ اپنے زمانے کے افاضل سے علوم دینی اور معارف اسلامی حاصل کیے، بالخصوص حضرت غفران مآب علیہ الرحمہ سے کسب فیض کرکے اکثر علوم و فنون میں بے نظیر محقق اور دقیقہ شناس عالم خاص کر علم کلام میں مشہور ہوئے۔ صاحب تذکرۃ العلماء : ’’ہم از جملہ ایشان بود مدقق محقق، فاضل لوذعی سید جلیل المعی مولوی سید محمد بن محمد بن حامد کنتوری مشہور بہ سید محمد قلی کہ یکہ تاز معرکہ، فضل و کمالات و مناظر میدان بمناظرات و مباحثات بود، تصانیف انیقہ اش بہ نصرتش مذہب حق را دلیلی است ساطع و برہانی است قاطع۔ اکثر کتب در سیہ را بفکرو مطالعہ خود بر آورد بہ غایت ذکی الطبع و جدید الذہن بود۔ ‘‘ مفتی صاحب مدتوں میرٹھ میں منصب عدالت پر متمکن اور وہاں کے مفتی رہے۔ اسی زمانہ مں احکام قضا و فتویٰ شرائط قاضی و مفتی پر مشتمل ’’عدالت علویہ‘‘ نامی کتاب لکھی جو آپ کے عدل واحتیاط پر شاہد ہے۔ آخر عمر میں لکھنؤ آکر مقیم ہو گئے اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوئے۔ آپ کو حدیث، رجال تاریخ و مناظرہ کے علاوہ تفسیر قرآن پر اعلیٰ قدرت حاصل تھی ۔ وسعت نظر، دقت تحقیق اور اسلوب عبارت میں مفتی صاحب یگانہ روزگار تھے اور بر صغیر میں فن مناظرہ کے مجدد تھے۔ علماء کرام نہایت احترام سے آپ کا ذکر کرتے اور گرانقدرالقابات سے نوازتے تھے۔ مولانا سبحان علی خانصاحب بریلی: ’’ابرمدرار عنایت، بحر زخار رافت، محیط معقول و منقول حاوی فروع و اصول مولوی صاحب مخدوم نیاز کیشاں نحریرزماں دام مجد کم۔‘‘ صاحب ریحانۃ الادب: ’’او را بہ عنوان فرد بسیار متبع محقق، جامع، معقول و منقول، متکلم جدلی حسن المناظرہ، توصیف می نماید۱؎‘‘ آپ کی تالیفات میں تفسیر قرآن کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل المفتی محمد قلی بن محمد حسین بن حامد حسین بن زین العابدین الموسوی النیسافوری الشیعی الکنتوری احد الافاضل المشہورین ولد سنۃ ثمان و ثمانین و مائۃ والف و قراء العلم علی اساتذہ لکھنو ثم لازم السید دلدار علی بن محمد معین النقوی النصیرآبادی المجتہد واخذ عنہ الفقہ والاصول والحدیث ثم ولی الافتاء ببلدۃ میرتھ فاستقل بہ مدۃ من الزمان۲؎‘‘ تفسیرتقریب الافہام در تفسیر آیات الاحکام:فارسی زبان میں احکام اسلامی سے متعلق آیات قرآنی کی انتہائی دقیق تفسیر ہے۔ علم کلام اور فلسفہ کے مباحث سے مزین ہے۔ علمی نکات سے آپ کی دقت نظر اور وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تفسیر کتاب خانہ ناصریہ لکھنو میں موجود ہے۔ اس تفسیر کا ذکر سیدالعلماء مولانا سید علی نقی نقوی نے کیا ہے۱؎۔ مولانا مرتضیٰ حسین فاضلؔ لکھنوی رقم طراز ہیں۔ ’’تفسیر تقریب الافھام در تفسیر آیات الاحکام، فراوانی علم و فضل اور علوم مرتبہ و علم تفسیر کی مہارت پر دلیل روشن اور حجت روشن اور حجت ثابت ہے۔‘‘ آغاز تفسیر: ’’الحمدﷲ بعث فی الامیین رسولا فی آخر الزمان علی کافۃ الانس والجآن۲؎‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’تفسیر او یکی از تالیفات قیم وارزشمند وی است، کہ بہ زبان فارسی نگاشتہ شدہ است۔ پیرامون شرح و تفسیر آیات فقھی و حکمی قرآن مجید می باشد، کہ نوع فقہا پیرامون این آیات رسالہ مستقلی نگاشتہ اند و طبعاً این کتاب نیز ہمانند سایر آیات الاحکامی خواہد بود، کہ فقھای بزرگوار ما پیرامون آیات فقہی نگاشتہ اند۔۳؎‘‘ وفات: ۹؍محرم ۱۲۶۰ھ/۱۸۴۴ء کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی اور حسینہ غفران مآب میںآ سودہ لحد ہوئے۱؎۔ دیگرآثار علمی: تشئیدالمطاعن فارسی مطبوعہ جواب باب ہفتم تحفہ اثنا عشری محدث دہلوی سیف ناصری جواب باب اول تحفہ اثنا عشری تقلیب المکائد جواب باب دوم تحفہ اثنا عشری برہان السعادت جواب باب ہفتم مصارع الافھام جواب باب یازدہم نفاق الشیخین تطہیر المومنین اجوبہ فاخرہ۲؎ نجف علی نونہروی (م ۱۲۶۱ھ) تیرہویں صدی کے اہم مفسر قرآن مولانا سید نجف علی کی ولادت نونہرہ ضلع غازی پور میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی پھر عازم لکھنو ہوئے اورعلماء سے کسب فیض کرکے جناب غفرانمآب علیہ الرحمہ سے سند لی۔ تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول تاریخ و ادب پر عبور حاصل تھا۔ مولانا غلام حسین، مولانا ابو القاسم سامانی اور مولانا منصب علی سے معرکۃ الآرا مناظرے کئے۔ عقائد و کلام کے علاوہ فن مناظرہ میں ملکہ حاصل تھا۔ آپکی وفات ۱۶؍ رمضان ۱۲۶۱ھ کو عظیم آباد میں ہوئی۔ آپنے گرانقدر علمی آثار چھوڑے۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل نجف علی الحسینی الشیعی النونہروی الغازی فوری احد کبار علماء الشیعۃ ولد و نشاء نونہرہ قریۃ جامعۃ من اعمال غازی فور و سافرللعلم الی مدینۃ لکھنو فقراء علی اساتذۃ فرنگی محلی ثم تفقہ علی السید دلدار علی بن محمد معین الحسینی النصیرآبادی۱؎‘‘ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’طول و عرض استجماع کمالات قوت نظریہ و عملیہ آن جناب فزو نتر از حد بیان و علو مراتب فضائل علمیہ و فواضل عملیہ آنحضرت بالا تر از نہایت احاطہ مقدور لسان این کجمج بیان است۔ و بلکہ از غایت انجلاء مستغنی از لمعات بیان لمعات بنان است۔۲؎‘‘ تفسیر قرآن کریم : آپنے تفسیر قرآن تحریر کی تھی اسکے علاوہ تفسیر مجمع البیان طبرسی پرانتہائی اہم حاشیہ بھی لکھا تھا جو صاحب تکملہ نجوم السماء کی نظروں سے گذرا تھاجسکا ذکر انھوں نے اسطرح کیا۔ "از آنجملہ حواشی اوبر تفسیر مجمع البیان از نظر فقیر گذشتہ"۔ دیگر آثار علمی : کتاب مصائب سید الشھداء شرح قصیدہ سید حمیری حاشیہ بر بحث مثناۃ بالتکریر حاشیہ میرزاہد ملا جلال رسالہ فی حرمۃ نکاح الشیعہ بالسنی لھاب القر علی من استباح الخمر رسالۃ الانساب حسین،سید،سید العلماء (م ۱۲۷۳ھ) آیۃ اﷲسید دلدار علی تیرہویں صدی کے قابل فخر مفسر قرآن سید حسین صاحب غفران مآب کے گھر ۱۴؍ربیع الثانی ۱۲۱۱ھ/اکتوبر ۱۷۹۶ء کو متولد ہوئے۔مادۂ تاریخ ’’خورشید کمال‘‘ ہے۔ بچپن سے ہی مذہب کی طرف طبیعت کا رجحان رہا گھر میں ہر وقت شریعت کا چرچا تھا۔ والد ماجد اور بھائی اپنے عہد کے عالم و فقیہ تھے۔ آپ نے عمادالاسلام، شرح اربعین بہاء الدین عاملی۔ کتاب الکافی کا درس والد بزرگوار سے لیا اور برادر بزرگ سلطان العلماء سید محمد صاحب سے سلم العلوم، شرح حمداﷲ سیف ماسح کی تعلیم حاصل کی اور فقہ، اصول، منطق و فلسفہ، تفسیر و حدیث میں قدرت کاملہ حاصل کی۔ خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ سترہ برس کی عمر میں تجزی فی الاجتہاد پر تحقیقی رسالہ لکھا اور دوسرا رسالہ ’’حکم ظن در رکعتین اولیین‘‘ کے سلسلے میں تحریر کیا مگر والد ماجد سے اس کا اظہار نہیں کیا۔ حضرت غفرانمآب نے فرمایا اجازے کے لیے یاد دہانی کرانا اجازہ لکھ دونگا۔ عرض کیا کہ کسی وقت میرا رسالہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ والد نے درخواست منظور فرمائی مگر ناسازی مزاج کی بنا پر سلطان العلماء سید محمد کو حکم دیا کہ رسالہ کا مطالعہ کرکے اپنی رائے سے مطلع کرو سلطان العلماء نے تعمیل حکم فرمائی خود آپ نے بھی نظر ڈالی اور فرمایا’’ماہرانہ باتیں لکھیں‘‘ مبتدیانہ کمزوریاں نہیں ہیں‘‘ اس کے بعد اجازہ عنایت فرمایا۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل الکبیر حسین بن دلدار علی بن محمد معین الحسینی النقوی النصیرآبادی ثم اللکھنوی احدالمجتہدین المشہورین فی الشیعۃ ولد لاربع عشرۃ خلون من ربیع الاول سنۃ احدی عشرۃ ومائیتین والف ببلدۃ لکھنو و اشتغل بالعلم علی والدہ و قراء علیہ بعض الکتب الدرسیۃ و قراء بعضہا علی صنوہ محمد بن دلدار علی و قراء فاتحۃ الفراغ ولد سبعۃ عشرہ سنۃ ثم تصور للتدریس، اخذ عنہ المفتی عباس التستری و غنی نقی الزید پوری والسید حسین المرعشی و مرزا حسن العظیم آبادی و علی اظہر ہادی بن مہدی ابن اخیہ و ابناوہ و خلق کثیر۔۱؎‘‘ جامعیت تحریر و تقریر کا یہ عالم تھا کہ استفتاء کے جواب میں جو جملہ لکھ دیا وہ مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو گھیر لیتا تھا عراق و ایران کے فقہی ماحول اور اصولی فضا کے رہنے والے اس دراکی پر حیران رہ جاتے تھے۔ لوگوں کا رجوع، عوام کی محبت طلباء کا ہجوم سائلوں کے مجمع کا عالم دیدنی ہوتا تھا ہر طرف علمی مباحث زیر بحث رہتے تھے۔ لکھنؤ کو ثانی نجف بنا دیا تھا۔ عرب و عجم سے مراسلت تھی بادشاہ بھی تعمیل حکم بجا لا کر فخر محسوس کرتے تھے۔ نواب امجد علی شاہ نے آپ ہی کے حکم سے مدرسہ سلطانیہ قائم کیا تھا جس میں سینکڑوں تشنگانِ علوم دینیہ سیراب ہوتے تھے۔ نواب امجد علی شاہ نے ’’حاوی علوم دین حامی سادات و مومنین حافظ احکام الہ مجتہد العصرسید العلمائ‘‘ یہ مہر کندہ کراکے نذر کی اور سرکاری طور پر مولانا کو انہی القاب سے یاد کرنے کا فرمان جاری کیا ۔ مفتی محمد عباس طاب ثراہ نے منطق و فلسفہ، ہیئت و ہندسہ، تجوید و ادب علم الکلام و اصول فقہ و فقہ میں یکتای روزگار تسلیم کیا ہے۔ آپ نے عراق میں مشاہدہ مقدسہ کی تعمیر کے لیے زر کثیر بھیجا اور بڑے پیمانے پر روضوں کی تعمیر میں حصہ لیا۔ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’بالجملہ آن ستودہ صفات در مطلع ایام جوانی و ربیع روزگار زندگی حایز غوامض عقلیات و حاوی دقایق و عویصات و اصول و فقہ و تفسیر و حدیث و ادبیات شدہ۔ استفادۂ علوم در خدمت والد ماجد وبرادر نامدار خود سلطان العلماء نمودہ۔ درسن ہفدہ سالگی از مدارج تحصیل فارغ شدہ بمرتبۂ عالیہ اجتہاد فایز گشتہ۔۱؎‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’عالم بارع سید حسین بن سید دلدار علی نقوی لکھنوی، معروف بہ ’’سیدالعلمائ‘‘ یکی از اعلام تفسیری شیعہ در قرن سیزدہم از دیارہندوستان می باشدْ از این مؤلف مدافع تشیع درہندوستان آثار قرآنی متعددی بجا ماندہ است کہ بہ چند مورد از آنھا اشارہ می شود۔۲؎‘‘ قرآن مجید اور تفسیر قرآن پر دقیق نظر رکھتے تھے۔ آپ تفسیر قرآن کا درس بھی دیتے تھے جس میں بڑی تعداد میں طلباء شرکت کرتے تھے۔ قرآن مجید سے عشق کا یہ عالم تھا آپ نے خود اپنے ہاتھ سے قرآن مجید لکھا جو مولانا سید ابراہیم صاحب کے پاس موجود تھا۔ آپ نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں کئی آثار چھوڑے۔ تفسیر سورہ فاتحہ: یہ تفسیرسورہ الحمد کی مکمل تفسیر ہے جس میں سورہ الحمد کے وہ پہلو اجاگر کیے ہیں جو اب تک پردۂ خفا میں تھے۔ علامہ آغا بزرگ تہرانی اس تفسیر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’تفسیر سورۃ الفاتحۃ للسید حسین بن السید دلدار علی النقوی قال السید مہدی فی التذکرہ انہ مبسوط۔۱؎‘‘ تفسیر سورۂ بقرہ: یہ سورہ بقرہ کی نا مکمل تفسیر ہے جو اپنے مفاہیم و مطالب کے اعتبار سے نادر علمی ذخیرہ ہے۔ اس تفسیر کے سلسلے میں علامہ آغا بزرگ تہرانی تحریر فرماتے ہیں: ’’تفسیر سورۃ البقرۃ للسید حسین بن السید دلدار علی النقوی (المتوفی بلکھنؤ فی ۱۲۷۳) ذکر السید مہدی فی ’’تذکرۃ العلماء انہ خرج منہ مقدار من اوائل السورہ۔۲؎‘‘ تفسیر سورہ ہل اتی: یہ تفسیر سورہ دہر کی علمی، تحقیقی فکری تفسیر ہے جس میں آیات قرآنی کو عالمانہ انداز سے حل کرکے قرآن شناسی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا گیا ہے ۔ تفسیر سورہ التوحید: اس تفسیر میں اثبات باری تعالیٰ کے ساتھ اثبات توحید کے ادلہ پیش کیے گئے ہیں۔ یہ تفسیر جامع معقول و منقول ہے۔ تفسیر آیۃ و کذالک جعلنا کم امۃ وسطاً: سورہ بقرہ کی ۱۳۷ آیت کی تفسیر بیان کی گئی ہے جس میں علامہ فخرالدین رازی کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں اس تفسیر کے بارے میں علامہ آغا بزرگ تہرانی تحریر فرماتے ہیں: ’’ تفسیر آیۃ و کذالک جعلنا کم امۃ وسطاً، للسید حسین بن العلامہ دلدار علی النقوی النصیرآبادی اللکھنوی (المولود ۱۲۱۱ھ المتوفی ۱۲۷۳ھ) ردفیہ علی الفخرالرازی اولہ: قال اﷲ تعالیٰ و کذالک جعلناکم الآیۃ۱؎ ‘‘ دیگر تالیفات: روضۃ الاحکام (فقہ، فارسی) رسالہ مبسوط فی المیراث(فقہ ، عربی) حدیقۂ سلطانیہ در مسائل ایمانیہ اصول دین و احکام وسیلۃ النجاۃ (فارسی عقائد رسالۂ منع از بیع مایعات نجس و متنجس (فقہ، فارسی غیر مطبوعہ) طردالمعاندین الانفاق در جواز لعن (فارسی، مطبوعہ) حاشیہ شرح کبیر (ریاض المسائل) تعلیقات علی شرح ہدایۃ الحکمہ مجالس مضجعہ، افادات حسینیہ فوائد فی تنقیح العقائد وفات: شب شنبہ ۱۷صفر ۱۲۷۳ھ/اکتوبر ۱۸۵۶ء کو جاں بحق ہوئے۔ شہر لکھنؤ میں کہرام بپا ہو گیا دریائے گومتی پر غسل دیا گیا۔ امام باڑہ آصف الدولہ میں نماز جنازہ ہوئی بڑے بھائی سلطان العلماء سید محمد نے پڑھائی اور حسینیہ غفرانمآب میں آسودۂ لحد ہوئے۔ امداد علی لکھنوی(م ۱۲۷۴ھ) حاجی مرزاامداد علی کی شخصیت لکھنؤ کی علمی اور ادبی حلقوں میں اہمیت کی حامل ہے۔۱۲۷۴ھ/۱۸۵۷ء میں وفات ہوئی۔ آپ کے ترجمہ قرآن کے سلسلے میں صاحب مطلع انوار رقمطراز ہیں کہ میرے کتابخانہ میں لکھنؤ کے شاہی پریس کا چھپا ہوا ایک مترجم و محشی قرآن مجید ہے جس کے سر ورق پر مفسر کا نام موجود نہیں بڑی جستجو کے بعد ’’دہلی اردو اخبار‘‘ ۱۸۴۷ء میں اس ترجمہ کا اشتہار ملا۔ کچھ عرصے بعد مجلس ترقی ادب کلب روڈ لاہور میں چند کتابیں فروخت ہونے آئیں جن میں زیر بحث ترجمہ کا ایک کاپی نسخہ بھی تھا ۔ یہ ایڈیشن اردو اخبار پریس دہلی سے مولوی محمد باقر صاحب نے شائع کیا تھا مگر اس پر بھی مترجم کا نام نہیں۔ پروفیسر مسعود حسن ادیب مرحوم نے اپنے مقالہ’’شاہان اودھ کا علمی و ادبی ذوق‘‘ میں ثابت نامہ نو طرزکے قلمی نسخے سے یہ اطلاع مہیا فرمائی ہے۔ حاجی مرزا امداد علی لکھنوی ’’ثاقب نامہ نو طرز‘‘ کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں: ’’اس عاصی کو تمام عمر شوق اور ذوق کتب تفاسیر اور احادیث اور کتب تواریخ کے دیکھنے اور لکھنے اور ترجمہ کرنے کا رہا۔۔۔۔۔۔۔ اکثر کتابیں اردو میں تالیف کی۔۔۔۔۔ تفسیر منہج الصادقین جو ملا فتح اﷲ مغفور نے فارسی میں لکھی تھی بندے نے اسے ہندی ترجمہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔ اور کتابیں مثل نسخۂ چہاردہ نور اور مسیب نامہ اور مختار نامہ وغیرہ کے بہت سے ترجمہ کئے ہیں۔ بعض احباب نے فرمائش کی کہ تم ترجمہ ’’ثابت نامہ‘‘ کا کہ اس میں حال امیر ثابت پسر امیر مختار کا ہے اور وہ فارسی ہے تم اس کو زبان اردو میں تحریر کرو۔۔۔۔۔ در عہد امجد علی شاہ۔۔۔۔۔ ۱۲۵۹ھ ترجمے سے ثابت نامہ کے فارغ ہوا اور نام اس کا میں نے ’’ثابت نامہ نوطرز‘‘ رکھا۔ اس تحریر سے ’’تنویر البیان‘‘ کے مترجم کا نام واضح ہو جاتا ہے۔ یہ ترجمہ لکھنو اور آگرے سے کئی بار چھپ چکا ہے اور اس ترجمے کے حاشیہ کے آخر میں: ۱ ع کے مخفف میں امداد علی پڑھنے کارجحان ملتا ہے۔ ۱۲۵۹ھ/۱۸۴۳ء میں انھوںنے ترجمہ تفسیر منھج الصادقین ملا فتح اﷲ کو اپنی ایک تالیف و ترجمہ کا موضوع بنایا اس لیے زیر نظر ترجمہ بقرائن اخبار ۱۸۴۰ء کے لگ بھگ چھپا اور اس سے پہلے لکھا ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ امداد علی اردو مترجمین قرآن کی صف اول میں بعض مشاہیر کے ہم پہلو ثابت ہوں۔ مذکورہ بالا اقتباس سے یہ معلومات فراہم ہوتی ہے کہ مرزا امداد علی صاحب ۱۲۵۹ھ میں حج سے فارغ ہو چکے تھے۔ ممکن ہے زیارت عراق و ایران سے بھی مشرف ہوئے ہوں۔ اس وقت ان کی عمر پچاس برس سے زیادہ ہوگی۔ اس کے بعد کے حالات و تالیفات ۱۸۵۷ھ کی جنگ آزادی کی نذر ہوگئے۱؎۔ محمد باقر، دہلوی(م ۱۲۷۴ھ) مولانا آغا محمد باقر دہلوی کی ولادت ۱۲۰۵ھ/۱۷۹۰ء کودہلی میں ہوئی۔ والد اخوند محمد اکبر تھے جو مولانا محمد شکوہ مجتہد کے پوتے تھے۔ مولانا محمد باقر نے والد اخوند محمد اکبر اور میاں عبدالرزاق سے تعلیم حاصل کرکے ۱۸۲۵ء میں دہلی کالج میں داخلہ لیا تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی کالج میں ۱۸۲۸ء سے ۱۸۳۶ء تک فارسی کے استاد رہے۔ ان کی علمی صلاحیتوں اور خدمتوں سے متاثر ہوکر انگریز جنرل نے خلعت سے نوازا۔اس کے بعد دہلی کے کلکٹر چارلس مشکاف نے تحصیلدار مقرر کیا۔ سولہ سال اس منصب پر فائز رہے۔ لیکن ان کے مزاج میں آزادی اور طبیعت میں انگریزوں سے نفرت تھی اس لئے ملازمت چھوڑ دی۔ مولانا محمد باقر نے دہلی میں عزاداری اور دینی سرگرمیوں کو تیز کیا۔ عزاداری کے لئے عزاخانہ تعمیر کرایامسجد تعمیر کرائی۔ امامباڑہ اپنی وسعت اور مقبولیت کے لحاظ سے بہت مشہور تھا خود مولانااس میں پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے مجلس پڑھتے تھے۔ بیان بہت دلکش اور رقت انگیز ہوتا تھا۔ اہلسنت کی اشتعال انگیز تحریروں سے متاثر ہو کر آپ نے دینی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اور مذہبی اخبار نکالنے لگے۔ مولانا محمدباقر اردو اخبار کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ ڈاکٹر اسپرنگر نے جب کالج کا پریس فروخت کیا تو آپ نے خرید کر ۱۸۳۶ء سے اردو اخبار جاری کیا۔ یہ اخبار اردو صحافت کا پہلا نقیب بنا۔ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف مولانا محمد باقر نے اپنا قلم چلایا کھل کر انگریزوں کی مخالفت کی۔ بہادر شاہ ظفر نے ان کے جوش اور اثر کی بنا پر دہلی میں قیمتوں اور بازاروں کی نگرانی کا منصب عطا کیا۔ آپ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے قائد بنے اور اپنے ملک ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں کوشاں رہے۔ اخبار میں مسلسل انگریزوں کے خلاف لکھتے رہے۔ آپ کی یہی کوشش شہادت کا سبب بنی جب انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی تو انھوںنے بغاوت کے جرم میں آپ کو پھانسی کی سزا دی اس طرح آپ جنگ آزادی کے پہلے شہید قرار پائے۱؎۔ آپ کی تالیفات مطبوعہ و غیر مطبوعہ تلف ہو چکی ہیں’’ دہلی اردو اخبار‘‘ اور ’’اثنا عشری‘‘ آپ کے پریس تھے جن سے متعدد کتابیں چھپیں ۔ تفسیر آیۂ تطہیر: اس میں آیۃ تطہیر ’’اِنَّما یریداﷲ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا‘‘ (سورہ احزاب) کی تفسیر بیان کی گئی ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اہلبیت سے مراد حضرت علی و فاطمہ امام حسن و امام حسین علیھم السلام ہیں۔چنانچہ ایک رباعی نقل کی ہے مقبول الہ اہل بیت اند محبوب الہ اہل بیت اند نوری کہ ازاں ظہور عالم آن نور الہ اہل بیت اند تفسیر کے ابتدائی الفاظ: ’’انما یرید اﷲ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہر کم تطہیرا‘‘یعنی نہیں چاہتا اﷲ مگر یہ کہ لے جاوے تم سے۔۔۔الخ آپ نے اس کتاب میں مولانا محمد سالم بخاری کے اشعار بھی نقل کئے ہیں۔ چہ گوئیم توصیف اہل عبا فزدن است تحریر و تقریر ما چہ گفتہ شود وصف شان اے پسر کہ انوار حق اند بصورت بشر گر آنھا نبودی جھان ہم نبود نبودی کسی را ظہور وجود نبودانس و جاں و نبودی ملک نبودی زمین و نبودی فلک نبودی زماں و نبودی مکاں برای ہمین شد ہمہ درعیان۱؎ تفسیر آیہ ’’اِنک لَعلی خُلُقٍ عظیم‘‘ اس تفسیر میں اخلاق حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ مولانا محمد باقر کی شہادت پر اسماعیل حسین منیر نے قطعۂ تاریخ لکھا جناب فاضل کامل محمد باقر سپہر علم و فضیلت کے نیر تاباں شہیر عالم ایجاد دہلوی مولد بزرگ اصل میں ان کے تھے ساکن ہمداں حدیث وفقہ و کلام و مناظرہ میں وحید مصنفات سے ان کے ہے مثل شمس عیاں خلیق و ناصر آل رسول و تعزیہ دار فدائے نام نبی عاشق شہ مرداں حلیم و قابل و محتاط و مجمع حسنات جہاں دانش و فضل و مروت و احساں خدا کی راہ میں مقتول ہوکے آخرکار گئے جہاںسے وہ سوئے روضۂ رضواں لکھی منیرؔ نے یہ انکے مرگ کی تاریخ شہید و متقی و عالم علوم جہاں رجب علی، ارسطو جاہ (۱۲۸۶ھ) تیرہویں صدی کے گرانقدر مفسر قرآن مولانا رجب علی کا تعلق پنجگرائیں سادات سے تھا۔ ۱۲۲۱ھ ؍۱۸۰۶ء میں سید علی بخش نقوی کے گھر آپکی ولادت ہوئی۔ ۱۲ سال کی عمر میں لاہور جاکر جناب مولانا مہدی سے کسب علم کیا۔ اسکے بعد ۱۸۲۵ء میں دہلی گئے اور وہاں مفتی صدرالدین سے علم حاصل کیااوراسی مدرسہ میں ریاضی کے مدرس منتخب ہوئے۔ ۱۸۳۰ء میں مدرسہ چھوڑ دیا اور مختلف شہرو ں کے سفر کئے ۔ آگرہ ، گوالیار، ہوشنگ آباد ہوتے ہوئے بھوپال پہونچے وہاں کرم محمد خاں مختار ریاست نے شرعی فتوی نویسی پر مامور کیا۔ ۳ سال بھوپال میں رہے مگر تبلیغ دین کا سلسلہ جاری رکھااور عبداللہ بغدادی سے مذہبی مباحثہ کیا جسکے نتیجے میں عبداللہ بغدادی کے علاوہ بہت سے پٹھان حضرات شیعہ ہو گئے۔ ۱۸۶۱ء میں سکھر کراچی بمبئی ہوتے ہوئے حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ مولانا رجب علی عربی فارسی میں اعلی صلاحیت رکھتے تھے۔ ادیب و خطیب و مناظر کے علاوہ آپ اچھی سیاسی بصیرت کے حامل تھے۔ آپ نے پنچاب میں شیعوں کے خلاف تباہ کن دشمنی کا خاتمہ کیااور شیعیت کی ترویج کے لئے مجمع البحرین پر یس قائم کیااوراس سے اخبارات اور کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ ۱۲۸۴ھ میں سید المتکلمین میر حامد حسین طاب ثراہ جب لدھیانہ گئے تو آپکے ہی مہمان رہے ۔ آپنے پوری زندگی تبلیغ دین کے لئے وقف کر دی تھی اور باوقار زندگی کے ساتھ ۶۵ سال کی عمر میں ۲۰؍ جمادی الثانی ۱۲۸۶ھ ؍۱۸۶۹ کو جگرانوں میں رحلت کی۔ آپکی تفسیر قرآن پر دقیق نظر تھی ۔ آپنے دو تفسیریں قلمبند کیں۱؎۔ ۱۔تفسیر کشف الغطاء تفسیر ھل اتیٰ : یہ تفسیر فارسی زبان میں ۶۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ مطبع کوہ نور لاہور سے شائع ہوئی ۔ آغاز تفسیر: ’’‘الحمدﷲ علی افضلہ والصلوٰۃ علی رسول محمد و آلہ محمد…‘ خصوصیات : آیات کی تشریح انتہائی نپے تلے الفاظ میں کی گئی ہے۔ اصل مطلب حاصل کرنے کے سلسلے میں احادیث کا سہارا لیا گیا ہے۔ تفسیر قرآن بالقرآن بھی کی گئی ہے۔ جا بجا تفسیر معالم التنزیل ، تفسیر کبیر فخر الدین رازی ، تفسیر کشاف، تفسیر بیضاوی کے حوالے بطور ماخذ ذکر کئے گئے ہیں۔ عقلی و نقلی استدلال پایا جاتا ہے۔ یہ تفسیر ۲۱ ذی القعدہ ۱۲۶۶ھ کو پائے تکمیل کو پہونچی۔ مولانا ابو محمد قلندر علی ، مولانا سعید الدین بخاری اور جناب سید حسین بخش حسینی کی پُر مْغز تقاریظ تحریر ہیں۔ اس نسخے کا راقم نے رضا لائبریری رامپور میں مطالعہ کیا۔ یہ تفسیر آستانہ قدس رضوی مشہد ایران میں بھی موجود ہے۔ سرّ اکبر تفسیر سورہ والفجر : یہ تفسیر بھی فارسی زبان میں ہے۔ والفجر ولیال عشر کی تفسیر کے ذیل میں لطیف علمی نکات بیان کئے ہیں۔ تفسیر زبان و بیان کے اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ۲۲؍ جمادی الثانی ۱۲۷۶ھ میں مکمل ہوئی۔ اسپر دو تقریظیں مندرج ہیں جناب ابو محمد قلندر علی فاضل پانی پتی کی دوسری جناب سید حسین بخش حسینی صاحب کی جسمیں مفسر کی اس علمی کاوش کو بہت سراہا گیا ہے۔ یا یتھا النفس المطمئنہ کے ذیل میں نفس کی تشریح کرتے ہوئے اقسام نفس کی وضاحت عالمانہ اندازسے کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ نفس مطمئنہ سے مراد حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔ یہ تفسیر بھی رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔ طبقات مفسران شیعہ: ’’سید رجب علی خان بھادر بھگری، دہلوی یکے از اعیان تفسیری ہندوستان در قرن سیزدہم ہجری می باشد۔۱؎‘‘ حیدر رضا (ترجمہ:۱۲۸۸ئ) تیرہویں صدی کے گرانقدر مترجم قرآن مولانا سید حیدر رضا صاحب علم و فضل، جامع معقول و منقول تھے، قرآنیات کا گہرا مطالعہ تھا۔ آپ نے قرآن مجید کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ ترجمہ قرآن مع حواشی: آپ نے ۱۲۸۸ھ/۱۸۷۲ء میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو شائع نہیں ہوسکا اس کا خطی نسخہ ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری مسؤل محترم مرکز نور کے پاس محفوظ ہے۔ ۶۳۶ صفحات پر مشتمل ہے، بین السطور ترجمہ اور حاشیہ پر ضروری مطالب شان نزول، فضیلت سورہ، مصداق آیات، اور آیات کی تشریح کی ہے۔ سورہ الحمد کا ترجمہ : ’’ابتدا کرتا ہوں ساتھ نام خدا کے، مہربان اور روزی دینے والا بشرط جان اور بخشنے والا بشرط ایمان سب تعریفیں واسطے اﷲ کے ثابت ہیں کہ پالنے والا عالموں کا، مہربان اور روزی دینے والا بشرط اور بخشنے والا بشرط ایمان، بادشاہ دن قیامت کا ہے تجھ ہی کو بندگی کرتے ہیں ہم اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ہم، ثابت رکھ تو ہم کو راہ محکم پر یعنی اسلام پر، راہ ان لوگوں کی کہ نعمت دی ہے تو نے ان لوگوں پر نہ راہ او نکی کہ غضب ہے تو اون پر، اور نہ راہ اونکی جو گمراہ ہیں۔‘‘ اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے حروف مقطعات کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ میں الم کا ترجمہ کیا : ’’میں ہوں خدا جاننے والا یہ وہ کتاب ہے کہ نہیں ہے شک اس میں راہ بتانے والی ہے واسطے پرہیز گاروں کے۔‘‘ سورہ النصر کا ترجمہ اور حاشیہ: ’’جس وقت آوے مدد خدا کی اور فتح مکہ کے روز دیکھی تونے، آدمیوں کو کہ داخل ہوتے ہیں۔ بیچ دین خدا کے فوج فوج، پس تسبیح کر تو ساتھ تعریف پروردگار اپنی کے اور بخشش چاہ تو، تحقیق وہ ہے تو بہ قبول کرنے والا۔‘‘ اس کے حاشیہ پر لکھتے ہیں: ’’جو کوئی سورہ ’’اذاجائ‘‘ کو پڑھے اسے ثواب ہمراہیان پیغمبر ہو جو فتح مکہ کے روز تھے اور جو اسے فرائض اور نوافل میں پڑھے خدا اس کو دشمنوں پر فتح دے اور صراط سے بآسانی گذرے اور آتش دوزخ سے محفوظ رہے۔ ام سلمہ رضی اﷲ سے روایت ہے کہ جب سورہ نصر نازل ہوا تو جناب رسول اﷲؐ اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، فرماتے تھے سبحانک اللہم و بحمدک استغفرک و اتوب الیک‘‘ مترجم کے برادر جناب سید احمد رضا صاحب نے قطعہ تاریخ کہا: من ید حیدر رضا سلمہ ربہ ختم قرآن شریف وقع فی احسن مال سید احمد رضا کان فی فکر سنین ہاتف تاریخہ تمہ بالخیر قال مترجم نے تاریخ کہی: حبذا گشتہ چہ توفیق خدا شامل من رحمت خالق خلاق شدہ مایل من اعنی از دست من انجام شدہ این قرآن اے خوشا نعمت عظمیٰ وچہا حاصل من از متن ترجمہ و حاشیہ وتا صحت آفرین بر تو بود اے جسد کاہل من فکر تاریخ بما دست و گریبان گردید یافت این مصرعہ استاد دل سائل من ہم ز اعداد سن و نیز ز تعداد زمان ہر دو دریافت از ان طبع رسا عاقل من ہفت مہ بود ز تحریر ز تعدادِ دال سال از اعداد شمردہ ذہن قابل من ہر کہ این طرز بہ بیند متحیر ماند ہر کہ شنود چہ عجب گر بشود قائل من چار و چار ہشت شدہ ہشت شدہ باز دو چار دَہ و در باقی سہ گان گشتہ سن کامل من محمد تقی، سید، ممتاز العلماء (م ۱۲۸۹ھ) ممتاز العلماء سید محمد تقی کا شمار تیرہویںصدی کے قابل فخر مفسرین قرآن میں ہوتا ہے۔ آپ کے والد سید العلماء سید حسین اور دادا آیۃ اﷲ سید دلدار علی غفران مآب تھے۔ آپ کی ولادت ۱۶؍جمادی الاولی ۱۲۳۴ھ/۱۸۱۹ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔ اس وقت حضرت غفران مآب کا آخری دور حیات تھا۔ والد ماجد اور عم محترم سلطان العلماء سید محمد کے علاوہ مولانا احمد علی محمدآبادی اور مفتی محمد عباس شوشتری سے کسب فیض کیا۔ ۱۲۶۲ھ میں سلطان العلماء سید محمد اور صاحب جواہر الکلام آقای محمد حسن نے اجازۂ اجتھاد سے سرفراز کیا۔ امجد علی شاہ، بادشاہ اودھ نے ’’مدرسہ سلطانیہ‘‘ قائم کیا اور آپ کو صدر مدرس منتخب کیا اور خلعت و لقب ’’ممتاز العلمائ‘‘ سے نوازا۔ دو سو روپیہ تنخواہ مقرر ہوئی۔ اس مدرسہ میں تقریباً دو سو طلباء زیر تعلیم تھے جن کے جملہ اخراجات حکومت برداشت کرتی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں یہ مدرسہ بند ہو گیا۱؎۔ آپ کو تدریس میں مہارت حاصل تھی۔ ’’فخرالمدرسین‘‘ کے لقب سے ملقب تھے ۔ آپ نے ایک عالیشان مسجد اور عزاخانہ تعمیر کرایا جو آج بھی ’’حسینیہ جنت مآب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ طلباء کے قیام کے لیے وسیع اور کشادہ دارالاقامہ قائم کیا ۔ جس میں بڑی تعداد میں طلاب علوم دینیہ مقیم رہتے تھے۔ آپ نے اعلیٰ درجہ کے کتب خانہ کی بنیاد رکھی تھی جو آج بھی نفیس اور نادر مخطوطات کا عظیم سرمایہ ہے۔ اس کتب خانہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بیشتر نسخے خود مؤلف کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں نایاب کتب موجود ہیں۔ سلطان العلماء سید محمد طاب ثراہ نے آپ کو لکھنؤ کا امام جمعہ منتخب فرمایا ۔ مسجد محمد علی شاہ میں نماز جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑے تحسین علی خاں کی مسجد مین پنجگانہ نماز کی امامت فرماتے۔ عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ تھے’’اخبارالاخیار‘‘ میں آپ کے فتاویٰ شائع ہوتے تھے۔ آپ کا موعظہ دل پذیر ہوتا تھا۱؎۔ بڑی تعداد میں لوگ آپ کا موعظہ سننے آتے تھے۔ آپ نے اپنی تقریروں کے ذریعہ لکھنو میں مذہبی ماحول قائم کیا لوگ پابند شریعت ہوئے اور علی الاعلان معاصی کے ارتکاب سے پرہیز کرنے لگے۔ شہر کے اکابرین بھی آپ کا بیحد احترام کرتے تھے اور ان میں بھی شریعت کی مخالفت کی ہمت نہیں تھی۔ آپ کے علمی رعب سے بڑے بڑے شاہزادے کانپتے تھے۔ آپ بڑے ذہین، ذکی اور متصف جمیع صفات حمیدہ اور بے مثل فقیہ عدیم النظیر اصولی تھے۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل محمد تقی بن الحسین بن دلدار علی الحسینی الشیعی اللکھنوی احدالعلماء المشہورین بالاجتہاد فی مذہب الشیعۃ الامامیۃ، ولد لست عشرۃ خلون من جمادی الاولی سنۃ اربع و ثلاثین و مائتین والف بلکھنو، واشتغل بالعلم علی والدہ من صباء و تخرج علیہ فاجازہ ابو وعمہ الکبیر السید محمد بن دلدار علی اللکھنوی ولقبہ امجد علی شاہ اللکھنوی امیر اودھ بممتاز العلماء و ولاء التدریس فی المدرسۃ السلطانیۃ۔۲؎‘‘ قرآن مجید سے گہرا شغف تھا تفسیر قرآن پر گہری نظر تھی زندگی کے آخری دن تک تفسیر لکھنے میں مصروف رہے۔ ۲۳؍رمضان ۱۲۸۹ھ/۱۸۷۲ء دس بجے دن تک تفسیر لکھنے میں مصروف رہے رات میں تین بجے شب قدر میں رحلت فرمائی اور اپنے تعمیر کردہ عزاخانہ میں آسودہ لحد ہوئے۱؎۔ صاحب تذکرۃ العلمائ:(ترجمہ) ’’جناب فضائل مآب علامی فہامی فقیہ المعی ممتاز العلماء فخرالمدرسین جناب سید محمد تقی اوسط اولاد جناب علین اور سب سے ارشد و اعلم و اتقی وافقیہ و ادرع و اکمل ہیں۔ اور مراتب فضل و کمال و مدارج فقہ و اجتہاد بحر علوم معقول و منقول و فنون فروع و اصول میں باوصف حدائث سن کے امسال و اقران میں سب سے زیادہ ہیں۔ اور ہمیشہ اکتساب علوم میں مصروف رہے طفولیت میں لہو و لعب سے رغبت نہ تھی۲؎۔‘‘ صاحب اوراق الذہب: ’’اکبرہم فی الہدیٰ والسداد و ابر عہم بالفقہ والاجتہاد ذوی الفکر المتین والرای الرزین فخر الفضلاء والمدرسین التقی المتقی السید محمد تقی اعلیٰ اﷲ قدرہ و نور بدرہ ہواحدت منی ثنا و اقدم فضلا منا۳؎‘‘ ینابیع الانوار فی تفسیر کلام اﷲ الجبار: یہ عربی تفسیر ہے اس کا نسخہ کتب خانہ سلطان المدارس لکھنؤ اور ممتازالعلماء کے کتب خانہ میں موجود ہے ۔ چار حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں ۳۴۱ صفحات ہیں۔ جس میں سورہ الحمد اور پارہ الٓم کی تفسیر مندرج ہے۔ دوسری جلد میں پارۂ سیقول کی مفصل تفسیر ہے۔ تیسری جلد میں تلک الرسل کی تفسیر ہے۔ چوتھی جلد میں لن تنالو کی مفصل اور مدلل تفسیر رقم کی گئی ہے۔ یہ تفسیر علمی و تحقیقی تفسیر ہے ہر ہر مسئلہ کی مکمل طور سے تشریح کی گئی ہے لغوی مطالب کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کلامی مباحث کے ذریعہ علمی نکات پیش کئے گئے۔ محققین کے اقوال اور ان کی آراء سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ہر مسئلہ کے اثبات میں روایت کا سہارا لیا ہے۔ دقیق مطالب کی اس طرح تشریح کی ہے کہ آسانی سے قاری کے ذہن نشین ہو جائے۔ اپنی رائے روایات ائمہ علیھم السلام کے تناظر میں پیش کی ہے۔ اپنے مدعا کے اثبات کے لیے عقلی و نقلی ادلہ کا سہارا لیا ہے۔ پہلی جلد کا آغاز: ’’الحمدﷲ الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً… اما بعد فیقول العبد المذنب محمد التقی بن الحسین بن علی وقہم اﷲ شر یوم کان شرّہ مستطیرا وعفا عنہم انہ کان عفواً قدیرا۔ یا معاشر اخواننا المومنین من شیعۃ آل طہ ویٰس جزاکم اﷲ جنۃ و حریرا و حاسبکم حساباً یسیراً لما کان القرآن المجید والفرقان الحمید ابلغ موعظتہ و اعتباراً و تذکیر ارایتُ ان املی علیکم ما یتضح بہ معانیہ و یفسرہ تفسیراً وبہ یفوزالمرء بمعانیہ فوزاً کبیراً و من یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیراً و قد و شمعت مارسمتہ بینابیع الانوار فی تفسیر کلام اﷲ الجبار… الخ‘‘ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی لکھتے ہیں: بسم اﷲ کے فضائل اور اس کی برکتوں کے سلسلے میں احادیث لکھیں۔ رحمن و رحیم کی توضیح اور فرق کو واضح کیا ہے۔سورۃ الحمد کی تفسیر میں اس سورہ کی اہمیت اور اس کے متعدد ناموں کی تشریح بہت دلپذیر انداز میں پیش کی ہے۔ خاتمہ کی عبارت: ’’تم تفسیر الجزء الاول من الکتاب العزیز و بتمامہ تم المجلد الاول من ہذا التفسیر الموسوم بینابیع الانوار و یتلوہ المجلد الثانی فی تفسیر الجزء الثانی انشاء اﷲ تعالیٰ‘‘ جلد دوم: خط نستعلیق، ۵۳۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ آغاز: ’’الحمدﷲ و سلام علی عبادہ الذی اصطفیٰ اما بعد فہذا الجزء الثانی من تفسیر ینابیع الانوار فی تفسیر الجزء الثانی من کتاب اﷲ العزیز الجبار۔۔ الخ‘‘ آخر کی عبارت: ’’وقد فرغ من تالیفہ و تمنقیہ بتائید اﷲ سبحانہ و حسن توفیقہ احوج المربوبین الی رحمۃ ربہ الکریم محمد التقی بن الحسین بن علی جعلہم اﷲ من ورثہ جنۃ النعیم یوم الثلثاثلث بقین من شعبان عام اربع و ثمانین بعد الف و مائتین من الہجرۃ المبارکۃ و یتلوہ انشاء اﷲ الجزء الثالث من ہذا التفسیر المسمٰی بینابیع الانوار فی تفسیر الجز والثالث من کلام العزیز الغفار‘‘ تیسری جلد میں ۲۳۷ اوراق ہیں تیسرے پارے کی تفسیر ہے۔ ابتدائی عبارت: ’’الحمدﷲ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد و ایاک نستعین و صلی اﷲ علیٰٰ محمد خاتم النبیین و علی اوصیائیہ المرضیین۔‘‘ اختتامی عبارت: ’’قد فرغ مولفہ الفقیر الی رحمۃ ربہ الکریم محمد التقی بن الحسین بن دلدار علی جعلہم اﷲ من ورثۃ جنۃ النعیم ضحوۃ یوم الثلثاء الرابع والعشرین من شہراﷲ الاصب رجب المرجب عام الف و ماتین و ثمان و ثمانین من الہجرۃ المقدسہ حامد اﷲ سبحانہ مصلیا علی رسولہ و اہل بیتہ‘‘ چوتھی جلد میں ۱۶۳ اوراق ہیں۔ اتبداء کے الفاظ: ’’الحمدﷲ استتماماً لنعمتہ ولا الہ الااﷲ اخلاصاً لوحوانیتہ و صلی اﷲ علی محمد سید بریتہ و علی الاصفیاء من عترتہ‘‘ اس جلد کا اختتام سورہ آل عمران پر ہوا ہے۱؎۔ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی: ’’اپنے انداز اور عملی مباحث کے انداز سے یہ ایک خاصی اہم تفسیر ہے ہر ہر مسئلہ کی پوری توضیح و تشریح کی ہے۔ فنی باتوں اور لغوی باریکیوں پر بھی بحث کی ہے۔ دوسروں کے اقوال روایات سے بھی مدد لی ہے۔ مسائل کی بحثوں میں تفصیلات کو پوری طرح مدنظر رکھا ہے۱؎۔‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’عالم جلیل وفقیہ نبیل سید محمد تقی بن سیدالعلماء سید حسین بن سید دلدار علی نقوی لکھنوی یکی از اعیان تفسیر شیعہ در اواخرقرن سیزدہم ہجری می باشد۔۲؎‘‘ اس تفسیر میں جابجا علامہ فخرالدین رازی، قاضی عیاض، ابن جریر طبری، ابن حجر مکی، جاراﷲ زمخشری اور نیشاپوری کے حوالے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ سید العلماء سید علی نقی نقوی: ’’سب سے بڑا کارنامہ جو تمام علوم و فنون میں آپ کے کمال کا آئینہ بردار ہے وہ آپ کی تفسیر ’’ینابیع الانوار‘ ہے جس کے تقریباً ڈیڑھ ہزارصفحات کی دو جلدیں معرض تصنیف میں آسکیں جن میں مسائل علم کلام پر دوسرے متکلمین اور بالخصوص علامہ فخرالدین رازی سے رد و قدح میں مضبوط و مستحکم دلائل سے فکری گہرائی کے ساتھ زور بیان کی بھی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہ دونوں جلدیں خود آپ کے کتب خانہ کے علاوہ جناب آغا ابو صاحب کے کتب خانہ میں بھی ہیں۔ جو اب جامعہ سلطانیہ سلطان المدارس سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں سے میں نے زمانہ طالب علمی میں ایک جلد مستعار لے کر تقریباً ایک مہینے کی قلیل مدت میں اپنے تین شاگردوں کی شرکت کے ساتھ جن میں ایک مرحوم ہو گئے یعنی حکیم سید محمد عسکری عرف پتن صاحب مرحوم مدیر مجلہ الرضوان) اور دو بحمداﷲ موجود ہیں ایک جناب مفتی جعفر حسین صاحب مجتہد گجرانوالہ اور دوسرے حکیم سید محمد اطہر صاحب ’’ممتاز الافاضل‘‘ مدرس مدرسہ ناظمیہ لکھنو اسے اپنے قلم سے نقل کیا ہے جو تقریباً سات سو صفحات کے قریب ہے اور وہ ہم لوگوں کی مشترکہ کوشش کی یادگار کے طور پر بحمداﷲ میرے پاس موجود ہے۱؎۔ ‘‘ دیگر آثار علمی: مرشد المومنین عباب فی علم الاعراب شرح مقدمات حدائق رسالہ امامت نخبۃ الدعوات حدیقۃ الواعظین نزہۃ الواعظین لمعۃ الواعظین رسالہ فی جواز امامۃ الفاسق فی نفسہ آداب و فضلیت دعا شرح تبصرۃ المتعلمین علامہ حلی غنیۃ السائلین (فقہ استدلالی) جواب مسئلہ لدنیہ در نجاست طعام اہل کتاب ارشاد المومنین-مطبوعہ سلطان المطابع ۱۲۶۸ھ لکھنؤ۱؎ مفتی محمدعباس شوشتری (۱۳۰۶ھ) نے قطعہ تاریخ لکھی: مولی بوفاتہ التقی کالمیت والعلم سراجہ بغیر الزیت با آل محمد تقی صبرا قد ایتکم فقیہ اہل البیت ۱۲۸۹ھ محمد اخباری، میرزا(م ۱۲۸۹ھ) میرزا محمد اخباری کا شمار تیرہویں صدی ہجری کے ممتاز مفسرین قرآن میں ہوتا ہے۔ آپ میرزا اما ن کے فرزند تھے۔ لکھنؤ کے نامور عالم اور صاحب سند محدث تھے۔ بے مثال خطیب و واعظ اور صاحب نظر تھے۔سلطان العلماء سید محمد طاب ثراہ، سید العلماء سید حسین اور مفتی محمد عباس صاحب سے اچھے تعلقات تھے۔ عراق و ایران کا سفر کیا اور علماء سے اجازے حاصل کئے۔ نواب واجدعلی شاہ کے خاص مورد نظر تھے۔ نواب صاحب نے آپ کو کلکتہ بلایا اس سفر میں مرشدآباد، پٹنہ جیسے شہر و قصبوں میں بڑی معرکۃالارا تقریریں کیں۔ ۲۹؍رمضان ۱۲۸۹ھ/۱۸۷۲ء کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی اور میراحسان کے امامباڑے میں دفن ہوئے۔ منیرشکوہ آبادی نے تاریخ کہی ؎ فاضل اخباری وہم زینت بزم عزا حضرت مرزا محمد آنکہ بدشیوا از بان زین جہاں شتافت آنکہ جانب جنات عدن در فراقش خونفشاں گردید چشم دوستاں سال مرگش در صفاتش نظم کردم اے منیر عالم اخباری و زوار و پاکیزہ بیان تفسیر قرآن: یہ تفسیر جامعیت کی حامل ہے۔ علمی نکات تحقیقی مباحث زیر بحث لائے گئے ہیں۔ سیدالعلماء سید علی نقی نقوی ’’اسی زمانہ میں میرزا محمد اخباری نیشاپوری تھے۔ ان کی تصانیف سے بھی ایک تفسیر قرآن ہے۱؎۔‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل مرزا محمد بن کاظم علی بن محمد رضا الشیعی الاخباری اللکھنوی احد العلماء المشہورین فی عصرہ، ولد ونشاء بمدینۃ لکھنو و قراء العلم علی والد، و علی السید حسین بن دلدار علی الحسینی النقوی النصیرآبادی ثم اللکھنوی و کان مفرط الذکاء جیدالقریحۃ، جدید الفکر واعظاً مذکراً سافر الی مشاہد العراق۔۱؎‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’عالم بارع میرزا محمد بن عبدالنبی بن عبدالصانع نیشاپوری ہندی معروف بہ ’’میرزا محمد اخباری‘‘ یکی از علمای بافضیلت و از مفسران قرن سیزدہم ہجری میباشد۔۲؎‘‘ آپ کی تفسیر قرآن اہم و علمی نکات پر مشتمل ہے یہ تفسیر سورہ الحمد سے آیہ ۲۸۱ سورہ بقرہ ’’واتقوا یوماً‘‘ تک ہے۔کتب خانہ مرحوم محدث ارموی تہران میں محفوظ ہے۳؎۔ ابتدائ: ’’نحمدک یا من انزلت علی عبدک الکتاب و نشکرک یا من اکرمت نبیک بانزال القرآن الذی فیہ آیات بینات…‘‘ دیگر آثار علمی: زہد و تقویٰ در بحث من و سلویٰ خواتیم الصالحین (فارسی) مطبوعہ ۱۲۴۹ھ نورالاسلام لکشف معنی الطعام۱؎ امداد علی خان، راجہ (م ۱۲۹۲ھ) تیرہویں صدی کے مایہ ناز مفسر قرآن راجہ امداد علی خاں بڑے عالم ،فاضل، ذی وقار، ذی اقتدار، دیندار بزرگ تھے۔ آپکی ولادت کنتور کے خوشحال معزز خانوادے میں ہوئی۔ آپکے والد ماجد رحمان بخش کنتور کے صاحب اقتدار افراد میں تھے۔ وطن ہی میں نشو ونما ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حکیم سید علی حسن کنتوری سے حاصل کی پھر لکھنئو گئے اور وہاں مولانا اعظم علی طاب ثراہ شاگرد جناب غفرانمآب اور شیخ ولی اللہ بن حبیب اللہ (متوفی ۱۲۷۰ھ) سے تکمیل کی۔ تفسیر قرآن اور ادبیات سے خاص شغف تھا۔ قرآن شناسی محبوب مشغلہ تھا۔ قرآن مجید کی تفسیر پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ عقائد و کلام ، فلسفہ و منطق ، ادبیات عرب پر غیر معمولی دسترس تھی۔ آپ نے دو تفسیریں لکھیں۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الامیر الفاضل امداد علی بن رحمن بخش الشیعی الکنتوری، احد الرجال المشہورین، ولد بکنتور سنۃ ثمان و مأتین والف و قراء بعض الکتب الدرسیۃ علی السید علی حسن الحکیم الکنتوری ثم سافرالی لکھنو و قراء اکثر الکتب علی الشیخ ولی اﷲ بن حبیب اﷲ اللکھنوی قراء علی الشیخ اعظم علی تلمیذ السید دلدار علی المجتہد ولہ مصنفات منہا ’’منہج السداد‘‘ تفسیر القرآن و منہا تفسیر سورۃ یوسف بالعربیۃ فی صیغۃ الاہمال ولہ شرح الخطبۃ الشقشقیۃ و شرح علی مقامات الحریری، و رسالۃ فی المنطق توفٰی سنۃ اثنتین و تسعین و مائتین والف۱؎۔‘‘ ۱۔ تفسیر منھج السداد : یہ تفسیر معرکہ الآرا تفسیر ہے جسمیں مختلف علوم کے ذریعہ آیات قرآنی کی تفسیر قلمبند کی گئی ہے۔ ۲۔ تفسیر سورہ یوسف : یہ تفسیر آپکا علمی شاہکار ہے بلا نقطہ کی ہے اسمیں کہیں بھی کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا گیا جسمیں نقطہ آیاہو۲؎۔ یہ خطی نسخہ ہے۔ اس تفسیر سے مؤلف کی عربی زبان و ادب پر مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دیگر تالیفات : ۔ شرح خطبہ شقشقیہ مولا علی شرح مقامات حریری رسالہ فی المنطق آپکی وفات ۱۲۹۲ھ میں ہوئی۔ بندہ حسین (م ۱۲۹۶ھ) تیرہویں صدی کے نمایاں مترجم قرآن ملک العلماء مولانا سید بندہ حسین کی ولادت لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد سلطان العلماء سید محمد اور دادا آیت اﷲ سید دلدار علی غفرآن مآب تھے۔ فقہ و اصول کا درس والد ماجد اور معقولات کی تعلیم بڑے بھائی مولانا سید مرتضیٰ سے حاصل کی۔ والد ماجد نے علمی صلاحیت دیکھ کر ۱۲؍شوال ۱۲۵۱ھ کو اجازۂ اجتہاد مرحمت فرمایا۔ شیخ محمد حسین مازندرانی، علامہ سید علی تستری حائری نے اجازوں سے نوازا۔ والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے حکومت اودھ نے ’’ملک العلمائ‘‘ کا خطاب دیا، عدالت کی حاضری سے مستثنیٰ تھے، فقہ اصول، فلسفہ، منطق کے علاوہ علم تفسیر میں بھی اعلیٰ مہارت رکھتے تھے۱؎۔ ۲۹؍جمادی الثانی ۱۲۹۶ھ لکھنؤ میں رحلت فرمائی اور حسینیہ غفران مآب میں دفن ہوئے۔ ترجمہ قرآن باحواشی : آپ نے قرآن مجید کا اردو زبان میں ترجمہ کیا اور انتہائی معلوماتی حواشی قلمبند کئے۔ اس ترجمہ کو بی شیریں نے اپنے سرمایہ سے شائع کرایا تھا۔ صاحب تاریخ سلطان العلمائ: ’’ترجمہ قرآن بزبان اردو مع حواشی برای تقطیع صنائیہ کاغذ پر چھپا۔ جس میں حقائق مذہب اور معارف اسلام کو بڑے سلیقہ سے اپنی مادری زبان میں ڈھالا۔ یہ صحیفہ بی شیریں ایک متمول خاتون کے سرمائے سے طبع ہوا۔ میرے ابتدائی مطالعہ کے اقتباسات جلداول میں موجود ہیں۔ مولانا میر سید علی صاحب قبلہ آپ کے حقیقی چچا کی تفسیر ’’توضیح المجید‘‘ کے بعد یہ پہلا شاہکار تھا جو اردو میں منظر عام پر آیا۔ افسوس ہے کہ رف کاغذ نے اوراق کو عمر طبعی سے پہلے بوسیدہ کر دینا شروع کیا اور آج کسی کتب خانہ میں یہ ترجمہ نظر نہیں آتا۱؎۔‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل بندہ حسین بن محمد بن دلدار علی الشیعی النقوی النصیرآبای احد العلماء المجتہدین فی الشیعہ ولد و نشا بمدینۃ لکھنو و قراء العلم علی والدہ و علی اخیہ مرتضیٰ بن محمد و لزمہما مدۃ من الزمان وحصل لہ الاجازۃ من والدہ فلما توفٰی والدہ تولی الاجتہاد حسب وصیتہ۲؎‘‘ دیگر آثار علمی: قواعدالمواریث رسالۃ الخلیلیہ تحفۃ السائلین مقطوع الید الصراط السوی نہج السداد مواعظ حسینیہ رسالہ در طعام اہل کتاب ۱؎ حیدر علی مولانا سید حیدر علی نے نواب احمد علی خاں بہادر جنگ کے عہد میں فارسی تفسیر لکھی ’’عجائب التفسیر و غرائب التنزیل‘‘ اور نواب صاحب کے حضور میں پیش کی ا س کا خطی نسخہ رضا لائبریری رامپور میں شمارۂ ۱۵۳ میں محفوظ ہے خط نستعلیق ہے۱؎۔ مترجم (نا معلوم) قرآن مجید مترجم بحواشی جس کے سر ورق پر ۱۲۹۷ھ درج ہے، یہ ترجمہ مطبع عمدۃ المطابع امروہہ سے باہتمام سید علی حسن خان صاحب طبع ہوا تھا۔ آخری صفحہ پر خاتمہ کی عبارت یہ ہے : ’’للہ الحمد و الثنا‘‘کہ خالق ارض و سماء است بہ ساعت سعید قرآن مجید، فرقان حمید، مترجم، محشیٰ مذہب امامیہ بہ خط نمط خاکسار عصیار شعار رحیم بخش بر تر امروہوی نقل ہو کر بہ مطبع عمدۃ المطابع واقع امروہہ محلہ دانشمندان بہ اہتمام جناب سید علی حسن خان صاحب مالک مطبع و نیز کارپرداز مطبع طبع ہوکر ہدیۂ مومنین قاریان قرآن مبین ہے۔…‘‘ تاریخ از راقم بر ترکتاب خالق اکبر بروز سعد مطبوع بہر ور و ثواب عظیم شد بودم بفکر سال کہ آمد ندائے غیب تاریخ طبع خوب کتاب کریم شد ۱۳۰۱ھ یہ نسخہ مولانا مسرور حسن صاحب مرحوم کے کتب خانہ مجیدیہ، مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں موجود ہے۔ اس کی اطلاع مولانا مرحوم نے مجھے دی تھی۔ محمد عباس، شوشتری (۱۳۰۶ھ) چودھویں صدی کے قابل فخر مفسر قرآن سرکارمفتی محمد عباس کا تعلق خانوادہ علم و ادب سے تھا آپ کے جد علامہ سید نعمت اﷲ جزائری تھے جن کی اولاد دکن اور لکھنؤ میں آباد ہوئی۔ مفتی صاحب کی ولادت شب شنبہ ربیع الاول ۱۲۲۴ھ/۱۸؍مارچ ۱۸۰۹ء کو جناب مولانا سید علی اکبر جزائری کے یہاں لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ نے فارسی کا درس والد ماجد سے لیا۔ فقہ، اصول، کلام و عقاید کی تعلیم سیدالعلماء سید حسین سے اور معقولات کا درس علماء فرنگی محل مولانا عبدالقدوس و عبدالقوی سے لیا اور قابل رشک صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ خداوند عالم نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ عہد طفلی سے علم و ریاضت کا شوق تھا۔ لہو و لعب سے متنفر تھے۔ بارہ سال کی عمر میں’’بنیاداعتقائد‘‘ (منظومہ) اور چودہ برس کی عمر میں مثنوی ’’من و سلویٰ‘‘ لکھ کر ارباب علم کو محوحیرت کیا۔ آپ کی ذہانت، ذکاوت، قابلیت اور بلند فکری خداوند عالم کا خاص عطیہ تھا۔ حاضردماغی اور اعلیٰ صلاحیت کی بنا پر اساتذہ بھی آپ کا بہت احترام کرتے تھے بالخصوص سیدالعلماء سید حسین صاحب بے حد محبت کرتے تھے اور اپنی ذمہ داریاں آپ کے سپرد کر دیں تھی۔ ۱۲۶۱ھ میں سلطان العلماء سید محمد نے آپ کے فقہی تبحر کے پیش نظر مفتیٔ لکھنؤ نامزد کیا اور بادشاہ نے ’’تاج العلمائ‘‘ افتخار الفضلاء کے لقب سے نوازا ۔ آپ نے قضاوت اور انشاء کے لیے ایک دستور قلم بند کیا جو اودھ کے تمام قاضیوں کو بھیجا گیا ۔ استاد مدرسہ، قاضیٔ شریعت ہونے کے باوجود سادگی کا یہ عالم تھا جو لباس مل جاتا تھا وہ پہن لیتے تھے، اچھا لباس محتاجوں کو دے دیا کرتے اور بوسیدہ لباس پہننے میں فخرمحسوس کرتے تھے۔کھانا جو مل گیا کھا لیا، گھر کا سودا خود لاتے جبکہ نوکر چاکر سب موجود تھے۔ ہر ایک سے بے تکلف، طبیعت مزاح پسند تھی، ظرافت، تاریخ گوئی اور بذیہ سنجی میں ان کا کوئی جواب نہ تھا۔ فقہی تبحرکایہ عالم تھا کہ اس وقت لکھنؤ میں فقہ کا بڑا چرچا تھا اور استدلالی فقہ کے اس دور نشاط میں بڑے بڑے فقہاء مسند اجتہاد پر فائز تھے۔ عراق میں ان دنوں حضرات آیۃ اﷲ شیخ محمد حسن صاحب جواہر الکلام اور حضرت آیۃ اﷲ سید علی طباطبائی مراجع تھے۔ جن کی تخلیقات فن استدلال میں حرف آخر تسلیم کی جاتی تھیں۔ مفتی صاحب نے بغیر عراق وایران جائے ہوئی۔ نجفی دبستان اور قمی اسلوب پر ’’شریعت غرّا‘ جیسی معرکۃ الآرا فقہی تخلیق پیش کرکے فقہ میں ادب کی چاشنی بھری، ہر مسئلہ پر مخالف و موافق آراء و فتاویٰ ۔ پھر پرفتوے پر کتاب و سنت و اصول فقہ سے استدلال کرکے اپنے مسلک کی تقویت اس قدر جامعیت کے ساتھ پیش کی کہ قاری مطمئن ہو جاتا ہے۔ لطف یہ کہ ایک ایک فن میں متعدد کتابیں لکھیں اور ہر کتاب معیاری اور لاجواب ہے۔ ہر علم و فن کے اساتین سے روابط تھے سب احترام کرتے تھے اور اہم مسائل میں آپ سے رائے لیتے تھے۔ آپ نے ہر موضوع اور ہرفن میں کتابیں تحریر کیں علم ہیئت، فلسفہ، تاریخ، کلام، عقائد تفسیر، حدیث، حساب، منطق، رجال، ادب، میں آپ کے آثار یادگار ہیں۔ ۱۸۵۷ء کے غدر میں آپ کے بہت سے علمی آثار ختم ہو گئے۔آپ نے ہندوستان کے متعدد اہم شہروں کے سفر بھی کئے جن میں عظیم آباد، کلکتہ، امروہہ، بنارس، کانپور، قابل ذکر ہیں۔ آخری عمر میں مستقل لکھنؤ میں قیام رہا۔ ضعیفی کے باوجود درس موعظہ، تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا۔ غرض کہ ۲۵؍رجب ۱۳۰۶ھ/مارچ ۱۸۸۹ء کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی اور حسینیہ غفرانمآب کے صحن میں آسودۂ لحد ہوئے۔ سرکار نجم العلماء سید نجم الحسن صاحب جو آپ کے شاگرد رشید اور خویش بھی تھے آپ کے جانشین بنے جنھوںنے مفتی صاحب کی حفاظت اور اشاعت کی۔ مفتی صاحب کو قرآن اور تفسیر سے خاص شغف تھا۔تفسیر پر گہری نظر تھی اور وسیع مطالہ رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے چھ تفسیریں قلمبند فرمائیں۔ تفسیرروائح القرآن فی فضائل امناء الرحمن: عربی زبان میں یہ تفسیر آپ کا علمی و ادبی شاہکار ہے جو ۱۲۷۸ھ میں مطبع جعفری لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ ۴۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ سلطان المدارس اور جامعہ ناظمیہ لکھنؤ کے کتب خانوں میں محفوظ ہے۔ ابتدائ: نحمدک یا من لا یمنع من کرمہ الشامل ولا ینہر عن نہر السائل و نصلی علی نبیک محمد سیدالاماثل المنعوت بالجلائل و زین المسائل و زبدۃ الرسائل و زینۃ المحافل و عودۃ النوازل فی تخریج آیات الفضائل التی ذکر اکثرہا فی کشف الحق و نہج الصدق للعلامۃ الفاضل و تعقبہ الفضل الفصول صاحب ابطال الباطل بمالایرضی بہ۔۔۔۔الخ اس تفسیر میں حضرت امیرالمومنین اور اہل بیت علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی آیات میں سے ۱۳۱ آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ شاہد مدعا اور مطالب کے ثبوت میں کتب وروایات اور تفاسیر اہلسنت سے استدلال کیا ہے۔ علامہ حلی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’کشف الحق و نھج الصدق‘‘ میں جن آیات سے استدلال کیا اور فضل بن روز بہان نے اس پر جو اعتراضات کئے تھے۔ اس کتاب میں ان اعتراضات کا بھی نہایت لطیف و مسکت جواب دیا ہے۔ اس کے مقدمہ میں دو آیتیں آیات مذکور کی لکھیں ہیں ایک ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ دوسرے ’’اھدناالصراط المستقیم اور نہایت نفیس مطالب درج فرمائے ہیں۔ کتاب کے شروع میں مفصل فہرست مندرج ہے جس سے کتاب کے محتویٰ کا آسانی سے علم ہو جاتا ہے۔ فہرست کے خاتمہ پر مفتی صاحب نے اس کتاب کے اور علامہ حلی کی کتاب کے مابین وجوہ فرق تحریر کرتے ہیں جو نو ہیں: اس کتاب میں آیات کا بیان بترتیب قرآن مجید ہے اور علامہ حلی نے اس کا لحاظ نہیں فرمایا۔ علامہ حلی نے صرف آیات خلافت پر اختصار کیا ہے اور اس کتاب میں آیات فضائل بھی درج ہیں۔ علامہ حلی نے صرف امیرالمومنین کے متعلق آیات لکھیں ہیں اور اس کتاب میں اہلبیت الطہار کے متعلق بھی آیتیں مذکور ہیں۔ کتاب میں مخالفین کے مذہبی خیالات بھی جابجا اضافہ کئے گئے ہیں۔ علامہ حلی نے صرف ۸۴ آیتیں لکھنے پر اختصار کیا ہے۔ اس کتاب میں جن کتابوں سے مطالب نقل کئے گئے ہیں ان کے اسماء بھی ظاہر کر دئیے ہیں۔ اس کے علاوہ مفصل فہرست ان کتابوں کی مع اسمائے مصنفین بھی درج ہے جن کی تعداد ۱۲۹ ہے آخر میں ان شیعہ کتب کا بھی ذکر ہے جن سے اس تصنیف میں مدد لی گئی ہے۔ کتاب عبارت کی رنگینی اور مضامین کی لطافت اور اشعار آبدرا اور کنایات و استعارات لطیفہ اور نکات ادبیہ اور لطائف عربیہ سے مالا مال ہے۔ کتاب کے متن میں مصنف نے جس قدر مطالب تحریر کئے ہیں ان کے علاوہ جابجا نہایت مفید حواشی بھی تحریر فرمائے جو تحقیقات کا انمول ذخیرہ ہیں۔ ۱۲۵۷ھ میں یہ کتاب ۱۱۰ آیات پر ختم کر دی تھی اس کے بعد باقی آیات کا اضافہ کیا اور ۱۲۷۱ھ میں اس کی تکمیل کی۔ ۱۲۷۷ھ میں بفرمائش نظام الملک معین الدولہ نواب سید باقر علی خاں مطبع جعفری میں طباعت کا آغاز ہوا اور ۱۲۷۸ھ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔ اس کا نام اولاً روح القرآن تھا چنانچہ بعض تاریخوں میں بھی یہی نام نظم ہوا ہے اس کے بعداس کا نام روائح القرآن رکھا گیا۔ کتاب کی عظمت و جلالت اس خط سے بھی ظاہر ہوتی ہے جو عراق سے اس کے اشتیاق میں آیا تھا۔ مفتی صاحب نے اس کی کچھ جلدیں عراق بھیجیں نجف اشرف میں جب اس کی ایک جلد مرجع عالیقدر شیخ مرتضیٰ انصاریؒ صاحب رسائل و مکاسب کے پاس پہنچی تو آپ احتراماً کھڑے ہو گئے اور لے جانے والے کو اپنی جگہ بیٹھایا اور کتاب کو سر پر رکھا اور فرمایا یہ ہمارے سید محمد عباس کا عطیہ ہے جو ہمارے لیے باعث فخر ہے۱؎۔ آغا بزرگ تہرانیؒ آپ کی تفاسیر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’تفسیر السید محمد عباس سورۃ یوسف و الرحمن و ق وحسناء عالیۃ المہر سورۃ الدہر و تفسیر آیۃ ’’و سیجنبہا الاتقی و حواشی القرآن۲؎‘‘ تفسیرسورۃ الرحمن: عربی، خطی سورہ رحمن کی علمی و ادبی تفسیر ہے۔ تفسیرسورۂ ق: سورہ کی تحقیقی تفسیر ہے جو دقیق وفنی مطالب پر مشتمل ہے۔ تفسیرآیۃسیجنبا الاتقی عربی، مخطوطہ تفسیرانوار یوسفیہ (خطی )عربی زبان میں سورہ یوسف کی تحقیقی تفسیر ہے۔ حسناء عالیہ المہرفی تفسیر سورۃ الدہر (خطی) فارسی زبان میں سورہ دہر کی تفسیر ہے جس میں اہلبیت کے ایثار کو نمایاں کیا گیا ہے۔ حواشی قرآن: عربی زبان میں قرآن پر مفید اور معلوماتی حواشی مندرج ہیں۔ دیگرآثار علمی: شری الاربعین (عدیث) فارسی، سیف مسلول جامع الاصول (عربی)، نزع القوس من روضۃ الفردوس(عربی) ترصیع الجواہر۔ جواہر سنیہ سے احادیث قدسیہ کا خلاصہ (عربی) جواہر الکلام ملقب بہ انہارالانوار۔ اصول کافی سے احادیث کی شرح لطیف (عربی) التقاط الثالی من الامالی۔ امالی شیخ صدوق سے انتخاب احادیث(عربی) روح الایمان۔ اصول دین سے متعلق چالیس احادیث کی شرح۔ علم کلام شعلۂ جوالہ: احراق قرآن کے متعلق نادر و لطیف کتاب۔ (عربی) آتشپارہ ترجمہ شعلۂ جوالہ: (فارسی) بغیۃ الطالب فی اسلام ابی طالب: (عربی) ایمان ابو طالب کا ثبوت جواہر عبقریہ رد تحفۂ اثنا عشریہ: باب غیبت امام عصر کا جواب (فارسی) جواب منتہی الکلام: (فارسی) روح الجنان فی مطاعن عثمان: (عربی) دلیل قوی: (فارسی) مقتل عثمان: (عربی) رسالہ رجعت تائید الاسلام: رد عیسائیت (اردو) مطرفہ فی الرد علی المتصوّفہ: (عربی) نصرالمومنین ملقب بہ مقام محمود: رد یہودیت درہ بھّیہ در مبحث تقیہ منابرالاسلام: ۲ جلد مواعظ لقمانیہ مواعظ حسنہ مجالس المواعظ:۵ جلد (اردو) فقہ و اصول فقہ شریعت غرا: (فقہ استدلالی عربی) رشحۃ الافکار فی تحدید الاکرار: (عربی) اساورعسجدیہ علی مبحث الفوریہ: (اصول فقہ عربی) استفسار نورالابصار فی مسائل الاصول والاخبار : (رد اخباریت) کتاب القضا: (احکام قضاسے متعلق، عربی) نبراس فی حجیۃ القیاس: (اصول فقہ عربی) جلجلۃ السحاب فی حجیۃ ظواہر الکتاب: (اصول فقہ میں ہے سیدالعلماء سید حسین نے تقریظ لکھی ۱۲۶۲ھ) فوح العبیرفی الاحباط والتکفیر صفحہ الماس فی غسل الارتماس سماء مدرار فی الاصول والاخبار روض اریض فی منجزات المریض: (عربی) معراج المومنین : (فارسی) طہارۃ، صلوۃ ) بناء الاسلام فی احکام: الصیام: (فارسی) تحفۂ حسینیہ فی حل عبارۃ من الصومیہ: ( عربی) طریق جعفری : مسائل کا جواب (فارسی) لسان الصباح: تحقیق وقت صبح (عربی) اقبال خسروی دربیان طہارۃ و صلوٰۃ: (اردو) حواشی درہ منظومہ: (عربی) تعلیقہ انیقہ حواشی شرح لمعہ: (عربی) (صرف و نحو) توصیف التعریف: وجوہ الاستعمال فی صلۃ الافعال (علم معانی وبیان و عروض) رسالۂ عروض: (فارسی) اطلاق الصبی در تحقیق لفظ صبی، رسالہ در معانی و بیان رفع الالتباس عما و قع فی معنی الشعر فی المعیار والاساس (علم منطق، فلسفہ، ہئیت و ہندسہ) تعلیقہ حسناء حواشی ملاحسن بر شرح سلم، حواشی شرح سلم، حواشی تحریر اقلیدس رسالہ فارسیہ در منطق ، جواب انتقاض انعکاس خاصتین، ترجمہ صدرا حواشی ملاجلال، رسالہ در جواب شبۂ ابن کیمونہ (ادب) موجۂ کوثری شرح قصیدہ حمیری، اوراق الذہب، شمع المجالس، یدبیضا قصیدہ امام موسی کاظمؑ، مثنوی جوہر، مثنوی خطاب فاصل در جواب دمغ الباطل، مثنوی آب زلال، مثنوی گوہر شاہوار فارسی، مثنوی بیت الحزن، مثنوی صحن چمن شرح خطبہ شقشقیہ دیوان فارسی ۳ جلد، مثنوی بطرز نان و نمک فارسی، مثنوی من وسلویٰ، کشکول و غیرہ کے علاوہ بہت سی تالیفات ہیں۱؎۔ محمد ابراہیم (م ۱۳۰۷ھ) چودھویں صدی کے گرانقدر مفسر قرآن شمس العلماء مولانا سید محمد ابراہیم، ممتاز العلماء سید محمد تقی کے فرزند تھے۔ خاندان اجتہاد کے نامور عالم اور فقیہ تھے۔ ۱۰ جمادی الثانی ۱۲۵۹ھ/۹ جولائی ۱۸۴۳ء کو لکھنؤ میں متولد ہوئے حکومت اودھ نے اسی دن سے تیس روپیہ ماہوار وظیفہ مقررکیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مولوی کمال الدین سے معقولات اور اپنے والد ماجد سے منقولات کا درس لیا۔ کمسنی ہی سے ذہین اور جید الحافظہ تھے۔ امت مسلمہ کی خیر خواہی اور ۱۸۵۷ء کے بعد بدلتے ہوئے ماحول میں اسلامی زعامت کے فرائض انجام دینے میں بڑے تدبر سے کام لیا۔ ۱۸۸۹ء میںمقدمہ ’’خلیفۃ بلا فصل‘‘ میں آپ کا بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے، بحث کے بعد آپ کے بیان نے مقدمہ کا رُخ بدل دیا اور ایسا فیصلہ ہوا کہ پھر یہ جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ ۲؍جون ۱۸۸۴ء کو آپ کی کوشش سے آصف الدولہ کا امامباڑہ انگریزی فوج سے خالی ہوا اس کے ساتھ ٹیلے والی مسجد جسے انگریزوں نے دواخانہ بنا رکھا تھا آزاد کرائی۔ آصف الدولہ کی مسجد میں نماز جمعہ اور نماز عیدین قائم کی۔ ۱۲۹۸ھ میں زیارات کے لیے عراق تشریف لے گئے جناب زین العابدین مازندارانی سید ابوالقاسم طباطبائی، شیخ حسن کاظمینی نے اجازات سے نوازا۔ ایران بھی تشریف لے گئے ۔ مشہد مقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے شاہ ایران نے بھی ملاقات کرنا چاہی اور اپنے یہاں مدعو کیا آپ نے قبول نہیں کیا مگر علماء کے اصرار پر آپ نے شاہ سے ملاقات کی شاہ نے بہت احترام کیا اور الماس کی انگوٹھی تحفہ میں دی وہاں سے قندھار اور ہرات تشریف لے گئے ہرات میں آٹھ دن اور چار دن قندھار میں قیام کیا امیر نے چار دن تک آپ کی ضیافت کی آپ چمن سے میرٹھ اور میرٹھ سے لکھنؤ آئے اور یہ سفر دو سال میں مکمل ہوا۔ ایک شب آپ نے خواب دیکھا کہ ایک وسیع باغ میں قصر عالی شان بن رہا ہے وہاں ممتاز العلماء سید محمد تقی صاحب رونق افروز ہیں آپ نے پوچھا یہ کس کا باغ ہے ممتازالعلماء نے جواب دیا، اس کی تعمیر تین ماہ بعد ختم ہوگی اور یہ باغ و مکان تم کو دیا جائے گا آپ خواب سے بیدار ہوئے اور فرمایا میری عمر کے تین ماہ رہ گئے ہیں۱؎۔ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’وی فاضل المعی عالم یلمعی نخبۃ الفضلاء الکرام زبدۃ العلماء العظام بودہ تحصیل جملہ علوم نزد والد ماجد خود نمودہ وبدرجۂ عالیہ رسیدہ۔ وبجای والد ماجد خود بر مسند افادات و افتاء زینت بخش شدہ۔۲؎‘‘ تفسیر ظل ممدود: یہ تفسیر سورہ یوسف ہے جس میں کلامی مباحث پائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ کے والد ماجد جناب ممتاز العلماء سید محمد تقی صاحب نے جو تفسیر بنام ’’ینابیع الانوار‘‘ تصنیف فرمائی تھی اس کی تیسری جلد آپ نے تصنیف کی اس کے سلسلہ میں صاحب تذکرہ بے بہا رقمطراز ہیں کہ: ’’تفسیر کی تصنیف میں بھی مشغول تھے جناب ممتازالعلماء نے تصنیف شروع فرمائی تھی۔ اس کا نام ینابیع الانوار ہے۔۱؎ ‘‘ تتمہ ینابیع الانوار: ’’والد ماجد نے جہاں تفسیر چھوڑی تھی اس کے بعد والی آیت سے آپ نے لکھنا شروع کیا۔ یہ نسخہ کتب خانہ ممتازالعلماء لکھنؤ میں محفوظ ہے‘‘ ابتدائ: ’’الحمدﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی محمد و آلہ الطاہرین‘‘ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی لکھتے ہیں: تفسیر کا اسلوب وہی ہے جو والد کا ہے۔ مثلاً پہلے آیت کی مکمل طور پر تشریح کی ۔اس کے بعد آیات کے خاص نکات ’’الفائدہ‘‘ کے عنوان سے پیش کئے ہیں۔ اسی طرح متعدد نکات کو اولیٰ، ثانیۃ، ثالثۃ کے تحت بیان کرتے چلے گئے ہیں۔ حاشیہ پر بھی ضروری مطالب لکھے ہوئے ہیں۔ یہ نسخہ مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جابجا ترمیم ہوئی ہے۔ خاتمہ کی عبارت: ’’و سبب یجب احد ہما خارج عنہما کذوج وہو ابن عم و للزوجۃ اخ اوولد‘‘ میراث سے متعلق آیات کی مکمل تشریح فرمائی ہے ۔ ورثاء کے طبقات اور ان کے حصوں کی وضاحت اچھے انداز سے کی ۔ مختلف ورثاء کی صورت میں ان کے حصے بھی تحریر کئے ہیں۔ ورثاء کا ذکر الگ الگ عنوان سے کیا ہے۔ ’’میراث الاخوۃ ذکوراً ام اناثاً‘‘ (بھائی بہن کی میراث کے بارے میں) ’’فی میراث الاخوال‘‘ (ماموں کی میراث کے بارے میں ) ’’فی میراث الاعمام‘‘ (چچا کی میراث) اس طرح تمام ورثاء کی میراث کا ذکر موجود ہے۔ مگر افسوس کہ یہ کاوش بھی پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۱؎۔ دیگر تالیفات: امل آمل بارقۂ ضیغمیہ (بحث متعہ) نورالابصار فی اخذالثار (احوال مختار) یواقیت و در رفی التماثیل والصور شمعہ فی احکام الجمعہ، کتاب المسائل بضاعۃ مزجاۃ حاشیہ بر مسالک الافہام (کتاب بیع) تحف المومنین دعائم الایمان فی اصول الدین۲؎ احمد نذر، امروہوی(م ۱۳۱۰ھ) چودہویں صدی کے اہم مفسر قرآن مولانا سید احمد نذر کی ولادت محلہ سٹھی امروہہ میں ہوئی۔ آپ کے والد سید جعفر نذر امروہہ کے ارباب علم و فضل میں تھے۔ تعلیمی مراحل امروہہ ہی میں طے کئے علم جفر میں مہارت تھی اور خوشنویسی میں بھی مہارت رکھتے تھے اور یہ فن حد کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ ایک عرصے تک مرادآباد منصفی میں بعہدۂ ناظر ملازم رہے اور اس کے بعد ریاست رامپور میں ملازم ہوئے۔ آپ امروہہ کے مشہور عمائدین میں شمار کئے جاتے تھے۔ آپ نے ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء میں وفات پائی۱؎۔ مشہور مورخ سید رحیم بخش لکھتے ہیں: ’’یہ پیش نماز صاحب علم ذی کمال تھے۔ علم جفر میں آگہی حاصل تھی۔ خوش نویس اچھے تھے۔ ان کا زہد و تقویٰ اس درجہ پہنچا ہوا تھا کہ بحالت نہ ہونے درجہ اختتام علوم کے مذہب شیعہ میں پیش نمازی کرتے تھے۲؎۔ ‘‘ تفسیر انتخاب روح الجنان: یہ آپ نے علامہ جمال الدین ابوالفتوح الحسین بن علی بن محمد نیشاپوری کی تفسیر ’’روح الجنان و روض الجنان‘‘ کا خلاصہ فارسی زبان میں ہے۔ یہ نسخہ رامپور رضا لائبریری میں موجود ہے۔ اس کی کتابت ۱۲۹۹ھ میں ہوئی۔ خط نستعلیق و نسخ عمدہ میں لکھا ہوا ہے۔ علی محمد،تاج العلمائ( ۱۳۱۲ئ) مولاناسید علی محمد، سلطان العلماء سید محمد کے فرزند اور حضرت مولانا سید دلدار علی غفرنمآب کے پوتے تھے۔ آپ کی ولادت ماہ شوال ۱۲۶۲ھ/۱۸۴۵ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔ والد بزرگوار اور اس دور کے جید علماء سے کسب فیض کیا اور فقہ، اصول، عقائد و کلام میں مہارت حاصل کی اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ فن مناظرہ میں ملکہ حاصل تھا۔ یہو دو نصاریٰ سے مناظرہ کرنے کے لیے عبرانی زبان سیکھی کتب ما سبق کا بھی گہرا مطالعہ تھا۔ حسام الاسلام سید نثار حسین صاحب سے شیخ محمد علی شیخی کا مناظرہ حیدرآباد دکن میں ہوا۔ دکن والوں نے علماء لکھنؤ سے جوابات مانگے وہ جوابات نجف و کربلا علماء کی خدمت میں بھیجے گئے ان علماء نے تاج العلماء سید علی محمد کے جوابات کو بہت سراہا اور تعریف کی۔ سلطان العلماء کی وفات کے بعد آپ عراق تشریف لے گئے۔ اس وقت آیۃ اﷲ شیخ زین العابدین مازندرانی، ملاحسین اوردکانی، آقای حسین شہرستانی، آقای سید علی طباطبائی، وغیرہم نے ۱۲۸۵ھ میں پندرہ اجازے عطا کیے۔ قرآن شناس میں دقیع مطالعہ تھا اور تفسیر قرآن پر عبور رکھتے تھے۔ آپ نے اس سلسلے میں کئی آثار علمی چھوڑے۔ ترجمہ قرآن: یہ ترجمہ بغیر متن عربی دو جلدوں میں ۱۳۰۴ھ میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ ترجمہ سلیس و رواں ہے جب کہ وہ دور فارسی زبان کا تھا مگر آپ نے اس زمانے میں قرآن مجید کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے اردو ادب میں اضافہ کیا۔ اس دور میں اردو زبان میں کتاب لکھنا علماء کی شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا مگر آپ نے ہمت کی اور اس اہم کام کو انجام دیا جسے عوام نے پسند کیا۔ یہ ترجمہ کتب خانہ عمدۃ العلماء غفرانمآب لکھنؤ میں موجود ہے۔ دُرِّ بی بہا تفسیر سورہ دہر: یہ تفسیر ۱۳۱۰ھ میں مطبع اثنا عشری دہلی سے شائع ہوئی۔ اس تفسیر میں سورۂ دہر کی آیات کے اسرارو رموز اور علمی نکات بیان کیے گئے ہیں ایک ایک آیت کی تفسیر انتہائی فکری انداز میں پیش کی ہے اور آیات کے ذیل میں فضائل اہلبیت بیان کیے ہیں۔ یہ تفسیر رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔ تفسیر احسن القصص: یہ عربی زبان میں سورہ یوسف کی تفسیر ہے جو مطبع صبح صادق عظیم آباد سے شائع ہوئی۔ ۸۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ تفسیر میں سورہ یوسف کے اہم موضوعات پر علمی بحث کی ہے۔ انبیاء کے علم غیب، عصمت انبیائ، اور اثبات نبوت کوادلہ سے ثابت کیا ہے۔ نبوت کے سلسلے میں یہود و نصاریٰ کے اعتراضات کے مسکت جوابات انہیں کی کتابو ں سے دیے ہیں جا بجا عبرانی کتابوں کی عبارتیں اور ان کے حوالے موجود ہیں۔ اس سے آپ کی عبرانی زبان پر قادرالکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سورہ یوسف کو احسن قصص کہنے کی وجہ اور اس کے اخلاقی پہلوؤں پر بھرپور بحث کی ہے۔ یہ تفسیر ۱۱؍ربیع الاول ۱۳۰۵ھ/۱۸۸۶ء کو مکمل ہوئی اور رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔ دیگر تالیفات: شرح خطبہ شقشقیہ رسالہ قاسمیہ در عقد جناب قاسم تحقیق عجیب در عدم ضمان طبیب رسالہ مھدویہ خطاب فاضلی (حلیت قلیان) موعظۂ جونپوریہ شرح رسالۂ ذخیرہ موعظہ اکبرپوریہ رسالہ مکیہ موغطہ عظیم آبادیہ تحفۃ الواعظین عید کا چاند رسالہ در فن تجوید ترجمہ الفیہ شہید ارشاد الصائمین رسالہ عروض و قوافی شرح رسالہ زبدہ (عربی) طرائف الظرائف حاشیہ زبدۃ الاصول متن متین (فقہ عربی، غبارمفطرصوم ہے) نخبۃ الدعوات رسالہ عدیمۃ المثال (جواز تصویر عکسی) مثنوی غرّہ منظومہ اثنا عشریہ عجالیہ ترجمۃ الصلوٰۃ رسالہ مفردہ ہندیہ تعلیم الاطفال نورکاتڑکا ترجمہ دعائے صباح لیلیہ تعلیق انیق(عربی) الدرالثمین فی نجاسۃ العنسلات احتجاج علوی رد پادری عماد الدین زاد قلیل (عربی کلام) رسالہ ساعتیہ رسالہ عدم جواز جہاد در غیبت امام وفات: علم و فقاہت کا یہ آفتاب جمعہ ۴؍ربیع الثانی ۱۳۱۲ھ/۱۸۹۴ء کو لکھنؤ میں غروب ہو ا اور حسینیہ غفرآنماب میں والد ماجد کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۱؎۔ ناصر حسین، جونپوری (م ۱۳۱۳ھ) چودہویں صدی کے ممتاز مفسرقر آن مولانا ناصر حسین جونپوری مولانا سید مظفر حسین جونپوری کے فرزند تھے۔ ۱۲۵۴ھ/۱۸۳۸ء میں متولد ہوئے ملا محمد حفیظ (م ۱۱۲۸ھ) مفتی جونپور کی ساتویں پشت میں تھے۔ تعلیم و تدریس میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کے درس میں بڑی تعداد میں طلاب شرکت کرتے تھے۔ ابتداء میں منطق و فلسفہ کا درس دیا آخر میں ادبیات اور فقہ کی تدریس کرنے لگے ۔ مدرسہ ایمانیہ جونپور نے آپ کی سرپرستی میں ترقی کی۔ سادہ لباس پہنتے تھے منبر پر جاتے وقت عباپہن لیتے تھے تصنع اور تکلف سے نفرت تھی ناموری سے دور ۔ جامع معقول و منقول عالم تھے۔ مولانا گلشن علی کجگانوی اور تاج العلماء علی محمد صاحب سے فقہ کی تعلیم حاصل کی معقولات کا درس مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی سے لیا۔ مفتی محمد عباس صاحب سے بھی استفادہ کیا۔ شعر و ادب پر قدر ت تھی عربی نظم میں ملکہ حاصل تھا۱؎۔ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’بعدش تکمیل فقہ از مولانا سید تقی مجتہد العصر لکھنوی کرد و در جمیع علوم عقلی و نقلی بھرۂ وافی برداشت و گنجینۂ دلش از نفوذ علوم مملو گشت و بر مماثل وقران خود بلند پایگی یافت۔ اگرچہ کمند متاع علوم بدست دارد فامّا بر علم صرف و نحو و بلاغت وفقہ بنحوی توجہ گماشت کہ فردی از افراد مشاہیر گشت۲؎۔‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل ناصر حسین بن مظفر حسین الحسینی الشیعی الجونفوری احدالفقہاء الشیعۃ، ولد و نشاء بجونفور و قراء بعض الکتب الدرسیۃ علی مولانا سخاوۃ علی الجونفوری و بعضہا علی الشیخ عبدالحلیم بن امین اﷲ الانصاری اللکھنوی، ثم لازم الشیخ گلشن علی الشیعی الجونفوری واخذ عنہ الفقہ والکلام علی مذہب الامامیۃ ثم سافرالی لکھنو و اخذ عن السید محمد تقی مجتہد الشیعۃ و سافر الی الحرمین ثم الی مشاہد العراق فحج وزار و رجع الی الہند۔۱؎‘‘ ۱۴؍رجب ۱۳۱۳ھ/۱۸۹۵ء میں رحلت فرمائی اور خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔ ۱۔ یجاز التحریر درآیۂ تطہیر: مطبوعہ اس اردو تفسیر میں آیت تطہیر ’’‘انما یریداﷲ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت یطہر کم تطہیرا‘‘ کی محققانہ تشریح کی گئی ہے اور اس آیت کے مصادیق کی نشاندہی کتب معتبرہ سے کی ہے۔ اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ آیت اہل کساء کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ دیگر آثارِ علمی: عبرات العیون(مطبوعہ مقتل) نظر النذور حل الضابط (تہذیب المنطق کی شرح اردو) شرح زبدۃ الاصول (اردو) ناصر الادب رونق الصلوٰۃ رشق النبال (مناظرہ اردو) رسالہ در رد اخباریت علم الادب رسالہ در باری نجاست مشرکین۔ محمد حسین قلی خان، کانپوری (م ۱۳۲۰ھ) چودہویں صدی کے اہم مترجم قرآن نواب محمد حسین قلی خاں کا تعلق کانپور کے باوقار خانوادے سے تھا۔ آپ کے والد بزرگوار مہدی قلی خاں اور دادا منصور علی خاں کانپور کے نامور اہل علم و فضل میں سے تھے۔ محمد حسین قلی خانصاحب قومی و دینی خدمات میں بہت زیادہ منہمک رہتے تھے۔ مذہب اسلام کی سر بلندی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ آپ نے دیکھا کہ تورات اور انجیل کے ہندوستانی زبان میں ترجمے ہوگئے اور لوگ پڑھکر عیسائیت اور یہودیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں تو آپ سے رہا نہ گیا اورعہد کیا کہ قرآن مجید کا آسان ترجمہ ہندوستانی زبان میں کروںگاکہ لوگ قرآن کریم کی طرف راغب ہوںاور قرآن شناسی عام ہو۔ آپ نے اس ارادہ کا تذکرہ تاج العلماء سید علی محمد طاب ثراہ سے کیا۔ آپنے انکی بھرپور تائید کی۔ غرضیکہ یہ علمی کارنامہ منظر عام پر آیااور بہت مقبول ہوا۔ آپ کی وفات ۱۳۲۰ھ/ ۱۹۰۲ء میں ہوئی۔ اردوترجمہ قرآن شریف : یہ ترجمہ لکھنئو محلہ وزیر گنج سے پہلی محرم ۱۳۰۲ھ؍۴ دسمبر ۱۸۸۶ء کو مطبع اثنا عشری سے شائع ہوا جو کہ ۶۹۷ صفحات پر مشتمل بغیرمتن عربی کے ہے۱؎۔ غرض ترجمہ :۔ مترجم نے غرض ترجمہ اسطرح تحریر کی۔ اما بعد ! بندہ خاکسار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتا ہیکہ اس زمانے میں از بس کہ ترجمہ تورات اور زبور اور انجیل کوشش سے پادریوں کے ہر زبان میں مشہورہو گئی ہیں اور ہر شخص انکے مضامین سے کامیاب ہوتا تھا اور فاضل معاصر سید احمد خاں صاحب بہادر نے بھی ایک ترجمہ بلکہ تفسیر بطور خود کرکے ہوا و ہوس سے جابجا تحریف معنوی فرمائی تھی اور عبارت آرائیوں سے انکے اکثر عوام کا لانعام گمراہی میں پھنسے تھے اور اب تک جو ترجمے قرآن شریف کے اھلسنت میں ہوئے تھے وہ مطلب خیز نہ تھے اسوجہ سے کہ لفظوں کا لحاظ ان ترجموں میں زیادہ تھا اورمعنوں سے چنداں بحث نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہذا مناسب یہ معلوم ہوا کہ معارضہ میں اہل کتاب اور سید احمد خاں صاحب وغیرہ کے ایک معنوی ترجمہ قرآن شریف کا کیا جائے کہ اسمیں فقط ہر آیت کے معنی سے کام رہے اور ترجمہ لفظی سے قطع نظر کی جائے۔ سورہ الحمدکا ترجمہ نام سے اس خدا کے جو ترس کھانے والا مہربان ہے۔ ہر ایک تعریف اس خدا کیلئے ہے کہ جو پالنے والا دنیا بھر کا ہے۔ ترس کھانے والا مہربان ہے۔ بادشاہ ہے قیامت کے دن کا۔ تجھ ہی کو پرستش کرتے ہیںہم۔ اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیںہم۔ ثابت رکھ ہمیں سیدھے ڈھرّے پر۔ ڈھرّے پر ان لوگوں کے کہ نعمت دی تونے جنھیں نہ ڈھرّے پر ان کے جن پر غضب ڈھایا گیا اور جو بھٹکے ہوئے ہیں۔ ترجمہ معنی خیز کیا گیا ہے آزاد ترجمہ سے احتراز کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ قاری کو عبارت آرائی میں نہ الجھایا جائے شروع میں تاج العلماء مولانا سید علی محمد طاب ثراہ کی تقریظ مندرج ہے یہ ترجمہ رضا لائبریری رامپور میں راقم کی نظروں سے گذرا۔ مطاہر حسین، فرقانی، امروہوی امروہہ کے علماء و ادباء میں نامور نام مولانا سید مطاہر حسین فرقانی کا ہے۔ آپکی ولادت رجب المرجب ۱۳۲۲ھ؍۱۹۰۵ ء کو امروہہ میں ہوئی۔ آپ کو ابتدائی سن شعور سے تحصیل علوم و فنون کا شوق رہا۔ والد ماجد کی ادنی توجہ آپکی رسا طبیعت کے روز افزوں رجحان نے بہت کم عرصہ ہی میں علوم و معارف کے جواہر و خزائن آپکے سینے میں مخزون و ودیعت کر دیئے۔ ابتدائی تعلیم حسب دستور گھر ہی پر ہوئی۔ پھر مقامی اسکول میں تعلیم حاصل کرکے علوم عربیہ و فارسیہ کی تحصیل کے شوق میں مدرسہ نورالمدارس میں مولانا حاجی مرتضیٰ حسین طاب ثراہ کی شاگردی سے مشرف و ممتاز ہوئے۔ اور کچھ عرصہ دارالعلوم سید المدارس میں سرکار مولانا سید محمد مجتہد کی زیر نگرانی حصول علم کیا پھر اسکے بعد منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں سرکار یوسف الملت مولانا یوسف حسین صاحب سے کسب فیض کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد تعلیم و تعلم میں مصروف رہے اور محلہ دانشمندان امرہہ میں ۱۹۲۶ء میں مدرسہ تاج المدارس کی بنیاد رکھی اور اسکے صدر مدرس ہوئے۔ مگرکچھ عرصے بعد یہ درسگاہ بند ہو گئی۔ آپ ایک مدت تک انجمن معراج المومنین کے جنرل سکریٹری رہے اور اس انجمن کا نام تبدیل ہونے کے بعد انجمن تشئید الاسلام کے صدر منتخب ہوئے۔ امروہہ کی مایہ ناز و قابل فخر انجمن اصلاح معاشرہ کے رکن رکین ہونے کے علاوہ انجمن تنظیم المومنین امروہہ اور شیعہ آرٹس اسکول امروہہ کے بھی معاون رہے۔ پاکستان جانے کے بعد ایک عرصہ تک سندھ مدرسے میں درس و تدریس میں مشغول رہے۔ شاعری میں صاحب دیوان تھے آپنے بچپن میں جو اشعار کہے اس دیوان کا نام خیابان طفولیت رکھا۔ آپ نہایت وسیع الاخلاق، متواضع شگفتہ رو، زندہ دل، خوش طبع، صاحب فہم و ذکاتھے۱؎۔ عربی فارسی پر کامل عبور تھا ۔ تحریری خدمات کا بہت شوق تھا۔ ترجمہ تفسیر اصفیٰ: آپنے تفسیر اصفیٰ کا نہایت سادہ اور سلیس ترجمہ کیا جسے مقبولیت عام حاصل ہوئی۔ اس ترجمہ سے اردو تفاسیر میں ایک معلوماتی و مختصر تفسیر کااضافہ ہوا۲؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہـ: ’’مترجم آن سید مطاہر حسین امروہوی مدرس تاج المدارس ہندوستان امروہہ می باشد۔ این اثرکہ ترجمہ از تفسیر فیض کاشانی است۔۳؎‘‘ دیگر تالیفات : معین اللغات مجموعہ عربی، فارسی، ترکی مسائل و احکام خیابان طفولیت دیوان اردو دستور الحکماء (فلسفہ) پروانہء جنت معلم الاخلاق وسیلۂ نجات (مجموعہ کلام) رھبر منطق ترجمہ مثنوی مولانا روم ذکر شعراء امروہہ نحو میر (منظوم) کلیات فارسی کلیات اردو تحفۃ المومنین ابوالقاسم، حائری(م ۱۳۲۴ھ) بر صغیر کے نامور مفسرین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ ۱۲۴۹ھ/۱۸۳۳ء کو فرخ آباد یوپی میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد سید حسین کشمیر الاصل تھے جو قم ایران سے کشمیر منتقل ہو گئے تھے۔ مولانا ابوالقاسم نے لکھنؤ میں سلطان العلماء سید محمد اور سید العلماء سید حسین سے کسب علم کرکے فقہ، اصول، عقائد و کلام، تفسیر و حدیث میں مہارت حاصل کی۔ نواب رضا علی خاں قزلباش آپ کے زہد و تقویٰ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور اپنے ساتھ لاہور لے گئے۔ مولانا کے لاہور جانے کے بعد لاہور میں مذہبی و علمی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ موچی دروازے میں مسجد و مدرسہ قائم ہوا۔ طلباء کے قیام و طعام کا معقول انتظام کیا گیا۔ آپ درس و تدریس کے علاوہ موعظہ بھی فرماتے تھے۔ جسے سننے بڑی تعداد میں شہر کے اہل علم و امراء آتے تھے۔ آپ کے فیوض و برکات سے پنجاب میں علوم اہلبیتؑ کی ترویج ہوئی اور لوگ شیعیت سے متعارف ہوئے۔ مولانا نے حج و زیارت کا سفر کیا اس سفر میں وہ شیخ مرتضیٰ انصاری اور علامہ اردکانیؒ کے درس میں شریک ہوئے اور ان بزرگوں سے اجازے حاصل کئے۔ آپ بہت بااخلاق اور خوش مزاج تھے۔ اس لیے نیچری، عیسائی، آریہ، یہودی، اور مختلف فرقے اور مختلف عقائد کے افراد آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے شکوک و شبہات دور کرتے تھے۔ ۱۴؍محرم ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء کو رحلت فرمائی اور کربلا گامے شاہ لاہور میں آسودہ لحد ہوئے۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’مولانا سید ابوالقاسم بن سید حسین رضوی مقیم لاہور یکی از اعیان تفسیری قرن چہاردہم می باشد او یکی از مروّجان مذہب شیعہ در شبہ قارہ ہند بودہ۔ و دارای آثار و تالیفات سودمند و متعددی می باشد۔۱؎‘‘ آپ کو قرآن کی تفسیر سے گہرا لگاؤ تھا ہر وقت مطالعہ قرآن میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کا علمی شاہکار تفسیر قرآن ہے۔ تفسیر لوامع التنزیل: یہ تفسیر بر صغیر کی مایہ ناز علمی، تحقیقی، کلامی تفسیر قرآن ہے۔ ماہ رجب ۱۳۱۳ھ میں مکمل ہوئی۔ فارسی زبان میں ہر پارہ کی الگ تفسیر ہے۔ آپ نے بارہ جلدیں تحریر کیں تھیں کہ زندگی نے وفا نہیںکی جس کی باقی جلدیں آپ کے فرزند جلیل مولانا سید علی حائری نے ۲۷؍جلدوں تک پہنچایا۔یہ تفسیر ۱۳۲۵ھ میں لاہور سے شائع ہوئی ہر جلد پر علماء اعلام کی گرانقدر تقاریظ مندرج ہیں جن میں اس تفسیر کی اہمیت پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ آیۃ اﷲالعظمیٰ میر زا محمد حسن شیرازی تحریر فرماتے ہیں۔ ’’لوامع التنزیل و سوا طع التاویل الحاوی لمعالم التفسیر والتاویل والمتحوی لغررالفوائد والمتضمن لدررالمقاصد فما اتقن مبانیہ و اَرّق معانیہ واحسن نظامہ واحکم قوامہ حیث انہ اجتنی اثمارہا من الغارس العلوم والحکمۃ و ازہار من ریاض النبوۃ والامامۃ موشحہ بالمناسبات ذوقیہ و محلاۃ بالدفائق العقلیہ اللہم اجعل سعیہ مشکورا‘‘ آیت اﷲ فاضل اردکانیؒ: ’’خداوند مؤلف جلیل را بہ پاس تلاش و کوشش سختی کہ در تحقیق حقایق قرآنی و کشف دقائق تاویل آن انجام دادہ اند خیرواجر عنایت فرماید مطالب کتاب کہ جز از خامۂ دانشوران برجستہ نخواہد تراوید عقلہا را مبہوت می کند‘‘ آغاز جلد اول: الحمدﷲ الذی لا یقال ہو ولا کیف ہوولا حیث ہوالا ہو فمن قال ہو وہو ہیتاء الہویۃ۔۔۔ الخ پہلی جلد میں تقریباً ۳۵؍صفحات پر تیس عناوین کے تحت علوم قرآن اور اصول تفسیر قرآن پر استدلالی بحث کی گئی ہے۔ تفسیر کے منابع کے سلسلے میں تقریباً ۲۲؍کتب عام از شیعہ و سنی استفادہ کیا گیا ہے۔ اسلوب تفسیر اولاً کسی بھی آیت کو لغت کے ذریعہ حل فرمایا اہل لغت نے جتنے بھی معانی نقل کئے ہیں انھیں آپ نے ذکر کیا پھرا س کے بعد دیگر مفسرین کے نظریات نقل کرکے استدلال کے ذریعہ آیت کی مکمل وضاحت فرمائی ۔ اس طرح یہ تفسیر علمی، تحقیقی، تاریخی، کلامی تفسیر ہے۔ جس میں مختلف علوم کا سہارا لیا گیا ہے۔ صاحب علماء معاصرین: ’’ تفسیر التنزیل تفسیر مفصل و مبسوطی است مشتمل بر ۳۰ جلد، محتوی بر تحقیقات شریفہ و مطالب مہمہ و احوال علماء اخیار و اخبار ائمہ الاطہار می باشد۔۱؎‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’السید الفاضل ابو القاسم بن الحسین بن النقی بن ابی الحسن بن محمد القمی الکشمیری ثم اللاہوری، احد علماء الشیعۃ الامامیۃ، کان من نسل موسیٰ المبرقع علیہ و علی جدہ السلام، ولد بفرخ آباد سنۃ تسع و اربعین و مائتین بعد الالف و اشتغل بالعلم من صباہ و قراء بعض الکتب الدرسیۃ علی اہل عصرہ ثم لازم دروس السید محمد بن دلدار علی النصیرآبادی المجتہد بلکھنو و اخذ عنہ الفقہ والاصول و الکلام والحدیث و اجازہ السید محمد المذکور و ابن اخیہ السید نقی، ثم سافر للحج والزیارۃ فلما و صل الی لاہور سکن بھا عند النواب علی رضا خاں الشیعی اللاہوری۔۲؎‘‘ دیگر تالیفات: شرح تبصرۃالمتعلمین (عربی، قلمی) تعلیقہ بر شرح میر عبدالوہاب (قلمی) جنۃ الواقیہ ۲ جلد(اصول و فروع قلمی) ناصرالعترۃ الطاہرہ (فارسی) برہان المتعہ (فارسی) البشریٰ شرح مودۃ القربیٰ ۲ جلد(فارسی) حقائق لدنی شرح خصائص نسائی (فارسی) حجج العروس (عربی) سیادۃ السادہ در انساب تجرید المعبود (فارسی) ابطال تناسخ (فارسی) جواب لا جواب (اثبات عزداری فارسی) نفی الجبر مناظرہ نفی رویت اﷲ جواب العین در وجہ کسوفین (فارسی) ارکان خمسہ (فقہ) برہان البیان در آیۃ استخلاف (فارسی) بحث قبلہ زبدۃ العقائد خلاصۃ الاصول وغیرہ۱؎۔ محمد محسن، زنگی پوری (م ۱۳۲۵ھ) سرزمین زنگی پور علم و ادب کی وہ بستی ہے جہاں ہر دور میں بلند مرتبہ علماء و فقہاء منصہ شہود پر ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ انھیں میں سے حضرت مولانا سید محمد محسن کی ذات گرامی ہے جن کی ولادت ۱۵ رمضان المبارک ۱۲۶۳ھ/۱۸۴۶ء میں زنگی پور میں ہوئی۔ والد ماجد سید محمد حسین صاحب تھے۔ وطن ہی میں مولانا محمد علی صاحب اور مولانا علی حسین صاحب سے کسب علم کیا پھر کلکتہ مٹیا برج جاکر قائمۃ الدین مرزا محمد علی صاحب سے تکمیل علوم عقلیہ و نقلیہ کیا۔ جناب قائمۃ الدین اپنے اس شاگرد کو بیحد چاہتے تھے اور مثل فرزند سمجھتے تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد قائمۃ الدین نے تدریس کا حکم دیا۔ آپ بڑے ذہین اور ذکی تھے تکمیل علوم کے چند روز بعد نواب واجد علی شاہ کی حضوری میں طلبی ہوئی اور حکم ہوا کہ جس کتاب کا بادشاہ ترجمہ کریں اس میں بغرض اصلاح ترمیم فرما سکتے ہیں اور سو روپیہ ماہوار مشاہرہ مقرر ہو ا۔ بادشاہ کی حیات تک وہیں رہے اور ’’اکلیل العلمائ‘‘ کا خطاب ملا۔ بادشاہ آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ ماہ مبارک رمضان میں بادشاہ کے سامنے لعاب دہن پھینکنے کی ضرورت ہوئی لیکن آداب شاہی مانع ہوا بادشاہ نے محسوس کیا حکم ہوا کہ اگالدان مولانا کے سامنے رکھا جائے۔ اور یہ امر ناگوار طبع شاہی نہ ہوا بادشاہ نے مرنے سے ایک روز پہلے آپ کو بلایا اور دونوں ہاتھ گردن میں ڈال کر روئے اور فرمایا کہ میں نے اسی دن کے لیے آپ کا ساتھ دیا تھا آج آپ سے رخصت ہوتا ہوں اور میری تجہیز و تکفین آپ ہی انجام دیجیے گا۔ رجوع الی اﷲ اور تقوی الٰہی کا یہ عالم تھا کہ نماز و دعامیں بہت زیادہ گریہ کرتے تھے اور خوف الٰہی سے بے چین رہتے تھے۔دعائیں ایسے رجوع قلب اور درد ناک گریہ آمیز آواز سے پڑھتے سننے والا بھی متاثر ہو جاتا تھا۔ دو بجے شب ہی سے نماز تہجد و ادعیہ طلوع آفتاب تک پڑھتے تھے۔ مجلس عزا کی زینت تھے نام امام حسین علیہ السلام آتے ہی رقت طاری ہو جاتی تھی۔ ۱۳۱۴ھ میں عتبات عالیات سے واپسی پر امامباڑا شاہی سبطین آباد مٹیا برج میں ایک سودس روپیہ ماہوار کے متولی مقرر ہوئے مگر شاہزادگان نے مجالس میں سوزخوانی موقوف نہیں کی تو آپ تولیت سے مستعفی ہو کر وطن چلے آئے۔ تین بار حج و زیارت سے مشرف ہوئے آپ کے علم و فضل زہد و تقویٰ کو دیکھ کر آیۃ اﷲ مرزا حسین شہرستانی نے بلا طلب اجازۂ اجتہاد عنایت کیا۔ آپ شہرت و ناموری سے دور تھے۔ تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا۔ سفر و حضر میں بھی پابندی سے وقت مقرر پر لکھتے تھے۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ آپ کے تلامذہ کی طویل فہرست ہے۔ عربی نثر و نظم پر مکمل عبور تھا۔ آپ کا شمار کثیرالتصانیف علماء میں ہوتا ہے۔ تفسیر ’’مصباح البیان فی تفسیر سورۃ الرحمن‘‘ جو آپ نے عربی میں تصنیف کی یہ تفسیر علمی مفاہیم و مطالب پر مشتمل ہے۱؎۔ دیگر تالیفات: العذب المعین شرح ار بعین (عربی) مشکوۃ المصباح شرح دعائے صباح (عربی) جواب فاخرہ (عربی) فوح العبیر شرح جوشن صغیر جواہر التاج در قصص معراج نسیم الصباح فی کلمۃ النکاح التحفۃ اللمعۃ فی صلوٰۃ الجمعۃ فوائد محسنیہ حاشیہ شرائع الاسلام رشیقۂ انیقہ در بحث زکوٰۃ بہجۂ مونقہ اجوبہ رشیقہ در اسٔلہ دقیقہ السحرالحلال (عربی) الایات البینات (عربی) قصیدۂ محسنیہ نفعہ عنبر یہ فی الصلوٰۃ الخیر البریۃ تحقیق انیق در کذب و لغو مائِ سکوب فی شرح الذنوب در مکنون در حال یوشع بن نون روح الیقین نزہۃ المتقین در نماز شب عمدۃ الذخائر در بیان صغائر و کبائر مثنوی تحفۃ الاتقیاء در متعہ ہدیہ بھیہ در حج ازہار التنزیل در وجہ سور قرآنیہ خیرالبضاعۃ در احکام رضاعت، مصباح الہدیٰ رسالہ عدیم النظیر در جنت و سعیر ضیاء الشمس فی مسائل الخمس۱؎ آپ کی وفات ۲۸؍شعبان ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء کوزنگی پور میں ہوئی اور وہیں آسودۂ لحد ہوئے۔ مولانا محمد لطیف نے تاریخ نظم فرمائی۔ دلیلیکہ واضح از و زاہ شد فقیہہ کہ مثلش زمانہ ندید ز مصباح علمش منور جہاں ز خورشید رویش ضلالت بعید شود با محمد چو محسن قریں بود حاصل اسم حبر فرید ذریغاز دنیائے دوں رخت بست ز شعباں چو شد بست و ہفتم پدید خرد بہر تاریخ از روئے دل بگفتا کہ در قصر جنت رسید ۱۳۲۵ھ محمد حسین، بحرالعلوم، علّن(م ۱۳۲۵ھ) بحرالعلوم مولانا سید محمد حسین، ملک العلماء سید بندہ حسین کے فرزند تھے۔ یکم رجب ۱۲۶۷ھ کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی ذہین اور با فہم تھے۔ مولاناسید حسن، ملا علی تقی مفتی محمد عباس اور والد ماجد سے صرف و نحو، تفسیر و حدیث معقولات و منقولات کا درس لیا۔ حکیم کمال الدین موہانی اور حکیم نباصاحب سے طب کی تعلیم حاصل کی اور درجہ کمال کو پہنچے۔ ۱۲۹۹ھ میں عازم عراق ہوئے اور نجف اشرف میں آیت اﷲ شیخ زین العابدین مازندرانی کے درس خارج میں شرکت کی۔ ۸محرم ۱۳۰۱ھ کو آقای شیخ نے اجازہ مرحمت فرمایا۔ آقای شیخ حسین مازندرانی بھی آپ کے علم و فضل کے قدرداں تھے۔ نجف سے فارغ ہو کر وطن واپس تشریف لائے اور مسند درس بچھائی۔ بڑی تعداد میں طلباء شریک ہو کر مستفید ہوتے تھے۔ آپ کا امتیاز ہے کہ آپ نے مواعظ کو ذاکری کا رنگ دیا ایک موضوع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں لطیف نکات کے ذریعہ سامعین کو محظوظ کرتے اور آخر میں مصائب کربلا بیان فرماتے تھے۔ اس طرح آپ عظیم الشان فقیہ بھی تھے اور بے مثال خطیب بھی ۔ آپ نے ۲۸؍رجب ۱۳۲۵ھ/ ۱۹۰۷ء کو لکھنؤ میں رحلت کی۱؎۔ فقہ کے علاوہ تفسیر قرآن پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔ تنویر البیان فی تفسیر القرآن یہ تفسیر تین جلدوں میں ہے جو ۱۳۱۲ھ میںزیر اہتمام راحت حسین خاں بن محمد نعیم خاں الہ آبادی مطبع اعجاز محمدی آگرہ سے شائع ہوئی۲؎۔ آپ نے ملا فتح اﷲکاشانی کی تفسیر ’’خلاصۃ المنہج‘‘ کا ترجمہ کیا اور آیات کے بین السطور حضرت مولانا سید علی بن غفرانمآب کا ترجمہ تحریر کیا۔ جلد اول مطبع اعجاز محمد ی آگرہ ۴۰۰ صفحات قیمت پانچ روپئے جلد دوم مطبع اعجاز محمد ی آگرہ ۳۸۲ صفحات قیمت پانچ روپئے جلد سوئم مطبع اعجاز محمد ی آگرہ ۴۰۴ صفحات قیمت پانچ روپئے ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی: ’’جہاں تک مولانا سید علی کے ترجمہ کا تعلق ہے اسے جناب بحر العلوم مولانا سید محمد حسین عرف علن صاحب قبلہ نے دوبارہ شائع کرایا تھاکہ یہ ترجمہ بین السطور میں تھا اور حاشیہ پر ملا فتح اﷲ کاشانی علیہ الرحمہ کی تفسیر خلاصۃ المنہج کا ترجمہ بقلم جلی شائع کیا گیا تھا۔ آج یہ نسخہ بھی نایاب ہے۱؎۔‘‘ اس تفسیر کا ذکر جناب محمد عالم مختار حسن صاحب نے اپنے مقالہ ’’قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر‘‘ میں بھی کیا ہے۲؎۔ اس تفسیر پر دو تقریظیں لکھی ہوئی ہیں پہلی تقریظ مولانا احفادالحسنین صاحب ساکن بہیرا ضلع فتح پور ہنسوہ دوسری تقریظ جناب حسن مرزا صاحب لکھنوی کی ہے جو لکھتے ہیں: ’’دور این ایام برکت انضمام کلام ملک علام کہ در بین سطورش ترجمہ ملائک مآب آقا علی صاحب خلف الصدق علامہ فہامہ جناب غفران مآب و بر حاشیہ تفسیر تنویر بیان کہ ترجمہ اردوی تفسیر خلاصۃ المنہج ملا فتح اﷲ کاشانی است۔ نہایت پاکیزہ، روز مرہ اہل لکھنو‘‘ قطعہ تاریخ از سید محمد عبدالجلیل الحمید تم القرآن المجید بعون اﷲ العلیم الحمید ۱۳۱۲ھ چو سید محمد علی مخلص من کلام خدا چاپ زد ہشت پھلو طلب کرد تاریخ طبش زبندہ بگفتیم قرآن تفسیر اردو ۱۳۱۲ھ آل محمد، امروہوی(م ۱۳۲۵ھ) آپ حاجی اصغر حسین ساکن محلہ گذری امروہہ کے فرزند تھے۔ ۹ شوال ۱۲۲۴ھ/ ۱۸۰۹ء میں متولد ہوئے۔ والد ماجد امروہہ کے روساء میں شمار کئے جاتے تھے۔ ابتدائی تعلیم امروہہ ہی میں جید اساتذہ سے حاصل کی پھر لکھنئو جاکر اعلیٰ درس کی تحصیل میں مشغول ہوکر کلام و عقائد ، تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول میں مہارت حاصل کی۔ بعد ازاں عراق کا عزم کیااور نجف اشرف میں آیات عظام سے استفادہ کیا۔ وطن آنے کے بعد درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔ سیکڑوں تشنگان علوم کو سیراب کیا۔ عربی، فارسی، ادب پر قدرت کاملہ حاصل تھی۔ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ شہرۂ آفاق کتاب عبقات الانوار سید المتکلمین میر حامد حسین پر عربی فارسی آمیز عالمانہ تقریظ لکھی جس کے جواب میں میر حامد حسین نے لکھا ’’این تقریظ لائق تقریظ است۔‘‘ آیۃ اللہ شیخ محمد مازند رانی کو بغیر نقطہ اور بغیر الف کا خط لکھا جسے دیکھ کر آقای مازندرانی نے بہت تعریف کی اور آپکی اعلیٰ صلاحیتوںکا اعتراف کرتے ہوئے تحریرفرمایا ’’ماھذا من بشر ان ھذا من ملک کریم من سلالۃ طہٰ و حمٓ‘‘آپکی علمی صلاحیتوں سے ہر خاص و عام متاثر تھا۔ گورنر نے آپکی شخصیت سے متاثر ہوکر اپنے دربار میں کرسی دی۔ آپ امروہہ کی میونسپلٹی کے ممبر بھی رہے۔ کثیر التصانیف ارباب علم میں تھے۔ تفسیر قرآن پر گہری نظر رکھتے تھے۱؎۔ تفسیر آیات قرآن : قرآن مجیدکی بعض آیات کی علمی تحقیقی و ادبی تفسیر کی گئی ہے اور ادبی فنون کابھی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ دیگر تالیفات : ۔ سبحہ الجواہر (احوال علمائ) طعن النصول دافع الشکوک (بحث امامت) حلیۃ الاولیاء بحث متعہ مثنوی نان خشک (فارسی و عربی) القام الاحجار فی افواہ الاشرار (رد اعتراض بر عزائے امام حسینؑ) زاویہ حاویہ گلزار جنت موسوم بہ تصویر کربلا سرور الھموم فی جواز البکاء علی الحسین المظلوم درشھوار در احوال نور رسول مختار مثنوی سبعہ سیارہ در معجزات جناب امیر دستور الخیول در علاج اسپان غضب البتول علی الاصحاب البغی والعدول درۃ البیضاء فی اثبات حق فاطمہ الزھرا نتائج فکریہ دوغازہ شاھد الدرالمرتضیٰ بیان حاسم در نفی عروس قاسم معارف تقیہ اصل الاصول ۱؎ علی اکبر(م۱۳۲۷ھ) چودہویں صدی کے نامور مفسر قرآن مولانا علی اکبر، سلطان العلماء سید محمد بن غفران مآب کے فرزند تھے۔ یکم رجب ۱۲۴۹ھ؍۱۸۳۲ء کو متولد ہوئے ۔ تعلیم خانوادے کے علماء سے حاصل کی۔ بالخصوص والد ماجد سے استفادہ کیا۔ جامع معقول و منقول تھے۔ ڈپٹی کلکٹر اور منصفی کے منصب پر فائز ہوئے۔ تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا۔ اسّی سال عمرگذارکر ۲؍ربیع الثانی ۱۳۲۷ھ؍۱۹۰۹ء یوم شنبہ صبح کے وقت رحلت کی۔ شہر کے علماء ادبائ، امراء نے جنازے میں شرکت کی۔ آپنے اپنی جائیداد امور خیر اور کتبخانہ کے لئے وقف کر دی تھی۔ تفسیر سورہ یوسف : آپکی یادگار علمی کاوش ہے جسمیں عقلی و نقلی ادلہ سے استدلال کیا گیا ہے ۔ علمی نکات سے مزین ہے۱؎۔ دیگر آثار علمی : بشارات غیبیہ شرح خطبہ شقشقیہ ذخیرۂ دستگاری اسرار حکمت (ترجمہ خطبہ طاؤسیہ) عنوان سیاست و بنیان سیاست (نامہ مالک اشتر) معارج العرفان محمد اصفہانی، شیخ (طبع۱۳۲۸ھ) شیخ محمد اصفہانی مغل نے گجراتی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا جس کا پہلا ایڈیشن ۱۳۲۸ھ اور دوسرا ایڈین ۱۳۴۶ھ میں مصطفوی پریس بمبئی سے شائع ہوا۱؎۔ احمد حسین ،امروہوی (م ۱۳۲۸ھ) آپ امروہہ کے نامور علماء میں شمار کئے جاتے تھے۔ آپکی ولادت سید رحیم علی کے گھر ۱۲۷۰ھ؍۱۸۵۳ء کو محلہ شفاعت پوتہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور علم صرف و نحو مولانا سید علی حسین صاحب طا ب ثراہ سے حاصل کیا۔ علم طب میں امروہہ کے مشہور حکیم امجدعلی خانصاحب سے استفادہ کیا۔ اعلی تعلیم کیلئے لکھنئو کا ارادہ کیا۔ لکھنئو میں ملک العلماء سید بندہ حسین صاحب سے شرح لمعہ شرح کبیر، قوانین الاصول کا درس لیا۔ تفسیر طبرسی میں سید المتکلمین میر حامد حسین صاحب عبقات الانوار سے فیضاب ہوئے۔ نھج البلاغہ اور مسالک میں مفتی محمد عباس شوشتری سے تلمذ خاص تھا اور ممتاز العلماء سید محمد تقی صاحب سے بھی استفادہ کیا۔ مفتی محمدعباس آپ سے بہت محبت اور اعتماد کرتے تھے۔آپنے اجازہ میں جو ۱۹ جمادی الاول ۱۲۸۸ھ کا تحریر شدہ ہے۔ "اجزت لہ ان یروی عنی ما اخذمنی یعنی موصوف کو میری جانب سے نقل حدیث کی اجازت ہے۔ مفتی صاحب آپ پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ مقدمات کے فیصلوں کا کام آپکے سپرد کردیا تھا۔ آپ زھد و تقوی اور عشق اھلبیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے ۔ روحانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ مولانا علی حسن امروہوی عیادت کے لئے تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں تم مرض سے نجات حاصل کرکے ہمارے پاس پہنچے۔ آج حضرت امیر المومنین علیہ السلام بھی مسجد جامع میں تشریف لائے ہیں۔ آپ شوق زیارت میں مسجدتشریف لائے دیکھا کہ حضرت امیر علیہ السلام بیچ کے در میں قبلہ رو کھڑے ہیں چہرے پر نقاب ہے۔ مسجد میں نور پھیلا ہوا ہے اتنے میں حضرت نے نقاب الٹ کر آپ کو دیکھا اور مسکرائے آپ نے درود پڑھنا شروع کیا اور حضرت نظروں سے اوجھل ہو گئے۔نزع کے وقت جگہ جگہ نماز پڑھتے تھے وہاں چارپائی بچھوائی مسکرائے اور کہا بسم اﷲ تشریف لائیے اور کہا دیکھو دروازے پر کوئی پکار رہا ہے حالانکہ وہاں کوئی نہیں تھا اور یکایک آپکی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ علم و فقاہت کا یہ آفتاب ۱۵ ؍رمضان ۱۳۲۸ھ؍ ۱۹۰۱ء کو غروب ہو گیا اور متصل شیعہ جامع مسجد آسودۂ لحد ہوئے۔ صاحب تاریخ اصغری : جناب مولوی سید احمد حسین فاضل اجل عالم باعمل حمیدہ خصال، جامع فضل و کمال ، فارس مغمار، علوم ادبیہ غائص بحار، فنون عربیہ واقف رموز فقیہ کاشف غموض شرعیہ ، حکمت مآثر ناظم امثال و اقران فخر خاندان ہیں۱؎۔ آپکو تصنیف و تالیف سے کافی دلچسپی تھی۔ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’عالم و فاضل متورع زکی است اولاً در وطن خود بخدمت جناب مولانا سید علی حسین صاحب سابق الذکر کتب درسیہ و بعض کتب فقیہہ خواندہ و در معقولات مہارت تام دارد۔۲؎‘‘ تفسیر اعظم المطالب فی آیات المناقب : اس تفسیر میں ان آیات قرآنی کی تفسیربیان کی گئی ہے جو فضائل اھلبیت میں وارد ہوئیں ہیں اور ان روایات سے استفادہ کیا گیا جو کتب اھلسنت میں بیان ہوئیں ہیں۔ دیگر تالیفات : شرح نھج البلاغہ (نا مکمل) حواشی مختصر النافع (فقہ) اخر الناس عن شر الوسواس الخناس مناقب الابرار ھدیہ سنیہ جواب لا جواب فرق الفریقین فی تمسک الثقلین تنقید الاخبار۱؎ علی بیگ، قزلباش، میرزا، دہلوی(طبع ۱۳۳۰ھ) آپ کا تعلق دہلی سے تھا۔ والد ماجد بندہ علی بیگ تھے۔ آپ نامور ارباب علم میں تھے کتب بینی کا بڑا شوق تھا۔ دقیق مطالعہ رکھتے تھے۔ آپ کی مشہور تالیف۔ آیات جلی فی شان علی: اس کتاب میں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی چار سو آیات قرآنی کی تشریح کی گئی اور ان آیات کے ذریعہ مولاعلی علیہ السلام کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب ۵۶۹صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۳۳۰ھ میں مطبع یوسفی دہلی سے شائع ہوئی۱؎ ۔ محمد علی طبسی، حیدر آبادی( م ۱۳۳۱ھ) علامہ محمد علی طبسی حدوداً ۱۲۵۵ھ؍۱۸۳۹ء میں طبس میں متولد ہوئے۔آپ کے والد جناب صغر علی بیگ تھے۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی اسکے بعد عراق روانہ ہوئے اور آیات عظام سے استفادہ کیا۔ آیت اللہ شیخ مرتضیٰ انصاری ؒ کے شاگر درشید تھے۔ شیخ آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ ہندوستان واپس آکر ایک مدت تک بمبئی اور بیگن پلّی میں تبلیغ کی اسکے بعد حیدر آباد دکن گئے اور کوٹلہ عالی جاہ میں مقیم ہوگئے۔ ٓٓآپ زہد و ورع، تقویٰ پرہیزگاری کی زندہ مثال تھے۔ صاحب کشف و کرامات تھے۔ آپکی روحانیت کے بہت سے واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جانماز صبح کے وقت صاف بچھائی جاتی تھی لیکن جب بھی سائل آتا تھا اس جا نماز کے نیچے سے نکال کر رقم دیتے تھے۔ امراء و عوام سے بے نیاز تھے۔ مولانا عبد الحئی : ’’ نواب مختار الملک سو روپیہ اور نواب امداد جنگ تین سو روپئے ماہانہ نذر کرتے تھے۱؎۔ ‘‘ آپنے پچھتر سال کی عمر میں ۱۳۳۱ھ؍۱۹۱۳ء میں وفات پائی اور دائرہ میر مومن حیدر آباد میں آسودہ لحد ہوئے۲؎۔ آپ فقہ و اصول کے علاوہ علم تفسیر میں اعلیٰ قدرت رکھتے تھے۔ تفسیر آیہء نور: ’’ اللہ نور السموات والارض‘‘ دیگر آثار علمی: مجمع المسائل ھدایت المومنین ۔ مطبوعہ ۱۲۸۹ھ رسالہ طہارت تبیان المسائل مفاتیح الاصول اصول فقہ انوار الابصار اثبات النبوۃ۱؎ زوارحسین، سہارنپوری(طبع ۱۳۳۳ھ) ’’قانون قدرت‘‘ آپ کی مشہور تالیف ہے جس میں جھوٹ، غیبت، مکروفریب، عیب جوئی، چغلی، بغض، حسد، نفاق، بدگمانی سے متعلق آیات قرآنی کی تشریح کی ہے۔ ۱۳۳۳ھ میں دین محمدی پریس لکھنؤ سے شائع ہوئی۱؎۔ فرمان علی، حافظ(م ۱۳۳۴ھ) چودہویں صدی کے مشہور مترجم قرآن حکیم مولانا حافظ فرمان علی صاحب کا وطن چندن پٹی صوبہ بہار ہے۔ آپ کی ولادت ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۶ء میں ہوئی۔ آپ کے والد سید لعل محمد دیندار انسان تھے۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ کا قصد کیا اور معروف درسگاہ مدرسہ ناظمیہ میں داخلہ لیا اور سرکار نجم العلماء کی سرپرستی میں کسب فیض کرکے درجہ کمال تک پہنچے۔ ۱۳۱۳ھ میں مدرسہ کی آخری سند ’’ممتاز الافاضل‘‘ امتیازی نمبروں کے ساتھ حاصل کی۔ اس کے علاوہ ملا فاضل وغیرہ کے بھی امتحانات دئیے۔ آپ بڑے ذہین و فہیم تھے پانچ ماہ کی مختصر مدت میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور اس شان سے کہ بڑے بڑے حفاظ آپ کے حفظ کی داد دیتے تھے۔ جب نواب سید الطاف حسین عرف سلیمان نواب نے ۹؍ربیع الاول ۱۳۲۳ھ/۵؍مئی ۱۹۰۵ء کو مدرسہ سلیمانیہ قائم کیا تو آپ کو صدر مدرس مقرر کیا گیا۔ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’عمدۃ الافاضل المشار الیہ بالانامل المبین للاحکام و المسائل بالبراہین والد لائل الذکی الالمعی المولوی فرمان علی دام علاوہ کہ علاوہ بر علوم فقیہ و عقلیہ در فن طب ہم دستگاہی حاصل نمودہ و در مدت پنج ماہ کلام پاک الہی راحفظ نمودہ در حفاظ قرآن منسلک گردید و در مدرسہ سلیمانیہ پتنہ اقامہ درس وانتظام مدرسہ بدست دارد۔۱؎‘‘ آپ کے دور میں مدرسہ نے ترقی کی اور تعلیمی معیار بلند ہوا۔ وعظ و خطابت اور مناظرہ میں برجستگی اور سحرانگیزی پائی جاتی تھی۔ مناظرہ میں ہمیشہ مد مقابل کو شکست دی مناظرہ کے سلسلے میں دور دور کے سفر کئے۔ فقہ ،اصول، عقائد و کلام کے علاوہ علم طب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ سر یاگنج مظفرپور میں مطب کھولا جہاں طبی فیض رسانی اعلیٰ درجہ پر فرمائی۔ قرآن شناسی میں منفرد تھے ہر وقت قرآن کی آیات میں غور وخوض کرتے ۔ حفظ قرآن کے ساتھ قرأت فہم معانی اور تفسیر قرآن پر بھی عبور تھا۔ آپ کا ترجمہ قرآن بہت زیادہ مقبول ہوا۔ چالیس سال کی عمر میں ۴؍رجب ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء میں رحلت فرمائی اور چندن پٹی میں سپرد لحد ہوئے۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’مترجم محترم آن فرمان علی ممتاز الافاضل یکی از پژ و ہشگران معارف قرآنی در قرن چھاردہم ہجری می باشدْ او قرآن را بہ صورت کامل بہ اردو ترجمہ نمودہ است۔۲؎‘‘ ترجمہ قرآن۳؎: یہ نفیس ترجمہ جو مختصر اور جامع ہے اس کے متعدد ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں اور آ رہے ہیں۔ مولانا حافظ فرمان علی صاحب نے ترجمہ کا آغاز ۱۳۲۶ھ میں کیا اور دو سال کی مدت میں پائے تکمیل تک پہنچا دیا۔ اس کی وجہ نگارش مقدمہ میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں۔ وجہ نگارش: ’’اس پر طرہ یہ ہے کہ ہمارے ہم وطنوں کی زبان ٹھہری اردو جو نہ دین کی نہ دنیا کی پھر اب کریں تو کیا کریں۔ انھیں وجوہ سے اس کی ضرورت ہوئی کہ ہر قسم کی کتابیں اردو میں ترجمہ (چاہے جیسا بھی ہو سکے) کی جائیں خصوصاً قرآن مجید کے ترجمہ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اگر چہ اس کے ترجمے ایک دو نہیں سیکڑوں ہوئے مگر ان میں سے اکثر تو ایسے ہیں کہ ان کا سمجھنا عربی سے زیادہ دشوار اور ہمارے روز مرہ سے بالکل علیحدہ اور باوجود اردو ہونے کے اردوداں حضرات کی سمجھ سے بالکل باہر اور ایک آدھ ترجمہ بامحاورہ اردو کا ہوا بھی تو حکیم علی الاطلاق کے اصلی مفہوم سے منزلوں دور، مخالفین کے اعتراضات کا مرکز۔ اسی وجہ سے عام اہل اسلام خصوصاً شیعی دنیا میں اس کی ایک شدید چیخ پکار تھی، اخبارات الگ غل مچا رہے تھے۔ مختلف سوسائٹیوں میں ایک طرف اس کی مانگ تھی آخر خدا کی توفیق شامل حال ہوئی کچھ احباب کا اصرار ہوا اور میں نے اس کو لکھنا شروع کر دیا۱؎۔ اس ترجمہ کو عوام کے علاوہ علماء اعلام نے بھی پسند کیا اور اپنی گرانقدر آراء سے نوازا۔ آرائے علماء کرام: سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن طاب ثراہ : ’’اس ترجمہ سے اردو سمجھنے والوں کو قرآن مجید کے عجائب و اسرار پر اتنی اطلاع ہو سکے گی کہ دیدۂ دل ان کے روشن و منور ہو جائیں گے۔ اسکے علاوہ ضروری اور مفید عام توضیح و تصریح خوش اسلوبی سے لکھا ہے بالخصوص آیات فضائل کی جو روح قرآن ہے اچھے طریقے سے توضیح کر دی ہے۔ لہٰذا اس ترجمہ کی اشاعت و ترویج میں جس قدر کوشش کی جائے باعث اجر جزیل ثواب جمیل ہوگی۔ باقر العلوم مولانا سید محمد باقر طاب ثراہ : ’’ترجمہ مبارکہ قرآن مجید کو جسے مولانا سید فرمان علی صاحب نے تحریر فرمایا ہے اس کے استماع سے نہایت مسرور ہوا اور محاسن کثیر، اور فوائد عزیزہ پر مشتمل پایا خصوصاً فضائل اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے متعلق آیات کی تصریح و توضیح نہایت حسن و خوبی سے اس ترجمہ میں کی گئی ہے۔‘‘ ظہیر الملت مولانا سید ظہور حسین اعلیٰ اﷲ مقامہ : ’’قرآن مجید کے بہت سے ترجمے دیکھنے میں آئے لیکن کوئی ترجمہ ایسا نظر قاصر سے نہ گزرا جس میں قرآن مجید کی عبارت شریفہ کا اصل مقصود محفوظ رہا ہو البتہ اگر کسی ترجمہ میں اصل مقصود کی مطابقت اور مراد خدا کی موافقت کا دعویٰ ہو سکتا ہے تو وہ محض ایک ترجمہ معلوم ہوتا ہے جس کو جناب مولانا المولوی سید فرمان علی صاحب نے تحریر فرمایا ہے یہ ترجمہ اپنے اسلوب کی شائستگی اور روزہ مرہ کی خوبی اور تفاسیر حقہ کی مطابقت میں اپنا آپ نظیر ہے۔‘‘ خصوصیات ترجمہ: اس ترجمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ بین السطور ترجمہ اتنا آسان اور رواں ہے کہ ایک طرف آیت پڑھتے جایئے دوسری طرف ترجمہ، مطلب آسانی سے سمجھ میں آتا چلا جائے گا۔ لفظ کی تشریح کے سلسلے میں قوسین میں متبادل لفظ یا جملہ استعمال کرنے سے ترجمہ میں اور روانی پیدا ہو گئی ہے۔ جو مطلب آیت میں واضح نہیں ہو پاتا اس کی توضیح حاشیہ پر اس طرح کی ہے کہ مطلب بہت آسان ہو جاتا ہے۔ شان نزول، مصداق آیات آیت سے مربوط واقعہ کو مستند اور معتبر حوالوں سے اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری مطمئن ہو جاتا ہے۔ اہلسنت کی معتبر کتابوں کے حوالوں سے مطالب میں تقویت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن امور کی طرف توجہ کی گئی ہے: ابتداء میں قرآن مجید کے مضامین کی مفصل فہرست ہے۔ جس میں جداگانہ ابواب قرار دیے مثلا باب الاحکام، باب الفضائل وغیرہ۔ موضوع کی آیات کو مع تعداد آیات و پارہ و سورہ اور صفحہ لکھ دیا گیا ہے تاکہ آسانی سے موضوع سے متعلق آیت کو تلاش کیا جاسکے۔ ہر سورہ کے آیات کے شمار اور اعداد بھی لکھ دیے ہیں۔ مضامین کا عنوان صفحات کے کنارے جلی حروف میں تحریر کیا ہے۔ ہر سورہ کے آغاز میں حاشیہ پر اس سورہ کا خلاصہ بطور اختصار مندرج ہے۔ واقعات اور شان نزول مستند تفاسیر اور فضائل اہلبیت اہلسنت کی معتبر کتابوں سے مع حوالہ صفحۂ سطر ، مطبع مندرج ہیں۔ بہادر علی شاہ(م ۱۳۳۵ھ) مولاناقاری سید بہادر علی شاہ کی ولادت جلالپور جٹاں گجرات میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی روانہ ہوئے۔ اور وہاں مولانا قاری سید جعفر علی جارچوی(متوفی۱۳۱۴ھ) سے دروس نظامی تمام کیا۔ اور اجازہ حاصل کیا۔ آپ خوش الحان قاری، خوش بیان خطیب، حاضر جواب مناظر، وجیہ خوش پوش نیک اور پاک نفس انسان تھے۔ آپ نے پنجاب میں بڑی محنت سے تبلیغ کی اور اتر پردیش میں مقبول خطیب قرار پائے۔ علم کلام ااور فن مناظرہ میں ملکہ حاصل تھا۔ بڑے بڑے مناظروں کے جلسوں میں شرکت کی اور کامیاب و کامران رہے۔ حافظہ غضب کا تھا حوالے زبانی یاد تھے۔ بڑے سے بڑا عالم مقابلہ کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ زندگی بھر حق اہلبیت علیھم السلام کادفاع کرتے رہے۔ سنبھلیٹرہ ضلع مظفرنگر میں مولوی محمد قاسم نانوتوی سے یادگار مناظرہ کیا اور فتح حاصل کی۔ قرآن مجید پر مکمل عبور تھا۔ مناظرہ میں اکثر آیات قرآنی سے استدلال کرتے تھے۔ ۲۶محرم ۱۳۳۵ھ /۱۹۱۶ء کو گجرات میں وفات پائی۔ دفتر تاریخ حصہ ہفتم میں صفحہ۷۸ پر نواب محمد جعفر نے یہ قطعۂ تاریخ لکھا ہے: بداں مسکنش پور بعد جلال کہ در پنج آبست این ارض پاک مناظر بدو در غم شاہ دیں دلی در بغل داشتہ داغ داغ شش و بیست ماہ محرم ببد کہ سید درین جابگشتہ ہلاک بگفتا چنین جعفر دل حزیں بہادر علی شاہ نیک آہ خاک ۱۳۳۵ھ آپ نے اہم موضوعات پر کئی کتابیں تحریر کیں۔ صاحب ’’مطلع انوار‘‘ اور صاحب’’تذکرہ علماء امامیہ پاکستان‘‘ نے آپ کی فہرست تالیفات میں ’’تفسیر سورۂ یوسف‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تفسیر سورہ یوسف کی کامل تفسیر ہے جس میں اس سورہ کے احسن قصص ہونے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے آیات کے رموز و اسرار سلیقہ سے پیش کئے ہیں۱؎۔ دیگر تالیفات: ۱ واقعات مناظرہ نگینہ ۲ دلیل الوصل فی جواب قوامع الفصل ۳ دلائل الصادقین تاریخ محمدی آپ کے دو بیٹے تھے غلام علی اور مولانا سیف علی جو مشہور خطیب تھے ان کے فرزند حافظ ذوالفقار علی شاہ بھی پاکستان کے معروف خطیب تھے جن کی وفات ۱۹۸۲ء میں ہوئی۔ غلام حسنین، کنتوری(م ۱۳۳۷ھ) علامہ غلام حسنین کا شمار برصغیر کے جید علماء حکماء فلاسفہ میں ہوتا ہے۔ آپ علوم مشرقیہ کے مجدد تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ۱۷؍ربیع الاول ۱۲۴۷ھ/۱۸۳۱ء کنتور میں ولادت ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۲۵۴ھ میں لکھنؤ روانہ ہوئے اور مدرسہ شاہی میں داخلہ لیا۔ ۱۲۶۲ھ میں جناب مفتی محمد قلی طاب ثراہ کی صاحبزادی سے عقد ہوا۔ سیدالعلماء سید حسین، ممتاز العلماء سید تقی، مولانا سید احمد علی محمد آبادی جیسے علماء نے اجازوں سے نوازا۔ فقہ، اصول، تفسیر فلسفہ، کلام، کیمیا، طبیعات، طب وغیرہ میں مہارت حاصل تھی۔ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ’’قانون شیخ بو علی سینا‘‘ کا اردو ترجمہ فصیح زبان میں کیا جسے نہایت معتبر ترجمہ مانا گیا ہے۔ جدید علم کلام میں آپ کی تصنیف ’’انتصارالاسلام‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ’’اخبار الاخیار‘‘ نامی اخبار نکالتے تھے، گھڑی سازی، صابون بنانے کا کارخانہ قائم کیا۔ پریس لگایا تھا جس سے ممتاز العلماء سید محمد تقی کی تفسیر ’’ینابیع الانوار‘‘ شائع کرنا شروع کی تھی جس کے کچھ ہی حصے شائع ہو سکے۔ بہت عرصے تک ’’تھافۃ الفلاسفہ‘‘ نامی رسالہ نکالا، قومی و ملی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے اتحاد بین المسلمین کے حامی تھے۔ علماء اہل سنت کے ساتھ مل کر کام کئے۔ ندوۃالعلماء کی تعمیر میں مولانا شبلی نعمانی کے ساتھ رہے۔ سائنس کے تجربے، طبی تحقیقات، فلسفی مباحث آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات اپنے رسائل میں دیتے رہتے تھے۔ ۱۳؍ربیع الاول ۱۳۳۷ھ/۱۷؍دسمبر ۱۹۱۹ء فیض آباد میں رحلت کی اور کنتور میں آسودۂ لحد ہوئے۔ اسی رات چاند گہن بھی ہوا لوگوں نے اسے ہمہ گیر غم کی علامت مانا۱؎۔ تفسیر آیۂ اینما آ پ نے آیۂ ’’اَینَما تولوا فثم و جہ اﷲ ‘‘کی محققانہ تفسیر لکھی، تفسیر کا اسلوب فلسفی و کلامی ہے۔ عیسائیوں کے اعتراضات کو عقلیہ و نقلیہ ادلہ کے ذریعہ رد کیا۔ اس علمی شاہکار کو دیکھ کر سلطان العلماء سید محمد بن غفران مآب نے اجازہ مرحمت فرمایا۔ دیگر آثار علمی: التغنی فی القرآن حواشی شرح کبیر حواشی مغنی اللبیب شرح اعجاز خسروی بفرمائش منشی نولکشور رسالہ اکسیر ابیض بو علی سینا شرح کلیات قانون شیخ الرئیس (اردو) شواہد اردو (تذکیر و تانیث اردو) انتصار الاسلام (۳جلد اردو) زینبیہ درحال ازواج رسول اکرمؐ رسالہ در اشکال وضو ۷۲۰ مسائل وضو تردید مضامین سر سید احمد خاں در تہذیب الاخلاق نورالعین فی شرح ابطال رؤیت بالعین شرح زیارت ناحیہ بفرمائش نواب واجد علی شاہ ترجمہ و شرح تشخیص جالینوس (فارسی) مائتین در مقتل امام حسینؑ ذوالجناحیہ حسینیہ حسینیہ قرآنیہ مفارقات حسینیہ و عثمانیہ۱؎ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل غلام حسنین بن السید محمد بخش الحسینی الموسوی الکنتوری، احدعلماء الشیعہ و کبرائہم ولد بکنتور سبع عشرۃ خلون من ربیع الاول سنۃ تسع و اربعین و مائتین والف و قراء العلم علی المولوی السید احمد علی محمدآبادی و المولوی السید حسین والمولوی محمد تقی و تطبب علی اطباء لکھنؤ ثم سافرالی جودھپور للاسترزاق و اقام بہا زماناً و کان فاضلا بارعا فی الفنون العربیہ والصناعیۃ معجبا بنفسہ یدعی انہ یعلم الکیمیا والسیمیا والریمیاء وان لہ الید الطولی فی سبعین علما۲؎‘‘ محمد حسین، محقق ہندی(م ۱۳۳۷ھ) محقق ہندی، سلطان الذاکرین مولانا سید محمد حسین زیدی کا شمار چودہویں صدی کے نامور محققین میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق سادات بارہہ سے تھا۔ ۱۳؍رجب ۱۲۷۶ھ/۱۸۵۹ء کو لکھنؤ میں ولادت ہوئی۔ والدماجد مولانا سید حسین زیدی بارہویں تھے۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی ۔ اس کے بعد مولانا سید ابراہیم صاحب، تاج العلماء سید علی محمد سے فقہ و اصول کا درس لیا۔ ۱۳۰۶ھ میں عراق تشریف لے گئے۔ نجف اشرف میں آیات عظام کے دروس خارج میں شرکت کرکے درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے اور اجازات حاصل کئے۔ آیت اﷲ سید اسماعیل صدرؒ نے آپ کی تقلید کی اجازت دی۔ شیخ زین العابدین مازندرانی نے لکھا: ’’لاحظت بعض تحریراتہ فی المسائل الاصولیۃ فوجدتہ من الاکابر۔‘‘ آقای شیخ محمد حسین مازندرانی: ’’او ردتہ موارد الامتحان فوجدتہ فوق المامول‘‘ علماء عراق نے ’’محقق ہندی‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ علماء عراق آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور آپ کے قدرداں تھے۔ درس خارج: آپ کا امتیاز ہے کہ آپ نے لکھنؤ میں نجفی طرز پر درس خارج دینا شروع کیا جس میں بڑی تعداد میں طلاب نے شرکت کی اس طرح حوزہ علمیہ لکھنؤ کا معیار بلند ہوا اور لکھنؤ ہی میں نجف کا لطف آنے لگا۔ آپ انتہائی مقدس، تارک الدنیا عالم تھے خداوند عالم نے ذہن و ذکاوت غیر معمولی عطا کی تھی۔ غرباء پروری کا یہ عالم کہ سائل کو گھر کا تمام اثاثہ دے دیا گھر والے سمجھے کہ برتن قلعی کو جا رہے ہیں۔ کئی دن کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو کسی حاجت مند کو دے دئیے۔ صاحب مطلع انوار: ’’خطیب ایسے کہ ان سے پہلے اس انداز اور آواز کا خطیب دیکھا نہ گیا تھا، ہزاروں کا مجمع اپنے بھی بیگانے بھی مجال ہے کہ آخری شخص تک آواز نہ جائے اور مخالف گرویدہ نہ ہو ، برجستہ اور برمحل تقریر دلکش اور بھاری بھرکم انداز، علمی وقار ہر چیز ملحوظ رہتی تھی۱؎۔‘‘ آپ نے امروہہ، لکھنؤ، بمبئی، پٹنہ، کراچی میں یادگار مجالس خطاب کیں اور اپنی خطابت کا لوہا منوایا۔ ۲۸؍ربیع الاول ۱۳۳۷ھ بروز پنجشنبہ محلہ دال منڈی لکھنؤ میںوفات پائی اور شیرجنگ کے باغ میں سپرد خاک ہوئے۔ تفسیر اتقان البرہان: تفسیر آیۂ معراج ہے ، جو اردو زبان میں لکھنؤ سے شائع ہوئی یہ تحقیقی تفسیر ہے جس میں براہین عقلیہ و نقلیہ سے استفادہ کیا گیا ہے اور سر سید احمد خاں کے اعتراضات کو رد کیا ہے۔ دیگر آثار علمی: حواشی ذخیرۃ المعاد (فقہ) کتاب الصلوٰۃ (رسالہ عملیہ) تحقیق جدید (اصول فقہ) القول المفید فی مسائل الاجتہاد و التقلید (عربی طبع ۱۳۱۶ھ) رسالۃ الجمعۃ (عربی) رسالۃ اصالۃ الطہارۃ (عربی) حدیقۃ الاسلام (۳ جلد) دفع المغالطات فی اسرار الشہادات (فقہ) الوقف علی الاولاد (فقہ) حواشی قوانین الاصول (اصول فقہ) ترجمہ نھج البلاغہ ترجمہ صحیفہ کاملہ ترجمہ وجیزہ درایۃ۱؎ اولاد حسن، امروہوی (۱۳۳۸ھ) نادرۃالزمن مولانا سید اولاد حسن کا شمار چودہویں صدی کے ممتاز علما، اور مفسرین میں ہوتا ہے۔ والد ماجد مولانا سید محمد حسن طاب ثراہ اپنے زمانے کے جید عالم تھے۔ آپ کی ولادت ۱۲۶۸ھ/۱۸۵۲ء کو امروہہ محلہ شفاعت پوتہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی اس کے بعد مولانا تفضل حسین صاحب سنبھلی سے استفادہ کیا۔ سطحیات کی تکمیل کے بعد لکھنؤ گئے اور سرکا مفتی محمد عباس شوشتری کے حلقہ درس میں شرکت کی آپ کا شمار مفتی صاحب کے ارشد تلامذہ میں ہوتا تھا۔ مفتی صاحب مرحوم آپ پر خصوصی توجہ فرماتے تھے اور ذہانت و فطانت پر فخر کرتے تھے۔ صاحب تجلیات: ’’جامع معقول و منقول اور ادیب کامل تھے عرصے تک مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر رہ کر تحصیل و تکمیل علوم کی۔ نظم و نثر دونوں قسم کے ادب میں ان کے افادات کا ذخیرہ ہے نہایت متورع و محتاط تھے۱؎۔‘‘ فقہ، اصول، فلسفہ، منطق میں مہارت حاصل تھی علم الفرائض میں لاثانی تھے۔ میراث کے مشکل سے مشکل مسائل آسانی سے حل فرما دیتے تھے۔ آپ نے تمام علم فرائض کے احکام کو کئی ہزار اشعار میں نظم کیا جس کا خلاصہ’’نظم الفرائض‘‘ کے عنوان سے ۱۳۲۱ھ میں شائع ہوا۔ امروہہ آنے کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا بڑی تعداد میں طلباء نے آپ سے استفادہ کیا آپ کے تلامذہ میں ادیب اعظم مولانا ظفر حسن طاب ثراہ، مولانا سید محمد مجتبیٰ عرف مولوی چاند کے علاوہ شعر و سخن میں سینکڑوں شاگر دتھے۔ آپ کے اخلاق کا عام شہرہ تھا ہر مذہب کا انسان آپ کا احترام کرتا تھا نہایت درجہ منکسر المزاج، نیک کردار، پاکیزہ خصلت، متقی پرہیزگار اسلاف کا نمونہ تھے۔ خوشنویسی میں کمال حاصل تھا شیعہ جامع مسجد امروہہ کی استرکاری میں جو تحریرات اور قرآن پاک کی آیات کندہ ہیں وہ آپ ہی کے قلم جادو رقم کی سحرکاری کا نتیجہ ہیں۔ علمی قابلیت خاندانی ریاست، ذاتی وجاہت پر دینداری، اخلاق نے اور زیادہ عظمت بخشی۔ زیارات عتبات عالیات سے بھی مشرف تھے۔ شگفتہ مزاج، موزوں طبع شاعر شیریں مقال تھے سلیمؔ تخلص تھا، فارسی اور اردو میں کلام کا ذخیرہ یادگار ہے۔ آپ کے نبیرہ مولانا سید احسن اختر صاحب سروش اس ذخیرہ کی اشاعت کی فکر میں ہیں خداوندعالم ان کو کامیابی عطا فرمائے۔ صاحب تذکرہ بے بہا: ’’علاوہ فضائل پسندیدہ و اوصاف حمیدہ مذکورہ کے فن شاعری میں بھی کمال تھا سلیمؔ تخلص کرتے تھے درس و تدریس کاسلسلہ انھیں کے دم سے جاری ہے خوشنویسی میںبھی شہرہ آفاق تھے۱؎۔‘‘ تفسیر قرآن مجید پر گہری نظر تھی آپ نے تفسیر قرآن لکھنا شروع کی تھی جو ناتمام ہے۔ تفسیر انوارالقرآن: آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ اور اس کی تفسیر لکھنا شروع کی تھی مگر عمر نے وفا نہیں کی اور یہ کام نامکمل رہ گیا تقریباً چار پاروں سے زیادہ کا ترجمہ مکمل کر لیا تھا اور سورہ الحمد، بقرہ اور آل عمران کی ۱۸۶ آیات کی تفسیر مکمل کی تھی کہ داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس تفسیر کا مخطوطہ بخط مؤلف آپ کے پوتے مولانا سید محمد سیادت صاحب قبلہ کے پاس موجود ہے جس سے میں نے استفادہ کیا اور ضروری معلومات فراہم کیں۔ نسخہ بوسیدہ حالت میں ہے۔ نمونہ ترجمہ: سورہ الحمد ’’شروع نام سے خدا بخشنے والا مہربان کے سب تعریف واسطے اﷲ جہانوں کے پروردگار بخشنے والے مہربان مالک روز جزا کا ہے۔ تیری ہی عبادت ہم کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں دکھا ہم کو سیدھی راہ اون لوگوں کی راہ جن پر تونے فضل کیا ہے نہ اونکی جن پر غصہ ہوا نہ گمراہونکی۔ ‘‘ اسلوب تفسیر: آپ کا اسلوب تفسیربھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ سورہ کی تفسیر کرنے سے پہلے اس سورہ کے خواص اور اس کی تلاوت کا ثواب بیان کرتے ہیں مثلاً سورہ بقرہ کے سلسلے میں ابی بن کعب کی روایت جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے نقل فرماتے ہیں کہ’’حضرت نے فرمایا جو شخص سورہ بقرہ کی تلاوت کرے وہ خدا کی بیحد رحمتوں میں غرق ہو گیا اور اس شخص کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا جس نے سال بھر راہ خدا میں حدود دیار اسلام کی نگہبانی کی ہو۔ اور اس عرصہ میں کافروں کا خوف اس کے دل سے نہ گیا ہو اس کے بعد فرمایا اے اُبی مسلمانوں کو اس سورہ کے جاننے اور سننے کا حکم دو کہ اس کا جاننا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا روز قیامت کی حسرت اور ندامت ہے اور جادوگر بیہودہ لوگ اس سورہ کے پڑھنے اور سننے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ‘‘ ’’الٓم ذالک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ الٓم کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں’’اکثر مفسروں کے نزدیک یہ الف اَنَا کی طرف اشارہ ہے اور لام اﷲ کی جانب اور میم علم کی طرف یعنی میں وہ خدا ہوں کہ جو سب سے دانا ہوں۔ یا الف اشارہ ہے اﷲ کی طرف اور لام جبرائیل کی اور میم محمد کی جانب یعنی حق تعالیٰ نے قرآن کو جبرائیل کے واسطے سے محمدؐ کے پاس بھیجا۔ ائمہ علیہم السلام سے منقول ہے کہ حروف مقطعہ قرآن کے اسرار میں سے ہیں اور ہر شخص اون پر اطلاع نہیں رکھتا مگر اشخاص جو اﷲ کی جانب سے تائید یافتہ ہیں یعنی حضرت رسالت پناہؐ اور ائمہ معصومینؑ اور جناب امیر علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہر کتاب خدا میں ایک چیز خلاصہ تھی اور قرآن کا خلاصہ حروف مقطعہ ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ حروف مقطعہ بندوں کے عاجز کرنے کو ہیں تاکہ جانیں کہ اس کتاب کی حقیقت میں کسی کو راہ نہیں اور کسی کی عقل اور اس کے کنہ معرفت سے آگاہ نہیں۔ ‘‘ اس طرح آپ نے آیات کی مکمل تشریح فرمائی اور شان نزول کے علاوہ اس سے مربوط واقعہ کو بھی نقل کیا ہے۔ اگر یہ تفسیر مکمل ہوتی تو دنیائے تفسیر میں ایک تحقیقی تفسیر کا اضافہ ہوتا۔ ،کیا اچھا ہو کہ یہ تفسیر زیور طبع سے آراستہ ہوجائے۔ ڈاکٹر مولانا سید محمد سیادت صاحب قبلہ امام جمعہ امروہہ سے درخواست گذار ہوں کہ اس علمی سرمایہ کی اشاعت فرما دیں تاکہ مومنین استفادہ کر سکیں۔ آپ نے یکم شعبان ۱۳۳۸/اپریل ۱۹۲۰ء میں رحلت فرمائی۔ دیگر آثار علمی : الاشاعۃ فی شرح نہج البلاغہ نیرنگ زمانہ دلائل حسینیہ چراغ ایمان نظم الفرائض ۱۳۲۱ھ معلم الاطفال ۱؎ محمدہارون، زنگی پوری ( ۱۳۳۹ھ) زنگی پوروہ مردم خیز سرزمین ہے جہاں بڑی تعداد میں علماء وادباء منصہ شہود پر آئے ۔ ان میں مولانا سید محمدہارون کی ذات گرامی خصوصیت کی حامل ہے۔ آپ کی ولادت ۲۴؍ربیع الثانی ۱۲۹۲ھ/۱۸۷۵ء کو جناب عبدالحسین صاحب کے گھر زنگی پور میں ہوئی۔صرف و نحو کی تعلیم مولوی محمد سمیع زنگی پوری سے حاصل کی اور اس کے علاوہ مولانا محمد ہاشم مولانا سید علی حسین سے بھی تعلیمی سلسلہ رہا۔ پھر مولانا علی جواد صاحب طاب ثراہ کے پاس بنارس چلے گئے اور ان کے زیر سایہ کسب علم میں مصروف رہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنو کا قصد کیا اور جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لیا اور سرکار نجم العلماء کی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ’’ممتاز الافاضل‘‘ کی سند حاصل کی۔ مولوی فاضل پنجاب کا بھی امتحان دیا جس میں اعزازی وظیفہ بھی حاصل کیا اور اورینٹل کالج میں بحیثیت استاد تقرر ہوا اور ’’پیسہ‘‘ اخبار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد لکھیم پور کھیری میں مدرس ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد سرکار نجم العلماء نے امروہہ بھیج دیا اور مدرسہ میں تدریس فرمانے لگے۔ وہاں سے دہلی چلے گئے اور دہلی کالج میں تدریس میں مشغول ہوئے۔ علالت کے سبب دہلی چھوڑ دی اور مونگیر کے ضلع حسین آباد میں قیام فرما ہوئے مگر وہاں بھی علیل رہے ۔ ملازمت ترک کرکے لکھنؤ آ گئے اور مدرسۃ الواعظین میں صدر شعبۂ تصنیف و تالیف کا عہدہ سنبھالا۔ آپ جامع معقول و منقول تھے۔ عصری تقاضوں کے پیش نظر اور جدید رجحانات کے تحت تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ آپ کی تحریریں علمی اور تحقیقی ہیں جو آج بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔ علالت کے باوجود بھی جہاد بالقلم جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۴۵ سال کی عمر میں دقیق تالیفات بطور یادگار چھوڑیں قرآن اور تفسیر پر گہری نظر تھی ، تفسیر قرآن کے سلسلے میں کئی کتابیں سپردقلم کیں۔ ۱۔ امامت القرآن: موضوعی تفسیر ہے خواجہ بک ایجنسی لاہور سے شائع ہوئی۔ ۴۱۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تفسیر میں قرآن مجید کی ان ۷۲ آیات کی تفسیر وتشریح کی ہے جو امامت سے متعلق ہیں ۔ اس کے عنوانات اس طرح ہیں: اہل اسلام کے اختلاف کا سبب، مسئلہ امامت میں مسلمانوں کے اختلافات کی وجہ ضرورت امام، امام کے شرائط، اوصاف امام، خلیفہ کے معنی، عام علماء کی آرائ، تعداد خلفاء جیسے موضوعات پر قرآن کی آیات سے بحث کی ہے۔ ۲۔ توحیدالقرآن: مطبوعہ لکھنؤ، موضوعی تفسیر ہے جس میں توحید خداوند عالم سے متعلق آیات قرآنی کی تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ ۳۔ خلاصۃ التفاسیر: ڈاکٹر محمد سالم قدوائی رقمطراز ہیں: اس تفسیر کا عربی خطی نسخہ کتب خانہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں محفوظ ہے جو خود مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ ابتدائی الفاظ: ’’الحمدﷲ الذی انزل علی رسولہ کتاباً قیما لینذر باساً شدیداً من لدنہ‘‘ آپ نے یہ تفسیر سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن طاب ثراہ کے حکم سے لکھی جس کا ذکر آپ نے اس طرح کیا ہے: ’’یہ علماء کے خیالات سے ماخوذ اور تفسیروں کا خلاصہ ہے مولائی و سیدی حافظ الشریعۃ ملا ذالشریعۃ مولانا نجم الحسن صاحب کے ار شاد کی تعمیل میں لکھی ہے۔‘‘ کتاب کے ابواب کا عنوان مقدمہ رکھا ہے۔ پہلا مقدمہ: ’’اسامی القرآن و اوصافہ‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں قرآن مجید کے اسماء کی تشریح کی گئی ہے اور بیشتر نام خود قرآن ہی سے ماخوذ ہیں۔ دوسرا مقدمہ: ’’فی ان القرآن بحر لا ینزف و غوث لا ینقطع وفیہ کل مایحتاج الیہ الناس‘‘ اس باب میں ثابت کیا ہے کہ ہر شیٔ کا علم قرآن میں موجود ہے اور وہ تمام امور جن کا انسان محتاج ہوتا ہے وہ سب جامع طور پر اس کتاب میں موجود ہے۔ مؤلف نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جو بھی تفسیر کرے اس کے لیے لازم ہے کہ قرآن کا گہرا مطالعہ کرے اور اسے تفسیر بالرائے سے گریز کرنا چاہئے۔ تیسرا مقدمہ: ’’اعجاز قرآن‘‘ سے متعلق ہے۔ اس میں قرآن مجید کے لغوی معنی اور فنی اعجاز کو ثابت کیا ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت کی مثالیں پیش کی ہیں قرآن مجید نے جو پیشین گوئیاں کی تھیں مثلاً ’’الٓم غلبت الروم‘‘ ’’أنذرتہم ام لم تنذرہم لا یومنون‘‘ یہ پیشن گوئیاں کس طرح پوری ہوئیں یہ بھی اعجاز قرآن ہے۔ اس میں قوانین محکمہ ہیں۔ تحریف و تغیر ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ اقوام کے واقعات، غرض جتنی باتیں بھی اعجاز قرآن کے لیے تھیں ان سب کا ذکر موجود ہے۔ چوتھا مقدمہ: ’فی المبحث عن نص القرآن و زیادتہ و تحریفہ و تغیرہ ‘‘ اس باب میں تحریف قرآن کا انکار کیا ہے۔ قرآن میں کسی بھی طرح کی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی ہے۔ یہ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے عہد ہی میںمدوّن ہو چکا تھا۔ تحریف قرآن کے سلسلے میں جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ سراسر غلط ہیں۔ پانچواں مقدمہ: ’’فی معرفۃ معانی وجودہ الایات و معانی المتشابہ و تاویلہ‘‘ اس میں انھوںنے لکھا ہے کہ یوں تو کلام الٰہی بہت بہت آسان اور سادہ زبان میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر زیادہ غور کرنے سے مسائل سامنے آتے ہیں اور اگر یہ نہ ہوتا تو اس کی بہت زیادہ اہمیت نہ ہو پاتی۔ چھٹا مقدمہ: ’’‘فی نبذمما جاء فی ان علم القرآن کلہ انما ہو عند اہل البیت علیھم السلام‘‘ اس باب میں ثابت کیا ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ کے بعد ان کے اہلبیت کے پاس قرآن مجید کا کل علم تھا۔ یہ روایت بھی نقل کی ہے ’’قدامر رسول اﷲ ان یقتدیٰ بالقرآن و آل محمد‘‘ حضرت رسول اکرمؐ نے قرآن اور آل محمدؐ کی اقتداء کا حکم دیا۔ ساتواں مقدمہ:’’فیما ورد من فضل المداومۃ علی تلاوۃ القرآن و آدابہا و ما یتعلق بھا‘‘ قرآن مجید کی فضیلت اور اس کے فوائد پابندی سے مسلسل تلاوت کرنے کے فضائل اور آداب تلاوت پر روشنی ڈالی ہے۔ آٹھواں مقدمہ : ’’فی بیان الغرض المقصود من ہذا التفسیر و ما بینت علیہ فی التحریر‘‘ طرز تفسیر اور اپنے اسلوب کا ذکر کیا ہے اور تفسیر لکھنے سے پہلے کن کن امور کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ان آٹھ مقدموں کے بعد تفسیر کا آغاز کیا سورہ الحمد کی معلوماتی تفسیر قلم بند کی پھر اس کے بعد دیگر سوروں کی تفسیر لکھی ہے۔ خاتمہ کی عبارت: ’’لا یعذب عنہ مثقال ذرۃ فی السموات ولا فی الارض ولا اصغر من ذالک ولا اکبر بالا حاطۃ بالعلم لا بالذات لان الاماکن محدودۃ تحویہا حدود اربعۃ فاذا کان بالذات لزمہ الحوایۃ۔۱؎‘‘ علوم القرآن: یہ تفسیر مطبع یوسفی دہلی سے ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء میں شائع ہوئی۔ ۲۱۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ ۴۹ابواب ہیں جن میں مختلف علوم سے متعلق آیات کی تشریح کی گئی ہے جیسے علم الٰہی، علوم نبوت، امامت، ملائکہ، معاد۔ علم ہندسہ، کیمیا، تعبیر خواب، علم اخلاق، مناظرہ، معانی وبیان، علم فقہ و نحو و صرف، علم اللغۃ و غیرہ۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’عالم بارع سید ہارون حسینی زنگی پوری، یکی از اعلام قرن چھاردہم ہجری می باشد۔ او آثار قرآنی متعددی دارد۔۲؎‘‘ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’عہید الفضائل حلیف الفواضل زبدۃ الفضلا الکرام عمدۃ النبلا الاعلام المولوی السید محمد ہارون صاحب دامت مکارمہ الشریف کہ طبع نقاد و ذہن و قادش حلال مشکلات علوم است۔ وفضل و کمال و جلالت مقامش درامثال او کا لقمربین النجوم پیوستہ۔ در نصرت دین و اعانت شرح مبین مصروف و ناوجود تادرستی مزاج و اشتغال علاج بتصنیف رسائل و تحقیق مسائل مشغول۔۳؎‘‘ دیگرآثار علمی: آئینۂ عرب ترجمہ مناجۃ الطرب، مطبوعہ لاہور شہید اسلام تعلیم الاخلاق السیف الیمانی علی المسیح القادیانی مطبوعہ الہیۃ والاسلام ترجمہ صحیفہ کاملہ مع حواشی مطبوعہ الجزیرۃ الخضراء والبحرالابیض نوادرالادب من کلام سادۃ العجم والعرب براہین الشہادۃ مطبوعہ اثارۃ الشہادۃ مطبوعہ مکالمہ علمیہ قادیانی و شیعہ ترجمہ احقاق الحق مطبوعہ اورادالقرآن مطبوعہ صنادید وطن مطبوعہ ردتناسخ وفات: ۱۴؍جمادی الاول ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۰ء کو رحلت فرمائی۱؎۔ مقبول احمد، دہلوی (م ۱۳۴۰ھ) مولانا حاجی مقبول احمد دہلوی کا شمار چودہویں صدی کے اہم مترجمین قرآن میں ہوتا ہے۔ آپ کی ولادت ۱۲۸۷ھ/۱۸۷۰ء دہلی میں ہوئی۔ والد ماجد غضنفر علی اور دادا مراد علی دہلی کے دیندار افراد میں تھے۔ ایام رضاعت میں آغوش مادر اور سات برس کی عمر میں سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ بڑے بھائی پیر جی حفیظ اﷲ نے پرورش کی ابتدائی تعلیم اینگلو عربک ہائی اسکول میں حاصل کی۔ مرزا احمد بیگ نے سر پرستی فرمائی اور اپنی اولاد کی طرح پرورش کی۔ ۱۸۸۵ء میں مڈل پاس کیا۔ ۱۸۸۶ء میں اپنی تحقیق و جستجو سے شیعہ مذہب اختیار کیا اور اس کا اعلان جامع مسجد دہلی میں کرتے ہوئے مناظرہ کا چیلنج بھی کیا۔ ۱۸۸۷ء میں انٹرنس کا امتحان اور ۱۸۸۹ء میں مشن کالج سے ایف۔اے۔ کا امتحان دیا۔ مولانا سید آفتاب حسین صاحب سے علوم دینیہ حاصل کیا اور طب میں بھی مہارت حاصل کی۔ ذاکری کا بھی شوق تھا۔ شعلہ بیان مقرر تھے۔ مزاحیہ خطابت، مناظرانہ اسلوب تھا۔ ۱۸۹۴ء میں راجہ باقر علی خاں والیٔ ریاست پنڈر اول نے آپ کی علمی صلاحیت اور منتظمہ لیاقت دیکھتے ہوئے اپنا مصاحب بنا لیا۔ راجہ صاحب کے انتقال کے بعد نواب حامد علی خاں نواب رامپور نے مدعو کیا اور آپ کو ریاست میں آڈٹ آفیسر رکھ لیا۔ بارہ سال تک اس منصب پر فائز رہے اور نواب صاحب کی فرمائش پر ترجمہ و تفسیر قرآن بھی لکھتے رہے جس میں مولانا اعجاز حسن بدایونی آپ کے معاون تھے۔ تبلیغ دین کے سلسلے میں متعدد سفر کئے۔ ۱۹۲۰ء میں تقریباً سو آغاخانی حضرات کو شیعہ کیا۔ اہل بمبئی دل سے آپ کے قددرداں تھے۔ اسی زمانے میں حج و زیارت سے مشرف ہوئے۔ ۱۳۴۰ھ/۲۴؍ستمبر ۱۹۲۱ء دہلی میں رحلت کی اور درگاہ پنجہ شریف میں آسودۂ لحد ہوئے۔ تصنیف و تالیف کا بڑا شوق تھا۔ قرآنیات پر گہری نظر تھی۱؎۔ ترجمہ قرآن با حاشیہ: یہ ترجمہ مقبول پریس بازار چتلی قبر دہلی سے ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۲ء میں شائع ہوا۔ جس پر علماء اعلام کی گرانقدر تقاریظ مندرج ہیں جن میں سرکار نجم الملت مولانا نجم الحسن، سرکار ناصرالملت مولانا ناصرحسین، باقر العلوم مولانا سید محمد باقر سرکار یوسف الملت مولانا یوسف حسین امروہوی، مولانا سبط نبی نوگانوی قابل ذکر ہیں۔ مرزا کاظم حسین محشرؔ لکھنوی نے قطعہ تاریخ کہی اے فاضل اکمل تری کوشش کے تصدق وہ کام کیا کہے جسے نقش یگانہ کس حُسن سے تحریر کئے معنی قرآن اردو کو عطا کر دیا ملبوس شہانہ ہر جملہ کی تاثیر بیاں کر نہیں سکتا ہر سطر کا گویا دل بسمل ہے نشانہ خوبی فصاحت کو مخالف بھی جو دیکھے دل سے ہو مسلماں نہ کرے کوئی بہانہ لازم ہے نظارے کے لیے دیدۂ باطن قرآن کے معنی ہیں نہیں ہے یہ فسانہ اس باغ حقیقت میں سنے جس کو ہو سننا دل کھینچتا ہے بلبل سدرہ کا ترانہ محشرؔ نے کہا جوش میں یوں مصرع تاریخ یہ ترجمہ قرآن کا ہے مقبولِ زمانہ نمونۂ ترجمہ سورہ والتین: رحمن (و) رحیم خدا کے نام سے(شروع کرتا ہوں) ’قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر کی بیشک ہم نے انسان کو بہت ہی اچھے کینڈے پر بنایا۔ ہم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیکیاں کرتے رہے کہ ان کے لیے بے انتہاء ثواب ہے تو (اے رسول) ان کے بعد تم کو قیامت کے بارے میں کون جھٹلائے گا؟ کیا خدا سب فیصلہ کرنے والوں سے بڑھ کر فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ ‘‘ ترجمہ کے ساتھ مفید حاشیہ اور ضمیمہ ہے جسے مختصر تفسیر کہا جا سکتا ہے۔ تفسیر کا ماخذ تفسیر صافی ہے۔ امامیہ عقائد کو بلاخوف بیان کیا ہے۔ آیات کے ذیل میں حضرات ائمہ علیھم السلام سے مروی تفسیر بیان کی ہے۔ زبان صاف اور سادہ ہے۔ یہ ترجمہ آج بھی مقبول ہے۔ جس کے متعدد ایڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں۔ مفتاح القرآن: اس کتاب میں فضیلت قرآن، متشابہ آیات کی تشریح، تفسیر بالراے کی ممانعت اور آخر میں سوروں کے خواص بیان کئے ہیں۔ دیگر آثار علمی: ترجمہ اسنی المطالب فی ایمان ابی طالب مقبول پرائمری دینیات ۵ حصے ز ائچہ تقدیر فالنامہ دانیال تہذیب الاسلام ترجمہ حلیۃ المتقین علامہ مجلسی وظائف مقبول اعجاز حسن، امروہوی (م ۱۳۴۰ھ) سید المحققین مولانا سید اعجاز حسن طاب ثراہ مولانا سید علی حسن کے نامور فرزند تھے ۔ آپکی ولادت ۱۹؍ جمادی الاول ۱۲۶۶ ھ ؍ ۱۸۴۹ء محلہ گذری امروہہ میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اسکے بعد امروہہ کے بزرگ عالم دین مولانا سید احمد حسین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔ ۱۲۹۴ھ میں لکھنئو چلے گئے اور مفتی محمد عباس شوشتری سے تلمذ اختیار کیا اور میر حامد حسین صاحب عبقات سے بھی استفادہ کرکے عقائد و کلام تفسیر و حدیث میں ملکہ حاصل کیا۔ آپ میں قومی خدمات کاجذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ ۱۰ محرم ۱۳۲۰ھ؍۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء کے ہندو مسلم فساد میں سرکار موصوف نے قوم کے افراد کی دل کھول کر مدد کی۔ حالانکہ اسکے ردِ عمل میں آپکو ذہنی جسمانی اور مالی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ تمام مقدموں کی پیروی آپ ہی نے کی۔ آخر میں تمام مقدمے آپ ہی کے حق میں ہوئے۔ سید ابدال محمد کے وقف کا مقدمہ لڑا اور اسمیں کامیابی ہوئی۔ دارالعلوم سید المدارس کی ترقی کے سلسلے میں کوشاں تھے۔ شیعہ کالج لکھنؤ کی تائسیس اور کتب دینیہ کی اشاعت میں بہت دلچسپی لی۔ علمی قابلیت، خاندانی ریاست، ذاتی وجاہت پر دینداری و اخلاق و تقویٰ نے اور زیادہ جلا بخشی۔ ۱۹۱۹ء میں آنریری مجسٹریٹ مقرر ہوئے اور اپنے بیگانوں میں قدر و منزلت پائی۔ ۱۲۹۷ھ میں حج اور ۱۳۲۱ھ میں زیارات عتبات عالیات سے مشرف ہوئے۔ مفتی محمد عباس کے داماد تھے۔ ۱۹؍ جمادی الاول ۱۳۴۰ھ؍۱۸؍جنوری ۱۹۲۲ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ نے ہر موضوع پر لکھا اور خوب لکھا۔آپکی بیشتر کتابیں فارسی زبان میں ہیں۔ تفسیر قرآن اور علوم قرآن پر گہری نظر رکھتے تھے۔ صاحب تکملہ نجوم السمائ: ’’وی از سادات امروہہ و نیزاز فضلاء و مقدس و متورع راغب و حریص در مناظرہ است سلسلہ نسبش بہ امام علی نقی علیہ السلام میرسد۔ سید موصوف از اولاد سید شرف الدین واسطی الملقب بہ شاہ ولایت میرسد۔۱؎‘‘ ۱۔ تفسیر الآیات : یہ تفسیر فارسی زبان میں موضوعاتی تفسیر ہے جسمیں مختلف موضوعات پر آیات قرآنی کی تفسیر بیان کی ہے۔ ریاضی پریس امروہہ سے شائع ہوئی۔ ۴۳۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ رضا لائبریری رامپور میں راقم نے مطالعہ کیا ہے۔ فقہی، اخلاقی، کلامی موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ۲۔ تفسیر آیۃ لا ینال عھدی الظالمین : فارسی زبان میں عہدہ الٰہی کی تشریح کرتے ہوئے ظالمین کے صفات بیان کئے ہیں۔ عقلی و نقلی ادلہ سے اثبات کیا ہے کہ عہدہ الٰہی ظالم کو نہیں مل سکتا۔ معارج الفرقان فی علوم القرآن: ’’ علوم قرآن کے موضوع پر اہم کتاب ہے۔‘‘ دیگر تالیفات : القام الحجر فی فم ابن الحجر (فارسی) کشف الخلافۃ اسئلۃ المعترضین ترجمہ من لا یحضرہ الفقیہ شیخ صدوق (کتاب طہارۃ) مفاتیح المطالب فی خلافۃ علی بن ابی طالب رسالہ جسیم نہج الیقین (فارسی) جواھر مضیہ فی مصطلحات فقیہ (فارسی) طریق الصلوٰۃ (فارسی) معارج الفرقان فی علوم القرآن (فارسی) مرقع کربلا (فارسی) معیار الفضائل (فارسی) دنبالہ اھل بطالہ (فارسی) فلاح دارین (اردو) مذاھب العلماء فی یقین الخلفاء (اردو) الاثابہ بالاجابۃ فی رد فضائل صحابہ (اردو) رسالہ اصول دین (اردو) تنقید الاخیار و تعدیل الاخیار (اردو) تشقیق الاخیار و کشف الاستار (اردو) باد سموم بھر سماخ الحصوم (اردو) تشبیۃ الاقران فی خلیف القرآن (اردو) اصول السنہ المعروف بہ اجارہ بدیعہ (اردو) فلاح السائل (اردو) نضارۃ البصارہ (عربی) القرآن والکتابۃ (عربی) معراج العباد (عربی) الشھابۃ فی تنجیم الصحابہ (عربی) احسن التقویم (عربی) صلۃ الافعال (عربی) غنیۃ المصادر۱؎ محمد تقی (م ۱۳۴۱ھ) چودہویں صدی کے گرانقدر مفسر قرآن مولانا محمد تقی لکھنوی، مولانا سید ابراھیم کے بڑے فرزند تھے۔ لکھنؤ میں ۱۰ ؍ ذی القعدہ ۱۲۹۲ھ ؍ ۹ دسمبر ۱۸۷۵ء بروز پنجشنبہ متولد ہوئے۔ سطحیات کی تعلیم میر حسن علی صاحب سے حاصل کی۔ اسکے علاوہ فقہ ، اصول ، منطق، فلسفہ کا درس خاندان کے بزرگ علماء تاج العلماء سید علی محمد، مولانا بچھن صاحب ، مولانا علن صاحب ، عماد العلماء میر آغا صاحب سے لیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد عربی میں مقالہ لکھا۔ الاشعۃ النور انیہ فی صلٰوۃ الجمعہ الاسلامیہ جس پر اجازہ ملا۔ آپ اپنے والد ماجد کی جگہ حسین آباد کے امام باڑے کی مسجد کی امامت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ نام و نمود اور شہرت سے دور تھے۔ گوشہ نشینی کی زندگی گذاری۔ درس و تدریس تصنیف و تالیف آپکا محبوب مشغلہ تھا۔ نفیس اور نادر کتابوں پر مشتمل عظیم کتبخانہ ہے جو کتبخانہ ممتاز العلماء کے نام سے مشہور ہے۱؎۔ آپ کی تفسیر قرآن پر گہری نظر تھی اور اس کا وسیع مطالعہ تھا۔ تفسیر سورۃ یوسف : سورہ یوسف کی گرانقدر تفسیر ہے جو ۵۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۔مخطوطہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے کتبخانہ میں محفوظ ہے۔ تفسیر سورہ الحمد : یہ تحقیقی تفسیر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں ۳۰۸ صفحات ہیں اور حصہ دوم بھی ضخیم ہے۔ اس کا مخطوطہ بھی مدرسۃ الواعظین لکھنئو کے کتبخانہ میں محفوظ ہے۔ تفسیر آیات فضائل : یہ تفسیر چار جلدوں پر محیط ہے۔ جلد اول میں ۴۸۲ صفحات ہیں، جلد دوم میں ۲۸۸ ، جلد سوم میں ۱۸۰ اور جلد چہارم میں ۷۹ صفحات ہیں۔ پہلی دو جلدیں مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے کتبخانہ میں محفوظ ہیں اور دوسری دو جلدیں کراچی میں مولانا آغا مہدی صاحب مرحوم کے کتبخانہ میں موجود ہیں۱؎۔ دیگر آثار علمی: ترجمہ خصال صدوق ترجمہ معالم الاصول (خطی کراچی) ترجمہ زبدۃ الاصول (کراچی) حاشیہ فوائد الصمدیہ ( مدرسۃ الواعظین) حاشیہ عباب فی العلم الاعراب ( کتبخانہ ممتاز العلمائ) ترجمہ کتاب السماء والعالم از بحار الانوار ( مدرسۃ الواعظین)۲؎ وفات : آپ نے ۵؍ محرم الحرام ۱۳۴۱ھ ؍۱۹۲۲ء کو لکھنئو میں رحلت کی اور حسینیہ جنت مآب میں آسودۂ لحد ہوئے۔ عبدالعلی، ہروی (م ۱۳۲۱ھ) چودہویں صدی کے بلند پایہ مفسر قرآن حضرت شیخ عبدالعلی ھروی کی ولادت ۱۲۷۷ھ کو مشہد مقدس میں ہوئی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اس کے بعد مدرسہ فیض میں زیر تعلیم رہ کر اپنی فہم و فراست کے جوہر دکھائے۔ اساتذہ آپ کی ذکاوت و ذہانت سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ سطحی دروس وہیں مکمل کئے آپ آیت اﷲ محمد کاظم خراسانی کے ہمدرس تھے۔ علوم عقلیہ و نقلیہ میں اعلیٰ مہارت حاصل کرکے علوم باطن اور تہذیب نفس کے مراحل طے کئے۔ ناصرالدین شاہ آپ کے علم و فضل کا بیحد احترام کرتا تھا اس نے وزارت خارجہ میں نیابت کا درجہ عطا کیا آپ نے اس منصب کو قبول کرتے ہوئے ایران میں بابیوں کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔ ناصرالدین شاہ نے علامہ ہروی کے علوم سے استفادہ کو عام کرنے کے لیے ’’ادارۃ المعارف‘‘ قائم کیا جس کے سربراہ علامہ کو قرار دیا۔ ناصرالدین شاہ نے اپنے خرچے سے برلن کے کتبخانہ کو دیکھنے کے لیے بھیجا دو سال آپ وہاں مقیم رہے۔ ۱۳۲۰ھ میں کراچی آئے اور ہندوستان کے مختلف شہروں کے دورے کئے علامہ سید محمد سبطین سرسوی نے آپ سے استفادہ کیا اور آپ مترجم کی حیثیت سے بھی ان کے ساتھ رہے۔ آپ نے پنجاب سے ماہنامہ رسالہ ’’البرہان‘‘نکالا جس میں علمی اور تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ آپ کو تفسیر قرآن میں مہارت حاصل تھی۔ تفسیر قرآن مجید: ناصر الدین شاہ کے زمانے میں ایران میں ایک ایسا متن قرآن شائع ہوا جس کے حاشیہ پر تفسیر سے متعلق تمام احادیث جمع کی گئی تھیں۔ طریقہ کار شاہ کو بہت پسند آیا اس نے امین الدولہ کے مشورہ سے علامہ ہروی کی خدمت میں اس کام کو مکمل کرنے کی تجویز پیش کی علامہ ہروی نے فرمایا کہ میں اس شرط پر یہ کام انجام دوںگا کہ ایک خاص دفتراور محکمہ قائم کیا جائے جس میں دو متکلم، دو فلسفی، دو فقیہہ، دو محدث جید علماء ہوں اور ان سب کے مصارف شاہ برداشت کریں شاہ نے یہ تجویز قبول کی۔ چنانچہ کام شروع ہوا اور چھ ماہ میں صرف استعاذہ کی تفسیر بکمال دقت تیار ہوئی۔ ڈیڑھ سال تک یہ کام ’’اہدناالصراط المستقیم‘‘ تک پہنچا بادشاہ نے چار سو نسخے طبع کراکے علماء کی خدمت میں بغرض تبصرہ بھیجے سب نے بہت پسند کئے شاہ نے علامہ ہروی کو انعام و اکرام سے نوازا اور کام جاری رکھنے کو کہا۔ وزاء نے مخالفت کی کہ اس طرح تو یہ تفسیر تمام عمر بھی مکمل نہیں ہو پائے گی۔ شاہ نے کہا اگر اس طرح صرف ایک پارہ کی تفسیر مکمل ہو جائے تو تمام تفاسیر سے بے نیاز کر دے گی۔ اتفاق سے اس سال ناصرالدین شاہ مرزا محمد بابی کے ہاتھوں قتل ہو گئے اور یہ کام مکمل نہ ہو سکا۱؎۔ آپ کی دوسری تفسیری کاوش سورہ کہف کی ان آیات کی تفسیر ہے جس میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ تیسری کاوش تفسیر ’’انا کل شیٔ خلقنا بقدر‘‘ہے جو ایک فلسفیانہ اور عالمانہ تفسیر ہے۔ دیگر تالیفات: رسالہ قضا و قدر ثبوت معراج جسمانی مسئلہ امامت ہدایت مواعظ حسنہ حسین،سید، بلگرامی(م ۱۳۴۴ھ) چودہویں صدی کے نامور انگریزی مترجم قرآن سید حسین۱۲۶۰ھ/ ۱۸۴۵ء میں متولد ہوئے۔ آپ کا وطن بلگرام تھا جو ایک علمی و ادبی سرزمین ہے۔ آپ کے والد بلگرام کے سربراہ آوردہ افراد میں تھے۔ مولانا سید حسین بلگرامی عمادالملک عالم و فاضل مدبر و منتظم تھے۔ خداوند عالم نے اعلیٰ فہم و فراست تدبر و تدبیر کی نعمت سے نوازا تھا۔ آپ نے قوم و ملت کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپ کے بھائی مولانا سید علی بلگرامی اور سید حسن بلگرامی بھی ہندوستان کی نامور ہستیاں گذریں ہیں۔ مولانا سید حسین کو مختلف زبانوں میں عبور حاصل تھا۔ عربی، فارسی انگریزی کے مانے ہوئے ادیب تھے۔حیدآباد دکن میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ کر خدمات انجام دیں۔ ترجمہ قرآن آپ کے علمی آثار میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ ہے جس سے آپ کی انگریزی ادب پر گرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ بہت پسند کیا گیا اور علمی حلقوں میں بہت زیادہ سراہا گیا۱؎۔ آپ کی وفات ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۵ء میں ہوئی۔ زیرک حسین، امروہوی،ڈاکٹر (م ۱۳۴۵ھ) چودہویں صدی کے مایہ ناز مترجم قرآن ڈاکٹرسید زیرک حسین رضیؔ مشہور شاعر و ادیب سید مومن حسین صفیؔ کے فرزند تھے۔ ۱۲۸۸ھ/۱۸۷۱ء کو محلہ گذری امروہہ میں متولد ہوئے۔ عصری تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی رجحان رہا۔ آگرہ طبیہ کالج سے ڈاکٹری کی۔ عربی و فارسی ادب میں مہارت حاصل تھی۔ خط نسخ و نستعلیق عمدہ لکھتے اور باکمال خوشنویس تھے۔ ادیب کامل،جامع معقول و منقول نہایت درجہ منکسرالمزاج نیک کردار، پاکیزہ خصلت متقی و متورع تھے۔ فن مناظرہ میں ملکہ رکھتے تھے۔ دفاع اہلبیتؑ شیوہ تھا۔ زندگی بھر دشمنان اہلبیت سے برسرپیکار رہے۔ دفاع حق آل محمد علیھم السلام کی غرض سے آگرہ میں ’’ریاض رضی‘‘ کے نام سے مطبع قائم کیا جہاں سے بڑی تعداد میں کتب شائع ہوئیں۔ مولانا مقبول احمد دہلوی اور مولانا اعجاز حسن امروہوی آپ کے ہمدرس تھے۔ نجف اشرف و کربلا معلی کی زیارات سے مشرف ہوئے اور وہیں عرصۂ دراز تک مقیم رہے۔ اعزا و اقارب نے بہت کوشش کی کہ واپس آ جائیں مگر واپس نہیں آئے۔ وہاں شادی کر لی ۔دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کو آغا عفیف الحسن اور دوسرے کو حاجی لطیف الحسن کہتے تھے۔ آغالاولد تھے اور حاجی پاکستان چلے گئے تھے۔ بہت عرصے بعد امروہہ واپس تشریف لائے اور قرآن مجید کا ترجمہ کیا پھر کربلا جاکر ۱۳۴۵ھ/۱۹۲۶ء میں وفات ہوئی۱؎۔ صاحب تواریخ واسطیہ : ’’(آپ) خط نسخ و نستعلیق عمدہ لکھتے ہیں خوشنویس باکمال ہیں جو انھوںنے اپنے والد سے حاصل کیا ہے۔ شعرگوئی و تاریخ گوئی میں ارجمند ، علم فارسی و عربی میں بہرہ مند ہیں۔ حمیدہ خصائل پسندیدہ شمائل ہیں۔ بڑے صاحب وضع ذکی الطبع اسم با مسمیٰ ہیں کالج طبی آگرہ کے پاس یافتہ ہیں بعہدہ بنو ڈاکٹری ملازم سرکار ہیں انگریزی میں اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے ہیں غرضکہ بڑے نیک بخت نیک سیرت بین الاقران لائق و فائق ہیں۱؎۔ ‘‘ صاحب تاریخ سادات امروہہ جمال احمد صاحب: ’’آپ فن خوشنویسی و شاعری میں استاد تھے اور ڈاکٹری بھی پاس تھے اور عالم و فاضل تھے۲؎۔‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’زیرک حسین، ترجمہ وتفسیر قرآن کریم بہ زبان اردو انجام دادہ است و در حاشیہ کتاب دربارۂ تاثیرات آیات و حساب جمل و تعویذات سخن بہ میان آوردہ است۔۳؎‘‘ ترجمہ قرآن مجید۴؎: آپ کا علمی و ادبی کارنامہ ترجمہ قرآن ہے۔ ۱۳۳۱ھ /۱۹۱۲ء میں دہلی سے شائع ہوا ،راقم نے اسی ترجمہ کو ۱۴۳۱ھ/۲۰۱۰ء میں میر انیس اکیڈمی محلہ حقانی امروہہ سے مبسوط مقدمہ اور انڈیکس کے ساتھ دیدہ زیب جلد میں شائع کیا ہے۔ سلیس و بامحاورہ ترجمہ ہے۔ سلیس و شیریں زبان استعمال کی گئی ہے۔ حاشیہ پر ہر آیت کے خواص و فوائد تحریر ہیں۔ جن سے آیات قرآنی کے اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں۔ صرف انھیں خواص کو بیان کیا گیا ہے جو معتبر ومستند کتب میں حضرات ائمہ علیھم السلام سے منقول ہیں۔ حواشی کی مدد سے قرآن مجید سے روحانی علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس ترجمہ کو علماء شیعہ اور علماء اہلسنت دونوں نے معتبر سمجھا ہے۔ عمدۃالعلماء مولانا محمد مرزا لکھنوی مقیم کربلا نے اس کی توصیف ان الفاظ میں کی : ’’بخدمت جناب مستطاب علام فہام زبدۃ الاطیاب سیادت مآب السید زیرک حسین المقلب بہ ضیاء الاسلام بعد سلام! معروض آنکہ آپ کے مطبوعہ کلام مجید کے پارے حقیر کی نظر سے گذرے۔ پروردگار عالم آپ کو اجر جمیل عطا فرمائے کہ آپ نے ترجمہ میں بہت تندہی سے کام لیا ہے جہاں تک میں نے غور کیا ترجمہ صحیح پایا اور زیادہ خوشی اس بات سے ہوئی کہ اس ترجمہ میں صرف محاورہ ہی محاورہ کا خیال نہیں رکھا گیا بلکہ لفظی ترجمہ اس خوبی سے کیا گیا ہے جو محاورے کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ ترجمہ پہلے تمام لفظی اور بامحاورہ ترجموں سے زیادہ مفید ہے۔‘‘ عالم اہلسنت مولانا عبدالصمد حنفی دریاآبادی از بہاولپور اس طرح رطب اللسان ہیں: ’’یہ پہلا ترجمہ ہے جسے میں نے بحیثیت ادائے مطالب جناب شاہ عبدالقادر صاحب کے ترجمہ کا ہم پلہ پایا۔ اور بحیثیت سلاست اس سے بہتر پایا۔ ‘‘ چونکہ آپ شاعر اور ادیب تھے اس لیے ادب کی آمیزش سے ترجمہ میں لطافت پائی جاتی ہے۔ سورہ الحمدکا منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو: خدا کو ہر اک حمد ہے برقرار جو ہے سب جہانوں کا پروردگار وہ بخشندہ ہے اور بڑا مہرباں خداوند روز جزا بیگماں تری ہی پرستش سے ہم شاد ہیں تجھی سے طلبگار امداد ہیں دکھا تو ہمیشہ ہمیں سیدھی راہ کیا تونے جن پر کرم انکی راہ نہ ان کی ہوا جن پہ قہر و عتاب نہ ان کی جو ہو ویں بہک کر خراب سورہ الضحیٰ میں ’’وَوَجَدَک ضآلا فَہَدَی‘‘کا معنی خیز ترجمہ کیا ’تجھے گمنامی کی حالت میں پایا۔ پس(لوگوں کو تیری طرف) راہ دکھائی‘‘ جبکہ بہت سے مترجمین نے ضآلا کا ترجمہ گمراہی کیا ہے۔ نمونہ ترجمہ سورہ انشراح : ’’کیا ہم نے کشادہ نہیں کیا تیرے لیے تیرے سینے کو؟ اور ہم نے اتار لیا تجھ پر سے تیرا بوجھ جس نے تیری کم توڑ دی تھی اور ہم نے بلند کیا تیری خاطر سے تیرے ذکر کو پس یقینا سختی کے ساتھ نرمی ہے۔ یقینا تکلیف کے ساتھ راحت ہے پس جس وقت تو فارغ ہو جائے تو( اپنا جانشین) قائم کر دے اور اپنے رب کی طرف راغب ہو۔‘‘ دیگر آثار علمی الخلفائ مطبوعہ آگرہ المذاہب مطبوعہ آگرہ ترجمہ جوش کبیر گستاخی مطبوعہ آگرہ تفہیم القرآن مطبوعہ مقبول پریس، دہلی ۱۳۲۹ھ معین القرآئ ریاض رضی آگرہ ۱۳۲۴ھ مثنوی رضیہ مرضیہ (فارسی) مطبوعہ ریاض آگرہ ۱۳۲۴ ثمرۃ المکاشفہ مقبول پریس دہلی ۱۳۳۵ھ۱؎ محمد رضا ،لاہرپوری (م ۱۳۴۶ھ) چودہویں صدی کے اہم مفسر قرآن مولانا محمد رضا صاحب علم و فضل، تقدس اور زہد و تقویٰ میں بے مثال تھے۔ عقائد و کلام، تفسیر و حدیث کے علاوہ فقہ و اصول میں اچھی دسترس رکھتے تھے۔ درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی مصروف رہتے تھے۔ آپ کے تقدس و ورع سے راجہ امیر الدولہ بہادر بہت زیادہ متاثر تھے انھوںنے آپ کو اپنی مسجد میں پیشنماز رکھا اور ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے۔ آپ نے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو معارف اسلامی سے روشناس کرایا اور علوم اہلبیت کی ترویج حق المقدور کرتے رہے۔ تفسیر قرآن: آپ کے علمی آثار میں تین پاروں کی تفسیر قرآن ہے جو آپ نے اس دور کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر لکھی۱؎۔ دیگر تالیفات : کتاب المناظرہ تحفۂ محمد رضا (فقہ) سفر نامہ آپ کی وفات ۱۳۴۶ھ/۱۹۲۷ء میں ہوئی۲؎۔ آقا حسن (م ۱۳۴۸ھ) قدوۃ العلماء مولانا سید آقا حسن کی ولادت ۲۶؍ربیع الاول ۱۲۸۲ھ؍ ۱۸۶۵ء کو لکھنو میں ہوئی۔ آپکے والد ماجد مولانا سید کلب حسین نصیر آباد کے بلند مرتبہ عالم دین تھے۔ ابتدائی کتب مولانا سبط محمد ابن خلاصۃ العلماء سیدمرتضیٰ سے پڑھیں اور اعلیٰ سطح کی تعلیم مولانا میر آغاصاحب اور علن صاحب سے حاصل کرکے عراق روانہ ہوئے۔ نجف اشرف میں شیخ محمد حسین مازندرانی، شیخ زین العابدین، شیخ محمد حسین ما مقانی، مرزا شہر ستانی کربلائی سے کسب فیض کیا اور فقہ، اصول، تفسیر و حدیث، عقائد و کلام میں ملکہ حاصل کیا۔ آیات عظام نے آپکی علمی لیاقت کو دیکھ کر اجازات سے نوازا۔ ۱۳ٍ۱۳ھ میں عمادالعلماء میر آغا صاحب نے گرانقدر اجازے سے سرفراز کیا۔ آپ بڑے فعال اور محنت کش تھے ہر وقت قومی خدمت انجام دینے میں منہمک رہتے تھے۔ آپ نے ۱۳۱۹ھ میں انجمن صدر الصدور قائم کی، شیعہ کالج کی تحریک چلائی۔ لکھنو میں مدرسہ جعفریہ کی بنیاد رکھی۔ ۱۳۲۸ھ میں انجمن یادگار علماء قائم کی ۱۳۳۷ھ میں شیعہ بیت المال قائم کیا۔ آپ نے پنجشنبہ ۷؍ربیع الثانی ۱۳۴۸ھ/۱۲ ستمبر ۱۹۲۹کو رحلت کی اور حسینیہ غفرانمآب مین سپرد لحد کئے گئے۱؎۔ ذیل البیان فی تفسیر قرآن : یہ تفسیر’’اخبار الناطق‘‘ میں قسط وار شائع ہوئی، روائی اور تاریخی تفسیر ہے جس میں کلامی استدلال بھی پایا جاتا ہے۔ مطبع عماد الاسلام لکھنئو سے ۱۳۴۲ھ میں کتابی شکل میں بھی طبع ہوئی۔ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل آقا حسن بن کلب عابد بن کلب حسین بن محمد حسین الحسینی الشیعی النصیرآبادی ثم اللکھنوی، احد علماء الشیعہ و مجتہدیھم ولد للثلاث بقین من ربیع الاول سنۃ اثنتین و ثمانین و مائتین والف فی لکھنو و نشاء فی مہد العلم و قراء المبادی من العلوم الا لیۃ علی السید سبط محمد و کتب المعقول والمنقول والفقہ، الاصول علی السید ابی الحسن بن السید بندہ حسین اللکھنوی و علی المولوی میر آغا المعروف بعماد العلماء و سافرالی العراق و حضر دروس علمائہا و نال الاجازۃ فی الاجتہاد و رجع الی الہند۔ و اشتغل بالدرس ولافادۃ والافتائ، و کان یصلی بالجماعۃ فی الحسینیۃ الاصفیۃ فی الجمعۃ والعیدین۱؎‘‘ دیگر تا لیفات : رسالہ حرمان الزوجہ عن العقار (فقہ استدلالی عربی) رسالہ غسل واجب لنفسہ ہے یا واجب لغیرہ ترجمہ عماد الکلام غفرانمآب۲؎ ذاکر حسین، بارہوی (م ۱۳۴۹ھ) چودہویں صدی کے نمایاں محشی قرآن مولانا ذاکر حسین کی ولادت ۱۲۸۴ھ/ ۱۸۶۷ء کو پہر سر میں ہوئی کیونکہ آپ کے والد گوہر علی صاحب وہیں رہتے تھے وہ بڑے مشہور طبیب تھے۔ وہیں تعلیم و تربیت ہوئی علوم جدیدہ اور قدیمہ حاصل کرنے کے بعد خدمت خلق اور تبلیغ دین میں مصروف ہوئے۔ انتہائی قوی الحافظہ ذہین نکتہ شناس عالم تھے۔ لکھنؤ، بہرائچ، آگرہ، بھرپور، اجمیر، اٹاوہ کے مبلغ دین مصلح احوال تھے، زہد و وریٰ میں بے مثال جہاں جاتے لوگوں کو پابند شریعت بناتے۔ مسجدیں آباد کرتے اور لوگوں کو مسائل سے آشنا کرتے تھے۔ شہرت اور نام و نمود سے دور تھے ۔ سادہ زندگی گذاری، تفسیر قرآن کا وسیع مطالعہ تھا۔ حاشیہ قرآن: آپ نے قرآن مجید پر عربی میں حاشیہ لکھا جس میں آیات قرآنی کے رموز و اسرار کو واضح کیا گیا ۔ مثنوی در مکنون شائع ہو چکی ہے۔ انگریزی میں بھی لکھتے تھے۔ صحیفہ کاملہ کے ترجمے میں بھی مدد کی۔ آخر عمر میں لکھنؤ آکر رہے اور نذر باغ میں تقریباً ۶۵ سال کی عمر میں یکم رجب ۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰ء کو رحلت کی اور اپنے مکان مسکونہ میں آسودہ لحد ہوئے۱؎۔ محمد اعجاز حسن، بدایونی(۱۳۵۰ھ) آپکی ولادت ۱۴؍ ذیقعدہ ۱۲۹۸؁ھ ؍ ۱۸۸۰؁ء کو بمقام سرسی ضلع مرادآباد ہوئی۔ والد ماجد مولانا محمد جعفر حسن تھے۔ ابتدائی تعلیم والد کے علاوہ مولانا سید شبیر حسین سرسوی ، مولوی مظفر علی خانصاحب، ملا باقر مرادآبادی، مولوی سید کرار حسین سے حاصل کی۔ اسکے بعد وقتاً فوقتاً امروہہ، نوگانواں، میرٹھ کے مدارس میں زیر تعلیم رہے۔ اسکے بعد لکھنؤ چلے گئے اور جامعہ ناظمیہ میں سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن صاحب سے شرح لمعہ اور قوانین الاصول پڑھیں۔ ۱۳۲۵ھ میں’’ ممتاز الافاضل‘‘ کی سند حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۳۲۶ھ میںککرولی ضلع مظفر نگر میں دینی خدمات میں مصروف ہوئے۔ ۱۳۲۸ھ میں سرکار نجم العلماء نے مدرسۂ عالیہ رامپور میں مولوی فاضل کیلئے مدرس مقرر کرایا۔ اسی زمانے میں مولوی مقبول احمد دہلوی نے شعبہء تصنیف و تالیف آپکے سپرد کر دیا ۔ جسکی بنا پر متعدد کتب تحریر کیں۔۱۳۳۷ھ میں شیعہ اسکول لکھنؤ میں ملازم ہوئے۔ ۱۳۴۲ھ میں جامعہ ناظمیہ میں استاد مقرر ہوئے۔ اور مدرسۃ الواعظین میں بھی تدریس کرتے تھے۔ اس زمانے میں مناظرے اور تبلیغ کے سلسلے میں بر صغیر کے متعدد شہروں کا سفر کیا۔ رنگون، زنجبار، ممباسہ اور عدن جاکر تبلیغی فرائض انجام دیئے۔ مزارات مکہ اور مدینہ کے انہدام پر احتجاج میں بڑے جوش و خروش سے شریک ہوئے۔ آپ اسلام اور تشیع کی سربلندی کیلئے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے۔ مدرسۃ الواعظین کیلئے آپکی بیشمار خدمات ہیں آپ عربی اور اردو کے قادر الکلام مصنف اور شیریں بیان خطیب تھے۔ ۱۵؍ ذیقعدہ ۱۳۵۰؁ھ ؍ ۲۳ مارچ ۱۹۳۲؁ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں تقریر کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑا اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قرآن مجید کا گہرا مطالعہ تھا۱؎۔ ۱۔برھان المجادلہ فی تفسیر آیۃ المباھلہ: یہ آیت مباہلہ فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم۔۔۔۔الخ( مطبوعہ) کی تفسیر ہے۔ اسکے علاوہ قرآن سے متعلق کئی کتابیں لکھیں۔ ۲۔ تجوید القرآن ۲ حصے مطبوعہ ۳۔ کتاب فضل القرآن ۴۔ مقدمات القرآن۔ مطبوعہ ۵۔ لغات القرآن ۶۔ فھرست الفاظ قرآن دیگر کتب: ھدیہ جعفریہ ترجمہ اعتقادیہ شیخ صدوق ایضاح الفرائض (میراث) معراج النحو وجیزۃ الصرف حل لغات نھج البلاغہ حاشیہ بر سیوطی شرح الفیہ مصائب اہلبیت نجم الھدایۃ شمس الاعتقاد احکام جماعت شجرۃ الانبیاء و الائمہ ایضاح الاشکال خزینہء ھدایت ترجمہ فصول المھمہ ابن صباغ مالکی ترجمہ احتجاج طبرسی الرجم بجواب عبد الشکور ۲ جلد ازالہ خرافات شکوریہ غضنفر علی، بی۔ اے۔(طبع ۱۳۵۱ھ) آپ کو شعر و ادب میں خاص شغف تھا۔ آپ نے پارہ اول کی منظوم تفسیر لکھی جو ’’تفسیر پارہ الم‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تفسیر ۱۳۵۱ھ میں دہلی سے شائع ہوئی۱؎۔ فیاض حسین، خواجہ(م ۱۳۵۱ھ) مولانا حافظ فیاض حسین ایوبی ۱۲۸۹ھ/۱۸۷۲ء کوکیرانہ ضلع مظفرنگر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد خواجہ قاسم علی نیک اور پرہیزگار بزرگ تھے انھوںنے خواجہ فیاض حسین کو حفظ قرآن کے لیے مدرسہ میں داخل کرایا۔ خواجہ صاحب نے دس سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا اور کیرانہ کی مسجد انصاریان میں کئی سال تک روزانہ بعد نمازِ عشاء ایک پارہ روز سناتے رہے۔ خوش الحانی، حفظ کی روانی کا چرچا دور دور تک تھا۔ عربی فارسی کی تعلیم کے لیے منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد لکھنؤ گئے اور سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن صاحب سے کسب علم کیا۔ جامعہ ناظمیہ کی آخری سند ’’ممتازالافاضل‘‘ اور سلطان المدارس کی سند صدرالافاضل حاصل کی۔ تکمیل درس کے بعد منصبیہ کالج میرٹھ میں نائب مدرس اعلیٰ منتخب ہوئے۔آپ نے ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء میں رحلت فرمائی اور میرٹھ میں آسودۂ لحد ہوئے۱؎۔ اسلامی صحیفہ: آپ نے قرآن مجید کے چودہ سوروں کاترجمہ اور ان کے خواص تحریر کئے جو ’’اسلامی صحیفہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۲؎۔ دیگر آثار علمی: انیس المحدثین و رفیق الواعظین تعلیم نسواں رسالہ قرأت نخبۃ الاحکام مناسک حج مرتضٰی حسین، حکیم (طبع ۱۳۵۱ھ) سید بدر علی مرحوم کے فرزند تھے۔ قصبہ ایرایاں سادات ضلع فتح پور سے تعلق تھا۔ آپ عالم و فاضل جامع معقولات و منقولات تھے۔ آپ کی مشہور کتاب ’’التکمیل‘‘ ہے جس میں آیۂ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیتُ لکم الاسلام دینا‘‘ کی تفسیر بیان کی گئی ہے اور اس کانزول ۱۸ذی الحجہ، ۱۰ ہجری ثابت کیا ہے۔ اور مولانا شبلی نعمانی کے نظریہ کو غلط ثابت کیا ہے کہ یہ آیت یوم عرفہ ۹ذی الحجہ کو نازل ہوئی۔ کتاب ۳۷۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء میںشائع ہوئی۱؎۔ یوسف حسین، امروہوی(م ۱۳۵۲ھ) چودہویں صدی کے بلند مرتبہ مفسر قرآن سرکار یوسف الملت مولانا سید یوسف حسین مجتہد، مولانا حاجی مرتضیٰ حسین محلہ دانشمندان کے فرزند اکبر تھے۔ آپ کی ولادت ۱۳۰۵ھ/۱۸۸۷ء کو امروہہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد بزرگوار سے حاصل کی اور رامپور جاکر مولانا محمد امین شاہ آبادی سے معقولات کا درس لیا۔ ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے عازم عراق ہوئے اور نجف اشرف میں ’’مدرسہ سید کاظم طباطبائی‘‘ میں قیام کرکے درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔ اس وقت آیۃ اﷲ محمد کاظم طباطبائی آیت اﷲابوالحسن اصفہانی، آقای شیخ علی قوچانی، آقای ضیاء الدین عراقی، آقای محمد کاظم خراسانی، آقای ابوتراب خوانساری کا فیض جاری تھا۔ آپ نے آیت اﷲ سید محمد کاظم طباطبائی اور آیت اﷲ ابوالحسن اصفہانی کے درس خارج میں شرکت کی اور اجازہ ہائے اجتہاد حاصل کئے۔ آیات عظام نے اجازہ ہائے اجتہاد میں آپ کے تبحر علمی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی فقہی اعلیٰ صلاحیتوں کا ذکر فرمایا۔ ۱۳۳۳ھ/۱۹۱۴ء میں وطن واپس تشریف لائے اور تشنگانِ علوم کو سیراب کرنے لگے۔ انگریزوں کے خلاف فتویٰ:جب آپ نجف اشرف سے ہندوستان واپس آئے تو پہلی جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی اور ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف تحریک شباب پر تھی یہاں تک کہ علما ء نے حکومت برطانیہ کی فوج اور پولیس کی ملازمت حرام قرار دے دی۔ آپ نے بھی برطانوی فوج میں ملازمت کی ، حرمت کا فتویٰ صادر فرمایا۔ فتویٰ صادر ہوتے ہی برطانوی حکام میں کھلبلی مچ گئی۔ آپ کا یہ اقدام انگریز کلکٹر مرادآباد کو پسند نہیں آیا۔ اس نے سخت اظہار ناراضگی کیا اور مولانا سے فتویٰ واپس لینے پر اصرار کیا۔ آپ نے انکار فرمایا جس کی بنا پر آپ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے گئے۔ مگر نتیجہ کے پیش نظر اس اقدام سے باز رہا۔ آپ کی جرأت پر سرمحمد یعقوب جو اس وقت ضلع مرادآباد کے مسلم لیڈر تھے مبارکباد دینے امروہہ آئے اور دیگر قائدین ملت نے آپ کے اس اقدام کو سراہا اور پسند کیا۔ امروہہ میں آپ مدرسہ نورالمدارس میں بحیثیت پرنسپل منتخب ہوئے۔ یہ مدرسہ مغربی اترپردیش کے مدارس میں ممتاز تھا۔ یو۔پی۔ کے اکثر پبلک اور گورنمنٹ اسکولوں میں علوم مشرق کے اساتذہ اس درسگاہ کے سابق طلباء ہوتے تھے۔ ۱۹۲۲ء میں جناب سید محمد حسنین ڈپٹی کلکٹر کے اصرار پر منصبیہ عربی کالج میرٹھ کے پرنسپل منتخب ہوئے۔ آپ کی نگرانی میں مدرسہ نے ہر حیثیت سے غیر معمولی ترقی کی اور علمی و ادبی رسالہ ’’الھادی‘‘ جاری کیا جس میں آپ کے فتاویٰ شائع ہوتے تھے۔ ۱۹۲۶ء میں مولانا سید عباس حسین صاحب ناظم دینیات شیعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی وفات کے بعد آپ کا تقرر ان کی جگہ ہوا۔ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں وائس چانسلر تھے جو آپ کا بیحد اکرام و احترام کرتے تھے۔ آپ تا وفات اس عہدہ پر فائز رہے۔ یونیورسٹی اکیڈمک کونسل کے ممبر بھی رہے۔ یونیورسٹی میں فرائض اس خوش اسلوبی سے انجام دیئے کہ ہر وائس چانسلر آپ سے متاثر تھا۔ آپ انتہائی سادہ طبیعت انسان تھے۔مزاج میں بلا کی انکساری تھی۔ درس و تدریس و تصنیف و تالیف میں بے انتہا محنت کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے آپ کی صحت خراب رہنے لگی۔ علی گڑھ میں اچھے اطباء کا علاج کرایا مگر طبیعت میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہوئی۔ امروہہ تشریف لائے علالت میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ۴۶سال کی عمر میں تقدس کا یہ آفتاب ۱۳۵۲ھ/نومبر۱۹۳۳ء کو غروب ہو گیا اور عزاخانہ نورالحسن محلہ دانشمندان کی شہ نشین میں آسودۂ لحد ہوئے۔ تفسیریوسفی: یہ تفسیر تیسویں پارہ عمٓ کی علمی، ادبی، تاریخی، تحقیقی تفسیر ہے۔ احسن المطابع میرٹھ سے ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی۔ آیات کی تحلیل اور لغوی معنی کی اس طرح وضاحت کی کہ ترجمہ آسان ہو گیا ہے صرفی بحث میںصیغوں اور اس کے مصدر کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اختلاف قرآت کا بھی بیان ہے۔ ترکیب نحوی: کے ذیل میںآیات کو علم نحو کے ذریعہ مکمل طور سے حل کیا ہے۔ تفسیر کاعنوان قائم کرکے آیت سے متعلق واقعہ اور اس کا شانِ نزول بیان کیا اور تحقیقی بحث کرکے مطلب کو کاملاً واضح کیا ہے۔ تحقیق مفسر کے عنوان کے ذیل میں آیت کے سلسلے میں علماء مفکرین اور فلاسفہ کی آراء اور جدید علوم کا سہارا لے کر علمی نکات اخذ کئے ہیں جو فہم آیت میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ استدلال میں فلسفہ کی جھلک نمایاں ہے۔ علم کلام سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے۔ افسوس کہ یہ تفسیر نامکمل ہے اگر کامل تفسیر ہوتی تو دنیائے تفاسیر میں امتیازی حیثیت کی حامل ہوتی۔ دیگر آثار علمی: حاشیہ برکفایۃ الاصول (عربی) جوابات شافیہ توضیح المعالم - شرح معالم الاصول رسالہ جعفریہ ترجمہ و حواشی نہج البلاغہ ذخیرۃالعباد(رسالہ عملیہ) ترجمہ و حواشی اصول کافی توضیح الرکعات عن آیات الصلوٰۃ ۱؎ علی اظہر، فخر الحکماء (م ۱۳۵۲ھ) آپ کی ولادت رمضان ۱۲۷۷ھ/۱۸۶۱ء کو کھجوہ ضلع سارن بہار میں ہوئی ۔ والدماجد مولوی سید حسن تھے۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی اس کے بعد لکھنؤ گئے۔ ۱۲۸۹ھ میں علامہ کنتوری نے مدرسہ ایمانیہ قائم کیا تھا۔ آپ اس کے پہلے گروپ میں تھے۔ ۱۲۹۷ھ میں زیارات عراق و ایران کے لیے گئے۔ ۱۳۰۱ھ میں آرہ میں مطب قائم کیا اور خدمت خلق میں مصروف ہوئے۔ ۱۳۱۰ھ میں بہیرہ سادات میں اہلسنت سے مناظرہ کرکے کامیاب ہوئے۔ ۱۳۲۲ھ میں عراق گئے اور آقای شیخ حسین مازندرانی، شیخ محمد طہٰ، سید کاظم طباطبائی، آقای صدر نے اجازوں سے سرفراز فرمایا۔ ۱۳۲۴ھ میں حج بیت اﷲ سے مشرف ہوئے۔ آپ نے ادارہ ’’اصلاح‘‘ اور ’’الشیعہ‘‘ قائم کرکے شیعہ دارالمصنفین قائم کیا جس کی خدمات آج بھی جاری ہیں۔ آپ نے ۱۲؍شعبان ۱۳۵۲ھ/۱۹۳۳ء کو رحلت فرمائی۱؎۔ تفسیر قرآن پر گہری نظر تھی ترجمہ کے ساتھ تفسیربھی لکھی۔ مولانا حافظ فرمان علی صاحب مرحوم : ’’(ترجمہ کو) شروع کئے چند ہی روز گزرے تھے کہ یہ معلوم کرکے کہ صدرالمتکلمین فخرالعلماء جناب مولانا حکیم سید علی اظہر صاحب دامت افاداتہ نے ترجمہ مع تفسیر لکھنا شروع کیا ہے بلکہ بعض اجزاء اس کے شائع بھی ہو گئے تھے، میرا جی چھوٹا جاتا تھا اور اپنی محنت کو بیکار سمجھنے لگا تھا کہ اتفاقاً اسی زمانہ میں لکھنؤ جانا ہوا اور جناب ممدوح سے ایک نورانی مجلس میں ملاقات ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت تک جتنا ترجمہ کر چکا تھا۔ میرے ساتھ تھا بہت اشتیاق سے کچھ تھوڑا سنا اور سن کر بزرگانہ شفقت اور کمال قدردانی کی راہ سے فرمایا کہ واقعی ترجمہ کرنا تمہارا ہی حق ہے۔ میں ترجمہ نہیں کرونگا تم ہی اس کو پورا کرو۔ ۱؎ ‘‘ مولانا حافظ فرمان علی صاحب کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تفسیر مکمل نہیں ہوپائی۔ درمیان ہی میں آپ نے کام روک دیا تھا۔ دیگر آثار علمی: مناظرہ امجدیہ،عربی حاشیہ شرح تہذیب،عربی حاشیہ قطبی، عربی حاشیہ شرح مبین، عربی حاشیہ ملا حسن، عربی حاشیہ حمداﷲ، عربی حاشیہ ملاجلال نخبۃ القرأء ، فارسی ذوالفقار حیدر کنز مکتوم فی حل عقد ام کلثوم تشفی اہل السنہ والخوارج تبصرۃ السائل رفع الوثوق عن نکاح الفاروق، الآل والاصحاب تنقید بخاری ۵ جلد رد ملاحدہ کشف الظلمات بجواب آیات بینات ۴ جلد رسالہ وضو تاریخ الاذان تصحیح تاریخ، رسالہ الجمرہ المرافعات رد رسالہ شاہ عبدالعزیز دہلوی۱؎ غلام حسین، حیدر آبادی (م ۱۳۵۲ھ) آپکی ولادت ۱۲۷۰ھ؍ ۱۸۵۳ء میں ہوئی ۔ بنگلور کے خاندان سادات سے تعلق تھا۔ والد ماجد میر اشرف حسین تھے۔ اجداد بنگلور سے حیدر آباد دکن منتقل ہو گئے تھے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد میں حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لئے عراق کا سفر کیا اور نجف اشرف میں بزرگ اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ آپکی علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے آقای شیخ زین العابدین مازندرانی نے اجازئہ مرحمت فرمایا، ان کے علاوہ شیخ محمد حسین مازندرانی ، آقای سید ابو القاسم بن سید علی طباطبائی نے بھی گرانقدر اجازوں سے سرفراز فرمایا۔ آپ جامع معقول ومنقول تھے۔ بے مثال خطیب و مقرر تھے۔عربی و فارسی تکلم پر کامل قدرت رکھتے تھے۔ آپ نے ۸ربیع الاول۱۳۵۲ھ ؍۲جولائی ۱۹۳۳ء یکشنبہ حیدر آباد دکن میں رحلت فرمائی ۔ اور دائرہ میر مومن میں دفن ہوئے۔ آپ نے مختلف آیات کی تفسیر تحریر کی۔ تفسیر آیہ قربیٰ: آیت ’’ قل لا اسئلکم علیہ اجراً الاالمودۃ فی القربیٰ ‘‘ کی تحقیقی تفسیر لکھی جس میں معتبر و مستند کتب سے استفادہ کیا ۔ تفسیر آیہ تطھیر: آیت ’’ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیراً ‘‘ کی محققانہ تفسیر ہے۔ تفسیر آیہ مباھلہ: آیت ’’ فقل تعالوا ندع ابنانا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم الخ ‘‘ آیت کی شان نزول اور اس آیت کے مصادیق حضرت علی مرتضیٰ ؑ، حضرت فاطمہ زہراؐامام حسنؑ و امام حسینؑ سے متعلق تشریح کی گئی ہے۔ دیگر آثارِ علمی: شمس الھدیٰ اثبات النبوۃ والرسالۃ فی النبی و السلالۃ کتاب التوحید کتاب فی رد الشیخیہ کتاب فی رد التناسخ کتاب الامامۃ والولایۃ کتاب الآیات الالھیہ فی النفوس الاھویتہ کتاب فی مراتب الروح والنفس شرح اصول فقہ شرح قصید ہ خلیلیہ ۱؎ برکت علی شاہ(طبع ۱۳۵۴ھ) مولانا سید برکت علی شاہ گوشہ نشین نے مولانا رفیع الدین (م ۱۲۳۳ھ) کے ترجمہ پر اعتماد کرتے ہوئے مختلف موضوعات پر آیات قرآنی کی تفسیر بیان کی۔ تالیف کا نام ’’کتاب مبین‘‘ ہے۔ عناوین ایمان، جہاد، گمراہی، شک درنبوت، فدک وغیرہ۔ یہ کتاب ۱۳۵۴ھ/۱۹۳۵ء میں خواجہ بک ایجنسی، لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ بادشاہ حسین،شیخ، سیتاپوری(م ۱۳۵۶ھ) چودہویں صدی کے نامور انگریزی مفسر قرآن شیخ بادشاہ حسین کی ولادت سیتاپور میں ہوئی۔ آپ کے والد فدا حسین دیندار اور مومن تھے۔ شیخ بادشاہ حسین جیدالاستعداد علم و فضل میں شہرت یافتہ تھے۔ عربی، فارسی اور انگریزی میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ سنسکرت سے ایم۔ اے۔ تھے۔ دینی معلومات بھی خوب تھی نہایت متواضع، متشرع، وضعدار خوش اخلاق پاکباز اسلام کے فدائی اور مبلغ تھے۔ بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ علوم اہلبیت کی ترویج میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ قرآن مجید سے بہت شغف تھا۔ قرآن مجید کے سلسلے میں مستشرقین کے اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے۔ سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن طاب ثراہ نے آپ کی قرآن شناسی دیکھ کر قرآن مجید کی تفسیر و ترجمہ لکھنے کا حکم دیا۔ آپ نے سرکار کے حکم پر فوراً عمل کیا اور انگریزی میں تفسیر لکھنے کا آغاز کیا۔ نصف سے زیادہ کام مکمل ہو چکا تھا۔ موت نے مہلت نہ دی اس طرح یہ کام پندرہ پاروں تک ہی ہو سکا پھر اس کے بعد سرکار نجم العلماء نے سید افتخار حسین صاحب سے باقی پاروں کی تفسیر مکمل کرائی۔شیخ بادشاہ کی یہ تفسیر مع مقدمہ دو جلدوں میں انجمن مؤیدالعلوم مدرسۃ الواعظین لکھنؤ سے ۱۳۵۰ھ میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر انگریزی زبان کی اہم تفاسیر میں شمار کی جاتی ہے۔ آپ کی وفات ۲۷جمادی الاول ۱۳۵۶ھ میں سیتاپور میں ہوئی۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’شیخ بادشاہ حسین ہندی یکی از اعیان تفسیری قرن چھاردہم ہجری۔ در ہندوستان می باشد، مؤلف محترم کہ مطالب کتاب را از دیگر تفاسیر گرد آوری نمودہ و بہ زبان انگلیسی ترجمہ کردہ است ولی او خود قبل از پایان چاپ تفسیر از دنیا رفتہ است۔۱؎‘‘ محمد خاں لغاری (م ۱۳۵۹ھ) جناب محمد خاں لغاری سندھی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ آپ چودہویں صدی کے نامور سندھی مفسر قرآن تھے۔ ضیاء الایمان: یہ تفسیر دو جلدوں میںسندھی زبان میں شائع ہوئی۱؎۔ علی ، سید ، حائری ( م۔ ۱۳۶۰ھ) چودھویں صدی کے مایہ ناز مفسر قرآنشمس العلماء مولانا سید علی حائری ۱۲۸۸ھ؍۱۸۷۶ء کولاہور میں متولد ہوئے ۔والد ماجد مولانا سید ابولقاسم حائری بلند مرتبہ عالم و فاضل تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کے بعد متو سطات کا درس والد ماجد سے لیا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے عازم عراق ہوئے اورسرکار میرزا محمد حسن شیرازی کے درس میں شرکت کی۔ انکے علاوہ آقای میرزا حبیب اللہ رشتی ،آقای سید کاظم طبا طبائی، آقای محمد کاظم خراسانی ،علامہ سید ابوالقاسم طبا طبائی سے استفادہ کرکے اجازے حاصل کئے ۔ وطن واپس آ نے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ آپکے علم وفضل کا بڑا چرچاتھا ۔لاہور کے ارباب علم آپ سے ملاقات کو شرف سمجھتے تھے۔ سرنواب ذوالفقار علی خاں۔ علامہ اقبال۔ سر شیخ عبدا لقادر آپکے ارادتمندوںمیں تھے ۔علامہ اقبال کی نماز جنازہ بھی آپ ہی نے پڑھائی تھی ۔ آپکا عظیم الشان کتبخانہ تفسیر کے نادر ذخیرے اورلاجواب قلمی کتابوں پرمشتمل تھااور ملک کے مشہورکتبخانوں میں شمارہوتاتھا۔حکومت برطانیہ نے ’’شمس العلما‘‘کا خطاب دیا آپنے وسن پورہ لاہورمیں شاندار مسجد تعمیر کرائی، مجالس و محافل کاانعقاد کیا۔ تفسیر نویسی کے دوران علیل ہوکر شنبہ ۳ ؍جمادی الثانی ۱۳۶۰ھ؍۲۸جون ۱۹۴۱ء کولاہور میں رحلت کی اور کربلا گامے شاہ میںوالد علام کے پہلو میںدفن کئے گئے۱؎۔ تفسیرلوامع التنزیل : مولانا سید علی حائری کے والد مولانا ابوالقاسم حائر ی نے تفسیر لکھنا شروع کی تھی تیرہ پاروں کی تفسیر مکمل ہو گئی تھی ۱۳۲۴ھ میں انکی وفات ہو گئی ۔ آپ نے ستائیسویں پارے کے سورہ قمر تک اسی نھج اور اسلوب پر تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر فارسی زبان میں مبسوط تفسیر ہے ۔آیات کی تشریح انتہائی محققانہ انداز سے کی ہے تفسیر کی روش کلامی ہے ۔یہودونصاریٰ کے اعتراضات کے بھر پور جوابات دئیے ہیں۔ بعض دیگر آثار : غایۃ المقصود ۴ جلد منھاج السلامہ رسالہ الغدیر احکام الشکوک میزان الاعمال تحذیر المعاندین مفید الصبیان عشرہ کاملہ فتاویٰ حائری ۸ جلد رسالہ سکوت امیر المومنین ؑ لمعہ معانی در سجدہ بر خاک شفا رسالۃ الھدیٰ در احکام سجدہ سیف الفرقان حدیث قرطاس مقدمات نماز۔ تقریباً پچاس کتابیں سپرد قلم کیں۔ جعفر حسین شاہ(م ۱۳۶۰ھ) آپ کی ولادت ۱۲۹۰ھ/۱۸۷۳ء کو موضع استرزئی ضلع کوہاٹ میں ہوئی۔ آپ کے والد مولانا سید میر جعفر تھے۔ آپ نے دینی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ دینی تعلیم کے علاوہ عصری تعلیم بھی حاصل کی اور ہائی اسکول میں استاد منتخب ہوئے۔ مگر طبیعت کا میلان دینی تعلیم کی طرف رہا۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ کوشاں رہے چنانچہ آپ کی ملاقات مولانا مرزا یوسف حسین جیسے عالم دین سے ہوئی۔ آپ کی دینی تعلیم کی طرف رغبت دیکھتے ہوئے مولانا مرزا یوسف حسین نے ہمت افزائی کی اور دینی تعلیم کی طرف رغبت دلائی۔ غرضکہ آپ نے مولانا سے درس شروع کر دیا۔ مولانا مرزا یوسف حسین نے انتہائی شفقت و محبت سے تعلیم دی۔ مرزا یوسف حسین پاراچنار چلے گئے تو آپ بھی پاراچنار چلے گئے اور وہاں استفادہ کرتے رہے۔ جس سے آپ کی علمی استعداد میں بہت اضافہ ہوا اور درسیات پر عبور حاصل ہو گیا۔ عربی، فارسی، انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل ہوئی تاریخ وعرفانیات میں اچھی دستگاہ پیدا ہو گئی۔ اس کے علاوہ آپ پشتو زبان کے قادرالکلام شاعر بھی تھے۔ آپ کے مراثی اور قصائد کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ آپ کا تخلص ’’ریختونی‘‘ تھا۔ جس کے معنیٔ راستگو کے ہیں۔ آپ کے پشتو اشعار پشتو ادب میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ دینی خدمات میں ہر وقت مصروف رہے۔ تبلیغ دین آپ کا خاندانی دطیرہ تھا کیونکہ آپ کے والد ماجد بھی زبردست مبلغ اور مروج شریعت تھے۱؎۔ منظوم ترجمۂ قرآن: مولانا جعفر کا اہم کارنامہ قرآن مجید کا پشتو منظوم ترجمہ ہے جو چار سال کی مسلسل محنت اور جانفشانی کا ثمرہ ہے یہ ترجمہ پشاور پاکستان سے شائع ہوا۔ اس ترجمہ کی اشاعت سے پشتو زبان لوگوں میں قرآن فہمی اور قرآن خوانی کا جذبہ پیدا ہوا۔ ہر خاص و عام نے ترجمہ کو پسند کیا اور بھرپور استفادہ کیا۱؎۔ غلام علی اسماعیل(حاجی ناجی م ۱۳۶۱ھ) چودہویں صدی کے نامور مفسر قرآن غلام علی اسماعیل ممبئی میں ۱۲۸۱ھ/۱۸۶۴ء کو متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حاجی اسماعیل جو جمال بھائی ہیرجی مسکاوالاکی تبلیغ سے اپنے بیٹے غلام علی کے ساتھ شیعہ اثنا عشری ہوئے۔ حاجی ناجی نے مذہبی تعلیم ملا قادر حسین مدراسی سے حاصل کی جن کو مرجع وقت آیت اﷲ شیخ زین العابدین مازندرانی نے خوجہ جماعت میں تبلیغ کے لیے متعین کیا۔عربی فارسی کی تعلیم مولانا سید غلام حسین حیدرآبادی سے حاصل کی جو اس وقت مہوہ میں مقیم تھے۔ ان بزرگ اساتذہ سے کسب فیض کرکے حاجی ناجی درجہ کمال تک پہنچے اور تقریر و تحریر دونوں میں ملکہ حاصل کیا۔ آپ نے اپنی تقاریر کے ذریعہ بڑی تعداد میں آغا خانی خوجے اور دیگر مسلمانوں کو حلقہ بگوش تشیع کیا۔ خوجہ برادری میںدینداری کو بیدار کیا اور اسلامی معاشرہ تشکیل دینے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ جناب مولانا میر آغا صاحب لکھنوی نے ’’خیرالذاکرین‘‘ کا خطاب دیا۔ ۱۳۱۱ھ میں زیارات کے لیے عراق گئے اور آیت اﷲ شیخ محمد حسین سے ملاقات کی تو انھوںنے فرمایا آپ زیارتوں کے لیے بار بار کیوں آتے ہیں جب کہ آپ کا تبلیغی مشن زیارتوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۱؎۔ آپ نے یکم ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ کو ماہنامہ رسالہ ’’راہ نجات‘‘ نکالنا شروع کیا ۱۳۱۴ ھ میں احمدآباد پرنٹنگ پریس خریدا جس کا نام ’’ اثنا عشری پرنٹنگ پریس‘‘ رکھا۔ اس پریس کی وجہ سے بھاؤنگر چھوڑ کر احمدآباد بسایا اور گجراتی رسم الخط میں دعاؤں زیارتوں اور قرآن مجید کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’مولانا غلام علی بن حاجی اسماعیل بھاونگری ہندی یکی از کاوشگران معارف قرآن امامیہ در دیار ہندوستان در قرن چھاردہم ہجری می باشد۔۱؎‘‘ انوار البیان فی تفسیر القرآن: یہ تفسیر دو جلدوں میں گجرات سے شائع ہوئی۔ اس میں بڑی تقطیع پر قرآنی آیات کو گجراتی رسم الخط میں بھی لکھا گیا ہے تاکہ عربی نہ جاننے والے بھی آسانی سے تلاوت کر سکیں۔ آیات کا ترجمہ سلیس گجراتی زبان میں ہے اور مختصر تفسیر بیان کی ہے۔ یہ گجراتی زبان میںبہت زیادہ مقبول ہوئی اور علمی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۲؎۔ پہلی مرتبہ ۱۹۰۱ء میں احمدآباد سے شائع ہوئی۔ ۱۹۳۶ء میں بھاونگر ۱۹۷۲ء کراچی ۱۹۹۷ء میں دوبارہ بھاونگر سے شائع ہوئی اس پر مولانا محمد حسین نجفی کی توصیفی تقریظ مندرج ہے۔ وفات: ۱۳۶۱ھ/۱۹۴۲ء کو آپ نے رحلت فرمائی۔ دیگر تالیفات: راہ نجات نور ایمان باغ ہدایت۳؎ اولاد حیدر فوق، بلگرامی(م ۱۳۶۱ھ) خان بہادر سید اولاد حیدر فوق کی ولادت ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۴ء میں کواتھ ضلع رہتاس (بہار) کے خوشحال اور زمیندار خانوادہ میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد آرہ ضلع اسکول سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور مسلم یونیورسٹی علیگڑہ سے ایف۔اے کیا۔ وطن واپس آنے کے بعد زمینداری کا کام دیکھنے لگے۔ ۱۱ ۱۹ء سے ۱۹۳۵ء تک ضلع شاہ آباد ڈسٹرکٹ بورڈ کے بطور نمائندہ سرکار ممبر رہے۔ ۱۹۱۹ء میں خان بہادر کے خطاب سے نوازے گئے۔ ایک عرصے تک اعزازی مجسٹریٹ(درجہ اول) کی حیثیت سے قوم و ملک کی خدمت انجام دیتے رہے اور قصبہ کواتھ میں میونسپلٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے نمایاں کام کئے۔ جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی دوسری شادی قصبہ بلگرام ضلع ہردوئی اترپردیش میں ہوئی۱؎۔ آپ کا عصری تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم کی طرف خاصہ رجحان تھا۔ کتب بینی اور قرآن شناسی محبوب مشغلہ تھا۔ سیرت نگاری اور تذکرہ نویسی میں مہارت حاصل تھی۔ سیرت رسولؐ کے علاوہ ائمہ علیھم السلام کی تفصیلی سوانح حیات قلمبند کی جس کی مثال اردو زبان میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ آپ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی جس کی پہلی جلد بلا متن سورہ حمد تا سورہ آل عمران نظامی پریس لکھنؤ سے شائع ہوئی جو آپ کی علمی و ادبی کاوشوں کا شاہکار ہے۔ دیگر تالیفات: اسوۃ الرسول (تین جلد) الزھراؐ سراج المبین (۲ جلد) سرو چمن (سوانح امام حسن) ذبح عظیم صحیفۃ العابدین ماثر الباقریہ آثار جعفریہ علوم کاظمیہ تحفہ رضویہ تحفۃ المتقین (سوانح امام محمد تقی) سیرۃ النقی العسکری در مقصود (سوانح امام زمانہ) تاریخ بہار اڑیسہ گلدستہ مومنین قاتلان حسین کی روبکاری المحاسن والاضداد ذکر الطیار دیوان ۱؎ آپ کی وفات ۲۰؍رمضان المبارک ۱۳۶۱ھ/۲اکتوبر ۱۹۴۲ء بروز جمعہ وطن ہی میں ہوئی اور امامباڑہ کلان قصبہ کواتھ کے وسطی دروازے کے سامنے آسودۂ لحد ہوئے۔ جناب شریف الحسن بلگرامی نے تاریخ وفات کہی جسکا کلک واسطے تھا ترجمان اہلبیت جس نے روشن کر دیا نام و نشان اہلبیت جعفری ملت میں جو تھا اولیں اہل قلم سوگیا وہ کہتے کہتے داستان اہلبیت ۱۹۴۲ء شریف حسین ،بھریلوی(م ۱۳۶۱ھ) آپکی ولادت ۱۲۸۴ھ ۱۸۶۷ء میں سید امام علی سبزواری کے یہاں بھریلی ضلع انبالہ مشرقی پنجاب میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حسب دستور وطن میں حاصل کی ۔ مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور گئے اور اہل علم کی صحبت اختیار کرکے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل مولوی فاضل کے امتحانات پاس کئے۔ گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لاہور کا مشہور ہائی اسکول تھا آپ وہاں عربی و فارسی کے استاد مقرر ہوئے اور تیس سال تک اسی ادارہ سے وابستہ رہ کر خدمات انجام دیتے رہے۔ لاہور میں مولانا ابوالقاسم حائری، مولانا عبدالعلی ھروی جیسے علماء سے تفسیر و حدیث، فقہ و اصول میں استفادہ کیا۔ محنت اور لگن سے دینی تعلیم میں مشغول رہے۔ مولاناعبدالعلی ھروی کے خاص معتمد تھے اور علامہ ھروی کی تقاریر کا اردومیں ترجمہ کرتے تھے۔ علماء لکھنو اور علامہ ھروی سے لفظ 'امیؐ' کے بارے میں بحث ہوئی تو مولانا شریف حسین ہی علامہ کی طرف سے جواب لکھتے تھے۔ آپ بڑے عابد ، زاہد ، سخی، غریب پرور اور طلباء نواز تھے۔ مساجد، امام باڑوں ، مدارس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لتیے تھے۔ تفسیر قرآن سے خاص شغف تھا۔ نوجوانو ں کو قرآن شناسی سے آگاہ کرتے تھے۔ گھر گھر جاکر لوگوں کو قرآن کی تعلیم کی طرف متوجہ کرتے۔ ۲۹ ذی الحجہ سے ۸ ربیع الاول تک مسلسل مجالس عزا کا اہتمام کرتے تھے۔ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار۔ ۱۹۲۹ء میں بھریلی میں طاعون کی بیماری پھیلی تو مولانا شریف حسین تنہا بزرگ تھے جو بغیر کسی امتیاز مذہب و ملت ہر ایک کی عیادت کے لئے گئے اور لوگوں کی مدد کی۔ ۲۴۔۱۹۲۵ کے قحط میں راتوں کو لوگوں کے گھروں پر کھانا پہونچایا ۔ حج و زیارت سے مشرف ہو چکے تھے۔ آپکو ترجمے میں مہارت حاصل تھی ۔ کئی اہم کتابوں کے ترجمے کئے۱؎۔ تفسیر آثار حیدری : امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف منسوب تفسیر کا ترجمہ ہے جسمیں مختلف آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ یہ ترجمہ کتبخانہ لاہور کیلانی پریس لاہور سے شائع ہوا ۶۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن (متوفی ۱۳۵۸ھ) اور مولانا سید محمد ھارون زنگی پوری (متوفی ۱۳۳۹ھ) کی تقاریظ مندرج ہیں جو ۱۳۰۸ھ کی تحریرشدہ ہیں جس میں ترجمہ کی تعریف کی گئی ہے۔ ترجمہ سلیس اور بامحاورہ ہے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہے یا اردو میں مستقل تفسیر یہ نسخہ رضا لائبریری رامپور میں راقم کی نظروں سے گذرا۔ آقا بزرگ تہرانی: ’’ آثار حیدری فی ترجمہ تفسیر العسکری علی صاحبہ السلام بلغۃ اردو للفاضل المعاصر السید شریف حسین صاحب الھندی طبع فی الھند علیہ تقریظ العلامہ السید نجم الحسن صھر المفتی محمد عباس التستری اللکھنوی۔۲؎‘‘ دیگر آثار علمی : ترجمہ مودۃ القربیٰ (مطبوعہ) ترجمہ کوکب دری (مطبوعہ) ترجمہ نزھہ اثنا عشریہ از مرزا محمدکامل دھلوی ترجمہ تحفۂ رضویہ مطبوعہ)۱؎ محمد علی ،دہلوی( م ۱۳۶۷ھ) چودہویں صدی کے بلند مرتبہ مترجم قرآن شمس الواعظین مولانا قاری شیخ محمد علی نے تقریباً ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء کو وجود ہستی زیب تن کیا۔ آپ کا تعلق کشمیری برہمن خانوادے سے تھا۔ والد ماجد کے دل میں ایمان کی کرن پھوٹی اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے چنانچہ آپ کی اولاد بھی اسی راہ پر گامزن رہی۔ مولانا محمد علی نے مولوی فاضل، منشی فاضل، ملا فاضل کے امتحانات پاس کئے اور اچھی علمی استعداد پیدا کی۔ آپ کی علمی لیاقت کو دیکھتے ہوئے ۱۹۲۰ء میں انگلو عربک اسکول دہلی میں مدرس رکھا گیا۔ انتہائی لگن اور محنت سے تدریس کے فریضہ کو ادا کیا اور اس کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین میں بھی مصروف رہے۔ دہلی میں پیش نماز بھی تھے اور لوگوں کو احکام و مسائل سے روشناس کراتے تھے۔ آخر میں آپ نے سونی پت میں سکونت اختیار کر لی اور وہاں تبلیغ دین میں مصروف ہو گئے۔ قومی اور سماجی کاموں میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کے وقت اہل سونی پت سے چھ ہزار روپیہ کا چندہ کرکے اہل رسولپور کے تباہ حال خاندانوں کی امداد کے لیے روانہ ہوئے۔ دہلی سے ۲۲ میل دور بلب گڑھ ضلع گڑگاؤپہنچے تھے کہ بلوائیوں نے آپ کو شہید کر دیا اور تمام روپیہ چھین لیا یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب ۱۹۴۷ء کے فسادات چل رہے تھے اور مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جا رہا تھا۔ آپ نے اپنی قوم کے مظلوموں کی امداد کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ عالم با عمل اور زہد و تقویٰ میں بے مثال تھے۔ ادبیات میں بھی اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔ مولانا مقبول احمد صاحب دہلوی کی وفات پر یادگار تاریخ بھی کہی تھی۱؎۔ ماہ ربیع الاول بلہ، آہ شب چاردہ ، واحسرتا مقبول احمد مولوی، رفتہ ازیں دارِ فنا در سرزمین ہند، آہ شد ماتمش صبح و پگاہ عالم بد و بے اشتباہ بر وعظِ او عالم گواہ محنت بسے برد از جہاں، راحت ندید ازین و آں اﷲ باشد مہرباں، باشد مقامش در جناں آن آفتاب مومنین، غائب شدہ زیر زمیں پیر و جواں اندوہ گیں در پنجہ کردندش دفیں مقبول احمد ناگہاں، رفتہ ازین فانی جہاں سال و فاتش این بخواں در خلدشد آن مہمان ۱۳۴۰ھ ترجمہ قرآن: مولانا شیخ محمد علی کا یادگار علمی کارنامہ ترجمہ قرآن ہے جو خلاصۃ التفاسیر کے ساتھ ۱۹۳۸ئ/۱۳۴۸ھ میں مطبع اثنا عشری دہلی سے شائع ہوا جو تقریباً ۹۶۸ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ ترجمہ سادہ اور سلیس اردو زبان میں ہے ۔ حاشیہ پر مندرج ضروری توضیحات حضرات معصومین علیھم السلام کی احادیث کی روشنی میں ہیں اور آیت کی مکمل طور سے تشریح کی ہے۔ زبان کی سلاست کا اندازہ سورہ الحمد کے ترجمہ سے کیا جا سکتا ہے۔ نمونۂ ترجمہ: ’’ابتداء کرتا ہوں اﷲ کے نام سے جو نہایت رحیم اور مہربان ہے۔ ہر قسم کی تعریف دو جہاں کے پالنے والے خداکے لیے ہے(جو) نہایت رحم کرنے والا مہربان (ہے) (اور جو) روز جزا کا حاکم (ہے) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ہمیں راہ راست پر ثابت قدم رکھ (جو) ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے انعام کیا ہے۔ نہ ان کا جن پر تیرا غضب ہوا اور (جو) گمراہ ہیں‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’شیخ محمدعلی م ۱۳۶۷ھ) ترجمہ و حواشی قرآن رابہ زبان اردو در دہلی، ہندوستان بہ چاپ رساندہ است۱؎‘‘ آخر صفحات پر جناب سید افضل حسین رضوی ثابتؔ لکھنوی کا قطعہ تاریخ مندرج ہے وہ قرآں جس کی ہو تفسیر اہلبیت سے مروی موافق فہم کے ہو ترجمہ آساں عبارت میں کیا ہے ترجمہ ایسا ہی اک ذیشان عالم نے ملا جب محمد (۹۲)سے علی(۱۱۰) نام اس کا ظاہر ہے جناب شمس نے چھپوایا یہ قرآن برسوں میں رضائے رب اگر چاہو تو ہدیہ دے کے لو فوراً دوسرا قطعہ تاریخ دہلی کے مشہور شاعر جناب آغا شاعر قز لباش دہلوی نے لکھا اعجاز ہے کلام خدا کا حقیقتاً وہ ہے علیم بندہ بہت بے کمال ہے شاعرؔ نے ایک مصرعے میں لکھا یہ فی البدیہہ کاوش کو جانتا ہے جو نازک خیال ہے معجز نما کلام الٰہی کا سال طبع کیا پاک ترجمہ ہے کہ جو بے مثال ہے ۱۳۴۸ھ قرآن مجید کا یہ نسخہ میں نے جناب ماسٹر ظفر عباس نقوی ابن غلام مصطفی مرحوم کندرکوی کے پاس دیکھا جو اس وقت رام پور جین انٹر کالج میں ٹیچر ہیں ۔ یہ نسخہ انتہائی نفیس و پاکیزہ ہے۔ محمد رضی، زنگی پوری (م ۱۳۷۰ھ) چودہویں صدی کے قابل فخر مفسر قرآن مولانا سید محمد رضی کا تعلق زنگی پور ضلع غازی پور سے تھا۔ سطحیات و اعلیٰ تعلیم اپنے ماموں علامہ سید محمد ہارون زنگی پوری سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل و مولوی فاضل پاس کیا۔ لکھنؤ میں قیام کے زمانے میں آپ کی تحریری صلاحیتوں اور آپ کے مقالات و مضامین کی گہرائی کا اندازہ تمام علمی حلقوں میں ہوا۔ ۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ء میں جامع العلوم جوادیہ کی تاسیس مولانا سید محمد سجاد صاحب بنارسی نے کی تو پرنسپل کے عہدہ کے لیے مولانا سید محمد یوسف زنگی پوری کا اور وائس پرنسپل کے طور پر مولانا سید محمد رضی کا انتخاب ہوا۔ ۱۳۵۹ھ/۱۹۴۰ء میں مولانا سید محمد یوسف کے انتقال کے بعد آپ پرنسپل ہوئے اور مولانا سید ظفرالحسن صاحب وائس پرنسپل بنائے گئے۔ مولانا محمد رضی عالم شہیر و محقق بصیر تھے آپ نہ صرف منطق و فلسفہ بلکہ تاریخ اسلام علم کلام اور عربی ادب کے بھی ماہر تھے۔ آپ کے عربی ادب کا نمونہ مدرسہ جوادیہ کے فخرالافاضل کی سند ہے۔ شعر و سخن کا بھی ذوق رکھتے تھے منیرزنگی پوری تخلص تھا۔تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا بے شمار تحقیقی مضامین الواعظ، اصلاح، البرہان میں شائع ہوتے رہتے تھے۱؎۔ تفسیر رضی: ہزہائی نس نواب سررضا علی خاں آف رامپور نے ۱۹۴۳ء یا ۱۹۴۴ء میں ایک جامع تفسیرقرآن لکھوانے کا منصوبہ بنایا اور اس کا انچارج خطیب اعظم سید محمد دہلوی کو بنایا۔ ممبران میں حافظ کفایت حسین صاحب، مولانا سید محمد داؤد زنگی پوری اور مولانا سید محمد رضی زنگی پوری تھے۔ شروع شروع میں آپ چار ماہ کے لیے رامپور جاتے تھے اور آٹھ مہینے جوادیہ بنارس میں رہ کر تفسیر نویسی کا سلسلہ جاری رکھتے تھے بعد میں رامپور کے قیام کی مدت بڑھ گئی اور آپ نے مدرسہ کی سربراہی مولانا سید ظفرالحسن صاحب کے سپرد کر دی۔ ابھی یہ تفسیر لکھی جا رہی تھی کہ ملک تقسیم ہو گیا ہر طرف قتل و خونریزی کا بازار گرم ہو گیا، بورڈ کے کچھ ممبران پاکستان چلے گئے اور یہ بورڈ منحل ہو گیا جس کے سبب یہ اہم اور علمی کام پائے تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ مگر ا س کے باوجود مولانا محمد رضی صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور وہ نوٹس جوآپنے رامپور میں تحریر کئے تھے اسے یکجا کیا اور تفسیر رضی کے نام سے الجواد بکڈپو سے شائع کیا۔ تفسیر نہایت جامع اور مانع ہے۔ اہم موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ اگر یہ تفسیر مکمل ہوتی تو تفسیر کے میدان میں ایک تحقیقی اور علمی گرانقدر اضافہ ہوتا۱؎۔ اس تفسیر کی جامعیت کا اندازہ مقدمہ تفسیر قرآن سے لگایا جا سکتا ہے جس کا خطی نسخہ رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔ مقدمہ تفسیر رضی حصہ اول: اوراق ۱۷۹، سطریں ۲۵-۲۸سائز ۳۳×۲۰خط نستعلیق عنوانات: دین و مذہب عین فطرت انسانی ہیں حجیت عقل بحث الہیات ہستی باری تعالیٰ کا وجود توحید صانع عالم خدا کا اصول تصرف و قانونی حکمت خیر و شر، جبر و اختیار تقدیرو بداء حدوث عالم ابطال مادیت حصہ دوم: اوراق ۱۸۷، سطریں ۲۶-۳۰ عناوین: نبوت عامہ، نبوت خاصہ، ختم نبوت، حیات مسیحؑ، حشر ونشر، تناسخ، قرآن اور اہلبیتؑ مولانا نے اپنی اس تفسیر کے ذریعہ پوری کوشش کی ہے کہ ان مباحث کو عقل و نقل کی روشنی میں نئی نسل کے سامنے رکھ کر قرآن فہمی کی دعوت دی جائے۔ دیگر آثار علمی: قاتلان حسین کی گرفتاری مطبوعہ اسلام کا اقتصادی نظام مطبوعہ ابطال مادیت مطبوعہ سیاست علویہ مطبوعہ سوط عذاب علی المسرف المرتاب دیوان اردو غیر مطبوعہ۱؎ وفات: رامپور میں قیام کے دوران آپ کی حالت بگڑی ، رامپور سے بنارس لائے گئے۔۱۳؍اگست ۱۹۵۱ء کو بنارس پہنچے اور ۱۸؍ذی قعدہ ۱۳۷۰ھ/ ۱۵؍اگست ۱۹۵۱ء کی صبح رحلت فرمائی اور بڑے امامباڑے میں آسودۂ لحد ہوئے۔ ’’رضی عصر‘‘ سے آپ کا سن وفات ۱۳۷۰ھ نکلتا ہے۔ امیر حسن، سہا، دہلوی(م ۱۳۷۰ھ) آپ نے یکم جنوری ۱۸۶۴ئ/۱۴؍ربیع الاول ۱۲۸۱ھ کو عالم ہستی میں قدم رکھا۔ آپ کا تعلق دہلی سے تھا۔ والد ماجد مولانا سید غضنفر علی خانصاحب اپنے وقت کے بلند مرتبہ عالم دین اور مصنف تھے آپ نے سطحیات کا علم اپنے پدر بزرگ مولانا سید نجف علی خانصاحب (متوفی ۱۲۹۸ھ)اور والد بزرگوارسے لیا۔ حدیث کا درس مولانا سید عبدالرحمن نقوی اور مولانا سید احمد حسین صاحب سے لیا۔ علم طب بھی خاندان کے بزرگوں سے حاصل کیا۔ آپ عصری اور دینی تعلیم میں یکساں عبور رکھتے تھے۔ علمی لیاقت کو دیکھتے ہوئے ایجوکیشن منسٹری میں ملازم رکھا گیا جہاں آپ نے محنت و لگن سے تعلیمی شعبہ میں خدمات انجام دیں تصنیف و تالیف کا بچپن سے شوق تھا۔ اہم کتابوں کے ترجمے بھی کئے اور خود مستقل طور پر کتابیں بھی لکھیں۔ صاحب تذکرہ علماء امامیہ پاکستان نے آپ کے تراجم کی فہرست میں دو تفسیروں کے ترجموں کا ذکر کیا ہے۔ ایک احمد ملا جیون کی تفسیر کا سلیس زبان میں ترجمہ کیا دوسرے شیخ محی الدین ابن عربی کی معرکۃ الآرا عرفانی تفسیر کا ترجمہ کیا ۔ یہ ترجمے بیحد مقبول ہوئے۱؎۔ ان کے علاوہ آپ نے دیگر اہم کتابوں کے ترجمے کئے۔ اسنی المطالب بھجۃ النظر(حدیث) تشریح افلاک (علم ہیت) نفۃ الاسرار (علم رمل) خواص الاشیاء تین جلد تالیفات: رسالہ الظفر فی علم الجفر رشیدیہ (مناظرہ) احوال قبر(مناظرہ) القول المشہور فی احوال القبور (مناظرہ) پاکستان بننے کے بعد حیدرآباد (سندھ) ہجرت کر گئے اور ۲۱؍نومبر ۱۹۵۰ء کو حیدرآباد میں جان بحق ہوئے اور وہیں دفن کئے گئے۱؎۔ افتخار حسین(م ۱۳۷۰ھ) چودہویں صدی کے ممتاز مفسر قرآن سید افتخار حسین سشن جج کا تعلق قصبہ ارزانی پور ضلع غازی پور کے علمی، ادبی اور معزز خانوادہ سے تھا۔ آپ نے اگر چہ وکالت کا علم حاصل کیا تھا مگر طبیعت کا میلان مذہبیت کی طرف تھا۔ آپ سشن جج کے عہدہ پر فائز ہوئے مگر اس کے باوجود مذہبی کتب کا مطالعہ اور مذہب کی جانکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ قرآن شناسی سے بہت لگاؤ تھا۔ قرآنیات کے سلسلے میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن طاب ثراہ بھی آپ کی قرآن شناسی کے مداح ہو گئے۔ سرکار نجم العلماء نے جب قرآن کا انگریزی ترجمہ کرانا چاہا تو آپ کی نظر انتخاب شیخ بادشاہ حسین مرحوم پر پڑی۔ موصوف نے پندرہ پاروں کی تفسیر و ترجمہ مکمل کیا اور وفات کر گئے۔ اس کے بعد سرکار طاب ثراہ کی نظر سید افتخار حسین صاحب پر پڑی اور آپ نے اس تفسیر و ترجمہ کو مکمل کیا۔ یہ ترجمہ قلمی صورت میں مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں محفوظ ہے۔ یہ تفسیر انگریزی ادب کا گرانقدر سرمایہ ہے۔ مگر افسوس ابھی تک آخر کے پندرہ پارے چھپ نہیں سکے۱؎۔ آپ نے ۷؍محرم ۱۳۷۰ھ/۱۹۶۲ء میں رحلت کی۔ راحت حسین، گوپالپوری(م ۱۳۷۴ھ) گوپالپور صوبہ بہار کا وہ مردم خیز قصبہ ہے جہاں کے علماء و ادباء نے علم و ادب کی خدمات میں نمایاں حصہ لیا۔ ان نامور اہل علم میں حضرت مولانا سیدراحت حسین طاب ثراہ کی ذات گرامی خصوصیت کی حامل ہے۔ آپ کی ولادت ۵؍رجب ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء کو سید ظاہر حسین کے گھر گوپالپور میں ہوئی۔ آپ کا تاریخی نام سید حیدر رضا تھا۔ سطحیات کی تکمیل کے بعد مولانا سید حسن باخدا، مولانا سید عابد حسین، مولانا سید محمدمہدی، مولانا سید نظر حسین سے قطبی، شرائع الاسلام، حریری کا درس لیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ذیقعدہ ۱۳۱۹ھ میں لکھنؤ کا قصد کیا اور سلطان المدارس میں زیر تعلیم رہ کر باقر العلوم مولانا سید محمد باقر سے شرح لمعہ اور مولانا سید ظہور حسین سے حماسہ،متنبی، مطو ل اور مولانا سید عابد حسین سے تصریح، صدرا، قاضی مبارک، شرح تجرید کا درس لیا۔ طب کی تعلیم حکیم سید امیرحسن و حکیم سید عابد حسین سے حاصل کی۔ لکھنؤ میں تقریباً چھ سال قیام رہا خسر معظم مولانا سید نثار حسین صاحب پالوی کی تحریک پر ماہ ذیقعدہ ۱۳۲۴ھ میں عازم عراق ہوئے اور نجف اشرف میں علماء مجتہدین آقا سید کاظم خراسانی، آقا سید کاظم یزدی طباطبائی، آقا ملارضا، آقا شیخ علی گونا آبادی سے کسب فیض کرکے فقہ، اصول، تفسیر و حدیث، عقائد و کلام میں ملکہ حاصل کیا۔ آپ تقریباً ۱۴؍سال نجف اشرف میں تحصیل علم میں مصروف رہے اور آیات عظام نے گرانقدر اجازات سے نوازا۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد حسین آباد ضلع شیخ پورہ میں قیام کیا اور مصروف تبلیغ ہوئے ۔ جمعہ و جماعت کا سلسلہ قائم کیا ، ایک عرصہ تک وہیں مقیم رہے دیگر شہروں سے بھی مومنین نے آپ کو دعوت دی۔ ۱۹۵۱ء میں مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے صدرمدرس نامزد ہوئے۔ ۳-۴ سال یہ خدمت انجام دی پھر ضعف و علالت کے سبب وطن تشریف لے گئے۔ علالت کا سلسلہ چلتا رہا غرض یہ کہ ۲۶؍رمضان ۱۳۷۴ھ/۱۹؍مئی ۱۹۵۵ء بروز جمعہ آپ نے رحلت فرمائی۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’عالم شیعی سید راحت حسین بن سید ظاہر حسین رضوی ہندی گوپالپوری یکی از کا و شگران قرآنی در قرن چھاردہم ہجری می باشد۔ اثر قرآنی او کہ توسط مطبع اصلاح کھجوا بہ چاپ رسیدہ است۔۱؎‘‘ تفسیر انوار القرآن: اردو زبان میں علمی، تحقیقی، تاریخی، ادبی تفسیر قرآن ہے سب سے پہلے یہ تفسیر مولانا سید اظہارالحسن عشروی کے زیر اہتمام اصلاح پریس لکھنؤ سے ماہوار رسالہ ’’الشمس‘‘ کے نام سے چھپی۔ چالیس صفحات پر تفسیر ہوتی تھی ان پر الشمس کا ٹائٹل لگایا جاتا تھا جب مولانا راحت حسین صاحب گوپالپور آکر رہنے لگے تو ایک مرد مومن نے دستی پریس آپ کو ہدیہ کیا اور تفسیر کے چالیس صفحات ماہوار اسی طرح چھپتے رہے۔ ۱۳۵۵ھ میں یہ تفسیر منظر عام پر آئی۔ جس میں مقدمہ قرآن، تفسیر سورۂ فاتحہ، بقرہ، آل عمران شامل ہے۲؎۔ تفسیر کی خصوصیات: آیات کاترجمہ بامحاورہ ہے، الفاظ کی تشریح معتبر لغات کے ذریعہ کی گئی ہے۔ آیات کی نحوی و صرفی ترکیب کاخاص لحاظ رکھا گیا ہے۔ الفاظ کی تشریح علم معانی و بیان اور عربی قواعد کی روشنی میں کی ہے۔ اعتراضات کے جوابات میں مباحث کلامی و فلسفی سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ عیسائی، یہودیوں کے اعتراضات کے علاوہ اہل ہنود اور آریہ سماج حضرات کے مستدل اور شافی جوابات ان کی معتبر و مستند کتابوں سے دیے ہیں۔ قادیانیوں کے جوابات عقلی و نقلی ادلہ سے دیے ہیں۔ توحید، نبوت، امامت، معاد کے سلسلے میں شبہات کو انتہائی انبساط کے ساتھ دور کیا ۔ ’’قرآن قدیم ہے یا حادث‘‘ اس موضوع پر عالمانہ بحث کرکے صدیوں پرانا مسئلہ فیصل کیا ہے۔ روایات ائمہ علیہم السلام کو بطور استشہادپیش کیا ہے ۔ آیات کے ذیل میں اہم مسائل مورد بحث لائے گے ہیں جیسے عصمت انبیاء علیہم السلام نبی سے سہونہیں ہو سکتا اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ کیا قرآن کا غیر قرآن ناسخ ہو سکتا ہے۔ جیسے موضوعات پر دقیق بحث کی گئی ہے۔ یہ تفسیر رضا لائبریری رامپور میں موجود ہے۔ افسوس عمر نے وفا نہیں کی اور تفسیر نامکمل رہ گئی اگر یہ تفسیر کامل ہوتی تو تفسیر کی دنیا میں گرانقدر تفسیر کا اضافہ ہوتا۔ دیگر آثار علمی رسالہ اجتہاد و تقلید کتاب مرشد امت (قلمی) منازل آلام رسالہ شکیات نماز (عربی) تحریف قرآن عصمت انبیاء مختار آل محمد رسالہ قا طع الالجاج استنصار فی حرمۃ الادبار (اردو) رافع التباس معلم شرافت تعدیۃ النکاح توشہ آخرت (رسالہ عملیہ) رسالہ بسط الیدین رسالہ در زکوٰۃ رسالہ ہدایۃ المومنین رافع الابہام۱؎ باقر علی خاں، نجفی(م ۱۳۷۶ھ) چودہویں صدی کے گرانقدر مترجم قرآن مولانا باقر علی خاں نجفی کی ولادت ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔ مولانا محمد حسین محقق ہندی سے تلمذ کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ نجف کے آیات عظام سے کسب فیض کے بعد ہندوستان واپس آئے۔ تبلیغ دین سے خاص شغف تھا۔ لندن چلے گئے وہاں انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد حیدرآباد، علی گڑھ، لکھنؤ میں درس و تدریس میں مشغول رہے۔ آخر کار پنجاب کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے اور ایک عرصے تک گورنمنٹ ہائی اسکول باغبان پورے میں عربی کے استادمقرر ہوئے ۔ ملازمت سے ریٹائر ہوکر میانوالی ہی میں رہے اور وہیں ۱۳۷۶ھ/ ۱۹۵۶ء میں وفات ہوئی۔ آپ کا یادگار کارنامہ انگریزی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ قرآن انگریزی: آپ نے ترجمہ لندن سے واپس آکر کیا ترجمہ کے ساتھ مفید حاشیہ بھی تحریر کیا ۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’باقر علی خاں (م ۱۳۷۶ھ ق) ترجمہ و حواشی قرآن رابہ زبان انگلیسی در لکھنؤ انجام دادہ است۔۲؎‘‘ ڈاکٹرعقیقی بخشایشی صاحب طبقات مفسران شیعہ سے تسامح ہوا ہے انھوںنے لکھا ہے کہ باقر علی خاں نے ترجمہ لکھنؤ میں کیا۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ترجمہ میانوالی پاکستان میں کیا تھا۔ محمد احمد، سونی پتی (م ۱۳۷۸ھ) مولانا سید علی جان کے فرزند تھے جنکا تعلق عابدی سادات سے تھا آپکے جد امجد سید نصر اللہ شمس الدین التمش کے زمانے میں نیشا پور ایران سے ہندوستان تشریف لائے اور رضیہ سلطانہ کی اتالیقی حاصل کی۔ اسکے بعد آپکے اجداد اعلی منصبوں پر فائز رہے۔ آپ مولانا عمار علی صاحب تفسیر عمدۃ البیان کے پوتے تھے۔ مولانا سید محمد احمد کی ولادت ۱۳۱۹ھ؍۱۹۰۱ء میں ہوئی۔ پانچ سال کی عمر میں سایہ پدری سے محروم ہو گئے۔ والدہ ماجدہ نے فرزند کی تعلیم و تربیت کی اور دینی تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا۔ آپ نے والدہ کے زیر سایہ قدیم وجدید علوم میں مہارت حاصل کی اور مدرسۃ الواعظین لکھنئو میں تعلیم حاصل کرکے ـــــــــــــ"واعظ" کی سند حاصل کی اور دو سال تک اتر پردیش اور پنجاب میں تبلیغی دورے کئے اس سے پہلے آگرہ اور متھرا میں آریہ سماج تحریک کو ناکام بنانے کے لئے ایک وفد کے ہمراہ بڑی خدمات انجام دے چکے تھے۔ آپ نے تقریر و تحریر کا کبھی معاوضہ نہیں لیا چونکہ زمیندار تھے لہذا بڑے وقار سے رہتے تھے۔ سرکارنجم العلماء مولاناسید نجم الحسن طاب ثراہ کے ہمراہ زیارات عتبات عالیات سے مشرف ہوئے اور عراق میں مقیم ہندوستانیوں کی بہت زیادہ مدد کی۔ آپ بڑے عابد زاھد متقی پرہیزگارنیک کردار پاکباز فعال بزرگ عالم تھے۔مدرسۃ الواعظین میں انجمن موئد العلوم کے شعبہ تصنیف و تالیف میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں پریس کی نگرانی فرمائی، تقریریں کیں، علمی و تحقیقی مضامین لکھے۔ باوجود بیماری اور ضعف کے قومی امور کیلئے دور دراز کے سفر بھی کئے۔ قومی خدمت کیلئے ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔ تفسیر قرآن مجید: صاحب مطلع انوار اور صاحب تذکرہ علماء امامیہ پاکستان نے آپکی تالیفات میں تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ صاحب تذکرہ بے بہا : ’’قرآن مجید کی ایک نایاب تفسیر زیر تصنیف ہے جو انشاء اللہ اپنی ترتیب اور علمی حیثیت سے ایک بالکل جدید لطیف شیٔ ہوگی۱؎۔ ‘‘ صاحب تذکرہ بے بہا مولانا سید محمد حسین صاحب کے زمانے میں یہ تفسیر زیر تصنیف تھی جو کہ اہم اور علمی تفسیر تھی معلوم نہیں ہو سکا یہ تفسیر زیور طبع سے آراستہ ہوئی یا نہیں۔ دیگر تالیفات : ختم نبوت شہادت عظمیٰ وفات : آپنے ۲۴ ؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء / ۱۳۷۸ھ لاہور میں رحلت کی اور ملتان میں آسودۂ لحد ہوئے۲؎۔ علی حیدر(م ۱۳۸۰ھ) کھجوہ ضلع سارن صوبہ بہار میں ۱۳۰۳ھ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کے والد ماجد مولانا علی اظہر صاحب جید عالم دین تھے۔ والد اور دادا مولانا سید حسین باخدا سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ۱۳۲۱ھ میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ۱۳۲۲ھ میں والد کے ساتھ زیارات عتبات عالیات سے مشرف ہوئے۔ وطن واپس آنے کے بعد والد کا تصنیف و تالیف میں ہاتھ بٹانے لگے۔ ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء میں لکھنؤ گئے اور تحصیل علوم دین میں مصروف ہو گئے۔ باقرالعلوم مولاناسید محمد باقر صاحب آپ سے غیر معمولی محبت اور پدرانہ شفقت فرماتے تھے۔ ۱۳۲۵ھ میں لاہور گئے اور نیشنل کالج میں داخلہ لیا دو سال پڑھنے کے بعد ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء میں مولوی فاضل کا امتحان دیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ ۱۳۳۶ھ میں سلطان المدارس لکھنؤ سے ’’صدرالافاضل‘‘ کی سند حاصل کی۔ وطن جاکر مدرسہ سلیمانیہ میں تدریس کرنے لگے اور اپنی ذات کو تبلیغ دین کے لیے وقف کر دیا۔ ۱۳۴۰ھ میں آپ سلطان المدارس لکھنؤ میں آخری درجہ کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۸ء تک مدرسہ میںرہے اور ’’الکلام‘‘ کے نام سے ماہنامہ جاری کیا جس میں احقاق الحق، نہج البلاغہ اور عروۃ الوثقیٰ کے ترجمے قسطوار شائع کئے۔ ۱۳۴۷ھ میںوالد کے انتقال کے بعد تصنیف و تالیف او ر ماہنامہ ’’اصلاح‘‘ کی تمام ذمہ داریاں آپ کے کاندھوں پر آئیں۔ آپ نے یہ تمام علمی، تحقیقی، صحافتی خدمات بحسن و خوبی انجام دیں۔آپ کو قرآن مجید میں غور و فکر کرنے کا بہت شوق تھا۔ قرآن مجید کا ترجمہ اور اس کی تفسیر بھی لکھی۱؎۔ تفسیر قرآن: آپ نے گیارہ پاروں کی تفسیر مکمل کر لی تھی مگر وہ زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔ مولانا مرتضیٰ حسین فاضل : ’’ضعف اور علالت کا سلسلہ بڑھتا جاتا تھا جس قدر ممکن تھا لکھتے تھے اور مولانا سید محمد باقر صاحب اسے مکمل کرتے تھے۔ اس زمانے میں تفسیر کا آغاز کیا اور گیارہ پارے مکمل کئے۔ یہ تفسیر ۱۳۴۹ھ جلد ۳۴ سے مجلۂ اصلاح میں شائع ہوئی۔‘‘ دیگر آثار علمی: تصویرعزا جوہر قرآن تاریخ ائمہ سوانح حضرت ابوبکر دو جلد سوانح حضرت عمر شہادت عظمی فقہ الشیعہ ترجمہ کتاب الصلوٰۃ عروۃ الوثقیٰ غیر مطبوعہ ترجمہ نہج البلاغہ ۱۰۷ خطبات مناظرہ مامون رشید فضائل امیرالمومنین احادیث حضرت عائشہ فضائل ولی الباری من احادیث صحیح البخاری عقد ام کلثوم تصویر بنی امیہ اعجاز الولی قرآن ناطق ثقل اکبر مجالس انوار مجالس اطفال تحفۂ مومنات مشاہیر خواتین اسلام حضرت سکینہ سوانح حضرت علی۱؎ وفات: ۱۶؍رمضان ۱۳۸۰ھ/۱۹۶۱ء میں رحلت ہوئی۔ اقبال حسین، لاہوری(م ۱۳۸۲ھ) آپ لاہورکی علمی نامور شخصیت تھے۔ ۱۳۸۲ھ میں وفات ہوئی قرآنیات سے گہرا شغف تھا۔ انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ کا علمی کارنامہ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ ہے۔ قرآن کے حواشی بھی تحریر فرمائے ہیں۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’سید اقبال حسین لاہوری ترجمہ و حواشی قرآن را بہ زبان انگلیس در پاکستان انجام دادہ است۔۲؎‘‘ آپ نے تقریباً ۱۹۶۲ء میں رحلت کی۔ مولانا مرتضیٰ حسین فاضلؔ: ’’سید اقبال حسین صاحب لاہوری نے قرآن مجید کا ترجمہ و حواشی کا کام شروع کیا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے پانچ پارے مکمل کر چکے تھے۔ ۱۹۶۲ء کے قریب رحلت کی۔ ترجمہ ان کے گھر میں موجود تھا۳؎۔ ‘‘ حفاظت حسین ،بھیکپوری(م ۱۳۸۴ھ) مولانا سید محمد ابراہیم کے فرزند تھے۔ ۱۳۰۹ھ بھیکپور بہار میں ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حسب دستور وطن ہی میں حاصل کی اسکے بعد پٹنہ میں حافظ مولانا فرمان علی صاحب کے زیر سر پرستی مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ میں کسب علوم کرتے رہے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے لکھنئو کا عزم کیا اور سلطان المدارس سے صدرالافاضل کی اعلیٰ سند حاصل کی۔ اس دوران باقر العلوم سید محمد باقر صاحب سے فقہ و اصول ، مولانا سید محمد ھادی سے فقہ ، مولانا سید محمد رضا سے منطق و معانی و بیان، مولانا سید محمد امین کابلی سے صدرا اور مولانا فضل حق سے حمد اللہ اور تفسیر بیضاوی کا درس لیا۔ اسکے علاوہ پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی سند لی۔ ۱۹۲۰ء میں سرکاری اسکول میں ہیڈ مولوی کے عہدے پر تقرری ہوئی اور ۱۹۵۲ء گورنمنٹ ہائی اسکول مظفر پور سے سبکدوش ہوئے۔ آپ نیک سیرت اعلی کردارکے بزرگ تھے۔ تصنیف و تالیف محبوب مشغلہ تھا۔ ۱۹۶۴ء میں آپکی وفات ہوئی۔ ۱۔ تفسیر معارف القرآن : یہ تفسیر قرآن علمی سرمایہ ہے علمی اور دقیق مفاہیم پر مشتمل ہے جو کہ غیر مطبوعہ ہے۔ ۲ تفسیر آیہ تطہیر : یہ تفسیر اصلاح کھجوا سے ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی اسمیں اھلبیت کا اثبات عقلی و نقلی ادلہ سے کیا ہے ۷۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ دیگر آثار علمی :۔ فدک (مطبوعہ) ذکر الثقلین (مطبوعہ) مواعظ القرآن چھاردہ معصوم۱؎ دلدار حسین، کندرکوی(م ۱۳۸۵ھ) مولانا سید دلدار حسین نقوی ۱۸۸۵ء میں کندرکی ضلع مرادآباد میں متولد ہوئے آ پ کے والد سید ذاکر حسین تھے۔ ابتدائی دینی تعلیم مولانا سید ممتاز حسین سرسوی سے حاصل کی پھر مدرسہ منصبیہ میرٹھ میں زیر تعلیم رہے اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لکھنؤ گئے اور مدرسہ ناظمیہ میں سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن طاب ثراہ کے زیر تربیت تحصیل علوم عقلیہ و نقلیہ میں مشغول ہوگئے۔ لکھنؤ میں قیام کے دوران باقر العلوم مولانا سید محمد باقر، مولانا سید ظہور حسین ، مولانا سید سبط حسن جیسے روحانی اساتذہ سے کسب فیض کرکے عقائد و کلام، تفسیر و حدیث کے علاوہ فن مناظرہ میں مہارت حاصل کی۔ تکمیل الطب لکھنؤ میں داخلہ لیا اور طبابت میں مہارت حاصل کی اور راجا چرکھاری کے مخصوص طبیب منتخب ہوئے۔ ۲۲ سال اصغرآباد ضلع علی گڑھ میں گذارے اور ۱۹۴۷ء میں پاکستان جاکر راولپنڈی میں سکونت اختیار کی۔ اور تبلیغ دین میں مصروف ہوگئے۔ روحانی و جسمانی علاج بھی کرتے رہے بازار کوہائی میں آپ نے مطب قائم کیا تھا۔لیاقت آباد راولپنڈی میں نمازعیدین آپ ہی ادا کراتے تھے۔ آپ نے ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء میں راولپنڈی میں وفات پائی۔ تفسیر آیات: قرآن مجید کی آیات کی تفسیر لکھی ا دیگر تالیفات: القول الصحیح فی ولادت المسیح (رد عقائد سر سید احمد خاں) شمع ہدایت (رد قادیانیت) بشارت المسیح (رد سر سید احمدخاں) حیات المسیح کتاب المجالس نسخہ ھای طب ۱؎ محمد سعید (م ۱۳۸۷ھ) سعیدالملت مولانا سید محمد سعید کے والد ناصرالملت مولانا سید ناصر حسین اور دادا سید المتکلمین میر حامد حسین صاحب عبقات الانوار تھے۔ آپ کی ولادت ۸؍محرم ۱۳۳۳ھ/۱۱؍نومبر ۱۹۱۴ء لکھنؤ میں ہوئی۔ فقہ، اصول، فلسفہ، کلام، تفسیرو حدیث کی تعلیم والد ماجد کے علاوہ مولانا سید حامد حسین عرف سید صاحب، مولانا امجد حسین، مولانا مظفر علی خاں، مولانا ظہور حسین رحمۃ اﷲ علیھم سے حاصل کی۔ ۱۹۳۱ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب کا امتحان دیا۔ ۱۹۳۲ء میں نہائی دروس کے لیے عراق روانہ ہوئے اور نجف اشرف میں آقای سید حسن، آقای شیخ ضیاء الدین عراقی، آقای سید جواد تبریزی، آقای شیخ عبدالحسین رشتی، آقای شیخ ابراہیم رشتی، آقای سید ابوالحسن اصفہانی سے بھر پور استفادہ کیا اور اجازات حاصل کئے۔ دو شنبہ ۲۷؍شعبان۱۳۵۶ھ/یکم نومبر ۱۹۳۷ء کو وطن واپس آئے۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران دو کتابیں عربی میں لکھیں’’الامام الثانی عشر‘‘ اور ’’مدینۃ العلم‘‘ خلاصہ عبقات الانوار یہ دونوں عراق ہی میں طبع ہوئیں۔ لکھنؤ میں آپ نے اعلیٰ پیمانے پر تبلیغی امور انجام دئیے۔ قومی و ملی خدمات میں نمایاں طور پر حصہ لیا، تصنیف و تالیف میں بھی مصروف رہے۔ ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۱ء تک عبقات الانوار اور شرح خطبہ معصومیہ لکھنے میں مصروف رہے۔ اس کے علاوہ تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ مزار قاضی نوراﷲ شوشتری کی نوسازی اور کتب خانہ ناصریہ کی تنظیم آپ کے یادگار کارنامے ہیں۔ ۱۲؍جمادی الثانی ۱۳۸۷ھ/۱۷؍ستمبر ۱۹۶۷ء بروز یک شنبہ رحلت فرمائی اور آگرہ میں مزار شہید ثالث کے نزدیک والد کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۱؎۔ تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا، تفسیر قرآن میں اعلیٰ استعداد رکھتے تھے۔ تفسیر قرآن سے متعلق آپ نے دو آثار چھوڑے: ۱ ۔ تفسیر آیۃ التطہیر: اس تفسیر میں سورہ احزاب کی ۳۳ویں آیت ’’اِنَّمَا یُرِیْداﷲ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیراً‘‘ کی عربی زبان میں تفسیر بیان کی ہے۔ کلامی اصولوں کو بنیاد بنا کر روایات عامہ و خاصہ سے استفادہ کیا ہے۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’این تفسیر در یک جلد بہ زبان عربی، شامل شرح آیہ ۳۳ سورۂ احزاب می باشد کہ مؤلف محترم بہ شیوہ کلامی با بہرہ گیری از روایات و احادیث عامہ بہ تفسیر آن پرداختہ است۱؎۔‘‘ ۲۔تفسیر آیۃ الولایۃ: یہ تفسیر عربی زبان میں ہے۔ آیۂ ولایت کی تفسیر بیان کی ہے کلامی اسلوب کے پیش نظر خلافت حضرت علی علیہ السلام سے متعلق روایات عامہ و خاصہ سے استدلال کیا ہے۔ ان دونوں تفسیروں کے نسخے بخط مؤلف کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہیں۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’این اثر قرآنی دریک جلد بہ زبان عربی پیر امون تفسیر آیۂ ولایت بہ سبک کلامی با بہرہ گیری از روایات و احادیث ائمہ در مورد خلافت و امامت علیؑ می باشد ہر دو نسخہ اصلی بہ خط مؤلف در کتابخانہ صاحب عبقات در لکھنؤ موجود می باشد۔۱؎ ‘‘ دیگر تالیفات: الامام الثانی عشر مطبوعہ نجف ۱۳۵۵ھ (عربی) شرح خطبہ حضرت فاطمہ زہرا (عربی) عبقات الانوار (فارسی) مسانید العصمۃ حسن نواب، رضوی(طبع ۱۳۸۸ھ) سید حسن نواب رضوی صاحب نے ۷۴ عنوانات کے تحت آیات قرآنی کو جمع کرکے ان کاترجمہ و تفسیر تحریر کی جو ’’صراط مستقیم‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۳۸۸ھ/اکتوبر ۱۹۶۸ء فرنٹیر ایکس چنج پریس راولپنڈی پاکستان سے شائع ہوئی۱؎۔ ۲۲۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ حیدر حسین، نکہت (م ۱۳۹۰ھ) مولانا حیدر حسین کا تعلق وزیر گنج لکھنئو سے تھا۔ آپکا شمار لکھنئو کے جید علماء میں ہوتا تھا۔ آپکی ولادت ۱۳۱۵ھ؍۱۸۹۷ء میں ہوئی۔ سلطان المدارس میں زیر تعلیم رہ کر باقر العلوم مولاناسید محمد باقر اور مولانا سید ھادی صاحب سے کسب فیض کیا۔ تقریباً ۱۹۱۸ء میں سلطان المدارس کی آخری سند "صدر الافاضل" حاصل کی۔ فقہ، اصول، منطق، فلسفہ، تفسیر و حدیث میں اعلیٰ صلاحیت کے علاوہ شعر و ادب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ عربی و فارسی میں بر جستہ شعر گوئی کی قابلیت تھی۔ لکھنئو سے باہر زیادہ رہنا ہوا۔ بمبئی میں بیشتر وقت تبلیغ کی مومنین بمبئی آپ کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس میں ایک عرصے تک تدریس کی اور مجالس کو بھی خطاب کرتے تھے۔ ۱۳۹۰ھ؍ ۱۹۷۰ء میں وفات پائی۔ تفسیر قرآن : یہ تفسیر سورہ دخان تک ہے زبان میں ادبی چاشنی پائی جاتی ہے۔ صاف و سادہ رواں تفسیر ہے جو بخط مصنف ۔ مولانا سید ابن حسن قبلہ کربلائی کے کتبخانہ کراچی میں محفوظ ہے۱؎۔ احمد علی، مرزا،امرتسری (م ۱۳۹۰ھ) چودہویں صدی کے نامور مترجم قرآن مرزااحمد علی کی ولادت مارچ ۱۸۸۴ء کو شہر امرتسر میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد منشی مرزا محمد مہدی ایک دیندار اور مذہبی انسان تھے۔ مولانا مرزا احمد علی کمسنی ہی میں سایۂ پدر سے محروم ہو گئے۔ ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم مولانا خلیفہ عبدالرحمن مدرس اعلیٰ مدرسہ تائیداالاسلام امرتسر، مولانا عبدالباقی، مولانا نجم الدین، مولانا فیض اﷲ، مولانا عبدالصمد سے حاصل کی۔ ان کے علاوہ عربی ادب مولانا ثنا ء اﷲامرتسری سے پڑھا۔ شیعہ علماء میں مولانا سید ابوالقاسم(متوفی ۱۹۰۶ئ) اور حضرت مولانا سید علی حائری (متوفی ۱۹۴۰ئ) سے کسب علم کیا اور اعلیٰ استعداد کے حامل ہوئے۔ ایف اے کرنے کے بعد فوج میں ملازمت مل گئی جہاں ترقی کرکے اکاؤنٹنٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ بچپن ہی سے آپ کی طبیعت کا میلان علوم دین اور خدمت اسلام کی طرف تھا۔مگر حالات و واقعات نے سرکاری ملازمت کرنے پر مجبور کر دیا لیکن اس کے باوجود بھی خدمت دین میں مشغول رہ کر اپنا فریضہ پورا کرتے رہے۔ امرتسر میں بڑی تعداد میں اہلسنت رہتے تھے جنھوںنے آپ کو پریشان کررکھا تھا مگر مولانا نے ان لوگوں کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور علمی دلائل سے انھیں لاجواب کیا۔ اس کے سلسلہ میں آپ نے بہت زیادہ مطالعہ کیا دن و رات کتب بینی کرکے ان کے سوالات کے جوابات دئے۔ آپ نے علماء اہلسنت سے یادگار مناظرے بھی کئے۔ اور عوام کے درمیان عالمانہ تقریریں کرکے شیعیت کے خلاف ہونے والے پروپگنڈہ کو باطل کیا۔ اس کے علاوہ آریوں، سکھوں، عیسائیوں سے بھی مناظرے کئے اور حقانیت اسلام ثابت کی۔ احمد یوں اور بہائیوں کو بھی ہمیشہ شکست فاش دی۔ آپ کو فن مناظرہ میں ملکہ حاصل تھا۔ بڑی سے بڑی دلیل کو آسانی سے باطل کر دیتے تھے۔ حافظہ قوی تھا کتابوں کے حوالے اور عبارتیں زبانی یاد تھیں۔ امرتسر کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی مناظرے کئے۔ برما سیلون، عراق و ایران اور حجاز میں دشمنان اسلام سے نبردآزما رہے اور ان کی یلغار کا جواب دیتے رہے۔ آپ کو مذاہب عالم کے عقائد پر گہری نظر تھی اور ہر وقت ان کے عقائد پر بحث کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اور ہر مذہب کے مقابلہ میں اسلام اور علوم اہلبیت کی برتری ثابت کرنے میں کامیاب رہتے تھے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں آپ نے غیر مسلموںکو دائرہ اسلام میں داخل کیا اور پیروے اہلبیت علیھم السلام بنایا۔ آپ بلند پایہ خطیب و مبلغ تھے آواز میں جاذبیت تھی۔ خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑے عالم سے نڈر ہو کر مقابلہ کرتے۔ دعوت حق کے سلسلے میں بڑی سے بڑی صعوبت برداشت کرنے کے لیے آمادہ رہتے اور اکثر پیدل سفر کرتے تھے۔ جہاں بھی ضرورت محسوس کرتے تھے بلا خوف وخطر پہنچ جاتے۔ جب اہلسنت کے اخبارات و رسائل نے شیعیت کے خلاف لکھنا شروع کیا تو آپ نے لاہور سے ’’شیعہ‘‘ اخبار کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا جس میں اہلسنت کے جوابات شائع ہوتے تھے۔ آپ کو لکھنے پڑھنے کا بڑ ا شوق تھا۔ اہم موضوعات پر کتابیں تحریر کیں جن کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ لوامع القرآن: ترجمہ قرآن مجید آپ کی گرانقدر علمی یادگار ہے یہ ترجمہ شیخ غلام حسین اینڈ سنز لاہور، خورشید عالم پریس لاہور سے شائع ہوا۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’میرزا احمد علی (م ۱۳۹۰ھ) ترجمہ و حواشی قرآن را بہ زبان اردو در سال فوق انجام دادہ است و در لاہور پاکستان چاپ و انتشار یافتہ است۔۱؎‘‘ حاشیہ پر تفسیر لوامع التنزیل کا خلاصہ بیان کیا ہے جس میں علمی و تحقیقی نکات کے ذریعہ آیات قرآن کی تشریح کی گئی ہے۔ روایات معصومین علیھم السلام کو مقام استشہاد میں پیش کیا ہے۔ ترجمہ کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔سید حمید حسین نے تاریخ وفات کہی: جناب مولوی احمد علی کی سعی جمیل بنی ہے مھبط انوار علم القرآن کلام حق کی یہ تفسیر منتخب وہ ہے کہ جس سے تازہ ہو ایمان پختہ تر ایقان ہر ایک لفظ ہے نکتہ سرائے یسرنا ہر ایک جملہ ہے توفیق حق کی اک برھان جو پوچھا سال طباعت حمید خوش دل سے کہا ہے شمع ہدایت ’’لوامع القرآن‘‘ یہ ترجمہ ۸۰۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ دیگر تالیفات: راہنمائے شیعہ(مناظرہ) سیرالاولین تاریخ امویین۔ ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور اثرالولاء بجواب اسرار روایات کربلا در جواب خادم حسین میرزائی مراۃ القادیانیہ دلیل العرفان (رد قادیانیت) پرواز قیاس رد گروہ پرویزی لوح باب و بہا سلک الجواہر(رد اسماعیلیہ) فتح حیدری (مناظرہ) ظفرالمبین در مناظرۂ معین الدین فتح المبین در جواب ملا کرم الدین میزان المقال در مناظرہ چکوال مفاتح البرکات بجواب شوائظ البرقات رد آیات بینات محسن الملک ہاویہ درباری معاویہ الانصاف فی الاستخلاف رد رسالہ قاضی اکمل تصنیف و تالیف کے علاوہ آپ تعمیری کاموں میں بھی مصروف رہے پاکستان میں کئی مدارس کی تاسیس کی اور مختلف ادارے قائم کئے۔ ۲؍جون ۱۹۷۰ء بروز پنجشنبہ مطابق ۶؍ربیع الثانی ۱۳۹۰؁ھ کو نوے برس سے زیادہ عمر پاکر لاہور میں وفات پائی اور حسینیہ ہال موچی درو ازے میں دفن ہوئے۔ جناب ابوظفرنازش رضوی نے قطعہ تاریخ کہی بولا ہاتف دیکھ وہ ہے ساکن باغ ارم۱؎ ۱۹۷۰ئ ۱۳۹۰ھ احمد علی، وفاخانی، پروفیسر (م ۱۳۹۰ھ) پروفیسر میراحمد علی وفاخانی ان اہم شخصیات میں تھے۔ جو دینی اور عصری علوم میں یکسرمہارت رکھتے تھے۔ معقولات و منقولات کو بیحدمحنت و مشقت سے حاصل کیا ۔ آپ ایم۔اے۔ بی او ایل۔ بی ٹی عربی و فارسی کے لکچرر تھے اور علوم دین میں فاضل تھے۔ قرآن شناسی کا بہت شوق تھا۔ قرآن کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ ترویج قرآن کے لیے مسلسل کوشش کرتے ، زیادہ سے زیادہ لوگ قرآن سمجھیں اس لیے آپ نے قرآن مجید کی انگریزی میں تفسیر لکھی جو خلیل شیرازی نے ۱۹۶۴ء میں کراچی سے شائع کرائی ۔ یہ آپ کا علمی یادگار کارنامہ ہے جس سے آپ کے قرآنی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ تفسیر علمی حلقوں میں بہت زیادہ پسند کی گئی اور خاطرخواہ نوازا گیا۔ آپ کی دوسری تالیف امام حسین علیہ السلام کی سوانح ہے جو King of Martyrs کے نام سے شائع ہوئی۔ آپ نے علمی خدمات کے علاوہ قوم کی تعمیری خدمت بھی انجام دی۔ مدراس میں حسینی یتیم خانہ قائم کیا اور قوم کے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں ہائی اسکول کا قیام کیا تاکہ قوم کے بچے آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔آپ کی وفات ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۰ء کراچی میں ہوئی اور وہیں دفن کئے گئے۱؎۔ محمد رضی، رضوی، کشمیری(م ۱۳۹۲ھ) آپ کا تعلق علمی و ادبی خانوادے سے تھا۔ آپ کے والد ماجد مولانا سید محمد رضوی اپنے وقت کے بلند مرتبہ عالم دین تھے۔ انھوںنے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی۔ زیادہ وقت نجف اشرف میں گذرا ۔ ۳؍ذی الحجہ ۱۳۹۲ھ کو کراچی میں رحلت کی اور نجف اشرف میں سپرد لحد کئے گئے۔ مولانا سید محمد رضی کے دادا علامہ سید مرتضیٰ کشمیری فقیہہ اور صاحب کشف و کرامات عالم تھے۔ رضی صاحب نیک کردار بلند اخلاق عالم تھے۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بہت شوق رہا۔ آپ کی تالیفات کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے۔ ایک طویل مدت تک تہران میں مقیم رہے۔ توضیح البیان فی تفسیر القرآن:آپ کے آثار علمی میںاس تفسیر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جو ایک علمی و ادبی شاہکا رہے۔ دیگر تالیفات: لماذا اختر ناالاسلام لماذا اختر نا مذہب الشیعہ تحفۃ الرضویۃ فوارق الشیعہ فی عصور الظالمین علی لاسواہ فتاوی الامامیہ ثمرۃ العلم المثل الاعلیٰ ۱؎ مہدی پویا، مرزا (م ۱۳۹۳ھ) چودہویں صدی کے گرانقدر مترجم قرآن مرزا مہدی پویا نے ۱۳۱۶ھ/۱۹۰۰ء ایران کے مشہور شہر یزد میں وجود ہستی زیب تن کیا۔ آپ کا خانوادہ یزد کا مشہور خانوادہ تھا۔ والد ماجد حاجی مرزا محمد حسن اپنے وقت کے مشہور عالم تھے۔ آقا پویانے ابتدائی تعلیم کے مراحل یزد میں طے کئے اور بہت کم مدت میں علوم متداولہ کا درس حاصل کیا اور علوم منقولہ و معقولہ میں مہارت حاصل کی۔ ۱۸ سال کی عمر میں ایران چھوڑ کر عازم عراق ہوئے اور نجف اشرف میں آیت اﷲ سید کاظم طباطبائی کی صحبت پر فیض سے فیضیاب ہوئے۔ آپ کے ساتھیوں میں آیۃ اﷲ محسن الحکیم بھی تھے۔ نجف اشرف کی علمی اور روحانی فضا میں تزکیہ نفس تہذیب نفس کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوئے۔ ۲۳ سال کی عمر میں نجف سے ہندوستان آئے اور مدراس میں سکونت پذیر ہوکر مشغول تبلیغ دین ہوئے۔ ڈیڑھ سال مدراس میں قیام کے بعد رامپور چلے گئے۔ رامپور میں نواب صاحب نے آپ کا استقبال کیا اور انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ ان سے پیش آئے۔ رامپور سے میسور چلے گئے اور میسور یونیورسٹی میں عربی و فارسی کے پروفیسر منتخب ہوئے۔ میسور یونیورسٹی میں عربی و فارسی کے حوالے سے آپ کی یادگار خدمات ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان بننے کے بعد کراچی منتقل ہو گئے اور وہاں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ کراچی میں پریس لگایا جس سے نشر و اشاعت کا کام ہوتا رہا۔ آپ نے کراچی میں مدرسہ جعفریہ کی بنیاد رکھی اور حسینیہ ایرانیان قائم کیا اس کے علاوہ مختلف مساجد اور مدارس کی مالی امداد کرتے رہے۔ آپ کو مختلف زبانوں پر عبور تھا۔ عربی، فارسی، انگریزی بے تکاں بولتے اور تقریر کرتے تھے۔ تفسیر قرآن: آپ کا علمی کارنامہ انگریزی میںتفسیر قرآن ہے جو میر احمد علی کے ترجمے کے ساتھ کراچی حبیب برادرز کی جانب سے عمدہ طباعت کے ساتھ منظر عام پر آ چکی ہے۔ جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ دیگر تالیفات ـ: اصالت قرآن مجید ارکان اسلام بحث ماورای طبعیی قرآن مجید آپ کی وفات ۱۶؍جمادی الثانی ۱۳۹۳ھ/۱۷ جولائی ۱۹۷۳ء کراچی میں ہوئی۔ آقای سید حسن محلاتی نے نماز جنازہ پڑھائی اور باغ خراسان کراچی میں سپرد لحد ہوئے۱؎۔ محمد عسکری، پروفیسر (م ۱۳۹۳ھ) آپ نے انگریزی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا جس پر سیٹھ محمد علی حبیب نے حاشیہ لکھا اور کراچی سے بلا متن ۱۹۵۶ء میں مترجم کا نام لکھے بغیر تعارف نامے کا اضافہ کرکے اسے چھاپا سرورق پر ہےFoot Notes By M.H. Shakir۔ یہ ترجمہ متن کے ساتھ تہران سے اور نظر ثانی کے بعد قم ایران سے شائع ہوا۱؎۔ مجتبیٰ حسن، کامونپوری (م ۱۳۹۴ھ) عالم، محقق، مورخ، مفسر علامہ سید مجتبیٰ حسن کی ولادت کا مونپور ضلع غازی پور ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء میں ہوئی۔ والد ماجد سید محمد نذیر دیندار اور مذہبی بزرگ تھے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم جامعہ ناظمیہ اور سلطان المدارس لکھنؤ میں حاصل کی۔ بچپن ہی سے شعر و ادب کی طرف رجحان تھا۔ تعلیم و تعلم میں طرز نو کے خواہش مند تھے۔ عربی فارسی بورڈ سے مولوی، عالم، فاضل کے امتحانات دئیے۔ ۱۹۳۱ء میں ’’صدرالافاضل‘‘ کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مفتی محمد علی، مولانا سید محمد ہادی، مولانا سید محمد رضا، مولانا عالم حسین، مولانا سبط حسن کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ تعلیمی فراغت کے بعد پٹنہ کے مدرسہ میں تدریس کرنے لگے اور اس کے ساتھ عربی، فارسی اردو میں مقالات لکھتے رہے۔ طبیعت میں جولان تھا۔ نئے نئے موضوعات پر قلم اٹھاتے تھے۔ تاریخ پر گہری گرفت تھی۔ کچھ نیا کرنے کا جذبہ تھا۔ اسی لیے نہائی دروس کے لیے نجف کے بجائے ’’جامعہ ازہر‘‘ مصر کا انتخاب کیا۔ ۱۹۳۵ء میںمصر گئے اور ۱۹۳۶ میں الازہر میں داخلہ منظور ہوا ’’ام المومنین ام سلمہ‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مصر میں قیام کے دوران انقلابی نظریات، ادبی تحریکات اور مشہور علمی شخصیات کو قریب سے دیکھا۔ آپ نے مصر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں کا مجموعہ ’’صحیفہ کاملہ‘‘کے مطالعہ کو عام کیا اور بڑے بڑے علماء و مفکرین کو دعوت مطالعہ دی جس کے نتیجہ میں ان حضرات نے بڑی تعداد میں وقیع مقالات تحریر کئے۔ پانچ سال مصر میں قیام کے بعد نجف و کربلا ہوتے ہوئے لکھنؤ آئے۔ مدرسہ ناظمیہ، لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس کی پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شیعہ شعبۂ دینیات میں لکچرر منتخب ہوئے۔ آپ نے فن خطابت و تقریر میں جدید نفسیاتی اسلوب کا اضافہ کیا۔ آپ کامیاب خطیب اور علمی حلقوں میں محبوب مقرر تھے۔ ۲۳؍سال تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبہ شیعہ دینیات کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد ۲۷؍جمادی الثانی ۱۳۹۴ھ/۱۸؍جولائی ۱۹۷۴ء سوا تین بجے علی گڑھ میں وفات پائی۔ قرآنیات پر گہری نظر رکھتے تھے آپ نے متعدد سوروں کی تفسیریں لکھیں۱؎۔ تفسیر سورہ عصر تفسیر سورہ ممتحنہ تفسیر توحید تفسیر سورہ والشمس تفسیر سورہ آیہ نور تفسیر آیہ تطہیر تفسیر آیہ خلافت مطالعہ آیات قرآن علوم قرآن سورہ اخلاص ثلث قرآن کے برابر اعجاز قرآن قرآن مجید کی نزولی ترتیب تاریخ قرآن مجید قرآن اور علوم جدیدہ مقدمہ تفسیر قرآن آیات احکام مضامین قرآن کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے قرآن کے علوم پنجگانہ قرآن اور زندگی قرآن و حدیث کافرق علم نحو کی مشق بذریعہ قرآن۱؎ یہ سب تصانیف غیر مطبوعہ ہیں۔ دیگر آثار علمی: اقوام عالم میں عورت کا معیار (مطبوعہ) حضرت یوشع بن نون (۱۹۵۱) کربلا ( ۱۹۵۰) مقتل الحسین ابوالفدائ مقتل الحسین از عقبہ بن سمعان (۱۹۶۳ئ) مقتل ضماک بن عبداﷲ مشرقی (۱۹۷۴ئ) مقتل الحسین از سیوطی مقتل الحسین یعقوبی (۱۹۵۴ئ) کائنات قبل و بعد اسلام (۱۹۵۳ئ) اسلام کا پہلا فلسفی حکیم الٰہی علی بن ابی طالبؑ علم حدیث کا ابتدائی مطالعہ احادیث فضائل اہلبیت پر ایک نظر حضرت علی کے خطوط کا سرسری جائزہ افضلیت حضرت علیؑ فتح مکہ سے کربلا تک (۱۳۷۰ھ) جنگ اور اسلام حسین مظلومؑ کا پہلا قدم اسلامی تعلیمات حضرت رباب زوجہ امام حسینؑ قاضی شریح کا کردار تبرکات کا تاریخی جائزہ ۱؎ مظہر علی(م ۱۳۹۴ھ) مولانا مظہر علی (م ۱۹۷۴ئ) نے سورہ آل عمران کی آیۃ ’’اِنَّ اﷲ اصطفی آدم و نوحاً‘‘۔۔۔الخ کی تفسیر تحریر کی ہے۔ امامیہ کتب خانہ لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ امداد حسین کاظمی (م ۱۳۹۵ھ) چودہویں صدی کے نامور مترجم قرآن مولانا سید امداد حسین کاظمی ۱۳۱۹ھ/نومبر ۱۹۰۱ء میں جناب عباس علی کے گھر متولد ہوئے۔ آپ کے دادا مولانا سید رمضان علی کاظمی مشہدی اپنے عہد کے زاہد و ابرار اور بلندپایہ فقیہہ تھے۔ لکھنؤ اور امروہہ میں پسندیدہ ذاکر تھے۔ مولانا امداد حسین نے سطحیات کا علم وزیرآباد گوجر انوالہ اور لاہور میں حاصل کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے منشی، فاضل، مولوی فاضل اور ادیب فاضل اور بی۔اے۔ پاس کیا۔ اس کے ساتھ گورمکھی میں گیانی کی سند لی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد تبلیغ دین میں مصروف ہوئے۔ مختلف شہروں میں جاکر تبلیغ کی جموں کشمیر اور پونچھ میں آپ کے مواعظہ حسنہ بہت مقبول تھے۔ راجہ جگت دیو سنگھ والیٔ پونچھ نے خلعت اور ’’ابوالفضل ثانی‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے علاوہ آسام، مدراس، بنگال اور اتر پردیش میں تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ لکھنؤ نجف و کربلا کے علماء نے گرانقدر اجازات سے نوازا ،تصنیف و تالیف محبوب مشغلہ تھا۔ اہم رسائل و جرائد میں بکثرت مضامین شائع ہوتے تھے۔ رسالہ’’صوفی‘‘ کی ادارت بھی کی۔ بعض انگریزی منظومات و مضامین لندن کے رسالہ ’’VICTORY‘‘ اور دہلی کے رسالہ ’’POSTALCOMRADE‘‘ میں شائع ہوئے۔’’معارف اسلام‘‘ لاہور میں اکثر مقالات شائع ہوتے رہتے تھے۔ علم حدیث میں مہارت رکھتے تھے عموماً کتاب ’’الکافی‘‘ کا مطالعہ کرتے ۔ قرآنِ مجید کا مطالعہ اور ترجمہ و تفسیر سے والہانہ عشق تھا۔ سائنس اور قرآن آپ کا پسندیدہ موضوع تھا۔ علم مناظرہ سے بھی اچھی واقفیت تھی۱؎۔ آپ کا علمی کارنامہ ترجمہ و تفسیر قرآن ہے۔ تفسیر المتقین: قرآن مجید کی مختصر اور جامع تفسیر ہے۔ بین السطور ترجمہ اور حاشیہ پر آیات کی تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ یہ تفسیر ۱۳۸۱ھ میں پاکستان سے شائع ہوئی۔ اس کے متعدد ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۱؎۔ اسلوب تفسیر: حاشیہ پر مشکل الفاظ کے لغوی معنی اس کا مصدر، صیغہ اور باب مندرج ہے۔ انبیاء کرام کے واقعات جو مستند روایتوں میں مرقوم ہیں درج کیے ہیں ۔ اکثر مقامات پر مفسرین کے ذاتی نظریات اور ان کے اقوال سے اختلاف کرکے نفس مسئلہ پر جرح کی ہے۔ قرآن مجید میں جہاں واحد کے لیے جمع یا جمع کے لیے واحد، مونث کے لیے مذکر، مذکر کے لیے مونث کا صیغہ لایا گیا ہے اس کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ بعض آیات کی تفسیر میں مسلک اہلبیت کی تائید کے لیے کتب اھلسنت سے استشہاد کیا ہے۔ بعض آیات پر مخالفین کے اعتراضات کے تسلی بخش تحقیقی جوابات دیے ہیں۔ آیات کی ترکیب نحوی بھی کی ہے۔ قرآن مجید کے شروع میں آیات کی انڈکس ہے جو نہایت کارآمد اور مفید ہے جس کے ذریعہ آسانی سے آیت کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تفسیر میں کوئی ایسا لفظ یا فقرہ نہیں ہے جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ آیات کی تشریح میں عصری علوم سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ علماء کی آرائ: مولانا سید مرتضیٰ حسین فاضلؔ لکھنوی: ’’ترجمہ لفظی اور نحوی و صرفی پابندیوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حواشی غیر مناظرانہ اور مختصر و سادہ زبان میں لکھے گئے ہیں جہاں کہیں عقیدہ و عمل کی بحث ہے وہاں افراط و تفریط سے دامن بچایا ہے۔ حتی الامکان تفسیر صافی اور روایات آل محمدؐ کے بغیر کوئی بات کہنے سے اجتناب فرمایا ہے نہ دعویٰ اجتہاد ہے نہ خیال برتری۔‘‘ مولانا سید نجم الحسن کراروی : ’’ترجمہ میں خوبی یہ ہے کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور تفسیر میں خوبی یہ ہے کہ اس کا دارومدار ارباب عصمت و طہارت کے ارشادات عالیہ پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے ترجمے اور تفسیر کی عرصۂ دراز سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔‘‘ مولانا سید نصیر اجتہادی : ’’ترجمہ سلیس اور عمدہ ہے تفسیری حواشی کو راسخون فی العلم اہلبیت علیھم السلام کے ارشادات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے قرآن ناطق و قرآن صامت کا یہ علمی امتزاج فکر و نظر کے لیے کوثر رشد و ہدایت ہے۱؎۔‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’امداد حسین پاکستانی ترجمہ و تفسیر قرآن مبین را بہ زبان اردو انجام دادہ کہ توسط انتشارات انصاف پبلشنگ کمپنی لاہور او ۷۸۰ صفح بہ سال ۱۳۸۱ھ بہ چاپ رسیدہ است۔۱؎‘‘ دیگر آثار علمی: تحقیق مہدیؑ مطبوعہ فتنۂ تفسیر بالرائے مطبوعہ الفاطمہؑ مطبوعہ برکات محرم بجواب بدعات محرم مطبوعہ تطبیق الشہادۃ مطبوعہ اعمال واجبہ مطبوعہ معلم الاسلام مطبوعہ اخلاق المعصومین مطبوعہ استقرار حق عزاداری (قلمی) حق سادات (قلمی) وفات: آپ نے ۱۴؍رمضان ۱۳۹۵ھ/۲۲؍ستمبر۱۹۷۵ء کو رحلت کی اور ۱۵ ؍رمضان کو گجرات پاکستان میں آسودۂ لحد ہوئے۔ مولانا سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ محمد جعفر، بجنوری (م ۱۴۰۰ھ) مولانا سید محمد جعفر زیدی کی ولادت ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۸ کومیمن سادات ضلع بجنور کے علمی و ادبی خانوادہ میں ہوئی۔ آپ کے اجداد کا شمار جید علماء میں ہوتا تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر کے بزرگوں سے حاصل کی پھر منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں داخلہ لیا۔ میرٹھ میں قیام کے دوران سرکار یوسف الملت مولانا یوسف حسین امروہوی سے خصوصی تلمذ رہا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۳۳ء میں بریلی کے امام جمعہ منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں پاکستان منتقل ہوگئے۔ ۱۹۵۶ء میں شیعہ جامع مسجد اسلام پورہ لاہور میں امام جمعہ کے فرائض انجام دینے لگے۔ ماہنامہ’’پیام عمل‘‘ کا اجرا کیا۔ جس میں تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ آپ نے ۲۸؍ذی الحجہ ۱۴۰۰ھ/۷نومبر ۱۹۸۰ء کو رحلت فرمائی۔ اور درگاہ گامے شاہ میں دفن ہوئے۔ تفسیر آیہ تطہیر: آپ نے آیہ تطہیر’’انما یریداﷲ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا‘‘کی تفسیر لکھی اور معتبر کتب سے ثابت کیا یہ آیت اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ دیگر آثار: مسئلہ فدک، صحابیت کا قرآنی تصور، اہمیت پردہ۱؎ سید علی ،گوپالپوری(م ۱۴۰۰ھ) حجۃ الاسلام مولانا سیدعلی قمی ، مولاناسید راحت حسین طاب ثراہ کے فرزند تھے۔ آپکا وطن گوپالپور بہار تھا آپکی ولادت ۱۵؍ رمضان المبارک ۱۳۳۰ھ؍ ۲۹ ؍ اگست ۱۹۱۲ء بروز پنجشنبہ نجف اشرف میں ہوئی۔ سطحیات کا درس والد علام سے لیا۔ ہندوستان آنے کے بعد لکھنو میں زیر تعلیم رہے۔ اسکے بعد قم ایران تشریف لے گئے۔ جہاں جید اساتذہ سے کسب علم کیا بالخصوص آقائی سید شہاب الدین مرعشی سے کسب فیض کیا۔ تقریباً ۳۵ سال راجہ صاحب اترولہ ضلع گونڈہ کے یہاں امام جمعہ و جماعت رہے ۔ اترولہ میں یاد گار خدمات انجام دیں جنہیں مومنین اترولہ آج تک یاد کرتے ہیں۔ آپ نے ساری زندگی تبلیغ دین کے لئے وقف کر دی تھی۔ آپ بردبار، کم سخن، با اثر بزرگ تھے۔ زہد و تقویٰ میں بے مثال تھے۔ آپنے گرانقدر آثار علمی چھوڑے۱؎۔ تفسیر رموز التنزیل : ۲ جلد اس تفسیر میں اھلبیت سے متعلق آیات قرآن کی تفسیر بیانکی ہے اور کتب اھلسنت سے استفادہ کیا ہے۔ ادارہ نورالاسلام فیض آبادسے شائع ہوئی جلد اول ۱۹۸۴ ء میں اور جلد دوم ۱۹۸۵ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔ دیگر تالیفات : الفرقۃ الناجیہ فی الاسلام (مطبوعہ) جنات المعارف۲؎ آپ نے مسعودی کی کتاب (اثبات الوصیہ کا بھی ترجمہ کیا تھا) وفات : آپنے ۸ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ؍ ۲۷ جنوری ۱۹۸۰ کو اترولہ میں رحلت کی۔ علی صفدر مولانا سید علی صفدر کا علمی کارنامہ ’’تفسیر اساس البیان‘‘ ہے جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ جلد اول ہمدرد پریس راولپنڈی پاکستان سے شائع ہوئی جس میں چند سوروں کی تفسیر مندرج ہے۔ دوسری جلد میں ۳۸ سوروں کی تفسیر ہے۔ ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ہمدرد پریس راولپنڈی سے شائع ہوئی۔ قیمت ڈھائی روپیہ ہے۱؎۔ علی اطہر مرغوب نقوی آپ اردو شعر و ادب میں مہارت رکھتے تھے ۔قرآن مجید کے کچھ سوروں کا منظوم ترجمہ کیا ۔ اس کتاب کانام ’’گلشن جنت‘‘ رکھا جس میں سورہ فاتحہ آیۃ الکرسی، سورہ ملک کا منظوم ترجمہ مع خواص آیات ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب سرفراز قومی پریس لکھنؤ سے ۱۳۷۱ھ میں شائع ہوئی۱؎۔ احمد شاہ قاضی مولانا قاضی سید احمد شاہ، آپ نے قرآن کا ترجمہ اور مختصر تفسیر لکھی جس کا نام ’’لمع العرفان فی توضیح القرآن‘‘ ہے۔ غیر مطبوعہ ۱؎ محمد علی خاں، نواب نواب محمد علی خاں نبیرۂ سبحان علی خانصاحب کی کتاب ’’منافقین‘‘ ہے جس میں ان آیات کی تفسیر کی گئی ہے جو منافقین سے متعلق ہیں۔ نظامی پریس، لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ’’صالحین‘‘ ہے جس میں ان آیات کو جمع کیا گیا ہے جن میں لفظ ’’صالحین‘‘ آیا ہے۔ نظامی پریس لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ تیسری ’’متقین‘‘ ہے جس میں متقین سے متعلق آیات کی تشریح کی گئی ہے۱؎۔ مشتاق حسین شاہدی آپ نے ۱۹۳۸ء میں پندی گھیب ضلع اٹک میں عالم ہستی میں قدم رکھا۔ آپ کے والد امیر احمد تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔ درس نظامی مولانا سید گلاب علی شاہ نقوی مدرس اعلیٰ مخزن العلوم جعفریہ ملتان سے حاصل کیا۔ اس کے علاوہ مولانا سید محمدبادشاہ نقوی مولانا قمرالزماں چھولسی و ادیب اعظم مولانا سید ظفر حسن امروہوی، مولانا مصطفی جوہر صاحب جیسے جید اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد مدرسہ میں تدریس کی پھر اس کے بعد تبلیغ کی غرض سے افریقہ چلے گئے۔ افریقہ سے واپس آنے کے بعد مستقل کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسکول میں معلم بن گئے۔ افریقہ میں قیام کے دوران بہت سے لوگوں کو علوم اہلبیت کے ذریعہ اہلبیت کا پیروکار بنایا اور تعلیمات ائمہ علیھم السلام سے ان کے قلوب کو منور کیا۔ مسجد نور ایمان کراچی میں نماز جمعہ سے پہلے درس قرآن دیتے تھے اور تفسیر قرآن کے رموز و اسرار سے مومنین کو روشناس کراتے تھے۔ عربی، فارسی انگریزی زبانوں میں مہارت تھی۔ کناڈا، امریکہ، برطانیہ میں مجالس کے سلسلے میں سفر کئے۔ آپ تصنیف و تالیف میں بھی مصروف رہے۔ سورہ الحمد اور سورہ الاخلاص و سورہ آیۃ مودۃکی معلوماتی تفسیر لکھی جس سے آپ کی قرآن شناسی کا علم ہوتا ہے۱؎۔ دیگر تالیفات: خاک پاک اسلام اور سائنس افتخار حسین نقوی مولانا سید افتخار حسین نقوی نجفی ۱۹۵۱ء جنگل بیرہ منظرآباد میں متولد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ مخزن العلوم جعفریہ ملتان میں زیر تعلیم رہے۔ اس کے بعد عراق روانہ ہوئے۔ وہاں جید اساتذہ سے استفادہ کیا جن میں شیخ محمد علی افغانی، آقای شیخ بشیر حسین، شیخ عباس کوجانی، آقای اشرفی علامہ سید ساجد نقوی قابل ذکر ہیں۔ ماہ ذیقعدہ ۱۳۹۶ھ میں بعثی حکومت نے گرفتار کرلیا۔ ۲۸؍روز قید میں رہے، رہائی ملنے کے بعد کویت کے راستے ملتان پہنچے۔ کچھ مدت تک مدرسہ مخزن العلوم جعفریہ میں تدریس کی اور محلہ جھک کے امام جمعہ مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۸ء میں جامعہ اہلبیت اسلام آباد میں درس دینے لگے اور وہاں ماہنامہ ’’الذہرا‘‘ کا اجرا کیا۔ آپ نے آیت اﷲ مظاہری کی تفسیر سورہ یٰسین کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ مکتبۃ الرضا کراچی سے شائع ہوا جس میں ۴۴ ابواب ہیں ۶۴۲صفحات پر مشتمل ہے۔ دیگر آثار: احکام صیام، آداب مجالس و محافل، گناہان کبیرہ، تحریک حسینی، صفات شیعہ و فضائل شیعہ، مشکلات جنسی جوانان، نظریہ مہدویت، ترجمہ مقام زن در اسلام، ترجمہ داستان راستان احمد علی،میر(ایم۔اے۔) انگریزی ترجمہ قرآن طبع ۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ئ ناشر محمد خلیل شیرازی کراچی صفحات ۱۹۲۸ ترجمہ کے ساتھ مختصر تفسیر بھی درج ہے جو انگریزی ادب و بیان کے لحاظ سے لاجواب ہے۔ سورہ نصر کا ترجمہ: 1. When coneth the help of God and the vistory. 2. And thau seest people entering the religion of God in multitudes. 3. Celebrate then the praise of thy Lord and seek thou his pratection (for) verily he is of turning. یہ ترجمہ مکتبۃ العلوم کراچی میں راقم کی نظروں سے گذرا۔ حسین بخش، جاڑا، نجفی پندرہویں صدی کے عظیم الشان مفسرقرآن مولانا حسین بخش جاڑا کی ولادت ۱۹۲۰ء کو جاڑا ڈیرہ اسماعیل خاں میں ہوئی۔ آپ کے والد ملک اﷲ یار تھے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا سید محمد باقر نقوی جانیوال کی خدمت میں صرف و نحو، فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی۔ اور اسی طرح مولانا سید یارشاہ نجفی و مفتی جعفر حسین صاحب سے استفادہ کیا۔ ۱۹۴۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان دیا بعد ازاں متعدد مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دئیے جس میں مدرسہ محمدیہ جلالپور، ننگیانہ، مدرسہ صادقیہ خانپور، شامل ہیں۔ ۱۹۵۱ء میں دارالعلوم محمدیہ سرگودھا میں تدریس کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے عراق روانہ ہوئے اور نجف اشرف میں مشغول تحصیل ہوے ۔ آیت اﷲ خوئی ، آیت اﷲعبداﷲ شیرازی، آیت اﷲ باقر زنجانی، آیت اﷲ میرزا حسن یزدی، آیت اﷲ میرزا بجنوردی سے بھرپور استفادہ کیا۔ اور فقہ و واصول میں مہارت حاصل کی۔ ۱۹۵۶ء میں آپ پاکستان واپس آئے اور اپنے وطن جاڑا میں مدرسہ باب النجف کی بنیاد رکھی جہاں بڑی تعداد میں طلاب، تحصیل علوم دینیہ میں مصروف ہیں۱؎۔ وفات: ۱۹۹۰ء میں وفات ہوئی۔ آپ کا علمی شاہکا رتفسیر قرآن ہے جو چودہ جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے۔ تفسیرانوارالنجف فی اسرارالمصحف: ۱۴ جلد، جامعہ علمیہ باب النجف جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں، ثنائی برقی پریس سرگودھا سے شائع ہوئی نویں جلد ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی۔ اسلوب تفسیر: آیات کی شان نزول، مصداق آیات اور آیت سے متعلق واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ضروری آیات کی تشریح حل لغت و کلامی بحث کے ذریعہ مسئلہ کو واضح کیا ہے۔ حضرات محمد و آل محمد علیھم السلام کی روایات کی روشنی میں آیات کی وضاحت کی ہے۔ نتیجۂ بحث کی شکل میں نکات بیان کئے ہیں تاکہ قارئین کو فہم آیات میں آسانی ہو جائے۔ تفسیرکی چودہویں جلد جو ۲۸۸ صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت ۱۶ روپیہ ہے مکتبہ انوار النجف دریاخاں سے شائع ہوئی۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’تفسیر ’’انوار النجف فی اسرار المصحف‘‘ بہ زبان اردو کہ توسط مکتبۃ انوار النجف پیشاور پاکستان بہ سال ۱۴۰۲ھ در ۱۵ جلد شامل تمام سورہای قرآن می باشد۲؎‘‘ دیگر آثار علمی: اصحاب الیمین معیارشرافت لمعۃ الانوار فی عقاید الابرار المجالس الفاخرہ سیاست اسلامی نمازامامیہ فکر اسلامی دین و اسلام ترجمہ امامت و ملوکیت در جواب خلافت و ملوکیت مولانا مودودی المجالس المرضیہ مولانا محمد باقر۳؎ مجاور حسین رضوی، الحسینی پندرہویں صدی کے نامور مترجم قرآن ڈاکٹر مجاور حسین رضوی نے پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۲۱ء میں فاضل کیا جید الاستعداد تھے۔ آپ نے عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کی اور خدمت دین کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ آثار علمی میں ترجمہ قرآن کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ترجمہ قرآن الکریم: ترجمہ ۱۲؍شعبان المعظم ۱۳۹۲ھ/۲۱ ستمبر ۱۹۷۲ء کو دارالاشاعت کتاب اخلاق محمد ۵۳ پیر کالونی کراچی سے شائع ہوا۔ ترجمہ سادہ اور عام فہم ہے جو عصری تقاضوں کو پورا کرنے کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ حاشیہ پر آیات کی شان نزول اور اس آیت سے مربوط واقعہ اور مصداق آیت کی نشاندہی بھی ہے۔ واقعات انبیاء علیہم السلام اور اس سے ماخوذ نتائج کو بہت سلیقہ سے پیش کیا ہے۔ علمی نکات اور اسرار آیات کو انتہائی ماہرانہ فن سے رقم کیا ہے۱؎۔ تفسیر کے سلسلہ میں اختلاف علماء کو بیان کرکے اسے حل کرنے کی سعی کی ہے۔ قارئین کی سہولت کے پیش نظر ہر پارے کے شروع میں پارے کا خلاصہ مختصراً تحریر کیا ہے تاکہ قاری کو ایک نظر میں پارے کے مشمولات کا علم ہو جاے۔ قرآن کے آخر میں تعارف و حقائق قرآن کریم کے عنوان سے اہم موضوعات پر تحقیقی بحث چودہ لمعات پر مشتمل ہے۔ جیسے عقیدہ توحید، عقیدہ نبوت، حفاظت قرآن منجانب خدا، سورہ الحمد کی غلط تفسیر اور اس کی تصحیح، عبس و تولیٰ کی تفسیر، قرآن میں تقدیر کا مفہوم، معراج رسول جسمانی تھی یا روحانی۔ اس ترجمہ پر جناب مولانا محمد نقی صاحب قبلہ کی تقریظ مندرج ہے جس میں آپ نے اس ترجمہ کو اردو ادب میں باوقار اضافہ قرار دیا۔ راقم نے یہ ترجمہ رضا لائبریری رامپور میں دیکھا اور اس کا مطالعہ کیا۔ مترجم علمی اور ادبی شخصیت کے حامل تھے اس کے علاوہ آپ کی گرانقدر تالیف ’’اخلاق محمد‘‘ ہے جو تین جلدوں میں کراچی سے شائع ہو چکی ہے جو بیحد مقبول ہوئی۔ محمد حسن صلاح الدین، نجفی آپ کی ولادت ۱۹۴۸ء اسکردو بلتستان میں ہوئی والد ماجد قاسم صاحب دیندار انسان تھے۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم کے مراحل بلتستان میں طے کئے اور عازم عراق ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں نجف اشرف میں تحصیل علوم اہلبیت علیہم السلام میں مصروف ہوئے۔ اور امام خمینی کے فقہ کے درس خارج آیۃ اﷲ بجنوردی کے درس خارج اصول فقہ میں شرکت کی آقای مدرس افغانی سے ادبیات کا علم حاصل کیا اور علامہ محمد صادق سے تفسیر کا درس لیا۔ ۱۹۷۴ء میں عراقی حکومت نے علماء اور طلباء پر مظالم ڈھانا شروع کئے جس کی بنا پر حوزہ علمیہ نجف کے حالات دیگر گوں ہو گئے طلباء حوزہ ترک کرنے پر مجبور ہوئے علماء کو گرفتار کیا گیا۔ چنانچہ آپ بلتستان واپس آ گئے اور وطن ہی میں مصروف تبلیغ ہو گئے۔ ۱۹۷۹ء میںدانشگاہ اہلبیت اسلام آباد میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے پھر دوبئی میں دین مبین کی تبلیغ کی اور لوگوں کو معارف اسلام سے روشناس کرایا۔ آپ کو فقہ اصول، حدیث و تفسیر میں اعلیٰ صلاحیت حاصل ہے۔آپ کا علمی کارنامہ تفسیر قرآن مجید ہے جس سے آپ کی علمی استعداد کا اندازہ ہوتا ہے۱؎۔ دیگر تالیفاتـ: فدک(عربی) معاد(فارسی) توحید، جدید نظریات کی روشنی میں(اردو) ولایت فقیہ (اردو) محمد حبیب الثقلین، امروہوی حضرت مولانا سید محمد صاحب قبلہ مجتہد طاب ثراہ کے فرزند تھے۔ ۲۴؍شوال ۱۳۳۶ھ کو بمقام محلہ شفاعت پوتہ، امروہہ میں متولد ہوئے۔ تاریخی نام سید مظہرالعجائب تھا۔ تعلیم کا آغاز معروف درسگاہ دارالعلوم سیدالمدارس امروہہ سے ہوا۔ ابتدائی عربی کتب و صرف و نحو مولانا سید محمد مجتبیٰ نوگانوی اور مولانا سید محمد باقر حسین امروہوی سے پڑھیں۔ تیرہ سال کی عمر میں فارسی کی معروف کتب گلستاں و بوستاں منشی سید مبارک حسین صاحب سے تکمیل کیں۔ پھر مدرسہ کے درسی نظام میں شریک ہو کر اپنے پدر علام کے زیر تربیت مولوی، عالم کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اس کے بعد عربی ادب کے اعلیٰ امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور فاضل فقہ کیا۔ رسائل و مکاسب شیخ مرتضیٰ انصاری جیسی اہم کتب والد علام سے پڑھیں اور مدرسہ کی آخری سند’’سیدالافاضل‘‘ سے شرفیاب ہوئے۔ ابتداء ہی سے انگریزی زبان وادب سے شغف رہا۔ ہائی اسکول انٹر میڈیٹ کے امتحانات بھی پاس کئے اور انگریزی سے بی۔اے۔ کیا اور اسی دوران دارالعلوم سیدالمدارس میں استاد مقرر ہوئے۔ تین سال تک عالم، فاضل کے طلباء کو درس دیتے رہے پھر یوپی پبلک کمیشن سے استاد کی حیثیت سے تقرری عمل میں آئی۔ عربی سے ایم۔اے۔ کیا اور یونیورسٹی میں پوزیشن حاصل کی۔ ایک عرصے تک گورنمنٹ کالج امروہہ اور للت پور جھانسی میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ پاکستان بننے کے بعد ۱۹۵۷ء میں کراچی چلے گئے اور رضا ڈگری کالج کراچی میں پروفیسر منتخب ہوئے۔ پھر ویسٹ پاکستان پبلک سروس کمیشن کی طرف سے منتخب ہو کرگورنمنٹ کالج ٹھٹہ سندھ چلے گئے۔ علمی تحقیق کا سلسلہ جاری رہا ۔ تعلیمات حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم پر گرانقدر تحقیقی مقالہ لکھا جس پر سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔ والد ماجد کے زیر سایہ رہ کر عنفوان شباب سے ہی مجالس پڑھنے کا شوق رہا اور بہت جلد امروہہ کی عظیم مجالس میں اور دیگر مقامات پر تقریر کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی زیارات مشاہد مقدسہ نجف اشرف کربلا، کاظمین سے بھی شرفیاب ہوئے۔ اپریل ۱۹۸۳ء میں شعبہ اسلامی کی کانفرنس میں حکومت عراق کی دعوت پر شرکت کی جو امن اور اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں بغداد میں منعقد ہوئی تھی۔ آپ کوشروع ہی سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ تلخیص و ترجمہ مجمع البیان: آپ کا تفسیر کے اعتبار سے اہم کارنامہ علامہ طبرسی کی معروف تفسیر قرآن ’’مجمع البیان‘‘ کا ترجمہ اور اس کا خلاصہ ہے جو کئی جلدوں میں کراچی سے شائع ہوا۔ یہ خلاصہ بہت پسند کیا گیا کم وقت میں قارئین بڑی تفسیر سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ آپ نے طوالت کے پیش نظر نحوی مباحث کو ترک کر دیا مگر با محاورہ ترجمہ اور ادب کی چاشنی سے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ خود مستقل کتاب ہو۱؎۔ دیگر تالیفات: خلاصہ بحارالانوار علامہ مجلسیؒ فضائل آل محمد نقش الااﷲ برصحرانوشت علاج الاسقام ۲؎ محمد صادق، سید پندرہویں صدی کے عظیم المرتبت مترجم قرآن مولانا سید محمدصادق کی ولادت ۱۳۳۳ھ؍۱۹۱۴ء کو اس علمی اور اجتھادی خانوادہ میں ہوئی جسے’’خانوادۂ نجم العلماء ‘‘کہا جاتا ہے۔ والد ماجد حجۃ الاسلام مولانا سید محمد کاظم طاب ثراہ جید عالم اور مجتھد تھے۔ آپکے جد سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن اعلیٰ اللہ مقامہ امروہہ سے لکھنئو گئے اور وہاں مدرسہ ناظمیہ کی سربراہی کی ۔ سرکار نجم العلماء کو بر صغیر میں مرجعیت حاصل تھی ۔ آپکے تبحرعلمی کے علماء عراق و ایران معترف تھے۔ مولانا سید محمد صادق نے سطحیات کی تعلیم گھر میں والد علام سے حاصل کی پھر مدرسہ ناظمیہ میں زیرتعلیم رہ کر مدرسہ کی آخری سند "ممتاز الافاضل"امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔بعد ازاں عازم عراق ہوئے اور زیارت عتبات عالیات سے مشرف ہوئے مراجع کرام سے استفادہ کیا ۔ آیت اللہ محمد حسین نائینی نے اجازہ سے نوازا۔ ’’فانّ الفاضل الخبیر السید محمد صادق حفید حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا السید نجم الحسن قد استجاز منی ووجدتہ اھلاً للاجازہ فاجزتہ‘‘ حررہ محمد حسین النائنی آپ جید الحافظہ، فقیہ، متکلم، ادیب، فلسفی اور بلند پایہ مصنف تھے۔ عربی ادب کے استادکامل تسلیم کئے جاتے تھے حماسہ ، متنبی، دیوان رضی، دیوان ابو تمام کے سینکڑوں اشعار ازبر تھے نھج البلاغہ کی عبارتیں حفظ بغیر دیکھے ان کتابوںکی تدریس فرماتے تھے۔ ۱؎ آپ مدرسہ ناظمیہ میں تشنگان علوم کو سیراب کرتے اور شیعہ عربی کالج میں بھی تدریس فرماتے تھے ہر وقت آپکے گرد طلباء کا ہجوم رہتا تھا۔ اور آپ انتہائی شوق کے ساتھ انکے مسائل حل کرنے میں منہمک رہتے تھے۔ انتہا تو یہ ہیکہ میں نے دیکھا کہ آپ راستہ چلتے طلباء کے دروس کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ آخری عمر میں بصارت سے معذور ہوگئے تھے مگر اسکے باوجود تدریس کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور آپ اسی حالت میں پابندی سے مدرسہ میں درس دیتے رہے۔ مگر جب بہت زیادہ ضعیف ہو گئے تو گھر ہی پر طلباء کو درس دیتے تھے۔ آپکو فقہ اور اصول میں استنباطی صلاحیت حاصل تھی۔ فسخ نکاح مجنون کے سلسلے میں آپنے رسالہ تحریر کیا۔ سرکار مفتی اعظم سید احمد علی طاب ثراہ نے اسے ملاحظہ کرکے اجازہ تحریر فرمایا جسمین آپکی فقہی استنباطی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ ’’اما بعد فانّ السید الحسیب النصیب ذوالشرف الباسق السید محمد صادق حفید علامہ الزمن آیۃ اللہ العظمیٰ مولانا السید نجم الحسن قد استحصل من جامعتنا الشھادۃ النھائیہ وصنف رسائل شتٰی فی السنۃ مختلفہ منھا رسالہ استنباطیہ فی فسخ نکاح المجنون قد قرأت علی وشممت منھا رائحۃ قوۃ الاستنباط والیفتۃ اھلاً للاجازہ فاجزتہ ان یروی عنی کل ما ساغ روایتہ عن مشائخی الکرام واللہ ولی الانعام‘‘ حررّہ السید احمد علی آپکا علمی و ادبی شاہکار ترجمہ قرآن ہے۔ کلام اللہ مترجمہ :۱؎ قرآن مجید کا یہ ترجمہ مجاھد بکڈپو لکھنئو سے ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا۔ خصوصیات ترجمہ : ۱۔ یہ ترجمہ تفسیری مآخذ سے مکمل مطابقت و ہم آہنگی رکھتا ہے۔ ۲۔ ترجمہ کی زبان میں ادبی چاشنی پائی جاتی ہے۔ الفاظ کا استعمال انتہائی احتیاط کے ساتھ کیا گیا ہے جو لفظ جہاں صرف کیا ہے وہ بر محل ہے۔ ۳۔ ترجمہ میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھا گیا ہیکہ مذہبی عقائد و نظریات مثلاً جبر و اختیار عصمت انبیاء و ائمہ، شفاعت، وسیلہ، تقیہ وغیرہ سے ترجمہ مختلف نہ ہونے پائے۔ ۴۔ ترجمہ کے علاوہ جو حاشیہ لکھا گیا ہے وہ عصری مسائل کو پیش نظر رکھکر لکھا گیا ہے۔ ۵۔ حاشیہ کو مختصر تفسیر کہا جا سکتا ہے کیونکہ اسکے مطالعہ سے قاری کو کافی معلومات حاصل ہوتی ہے اور جو شکوک و شبہات ذہن میں ہوتے ہیں انکے شافی جوابات مل جاتے ہیں۔ ۶۔ روایات و احادیث کے منابع کو صریحاً ذکر کیا ہے۔ یہ ترجمہ اپنی صاف ستھری زبان کے تحت بہت مقبول ہوا ۔ علماء کرام نے اسے ادبی شاہکار تسلیم کیا۔ مفتی اعظم سید احمد علی طاب ثراہ: ’’زبدۃ العلماء مولانا سید محمد صادق صاحب ممتاز الافاضل سلمہ کا ادبی شاہکار تاریخی، مذہبی وقار کا آشکار کرنے والا ترجمہ قرآن مجید روشناس خلق ہو رہا ہے۔ ترجمے کی جو زحمتیں ہوتی ہیں اور مشکلیں پڑتی ہیں۔ اسکو مترجم کا دل خوب جانتا ہے یا وہ شخص جو اس وادی میں گامزن ہوتا ہے ۔ جو مقامات میری سماعت میں آئے ہیں انکی صفائی زبان اور ادائے حق ترجمہ کی مثالیں جو میں نے پائی ہیں ان سے میرا دل لذت اندوز ہوا ہے۱؎۔ ‘‘ حجۃ الاسلام مولانا سید خورشید حسن امروہوی امام جمعہ، ’’گیا‘‘ ترجمہ کے سلسلے میں اس طرح رطب اللسان ہیں۔ ’’بلا شبہ یہ ترجمہ تحقیق و تدقیق کا ایک روشن شاہکار ہے۔ اس میں عصمت انبیاء عدل باری تعالیٰ اور جبر و اختیار ایمان ابو طالب اور دیگر کلامی امور کا لحاظ رکھتے ہوئے آیات قرآنی کا جو ترجمہ لکھا گیا ہے اور حواشی پر انکی علمی توجیہ کرتے ہوئے بین الاسلامی اختلافات کی جس خوبصورتی کے ساتھ تحقیق کی گئی ہے اس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا ۔ میری نظر قاصر میں یہ ترجمہ اردو تراجم میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔‘‘ فقط سید خورشید حسن عفی عنہ یکم جنوری ۱۹۶۵ء ایران کے مشہور رسالہ "خیابان" میں اس ترجمہ و تفسیر کے بارے میں شائع ہوا ’’از جملہ تفاسیر جلیلہ کہ در ہندوستان چاپ شدہ تفسیری است کہ آقای سید محمد صادق دامت برکاتہ آل حجۃ الاسلام حضرت نجم العلماء ۔۔۔۔۔۔آن را تحریر فرمودہ از بدائع تحقیقات کہ بافکار فرزندان عصر نو مناسبت نامہ می وارد دامتش بر ساختہ است۲؎‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’مولانا سید محمد صادق (م ۱۴۰۴ھ) استاد ادبیات شیعہ در دانشگاہ عربی، لکھنؤ ترجمہ و حواشی قرآن را باتفسیر عالمانہ و ادبیانہ بہ زبان اردو انجام دادہ است۱؎‘‘ آپکی بلند پایہ شخصیت علمی حلقوں میں معروف تھی آپکو تدریس و تحریر دونوں میں کمال حاصل تھا۔ آپنے ہر موضوع پر لکھا اور خوب لکھا سیکڑوں مضامین رسائل میں شائع ہوئے۔ آپکے دو رسالے ’’نغمۃ الفواد ‘‘اور’’ نشید الاقبال‘‘ دیکھنے سے یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو جاتی ہے کہ عربی نظم کا فارسی نظم میں ترجمہ کرنے کی آپ میں اعلیٰ صلاحیت پائی جاتی تھی۔ دیگر تالیفات :۔ ترجمہ نھج البلاغہ وجود حجت ترجمہ صحیفہ علویہ ہاشمی جواہر پارے حقیقت بداء سبد گل (دیوان اردو) سردار قریش سمط اللئالی (عربی نثر) اسلام ومساوات دیوان (عربی اشعار) گائو کشی اور اسلام مولود حرم شھید کربلا متعہ اور اسلام اتنی اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود آپ شہرت اور ناموری سے دور تھے۔ مزاج میں سادگی بلاکی پائی جاتی تھی۔ تواضع و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وفات : آپ نے ۱۴۰۵ھ؍۲۸مارچ ۱۹۸۴ء کو لکھنئو میں رحلت کی۔ راقم الحروف نے جنازہ میں شرکت کی تھی۔ بڑی تعداد میں علماء و فضلاء کا مجمع تھا۔ تاج العلماء سید محمد زکی طاب ثراہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حسینیہ غفران مآب میں آسودۂ لحد ہوئے۔ ملک محمد شریف (م ۱۴۰۶ھ) مولانا ملک محمد شریف نے ۱۹۱۴ء میں کوٹلہ شاہ رسول بخش، شجاع آباد ضلع ملتان میں وجود ہستی میں قدم رکھا۔ آپ کا خانوادہ سنی المذہب تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں تحصیل علوم دین میں مشغول ہوئے اور جامعہ عباسیہ بہاولپور میں داخلہ لے کر مولانا غلام محمد گھولوی، مولانا اسرار الحق مولانا خیر محمد سے تفسیر جلالین اور مشکوٰۃ المصابیح کا درس لیا۔ ۱۹۳۰ء میں اپنی جستجو اور تلاش کے بعد مذہب شیعہ اختیار کیا اور سلطان المدارس لکھنؤ میں زیر تعلیم رہ کر مولانا الطاف حیدر، مولانا صغیر حسین، مولانا عبدالحسین، مولانا محمد عارف، مولانا ابن حسن نونہروی جیسے جید اساتذہ سے کسب فیض کرکے فقہ و اصول، عقائد و کلام، تفسیر و حدیث میں مہارت حاصل کی۔ ۱۹۳۷ء میں عالم، ۱۹۳۸ء میں فاضل ادب اور ۱۹۴۰ء میں فاضل فقہ کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے دیا۔ مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ وطن واپس تشریف لے گئے اور تبلیغ دین میں مصروف ہوئے اور بڑی تعداد میں لوگوں کو پیرو اہلبیت علیہم السلام بنایا۔ آپ کو فن مناظرہ میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ لہٰذا بہت سے علماء سے مناظرے کئے جس میں فتح و کامرانی ملی۔ دو سال تک پیلی راجن ضلع بھاولپور میں تدریس کی اور ۱۹۴۶ء میں سرکاری مدرس منتخب ہوئے اور ۱۹۸۰ء میں سرکاری ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بڑا شوق تھا۔ وقت کی ضرورت کے پیش نظر کتابیں لکھیں۔ ترجمہ میں بھی اچھی مہارت رکھتے تھے۔ آپ نے عربی فارسی کی اہم کتابوں کے ترجمے کئے اور انھیں اردو قالب میں ڈھالا۱؎۔ آپ کے ترجمہ میں ’’ترجمہ تفسیر فرات کوفی‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ تفسیر دوسری صدی کی اہم تفسیر ہے جسے ابو محمد اسماعیل بن عبدالرحمن کوفی معروف بہ ’’سدی‘‘ (متوفی ۱۲۷ھ) نے تصنیف کیا۔ آپ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی تھے اور آپ کا شمار اجلہ تابعین میں ہوتا تھا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اتقان میں اس تفسیر کے بارے میں تحریر کیا’’اسماعیل سدی نے اپنی تفسیر کی اسناد کو ابن مسعود اور ابن عباس سے نقل کیا ہے اور سابق مفسرین نے سفیان ثوری، شعبہ وغیرہ سے روایت کی ہے۔ تفسیر سدی کامل ترین اور بہترین تفسیروں میں سے ہے۔ آغا بزرگ تہرانی نے بھی الذریعہ میں اس تفسیر کی عظمت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ ترجمہ مکتبۃ الساجد ملتان سے ۱۳۹۸ھ/۱۹۷۸ء منظور پریس سے شائع ہوا جو ۴۳۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ یہ ترجمہ متعدد بار شائع ہو چکا ہے ترجمہ بامحاورہ ہے اور عام فہم ہے جسے مقبولیت عام حاصل ہے۔ دیگر تصانیف و تراجم: ترجمہ خصائص امیرالمومنین نسائی ترجمہ کنوز المعجزات قطب الدین راوندی ترجمہ ینابیع المودۃ شیخ سلیمان قندوزی ترجمہ الامامۃ والسیاسۃ ابن قتیبہ خلاصہ بصائر الدرجات کتاب سلیم بن قیس ہلالی اثبات الوصیہ عیون المعجزات محدث حسین مناقب امیرالمومنین ہاشم بحرانی مناقب آل ابی طالب ابن شہر آشوب ریاض النضرہ محب الدین طبری مخزن کرامات علیؑ ولی۱؎ آپ کی وفات ۱۹۸۶ء میںہوئی اور ملتان میں آسودہ لحد ہوئے۔ فیروز حسین قریشی مولانا فیروز حسین قریشی ہاشمی کا شمار پاکستان کے ارباب علم و ادب میں ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی تفسیر تحریر فرمائی۔ دو پاروں کی تفسیر منظر عام پر آ چکی ہے۔ مجمع البرہان فی تفسیر القرآنـ: جلدا : اس جلد میں پہلے پارہ کی تفسیر ہے مدرسہ امامیہ تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خاں پاکستان سے شائع ہوئی۔ ۲۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ علماء کرام کی گرانقدر تقاریظ مندرج ہیں جن میں مولانا سید ضمیر الحسن رضوی قاضی سعید الرحمن (م۱۹۸۹ئ) مولانا مرزا یوسف حسین (م ۱۹۸۸ئ) مولانا سید محمد عارف (م ۱۹۸۸ئ) مولانا سید محمد حسنین سابقی اور علامہ حسین بخش جاڑا (م ۱۹۹۰ئ) قابل ذکر ہیں۔ جلد دوم: صفرالمظفر ۱۴۰۶ھ میں مدرسہ امامیہ تونسہ شریف سے شائع ہوئی۔ ۲۲۰ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ آغا مہدی ، سید،رضوی(م ۱۴۰۶ھ) پندرہویں صدی کے مایہ ناز مفسر قرآن مولانا آغا مہدی رضوی نے ۱۹ شوال ۱۳۱۶ھ /۲ مارچ ۱۸۹۹ء لکھنؤ کے علمی خانوادہ میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد مولانا سید محمد تقی تھے۔ ابتدائی تعلیمی مراحل گھر پر والد سے طے کئے اس کے بعد دروس نظامی اس وقت کے جید علماء و فضلا سے حاصل کیا اور مدرسۃ الواعظین میں تبلیغی خدمات انجام دیں۔ مختلف شہروں کے دورے کئے۔ آپ کو طالب علمی ہی کے زمانے سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ تاریخ میں گہری مہارت رکھتے تھے۔ عقائد وکلام اور فن مناظرہ میں بھی اچھی استعداد تھی۔ ۱۹۲۶ء میں انجمن خدام عزا لکھنؤ قائم کی جس سے آپ کی تقریباً پچاس کتابیں شائع ہوئیں۔ آپ کی پہلی کتاب ۱۹۲۴ء میں ’’شہداء کربلا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ آپ نے ۱۱۶۲مضامین لکھے جو مختلف رسائل اور جرائد میں شائع ہوئے۔ ۱۶ سال رسالہ الواعظ کے مدیر رہے۔ آپ کی ادارت میں رسالہ نے بہت تر قی کی۔ اور کئی یادگار نمبر شائع کئے۔ ۱۹۶۰ء میں لکھنؤ سے کراچی چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ کراچی میں گرانقدر علمی ادبی و تعمیری خدمات انجام دیں۔ آپ کی تالیفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد ۲۷۹ ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں: ۱ نصرۃ النعیم فی تفسیر بسم اﷲ الرحمن رحیم ۲ الحجۃ البالغہ در تفسیر سورہ فاتحہ ۳ تعلیقات تفسیری رضوی ۴ مانزل فی اہلبیت فی القرآن ۵ تعلیمات قرآن و تفسیر اہلبیت آپ کا شمار ہندوستان کے کثیرالتصانیف علماء میں ہوتا ہے۔ آپ جامع معقول و منقول ، نیک سیرت اعلیٰ کردار پاک باز عالم تھے۔ ضعیفی میں بھی بر وقت خدمت دین کے لیے آمادہ رہتے۔ آپ کا موعظہ دل پذیر ہوتا تھا۔ آپ نے ۷۸۱۹ مجالس کو خطاب کیا۔ آپ نے اصلاح قوم و معاشرہ کا بیڑا اُٹھایا۔ کئی مناظروں میں بھی شرکت کی اور دشمن کو لاجواب کیا۔ دیگر تالیفات: تاریخ شیعہ بررسی بنات سید الکائناتؐ تاریخ لکھنؤ عبائر الانوار (۶جلد) العلیؑ العبدالصالح سوانح حضرت عباس تاریخ سلطان العلمائ(سید محمد) سوانح غفران مآب (سیددلدار علی) تاریخ سیدالعلماء (سید حسین) مرأۃ الانساب (فارسی) ترجمہ نحومیر اسواق الذہب فی المکاتیب والخطب تذکرۃ الحیوان ۱۴۰۶ھ میں کراچی میں رحلت کی اور وہیں آسودۂ لحد ہوئے۱؎۔ مرتضیٰ حسین ،فاضل لکھنوی (م ۱۴۰۷ھ) شہرلکھنؤ کی علمی و ادبی شخصیت فاضل لکھنوی۔ آپ کی ولادت ۱۸؍ذی الحجہ ۱۳۴۱/یکم اگست ۱۹۲۳ء کو محلہ راجہ بازار لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کے والد مولانا سید سردار حسین نقوی عرف قاسم آغا اپنے عہد کے باوقار علمی بزرگ تھے۔گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ عابدیہ کٹرہ ابوتراب خاں میں تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھایا بعدہ سلطان المدارس میں تعلیمی مراحل بڑی ذھانت اور تیز رفتاری سے طے کیے اور مدرسہ کی آخری سند ’’صدرالافاضل‘‘ حاصل کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ کی علمی تشنگی نہیں بجھی اور مدرسہ ناظمیہ میں داخلہ لیا اور جید اساتذہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کر کے مدرسہ ناظمیہ کی آخری سند ’’ممتاز الافاضل ‘‘بھی حاصل کی۔ اس کے علاوہ شیعہ عربی کالج سے عمادالادب ، عمادالکلام، لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب ، پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل، منشی فاضل کے امتحانات پاس کیے۔ دینی تعلیم کے مراحل طے کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ادب، تاریخ و ثقافت پر بھی کام کرتے رہے اور جدید تعلیمی اداروں سے مربوط رہے۔ بہت سے تحقیقی کام انجام دینے کے بعد عراق کا قصد کیا اور نجف اشرف میں حصول علم میں منہمک ہوئے۔ اس عظیم علمی مرکز میں مختصر سے قیام کے باوجود وہاں کے اکابر سے جو علمی مباحثے اور مذاکرے کیے اس کے سبب اکابرین علماء نے آپ کے علمی مقام اور تحقیقی کاوشوں کو سراہا اور اہم علمی سند ’’اجازہ روایت حدیث سے سرفراز کیا جس کی بنا پر ’’شیخ الحدیث‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے ان علماء میں آیۃ اﷲ شہاب الدین مرعشی، آیۃ اﷲ شیخ محمد رضا طبسی، آیۃ اﷲ سید مروج جزائری آقا بزرگ تہرانی، آیۃ اﷲ سید محمد حسن لکھنوی کربلائی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ نے صدر اسلام کے جغرافیائی مسائل و معاملات، سیرت، حدیث، تفسیر اور فقہ کے موضوعات پر اہم تحقیقی کام انجام دینے کی خاطر مختلف ممالک کے سفر کیے۔ عراق، شام، کویت، ایران، امریکہ، بنگلادیش کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں اور وہاں کے کتب خانوں کے دورے کرکے اسلامی و شیعی ثقافت کا احیاء کیا۔ آپ نے مذہب اور ادب کی یکساں طور پر خدمات انجام دیں۔ سماجی اور سیاسی خدمات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا انتہائی خلیق، ملنسار، منکسرالمزاج، غرباء پرور پابند وقت درد دل رکھنے والے عظیم انسان تھے۔ آپ نے زندگی بھر قلم سے جہاد کیا، آپ کے آثار علمی کی تعداد مطبوعہ و غیر مطبوعہ تقریباً ۳۱۰ ہے جو بوستان فاضل میں شائع ہوئی ہے۔ آپ کے تحقیقی مقالات اردو و عربی انسائیکلوپیڈیاز میں شائع ہوئے۔ تفسیر قرآن پر دقیق نظر رکھتے تھے۔ تفسیر قرآن: یہ تفسیر اردو زبان میں ہے جو مجلۂ توحید اردو تہران سے ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴ء سے قسطوں میں مسلسل شائع ہوتی رہی۔ عصری تقاضوں کے پیش نظر لکھی گئی ہے جس میں قرآن کے رہنما اشاروں کو مختصر و سادہ، معنی و مطالب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مشکل الفاظ کی تشریح، آیات سے مربوط واقعات اور علمی تحلیل سے اس تفسیر کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مطبوعہ دیگر آثار علمی: اسرارالصلوٰۃ مطبوعہ لاہور اسلام میں خواتین کا حصہ آخری تاجدارامت اوصاف حدیث، انوارالآیات امام حسین کی تعلیمات تاریخ تدوین حدیث تذکرۂ مجید ترجمہ نھج البلاغہ جھاد حسینی چہل حدیث حسین اور غم حسینؑ حقوق اموات حیات حکیم خطیب قرآن خواتین اور عاشورا رسول اور اہلبیت رسولؐ الحکومت الاسلامیہ سفیر سیدالشہداء صلح امام حسنؑ فضائل علی علیہ السلام الفضل الجلی فی حیا ت محمد قلی متعہ اور قرآن مستند دعائیں نھج البلاغہ کا ادبی مطالعہ صحیفۂ علویہ ہدیہ علویہ ہمارا پیام مثنوی ابرگہربار گلستان حکمت گلد ستۂ افکار مثنویات حالی گلستان ادب کلیات فیضی کلیات غالبؔ کتاب المومن عودھندی شرح غزلیات نظیری سفرنامہ حج و زیارات شرح قصائد عرفی دستوراخلاق دروس القواعد تذکرہ مولانا باقرالعلوم بیت مقالہ قزوینی تاریخ عزاداری تذکرۂ ریاض الفردوس جناح القواعد انیس اور مرثیہ اردو ادب میں شیعوں کا حصہ آیۃ اﷲ خمینی قم سے قم تک اردو قواعد و انشاء احوال آتش اسماء اﷲ تعالیٰ انتخاب ذوق انتخاب ناسخ اصول اسلام اور ہم اسلامی معاشرہ اقبال کی کہانیاں شرح انتخاب قصائد خاقانی تشیع اور رہبری۱؎ وفات: علم و ادب کا آفتاب ۲۷؍ذی الحجہ ۱۴۰۷ھ/۲۳؍اگست ۱۹۸۷ء ، ۹ بجے صبح لاہور میں غروب ہوا اور رہائشی محلہ کے قبرستان شاہ کمال میں آسودۂ لحدہوئے۲؎۔ قائم رضا نسیم، امروہوی (م ۱۴۰۷ھ) آپکی ولادت امروہہ کے علمی و ادبی خانوادے میں ۲۷ ؍رجب ۱۳۲۶ھ ؍ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۸ء دوشنبہ بوقت اذان صبح امروہہ میں ہوئی۔ کمسنی میں والد ماجد جناب برجیس حسین کا سایہ شفقت اُٹھا اسکے بعد دادا فرزدق ھند جواد حسین شمیم امروہوی کا سایہ عاطفت سر سے اٹھا ۔ ایسے حالات میں تعلیم و تربیت صحیح طرح ممکن نہ تھی لیکن قدرت کا انتظام کہ ایک ایسی مہربان ماں کی آغوش ملی جس میں پرورش پاکر آپ نا صرف زیور شرافت و انسانیت سے آراستہ ہوئے بلکہ جذبہ علم دین و ادب بھی پیدا ہوا۔ قرآن اور ابتدائی تعلیم کا آغاز بروزعید غدیر ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۳۲۹، ۲۱ دسمبر ۱۹۱۱ ء کو ہوا پھر آپ علمی مراحل کو خود طے کرتے چلے گئے۔ عربی فارسی بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے منشی کامل، عالم فاضل ادب وفقہ اور نورالمدارس امروہہ کی آخری سند حاصل کی ۔ لکھنئو ، رامپور ، میرٹھ، کراچی، خیرپور میں زیادہ قیام رہا۔ ایک مدت تک نور المدارس امروہہ میں درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اسکے علاوہ مدرسہ باب العلم نوگاواں سادات کے صدر مدرس اور منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں مدرس ، جوبلی انٹر کالج لکھنئو میں عربی کے معلم ، چرچ مشن ہائی اسکول لکھنؤ میں ہیڈ مولوی اور پروفیسر انچارج شعبہ فارسی اورینٹل انٹر کالج رامپور جیسے ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۵؍ مئی ۱۹۵۰ کو پاکستان کی طرف ہجرت کی اور ریاست خیر پور (سندھ) میں قیام کیا۔خیر پور سے سہ روزہ اخبار 'مراد'نکالااور خود ہی اسکی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہ اخبار ۱۹۵۱ ء سے ۱۹۶۱ء تک نصف اردو اور نصف سندھی زبان میں شائع ہوا ۔ اسکے بعد کراچی چلے گئے اور مرکزی حکومت پاکستان کے قائم کردہ "ترقی اردو بورڈ"کراچی سے وابستہ ہو گئے اور اردو زبان کی بسیط لغت کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اس کام کی تکمیل کے بعد حکومت پاکستان کی خواہش پر کلام اقبال کی شرح لکھنے میں مصروف ہو ئے۔ رامپور کے قیام کے دوران نواب رضا علی خاں والئی ریاست رامپور سے بھی بسلسلہ شعر و سخن خاص قرب رہا ۔ مولانا کو شاعری سے خاص شغف تھا بالخصوص صنف مرثیہ پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپکو اردو میں جدید مرثیہ کا بانی کہا جاتا ہے۔ ۳۰۰ کے قریب مرثیے کہے جو لا جواب ہیں۔ آپ پاکیزہ نفس ، نیک باطن، پرخلوص با اخلاق بامروت اور مجسم شرافت تھے۔ آپکی کشادہ پیشانی پر اعلیٰ ظرفی کے آثار اور انکے سینے میں انسانیت نواز دل موجود تھا۔ برابر والوں سے گفتگو میں عالمانہ شان اور چھوٹوں کے ساتھ انکا شفقت و محبت کا انداز منفرد تھا۔ آپکی ذات مذہب و ادب کا حسین سنگم تھی ۔ لکھنے پڑھنے کا شوق فطرت میں رچا بسا تھا۔ قرآن شناسی میں کافی مہارت تھی۔ ۱۔ ترجمہ و حاشیہ تفسیر اصفیٰ : یہ تفسیر ملا فیض کا شانی کی تفسیر صافی کا خلاصہ ہے۔ جسے مولانا نے اردو کے قالب میں ڈھالا ۔ نور المدارس امروہہ سے اسکی اشاعت ہوئی اسکا قلمی نسخہ مولانا اعجاز حسن صاحب امروہوی کے کتبخانہ سے حاصل کرکے اسپر حاشیہ لکھا اور ترجمہ کیا۔ ترجمہ کی زبان صاف ستھری اورشستہ ہے۔ ۲۔ ترجمہ پارہ عم یتساؔء لون : تیسویں پارہ کا اردو اور سندھی زبان میں ترجمہ کیا جو مہربان بک سینٹر خیر پور سے شائع ہوا جسے بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۱؎۔ دیگر تالیفات : ۔ ترجمہ صحیفہ کاملہ (مطبوعہ) ترجمہ توضیح المسائل آقائی خوئی تسبیح فاطمہ (منظوم) مومن آل ابراھیم (منظوم) دعائے فاطمہ (منظوم) فرھنگ اقبال مراثی نسیم ۳ جلد ترجمہ مناسک حج دینیات کی کتاب ۵ حصے مرثیہ جوش رئیس اللغات نسیم اللغات نسیم اردو روح انقلاب (منظوم) اردو ادب برق و باراں (منظوم) نثر اردو قران السعدین نظم اردو تسہیل القواعد (۴ حصے) تاریخ خیر پور رموز غیب مرقع غم الصرف رثائے محسن الحکیم النحو گلزار نسیم (۵ حصے) آپ نے ۱۴۰۷؍۱۹۸۷ میں کراچی میں رحلت کی اور وہیں آسودۂ لحد ہوئے۱؎ علی نقی، نقوی، سیدالعلمائ(م ۱۴۰۸ھ) پندرہویں صدی کے نامور مفسر قرآن سید العلماء سید علی نقی نقوی کی ولادت ۲۶؍رجب ۱۳۲۶ھ/۱۹۰۵ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کا تعلق خانوادہ حضرت غفرانمآب سے تھا جسے ’’خاندان اجتہاد‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد ماجد ممتاز العلماء ابوالحسن صاحب جید عالم دین تھے۔ ۱۳۲۷ھ میں والد ماجد کے ساتھ عراق گئے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں سطحیات کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۳۳۲ھ میں جب آپ کی عمر ۹ سال تھی ہندوستان واپس آئے اور والد ماجد سے استفادہ کرتے رہے اور مولانا سید محمد عرف میرن صاحب سے بھی پڑھتے رہے اس کے بعد آپ نے جامعہ ناظمیہ اور سلطان المدارس کے ایک ساتھ امتحانات دئیے جامعہ ناظمیہ سے ممتاز الافاضل اور سلطان المدارس سے صدرالافاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کئے۔ اس طرح آپ سرکار نجم العلماء مولانا سید نجم الحسن صاحب اور سرکار باقر العلوم سید محمد باقر صاحب کے شاگرد رشید رہے۔ ۱۳۴۵ھ/۱۹۲۷ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے عازم عراق ہوئے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تحصیل علوم میں مشغول ہوئے اور فقہ و اصول میں مہارت حاصل کی آیات عظام نے صریحاً اجتہاد کے اجازے عطا کئے استاد المجتہدین آقای مرزا محمد حسین نائینی تحریرفرماتے ہیں: ’’بلغ مرتبۃ سامیۃ من الاجتہاد مقرونہ بالصلاح والرشاد‘‘ یعنی اجتہاد کے بلند ترین درجہ پر حسن عمل کے جوہر کے ساتھ پہنچ گئے ہیں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے حوزہ علمیہ قم کے بانی آیت اﷲشیخ عبدالکریم یزدی تحریر فرماتے ہیں: ’’صح مارقمہ دامت برکاتہ‘‘ آیت اﷲ شیخ محمد حسین اصفہانی لکھتے ہیں ’’فاز بالمراد و جاز مرتبۃ الاجتہاد‘‘ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ آیت اﷲ سید ابراہیم معروف میرزا آقای شیرازی رقمطراز ہیںـ: ’’صعد زروۃ الاجتہاد مشفوعۃ بالصلاح والسداد ضلیعا بردالفروع الی الاصول و تطبیق الدلیل علی المدلول‘‘ ’’اجتہاد کی بلند چوٹی پر پہنچ گئے جس کے ساتھ حسن کردار کا جوہر بھی موجود ہے اور وہ فروع فقہ کو اصول کی طرف راجع کرنے اور دلیل کو مدلل پر منطبق کرنے میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔‘‘ آیت اﷲ شیخ ضیاء الدین عراقی تحریر فرماتے ہیں ’’جدوا اجتہد الی ان بلغ مراتبۃ و وصل الی مرتبۃ الاجتہاد والاستنباط‘‘ ان کے علاوہ دیگر آیات عظام نے گرانقدر اجازے عنایت فرمائے۱؎۔ آیت اﷲسید محسن امین عاملی، آقای شیخ جواد بلاغی، شیخ محمد حسین کاشف الغطاء اور آقای سید عبدالحسین شرف الدین موسوی جیسے علماء نے آپ کے علم کلام میں مہارت کا لوہا مانا ہے۔ نجف اشرف میں سب سے پہلی جو کتاب لکھی وہ وہابیت کے خلاف تھی جو ’’کشف النقاب عن عقائد عبدالوہاب‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ’’اقالۃ العاشر فی اقامۃ الشعائر‘‘ لکھی جس میں عزاداری امام حسین علیہ السلام کا جواز ثابت کیا۔ تیسری کتاب ’’السیف الماضی علی عقائد الاباضی‘‘ خوارج کی رد میں۔ رمضان ۱۳۵۰ھ میں آپ ہندوستان واپس آئے اور امامیہ مشن قائم کیا جس سے آپ کی کتب شائع ہوئیں۔ ۱۹۳۲ء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ ہوئے اور ستائیس برس تک طلباء کو فیضیاب کرتے رہے۔ ۱۹۵۹ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے آپ کو شیعہ دینیات کے شعبہ میں بحیثیت ریڈر مدعو کیا اور آپ علی گڑھ میںقیام پذیر ہوگئے۔ ۱۹۷۷ء میں لکھنؤ کے کچھ لوگوں نے آپ کے لکھنؤ کے مکان میں آگ لگا دی جس میں ہزاروں کتب نذر آتش ہو گئیں۔ آپ زبردست خطیب بھی تھے مختلف ممالک میںمجالس کو خطاب کیا ۔ آپ کی تقریر و تحریر یکساں تھی مجالس میں علمی، تحقیقی مطالب بیان فرماتے تھے۔ آپ نے یکم شوال ۱۴۰۸ھ/۱۸؍مئی ۱۹۸۸ء کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی اور عقب مسجد تحسین علی خاں نزد حسینیہ جنت مآب آسودہ لحد ہوئے۱؎۔ تفسیر قرآن: یہ تفسیر قرآن سات جلدوں میں کشمیر سے ۱۳۷۵ھ میں اور ادارۂ علمیہ عبدالعزیز روڈ لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ جلد اول ۱۳؍صفر ۱۳۷۵ھ میں مکمل ہوئی۔ یہ تفسیر قرآن مجید کی کامل تفسیر ہے۔ تفسیر میں شان نزول، اسباب نزول کے علاوہ آیت کے مصادیق کی نشاندہی بھی کرائی گئی ہے۔ ہر پارہ میں سورہ کے مشمولات کو بطور خلاصہ پیش کیا ہے۔ حل لغت کے سلسلے میں بھی دقت سے کام لیا ۔ قرآن مجید پر کئے جانے والے قدیم و جدید اعتراضات کے جوابات انتہائی محققانہ انداز میں دئیے ہیں۔ ضعیف اور فرسودہ روایات نقل کرنے سے قطعاً گریز کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید مہمل قصے کہانیوں کی کتاب نہیں۔آپ نے جدید تحقیقات کو آیات قرآنی پر منطبق کرنے سے بھی اجتناب کیا۔ وہ آیات جن کے معانی مختلف جماعتوں کی طرف سے مشکوک کئے جاتے ہیں ان کی مکمل وضاحت کی ہے۔نظم آیات اور ترتیب کلمات کو بھی مدنظر رکھا ہے مجمل مبین عام، خاص، ناسخ منسوخ کا خاص خیال رکھا ہے۔ صفات الٰہی، علم غیب، جبر و اختیار، فلسفہ عبارت قرآنی مثالوں کے اسباب، نسخ اور بدا، بعثت انبیائ، عصمت انبیائ، وسیلہ، مسئلہ خلافت، عصمت ائمہ علیھم السلام جیسے اہم موضوعات پر آیات و احادیث کی روشنی میں استدلال کیا ہے ۔آپ مولانا عبدالماجد دریاآبادی سے بیحد متاثر تھے جابجا ان کے نظریات کو بھی پیش کیا ہے۔ اس تفسیر سے قبل ’’مقدمہ تفسیر‘‘ لکھا جو انتہائی معلوماتی ہے۔ دیگر آثار علمیـ: مذہب کی ضرورت مادیت کا علمی جائزہ مذہب اور عقل اسلامی عقائد لارڈ رسل کے ملحدانہ خیالات کی رد الدین القیم، اسلام کی حکیمانہ زندگی اصول دین و قرآن اسلام اور انسانیت عالمی مشکلات کا حل اصول و ارکان دین اسلام کا پیغام پسماندہ اقوام کے نام نظام تمدن اور اسلام شیعیت کا تعارف مذہب شیعہ ایک نظر میں النجعہ فی اثبات الرجفۃ الرد القرآنیہ علی الکتب المسیحیہ مذہب باب و بھا البیت المعمور فی عمارۃ القبور خلافت و امامت خدا کا ثبوت تذکرہ حفاظ شیعہ ذات و صفات خدا پرستی اور مادیت کی جنگ معراج انسانیت رہنما یان اسلام تاریخ اسلام مطلوب کعبہ مولود کعبہ مقصود کعبہ رہبر کامل ابوالائمہ کی تعلیمات روز غدیر تاجدار کعبہ حدیث حوض سیدہ عالم حضرت علی کی شخصیت علم و اعتقاد کی منزل میں السبطان فی موقفیہما امام حسن مجتبیٰ شہیدانسانیت موجود حجت۱؎ کرار حسین، پروفیسر (م:۱۴۲۰ھ) پاکستان کی معروف علمی شخصیت پروفیسر سید کرار حسین جو شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ کوٹہ جستھان میں ۸؍ستمبر ۱۹۱۱ء کو متولد ہوئے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے منصب سے سبکدوش ہوئے زندگی بھر قلم و قرطاس کی خدمت کرتے رہے۔ مفکر، دانشور، مصنف اور مفسر تھے۔ قرآنیات کا گہرا مطالعہ تھا۔ آپ نے قرآن مجید سے متعلق کئی کتابیں لکھیں۔۷؍نومبر ۱۹۹۹ء کو کراچی میں وفات ہوئی۔ مطالعہ قرآن: تفسیرسورہ والتین، اسلامک کلچر کراچی سے ۱۹۸۷ء میں شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا حصہ ۱۹۸۸ء میں مون پرنٹرز کراچی سے شائع ہوا۔ جدید اسلوب کی حامل فکرانگیز تفسیر ہے۔ قرآن اور زندگی: مختلف موضوعات کو قرآن مجید کے تناظر میں پیش کیا ہے، خراسان اسلاملک ریسرچ سینٹر، کراچی سے ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئی۱؎۔ ظفر حسن، سید،امروہوی (م ۱۴۱۰ھ) ادیب اعظم مولانا سید ظفرحسن، جناب سید دلشاد علی کے فرزند تھے۔۱۳۰۹ھ ؍ ۱۸۹۱ء میں محلہ حقانی امروہہ میں متولد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دارالعلوم سیدالمدارس امروہہ اور امام المدارس میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ کا قصد کیا اور جامعہ ناظمیہ میں زیر تعلیم رہ کر سرکار نجم العلماء سید نجم الحسن، ملک الناطقین سید سبط حسن اور مولانا عالم حسین صاحب سے استفادہ کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ایل۔ سی۔ کا امتحان پاس کیا تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۱۲ء تک تھیور سوفیکل ہائی اسکول کانپور میں سات سال بطور ہیڈ مولوی کام کیا پھر اس کے بعد بحیثیت فارسی لکچرر خدمات انجام دیں۔ آپ ہمیشہ سے شدید المطالعہ تھے۔ عربی، فارسی کے علاوہ انگریزی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔ اسٹرالوجی، زیولوجی، سائیکلوجی وغیرہ مضامین سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ ۱۹۱۴ء میں کانپور میں قیام کے دوران ذاکری کا آغاز کیا’’شمس الواعظین‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ آپ مقبول ذاکر بھی تھے۔ ایک منبر پر ۲۰-۲۰ سال مجالس کو خطاب کیا۔ لاہور میں ۲۶؍سال تک عشرہ مجالس کو خطاب کیا۔ آپ نے امروہہ میں شیعہ آرٹ اسکول قائم کیا جس میں قوم کے بچوں کو صنعت و حرفت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ پارکر کالج مرادآباد میں اردو اور فارسی کی تعلیم دیتے تھے۔ مرادآباد سے علمی و ادبی رسالہ ’’نور‘‘ کا اجراء کیا جو دس سال تک مرادآباد سے شائع ہوتا رہا۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان چلے گئے اور ۱۹۵۳ء میں کراچی میں مدرسۃ الواعظین کی بنیاد رکھی۔ ۲۱۳۲ گز ناظم آباد میں زمین الاٹ کرائی اور انتہائی جانفشانی سے چندہ جمع کرکے چار سال میں عالیشان عمارت تعمیر کرائی جس میں ایک مسجد سہ منزلہ بلڈنگ جو ۱۶؍کمروں پر مشتمل ہے، دو ہال، دو گیلریاں اور تین خوبصورت گیٹ ہیں یہ ادارہ آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ ادیب اعظم کی ساری زندگی تصنیف و تالیف میں گذری۔ آپ کی تالیفات کی تعداد ۲۰۰ سے زائد ہے۔ تفسیر قرآن سے خاص شغف تھا آخری عمر میں آپ نے اہم تفسیر تحریر فرمائی۱؎۔ تفسیرالقرآن: یہ تفسیراردو زبان میں پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ہر جلد میں چھ چھ پاروں کی تفسیر ہے۲؎، پہلی جلد ۱۹۷۷ء میں شمیم بک ڈپو کراچی سے شائع ہوئی۔ جس میں سورہ فاتحہ سے سورۂ مائدہ تک کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ ۴۰۰صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسری جلد ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی جس میں ساتویں پارے سے بارہویں پارہ تک کی تفسیر ہے، ۳۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ تیسری جلد ۱۹۸۱ء میں شمیم بک ڈپو سے شائع ہوئی سورہ یوسف سے سورہ فرقان تک کی تفسیر ۴۰۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح چوتھی اور پانچویں جلدیں بھی اسی ضخامت کے ساتھ شمیم بک ڈپو سے شائع ہوئیں۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’مولاناسید ظفر حسن امروہوی تفسیر قرآن مجید را بہ زبان اردو بہ پنج جلد انجام دادہ است۱؎۔‘‘ خصوصیات تفسیر: تفسیرنہ زیادہ مختصر ہے نہ زیادہ طولانی، نہ تو پڑھنے والے کی طبیعت اکتا جائے اور نہ اتنی مختصر کہ لب شوق چاٹتا رہ جائے۔ ضروری اور اہم مطالب بالاختصار بیان کئے گئے ہیں۔ ایسی روایات کے نقل کرنے سے احتراز کیا ہے جو روایتاً و درایتاً صحیح نہیں ہیں۔ دقیق اور غریب الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا ہے۔ عبارت عام فہم اور سادہ و سلیس ہے۔ صرف لفظی ترجمہ پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ آیات کے مفہوم پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کو بھی حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ قاری کے دل میں کسی طرح کی خلش باقی نہ رہ جائے۔ جدید علوم سے بھی حسب ضرورت استفادہ کیا ہے تاکہ تفسیر عصری تقاضوں کو پورا کر سکے۔ جدید مسائل کا حل بھی تفسیر میں موجود ہے۔ پیچیدہ مباحث اور لاحاصل بحثوں سے اجتناب کیا ہے۔ بھرپور کوشش کی گئی ہے ۔ اس تفسیر کے ذریعہ نوجوانوں کو قرآن فہمی کی دعوت دی جائے۔ آپ نے تفسیر کا آغاز تیسویں شب قدر ماہ رمضان ۱۳۹۵ھ میں کیا یہ تفسیر اپنے اسلوب و نہج کے اعتبار سے دیگر تفاسیر میں اہم مقام رکھتی ہے۔ آپ نے قرآنیات کے موضوع پر متعدد کتب قلمبند کیں جن میں : رموزالقرآن: قرآن کے علمی نکات بیان کئے گئے ہیں۔ ترجمہ قرآن مع حاشیہ: جو ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا۔ قصص القرآن: قرآن میں ذکرشدہ، واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ حقائق القرآن:فضائل اہلبیت علیھم السلام سے متعلق آیات کی تفسیر ۔ مجمع الآیات: مطبوعہ ۱۹۴۴ء قرآن کی انڈکس تحریف قرآن:مطبوعہ ۱۹۵۴ء کراچی اصحاب رسول ۳ جلد ۱۹۱۶ قضایائے امیرالمومنین ۱۹۶۶ء آئینۂ اسلام ۱۹۱۸ئ شیعہ دینیات کورس ۱۹۲۲ء الشہید ۱۹۲۴ئ جنت البقیع ۱۹۲۵ء مناظرہ تقدیر و تدبیر ۱۹۲۹ئ حقیقت روح ۱۹۳۰ء جواز عزا ۱۹۳۹ئ حقیقی اصحاب رسول ۱۹۲۷ء دینی کہانیاں۲جلد ۱۹۳۸ئ تحفۂ الابرارترجمہ جامع الاخبار ۱۹۳۸ء مذہبی مکالمہ ۱۹۳۹ئ سرفروشان ملت ۱۹۳۹ء خواتین اسلام ۱۹۳۹ئ شیعہ دینیات ۲حصے ۱۹۴۰ء مصباح المجالس ۱۹۴۱ئ تحفۃ المومنین ۱۹۴۲ء مجالس خواتین ۱۹۵۲ئ محافل و مجالس ۱۹۵۲ء حقائق اسلام ۱۹۵۲ئ مختار نامہ ۱۹۵۲ء ترجمہ حدیث کسائ ۱۹۵۲ئ حکومت الہیہ و سیاست علویہ ۱۹۵۲ء حیات بعد الموت ۱۹۵۳ئ تحقیق حدیث قرطاس ۱۹۵۴ء تحقیق حدیث فدک ۱۹۴۴ئ تحقیق مسئلہ متعہ تحقیق تقیہ ۱۹۵۴ئ تحقیق مسئلہ خمس ۱۹۵۴ئ جواز مراسم عزا ۱۹۴۱ء قاتلان حسین کا مذہب ۱۹۵۴ئ یزید بن معاویہ ۱۹۵۴ئ عقدام کلثوم ۱۹۵۴ئ تحقیق ایمان ابوطالب ۱۹۵۴ئ تحقیق مسئلہ خلافت تحقیق مسئلہ بیعت یزید ۱۹۵۴ئ تحقیق لفظ آل و اہلبیت ۱۹۵۴ئ اہلبیت و منازل روحانیت ۱۹۵۵ئ سکینہ بنت الحسین ۱۹۵۵ئ واقعات کربلا پر تحقیقی نظر ۱۹۵۵ئ واقعہ کربلا کی مختصرتاریخ ۱۹۵۶ئ اہلبیت کا احسان اسلام پر ۱۹۵۴ئ اہلبیت اور اسلام ۱۹۵۹ئ اخلاق الائمہ ۱۹۵۴ء مجمع الفضائل ترجمہ مناقب شہرآشوب مازندرانی ۱۹۶۳ء الشافی ترجمہ اصول کافی ۵ کلینی ۱۹۶۴ئ۱؎ وفات: علم و ادب کا یہ آفتاب شوال ۱۴۱۰ھ/۸؍مئی ۱۹۸۹ء کو کراچی میں غروب ہوا اور جامعہ امامیہ میں آسودۂ لحد ہوئے۔ صفدر حسین، نجفی (م ۱۴۱۰ھ) پندرہویں صدی کے ممتاز مفسر قرآن مولانا سید صفدر حسین نجفی کی ولادت ۱۳۵۲ھ/ ۱۹۳۳ء میں علی پور ضلع مظفرگڑھ کے نواح میں ہوئی۔ آپ کے والد سید غلام سرور نقوی تھے۔ سات سال کی عمر میں عم معظم مولانا سید محمد بادشاہ نجفی سے کسب علم کیا۔ سطحیات کی تکمیل کے بعد۱۹۵۱ء میں عازم عراق ہوئے اور نجف اشرف میں آیات عظام سے کسب فیض کرکے فقہ، اصول، تفسیر، حدیث میں اعلیٰ مہارت حاصل کی۔ نجف اشرف میں ا ٓیۃ اﷲ ابوالقاسم خوئی، آیۃ اﷲ محسن الحکیم آقای شیخ تقی اور دیگر علماء سے استفادہ کرکے ۱۹۵۶ء میں پاکستان واپس تشریف لائے۔ پاکستان آکر آپ نے جامعۃ المنتظر لاہور میں بطور پرنسپل تدریس کے فرائض سنبھالے اور مدرسہ کی ترقی میں دن و رات مشغول ہوگئے ۔ یہ مدرسہ پاکستان کا مثالی مدرسہ ہے جس میں بڑی تعداد میں تشنگانِ علوم دینی سیراب ہو رہے ہیں۔ آپ نے ۵۶ سال کی عمر میں ہزاروں علماء و فضلاء کی تربیت کی اور سینکڑوں دینی درسگاہیں قائم کیں ۔ آپ کا شمار پاکستان کے صف اول کے علماء اور مبلغین میں ہوتا تھا۔ آپ نے ترویج دین کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ ملک اور بیرون ملک آپ کے ہزاروں شا گرد تحریک اسلامی کے کام کو آگے بڑھانے میں سرگرم ہیں۔ ملت اسلامیہ اور بالخصوص ملت جعفریہ کے درمیان آپ کی ذات گرامی ہمیشہ غیر متنازعہ اور بزرگ عالم دین کی حیثیت سے تسلیم کی جاتی رہی۔ خصوصاً تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام کے دوران آپ نے ملت کے وسیع تر مفاد کے لیے ایک متفقہ پلیٹ فارم کے قیام کے لیے جو کوششیں کیںوہ قومی تاریخ کا حصہ ہیں۔ آپ اپنے زہد و تقویٰ اور فہم و فراست کی بدولت معاشرے کے مختلف طبقات میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا۔ اہم کتابیں تصنیف کیں اور ترجمے کیے۱؎۔ ترجمہ قرآن مع حواشی: ’’یہ ترجمہ سلیس اور رواں اردو زبان میں ہے حاشیہ پر مفید اور جامع مختصر تفسیر لکھی ہوئی ہے۔ طباعت دیدہ زیب ہے لاہور سے اس کی اشاعت ہوئی۲؎۔‘‘ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’سید صفدر حسین ترجمہ و تفسیر قرآن کریم رابہ زبان اردو انجام دادہ است۔۳؎‘‘ ترجمہ تفسیر نمونہ: تفسیرنمونہ(فارسی) اس دور کی اہم تفاسیر میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ تفسیر آیۃ اﷲ العظمٰی ناصرمکارم شیرازای دامت برکاتہ کے زیر نظر تصنیف کی گئی۔ علماء ایران کی ایک جماعت کی علمی کاوش کا نتیجہ ہے جن میں آقای محمد رضا آشتیانی، آقای محمد جعفر امامی، آقای سید حسن شجاعی، آقای سید نوراﷲ طباطبائی، آقای محمود عبدالٰہی، آقای محسن قرائتی، آقای محمد محمدی شامل ہیں۔ یہ تفسیر نہایت جامع اور وسیع موضوعات پر مشتمل ہے قرآن شناسی، اور قرآنی معلومات کے لیے انمول ذخیرہ ہے۔ اس تفسیر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ علماء کی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے اور عوام بھی اس سے خاطر خواہ استفادہ کرتے ہیں۔ آیات قرآنی کی جدید اور عصری علوم کے ذریعہ تشریحات اس تفسیر کا خاصہ ہے جس کے ذریعہ عوام کی دلچسپی برقرار رہتی ہے اور وہ شوق سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ مولانا صفدر حسین نجفی نے فارسی سے اردو زبان میں اس کا ترجمہ کرکے اردو تفاسیر میں ایک اہم علمی اضافہ کیا۔ ترجمہ نہایت سلیس اور رواں ہے۔محسوس ہی نہیں ہوتا یہ ترجمہ ہے یا اردو زبان میں لکھی جانے والی تفسیر۔ ۲۷؍جلدوں میں شائع ہونے والا ترجمہ اس کی پہلی جلد ۱۴۰۴ھ جامعۃ المنتظر لاہور سے شائع ہوئی۔ جس میں سورہ حمد تا سورہ بقرہ کی تفسیر ہے۔ ۴۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جلدیں مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور سے شائع ہوتی رہیں۔ ۲۷ستائیسویں جلد مصباح القرآن ٹرسٹ سے ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی جو ۴۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ کا مل تفسیر قرآن لاہور سے شائع ہوئی۔ آپ کا دوسرا اہم علمی کارنامہ آیۃ اﷲ جعفر سبحانی کی تفسیر موضوعی ’’منشور جاوید‘‘ کو اردو قالب میں ڈھالنا ہے۔ ترجمہ تفسیر منشور جاوید: یہ تفسیرفارسی زبان میں ہے موضوعات سے متعلق آیات قرآنی کی تفسیر بیان کی گئی ہے جس میں توحید، عدل، نبوت، امامت، معاد کے علاوہ دیگر اہم اور جدید موضوعات سے متعلق آیات کی محققانہ تفسیر اور تشریح کی ہے۔ یہ ۷ جلدوں میں مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ اس کی پہلی جلد کی اشاعت ۱۴۱۰ھ میں ہوئی۔ ساتیویں یعنی آخری جلد ۱۴۱۶ھ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی جو ۳۶۶صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تفسیر کی علمی حلقوں میں بہت زیادہ پذیرائی ہوئی اس طرح اردو زبان میں تفصیلی تفسیر موضوعی کا اضافہ ہوا جس سے خاطر خواہ استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ترجمہ استادانہ فن کا مظہر ہے۔ بامحاورہ اردو کا استعمال اور الفاظ کے انتخاب سے ترجمہ میں جامعیت پیدا ہو گئی ہے۔ دیگر آثار علمی: حقوق اور اسلام ترجمہ تذکرۃالخواص سبط بن جوزی ترجمہ حکومت اسلامی امام خمینی ترجمہ توضیح المسائل امام خمینی عرفان المجالس ۲ جلد سعادت الابدیۃ (ترجمہ) شیخ عباس قمی ترجمہ معدن الجواہر شیخ محمد علی کراجکی ترجمہ رسالۃ المواعظ شیخ عباس قمی ترجمہ ارشاد القلوب دیلمی ترجمہ العقائد شیخ مظفر شیعہ دوازدہ امامی، شیخ محمد جواد دین حق از نگاہ عقل ترجمہ چھل حدیث مبادی حکومت اسلامی ترجمہ الارشادشیخ مفید حدود اور تعزیرات فرقۂ یزیدی مناسک حج کتاب زیارات انتخاب تاریخ طبری ترجمہ منتہی الآمال شیخ عباس قمی جہاد اکبر۱؎ ان کے علاوہ سینکڑوں مضامین پاکستان کے رسائل میں شائع ہوئے۔ وفات: ۱۴۱۰ھ/۱۹۸۹ء کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور لاہور میں آسودہ لحدہوئے۔ محمد شفا نجفی(طبع ۱۴۱۰ھ) حجۃ الاسلام مولانا محمد شفا نجفی کاشمار پاکستان کے بزرگ علماء میں ہوتا ہے۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم نجف اشرف میں اس وقت کے جید آیات عظام سے حاصل کرکے فقہ اصول، تفسیر و حدیث میں مہارت حاصل کی۔ وطن واپس آنے کے بعد تبلیغ دین میں مصروف ہو گئے درس و تدریس آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ آپ بلند پایہ استاد ہیں۔ اسلام آباد کی معروف درسگاہ جامعہ اہلبیت میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں آپ کے شاگرد ہیں جو مختلف ممالک میں تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔ آپ نے آیۃ اﷲ العظمیٰ ابوالقاسم خوئی طاب ثراہ کی تفسیر ’’البیان فی تفسیر القرآن‘‘ کو اردو قالب میں ڈھالا۔ یہ تفسیر معانی و مطالب کے اعتبار سے معرکۃ الآرا تفسیر ہے۔ ترجمہ البیان فی تفسیرالقرآن: یہ تفسیر ماہ ربیع الاول ۱۴۱۰؁ھ/اکتوبر ۱۹۸۹ء میں عظمت برادرز پرینٹرز لاہور سے شائع ہوئی جو جامعہ اہلبیت اسلام آباد کی بیسویں پیشکش ہے۔ اس تفسیرکی جامعیت کا اندازہ مؤلف کی علمی جلالت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں جو بھی تفسیر اور علوم قرآن پر قلم اُٹھاتا ہے اس کی کتاب میں اس تفسیر کی کوئی نہ کوئی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ مترجم تحریر : تحریر فرماتے ہیں ’’اس علمی سرمایہ کی جامعیت اور امتیاز کے پیش نظر جامعہ کے پرنسپل حجۃالاسلام شیخ محسن علی نجفی نے یہ زریں تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کرکے جہان اہل تشیع پر عائد الزامات کا جواب دیا جائے وہاں اس ترجمہ کے ذریعہ علم اور اردوداں اہل مطالعہ کی خدمت کی سعادت بھی حاصل کی جائے۔ چنانچہ انھوںنے اس بار گراں کو حقیر کے ناتواں دوش پر رکھ دیا و حملہ الانسان اور آیۃ اﷲ العظمیٰ السید الخوئی کے فرزند ارجمند حجۃ الاسلام والمسلمین سید محمد تقی خوئی سے اس کام کی تائید حاصل کرنے کے بعد اس کتاب کا ترجمہ کا آغاز کیا گیا اور حجۃ الاسلام حاج شیخ محسن علی نجفی کے زیر نظر اصل کتاب سے تطبیق کے بعد قارئین کی خدمت میں اسے پیش کیا جا رہا ہے۱؎۔‘‘ ریاض حسین، قدوسی(طبع ۱۴۱۱ھ) مولانا ریاض حسین قدوسی نے آقای سید محمد ہاشم دستغیب شیرازی کی تفسیر سورہ یٰسین بنام ’’قلب قرآن‘‘ کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ تفسیر ۲۶۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ ولی العصر ٹرسٹ لاہور سے ۱۴۱۱ھ/۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی۱؎۔ محمد یوسف حسین آبادی(طبع ۱۴۱۶ھ) مولانا محمدیوسف حسین آبادی علم و ادب کا وہ معتبر نام ہے جو ایک عرصے سے سکردو بلتستان میں زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۳ء تک کے عرصے میں آپ نے صرف، نحو، فقہ اصول فقہ، تفسیر و حدیث کا درس مختلف اساتذہ سے لیا جن میں حجۃ الاسلام محمد سعید، حجۃ الاسلام شیخ احمد علی ایرانی اساتذہ میں آیۃ اﷲ شاہ آبادی، آقای شیخ جعفر، آقای علی اسلامی کے نام قابل ذکر ہیں۔ آپ کا سب سے اہم کارنامہ بلتی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے کیونکہ ابھی تک اس زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ اس طرح شاید قدرت کو یہ کام آپ ہی کے دست مبارک سے منظور تھا لہٰذا موصوف کو ترجمہ کے سلسلے میں اولیت حاصل ہے جو مذہب کی خدمت کے ساتھ ساتھ زبان کی بھی قدر دانی ہے۔ محترم سید محمد رضوی ڈائریکٹر الہدیٰ ثقافتی سنٹر سکردو، بلتستان تحریر فرماتے ہیں: ’’ممتاز دانشور و ادیب جناب محمدیوسف حسین آبادی نے بلتی زبان میں پہلی بار قرآن مجید کا ترجمہ کرکے لاکھوں بلتی فرزندان توحید پر احسان کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش نہ صرف ترجمہ کے اعتبار سے لائق صد تحسین ہے بلکہ بلتی زبان و ثقافت کے احیاء کی راہ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ زبان کے علاوہ بلتی رسم الخط کے فروغ کے لیے بھی ایک عظیم خدمت ہے۔ انھوںنے فارسی رسم الخط پر خاص علامات لگا کر جدید بلتی رسم الخط متعارف کرایا ہے۔ یہ خود ایک بڑا کارنامہ ہے کیونکہ بعض محققین بلتی زبان کے احیاء کے لیے متروکہ ’’اگے‘‘ رسم الخط کو زندہ کرنے کے لیے در پے ہیں۔ جس کی بادی النظر میں کوئی افادیت نظر نہیں آتی۔ بلتی ترجمہ قرآن کی اشاعت سے اس زبان سے واقف لوگوں میں قرآن فہمی عام ہو جائے گی جس کا اجر یقینا فاضل مترجم کو ملے گا۔۱؎‘‘ یہ ترجمہ ۱۲؍مئی ۱۹۹۲ء میں مکمل ہوا۔ اگست ۱۹۹۳ء تک نظرثانی کی گئی۔ اکتوبر ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا۔ اسلوب ترجمہ نگاری: ترجمہ میں مروجہ بلتی زبان استعمال کی ہے۔ اس سلسلے میں قدامت پسندی اور جدت پسندی کی درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ بلتی زبان کے وہ قدیم الفاظ جو متروک ہو کر عام لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو چکے ہیں ان کے استعمال سے احتراز کیا ہے۔ دیگر زبانوں کے وہ الفاظ جو بلتی میں متبادر ہو کر اس کا حصہ بن چکے ہیں انھیں ترجمے میں استعمال کیا ہے۔ بلتی زبان کے لہجوں میں سکردو کے لہجے کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے جبکہ دیگر وادیوں کے لہجوں کو بھی مختلف مقامات پر جگہ دی گئی ہے۔ ترجمہ کی عبارت کو تحت لفظی کی بے جان سی عبارت کے بجائے عربی الفاظ کی رعایت کے ساتھ بامحاورہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ کلام پاک کی تاثیر قاری کی روح تک پہنچ سکے۔ زبان و بیان کو بالغانہ اور معیاری رکھنے پر خاص توجہ دی ہے۔ جن مقامات پر متن کے عربی الفاظ کو ترجمے میں مجبوراً استعمال کیا ہے وہاں حاشیہ پر اس کے لغوی معنی درج کر دئے گئے ہیں۔ اس طرح اختلافی مقامات پر متبادل ترجمے کو بھی حاشیہ میں متصلاً درج کر دیا ہے۔ بلتی زبان کی تاریخ: بلتی قوم تبتی برمائی نسل سے تعلق رکھتی ہے لیکن مختلف دیگر اقوام من جملہ ترکوں، مغلوں، درودوں اور آریائیوں کے اختلاط کی وجہ سے آج کے بلتی لوگ دوسری تبتی برمائی اقوام سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ یہ زبان بلتستان کے علاقہ کشمیر، لداخ اور پوریک کے علاوہ چینی ترکستان میں اقصای چین کے باشندوں کی زبان ہے نیز تبت، بھوٹان، سکم اور چین کے بعض علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ تقریباً ساڑھے چھ سو سال قبل ایران کے معروف بزرگ میر سید علی ہمدانی کے ہاتھوں یہ خطہ نور اسلام سے روشن ہوا۔ اسلام نے نا صرف بلتیوں کے عقائد و نظریات تبدیل کئے بلکہ ان کی ثقافت اور تہذیب پر بھی گہرے نقوش چھوڑے۔ اسلام اور اس کی آفاقی تعلیمات سے شغف اور محبت کے جذبے بلتی قوم میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ اسی لیے یہ خطہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جس کی سو فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ایم۔ایچ۔ شاکر(طبع ۱۴۱۶ھ) انگریزی ادب میں اعلیٰ استعداد رکھتے تھے آپ کا علمی کارنامہ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ ہے جو مقبول عام ہوا۔ القرآن الحکیم(انگریزی ترجمہ) ایم ایچ شاکر ناشر دارالثقافۃ الاسلامیہ پاکستان ۱۹۹۵ء طبع اول: انصاریان، قم ایران ۱۹۹۲ء ترجمہ علمی و ادبی اور سلیس زبان میں ہے۔ سورہ والعصر کا ترجمہ 1. I swear by time 2. Most surely man is in loss 3. Except those who believe and do good and enjoin on each other and enjoin on each other patience یہ ترجمہ دارالثقافۃ الاسلامیہ، پاکستان کراچی میں راقم کی نظروں سے گذرا۔ قیصر عباس(طبع ۱۴۱۷ھ) آپ کا شمار پاکستان کے ارباب علم و ادب میں ہوتا ہے فن ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں ۔ آپ کا اہم کارنامہ ’’تفسیر پیام قرآن‘‘ جو آیت اﷲ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی کی زیر نگرانی لکھی گئی ہے ۔ فارسی سے اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ یہ تفسیر موضوعی تفسیر ہے جو توحید نبوت، امامت اور معاد جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ ۱۴۱۷ھ میں مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور سے چند جلدوں میں شائع ہوئی۔ طالب جوہری(طبع ۱۴۱۷ھ) علامہ طالب جوہری عالم، فاضل، متکلم، مفسر اور بلند مرتبہ خطیب و ذاکر اہلبیت ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۳۵۸ھ/۳۱؍اگست ۱۹۳۹ء گورکھ پوریو۔پی۔ ہند میں ہوئی وطن حسین گنج ضلع سارن بہار ہے والد ماجد مولانا مصطفی جوہر طاب ثراہ اپنے عہد کے ممتاز خطیب اور بلند پایہ عالم دین تھے۔ ۱۹۴۹ء میں کراچی چلے گئے۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم۔اے۔ کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے عراق روانہ ہوئے اور نجف اشرف میں آیت اﷲ سید ابوالقاسم خوئیؒ ’’آیت اﷲ باقر الصدر‘‘ امام خمینی، جیسے روحانی اساتذہ سے کسب فیض کیا اور فقہ اصول، فلسفہ عقائد و کلام میں مہارت حاصل کی۔ ۱۹۶۵ء میں نجف اشرف سے کراچی واپس آئے اور والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ذکر امام حسین علیہ السلام میں مصروف ہوئے اور ان کے جانشین قرار پائے۔ آپ کی خوبی یہ ہے کہ تقاریر کی مصروفیات کے باوجود تحریر کا دامن نہیں چھوڑا اور قلم و قرطاس کی خدمت میں بحمدﷲ مصروف ہیں تقریر و تحریر کے رنگ میں بھی کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ قرآنیات کا گہرا مطالعہ ہے مجالس میں آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہیں فلسفہ جدید آپ کا دلچسپ موضوع ہے۔ آپ کا علمی کارنامہ تفسیر قرآن مجید ہے۔ تفسیر احسن الحدیث(دو جلد): یہ تفسیر امام بارگاہ باب العلم نشاط کالونی لاہور چھاونی سے ۱۴۱۷ھ/ ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔ نہ زیادہ مفصل ہے نہ زیادہ مختصر حسب ضرورت آیات کی تشریح کی ہے، جدید ادبی پیرائے میں لکھی ہے زبان نہایت شستہ اور سادہ علمی مطالب سے لبریز ہے۔ دقیق موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ مثلاً رحمن ورحیم کا فرق، رحمن عہد قرآن سے پہلے لفظ رحمن کے مقدم کرنے کا سبب، ربوبیت کا عالمی تصور، نظام خلق، تقدیر، تنفس، نظام غذا، اسباب حمد، حدوث مادہ، ذات واجب الوجوب ، جبرو تفویض، اقسام ہدایت، ہدایت فطری، اکتسابی، آیات کا باہمی ارتباط، قرآن کا دعائیہ اسلوب، انجیل اور سورہ حمد کا تقابلی مطالعہ، کائناتی انکشافات، اخبار بالغیب، فرشتوں کی ماموریت، حروف مقطعات کا جائزہ، مقطعات کے ابعاد و جھات جیسے مطالب پر عالمانہ بحث کی ہے۔ عصر حاضر میں قرآن شناسی کے سلسلے میں اہم تفسیر ہے۔ اگر چہ یہ تفسیر مکمل نہیں ہے امید کی جاتی ہے کہ مؤلف محترم تفسیر کو جلد پائے تکمیل تک پہنچا کر علمی دنیا میں نئی تفسیر کا اضافہ فرمائیںگے۔ محمد رضی (م ۱۴۲۰ھ) پندرہویں صدی کے نمایاں مفسر قرآن حجۃ الاسلام سید محمد رضی مجتہد کا تعلق اس خانوادے سے ہے جو برصغیر میں خانوادہ ’’نجم العلمائ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آپ حجۃ الاسلام سید محمد طاب ثراہ کے فرزند اور سرکار نجم العلماء سید نجم الحسن نوراﷲ مرقدہ کے پوتے تھے۔ سرکار نجم العلماء امروہہ سے ہجرت کرکے لکھنؤ چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی اور مدرسہ ناظمیہ قائم کیا۔ مولانا سید محمد رضی کی ولادت ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۳ء میں ہوئی سرکار نجم العلماء کے زیر سایہ تربیت ہوئی گھر کا ماحول خالص مذہبی تھا ہر وقت علمی مباحث زیر غور رہتے تھے۔ لہٰذا بچپن سے شریعت کی باتیں کانوں میں رس گھولتی رہتی تھیں۔ بچپن سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا ابتدائی تعلیم والد ماجد اور خانوادے کے علماء سے حاصل کی درس اعلیٰ کے لیے جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لیا اور مدرسہ کی آخری سند ’’ممتاز الافاضل‘‘ حاصل کی۔ مدرسہ ناظمیہ سے فراغت کے بعد عازم عراق ہوئے اور دیار مرتضویؑ میں مشغول درس و بحث ہوئے۔ نجف اشرف میں قیام کے دور ان درسیات میں آپ نے بہت محنت و جانفشانی کی اور زیادہ وقت بحث و مباحثہ میں گذارکر فقہ، اصول منطق و فلسفہ، تفسیر و حدیث میں اعلیٰ استعداد پیدا کی۔ آپ کی علمی عظمت اور عرفانی جلالت کو دیکھتے ہوئے آیات عظام نے گرانقدر اجازوں سے نوازا آپ ذہین، زکی اور جید الحافظہ تھے کئی زبانوں پر عبور تھا عربی، فارسی ، انگریزی کے اعلیٰ مقرر اور بہترین مترجم تھے۔ انگریزی میں ای۔ایف۔ایف۔آئی لندن سے فرسٹ کلاس سند یافتہ تھے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۹ء تک مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ کے وائس پرنسپل رہے اور تشنگانِ علوم دینیہ کو سیراب کرتے رہے۔ لکھنؤ میں پبلک جونیر اسکول کی بنیاد رکھی۔ مرکزاتحادالاسلام غیر منقسم ہند کے صدر رہے، رابطۂ فکر اسلامی کے ممبر، جمعیۃ العربیہ اور پاکستان کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔ آپ نے بسلسلہ تبلیغ دنیا کے بیشتر ممالک کے دورے کیے ، یورپ ایشیائ، افریقہ کے مختلف ممالک میں پرچم حق بلند کیا۔ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۴ء تک مشرقی افریقہ اور اس کے قریبی جزائر میں بھی بحیثیت مبلغ دورے کیے۔ آپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کا اعزاز حاصل ہوا اور پاکستان کی مقامی کونسل (مجلس شوریٰ کے ممبر) منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۳ء میں اسلامی وفد حکومت پاکستان کی طرف سے بغداد بسلسلہ امن و دوستی گیا تو آپ اس کے اہم رکن تھے۱؎۔ تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا قرآنیات پر گہری نظر تھی۔ درس قرآن حکیم: یہ دروس اس تفسیر قرآن کا مجموعہ ہے جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے اس میں ۲۶۸ دروس ہیں۔ دو جلدوں میں ادارۂ نشر علوم دینیہ کراچی سے ۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی جلد اول دوئم ۹۷۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ترجمہ اور تفسیر کے علاوہ حل لغات، صرفی و نحوی تحلیل کے علاوہ تاریخی و جغرافیائی تحقیقات کو بھی پیش کیا ہے۔ یہ تفسیر چونکہ ریڈیو پر نشر ہوتی تھی اس لیے علمی مطالب کو آسان اور عام فہم زبان میں بیان کیاہے۔ آیات قرآنی کو حل کرنے کے سلسلے میں عقلی و نقلی درس سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ سورہٗ والنجم کی آیت ’’ماضل صاحبکم و ماغویٰ‘‘ میں ’’ضل ‘‘ کے معنی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ضلّ کے معنی گمراہی کے لینا شان رسالت میں توہین ہے۔ ضلّ کے معنی پوشیدہ اور چھپے ہوئے کے ہیں۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم کو پوشیدہ پایا لوگ تم کو جانتے نہیں تھے، تمہارے فضل و شرف سے واقف نہیں تھے تو اس نے تمہاری شخصیت کو پہنچوایا۔ دوسری جگہ ’’واستغفر لذنبک‘‘ کا ظاہری ترجمہ یہ ہے کہ اپنے گناہوں سے استغفار کرو اس کے سلسلے میں آپ فرماتے ہیں اس آیت میں دوسروں کو استغفارکا طریقہ سکھانا مقصود ہے۔ اس طرح بیشتر قرآنی آیات کی علمی تشریح کی گئی ہے جو انتہائی مفید ہے۔ دیگر تالیفات: نجم الافکار(عربی مطبوعہ) حقوق نسواں(اردو مطبوعہ) شہادت کبریٰ (اردو مطبوعہ) وفات: علم و ادب کا یہ آفتاب ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء کو کراچی میں غروب ہوا اور وہیں آسودۂ لحد ہوئے۔ سردار نقوی، امروہوی(م ۱۴۲۱ھ) پروفیسر سید سردار محمد نقوی، جناب انوار محمد نقوی کے فرزند تھے۔ ۲۱؍مارچ ۱۹۴۱ء بروز جمعہ امروہہ میں متولد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ ابھی سن شعور کو پہنچے ہی تھے کہ ملک تقسیم ہو گیا اور ۱۹۴۸ء میں پاکستان چلے گئے۔ اعلیٰ تعلیم کے مراحل طے کرتے ہوئے ۱۹۶۲ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔-ایس۔ سی۔ پاس کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۶۵ء تک اسسٹنٹ ڈائریکٹر جیالوجیکل سروے آف پاکستان ہوئے۔ ۱۹۶۵ء تا ۱۹۷۰ء لیکچرر شعبہ جیالوجی گورنمنٹ کالج کوئٹہ کے عہدہ پر فائز رہے۔ ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۳ء انچارج نیشنلائزیشن سیل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کراچی اور سیکریٹری بورڈ آف انٹر میڈیٹ ایجوکیشن کراچی ۱۹۷۵ء تک رہے۔ ۱۹۹۳ء میں ڈی جے کالج سے پروفیسر کی ذمہ داری نبھاکر سبکدوش ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ جن اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ سندھ پبلک سروس کمیشن، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی، اکیڈمک کونسل شاہ ولایت ایجوکیشنل ٹرسٹ، ڈائرکٹر پبلی کیشنز اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سیکریٹری پاک ایران فرینڈشپ ایسوسی ایشن ، ۱۹۶۳ء سے ۲۰۰۰ء تک مختلف ادبی، مذہبی، تاریخی موضوعات پر کم و بیش ۱۴۰۰ ایڈیواسکرپٹس اردو، انگریزی زبان میں تحریر کئے اور ان تقریروں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں یعنی فرانسیسی، ترکی، ہندی اور سواحلی وغیرہ میں نشر ہوئے۔ ٹیلی ویژن پر متعدد تقریروں کے علاوہ کئی مرثیے بھی نشر ہوئے۱؎۔ آپ کو عصری علوم پر جس طرح مہارت حاصل تھی اسی طرح قرانیات پر بھی گہری نظر تھی۔ آپ نے قرآن مجید کے مختلف سوروں کی علمی، تحقیقی تفسیر تحریر کی جو کئی جلدوں میں ’’مطالعہ قرآن‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ مطالعہ قرآن: تفسیر سورہ فجر ۱۹۸۴ء میں اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ سینٹر کراچی سے شائع ہوئی۔ مطالعہ قرآن: تفسیر سورہ اخلاص ۱۹۸۵ء میں اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ سینٹر کراچی سے شائع ہوئی۔ مطالعہ قرآن: تفسیر سورہ فلق اور سورہ الناس ۱۹۸۵ء میں اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ سینٹر کراچی سے شائع ہوئی۔ مطالعہ قرآن: تفسیر سورہ الکافرون اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ سینٹر کراچی سے طبع ہوئی۔ مطالعہ قرآن: تفسیر یاایتھاالنفس المطمئنۃ ۱۹۸۵ء میں اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ سینٹر کراچی سے طبع ہوئی۔ پروفیسر سردار نقوی کو چونکہ عصری علوم پر اچھی گرفت تھی اس لیے آپ نے تفسیر میں عصری علوم کا بھرپور استعمال کرکے تفسیر کو عصری تفسیر بنا دیا۔ آپ نے آیات قرآنی کے ذیل میں جدید علوم کے قوانین کا برمحل استعمال کرکے نئی نسل میں قرآن شناسی کا ذوق پیدا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ آپ ادیب و شاعر بھی تھے۔ اس لیے زبان میں ادب کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ سخت اور پیچیدہ الفاظ کے استعمال سے گریز کرکے تفسیر کو آسان اور سلیس بنایا ہے۔ دیگر آثار علمی: کربلا شناسی تہذیبوں کا تصادم اور تفاہم مستقبل کی نسلوں کے نام حضرت علی کا پیغام فاطمہ، فاطمہ ہے(ترجمہ) ڈاکٹر علی شریعتی مسلمان عورت اور عصر حاضر ’’ ہنردر انتظار موعود ’’ پرسہ گریہ فرات ( مراثی) چہار زنداں انسان۱؎ ترجمہ از شہر دنیا تا دنیائے شہر ڈاکٹر محمد خاتمی صدر ایران وفات: ۱۰؍ذیقعدہ ۱۴۲۱ھ/۵؍فروری ۲۰۰۱ء بروز پیر بوقت اذان فجر کراچی میں رحلت کی اور قبرستان وادی حسین میں سپرد خاک ہوئے۔ ذیشان حیدر، جوادی(م ۱۴۲۱ھ) پندرہویں صدی کے مشہور مترجم قرآن علامہ ذیشان حیدر جوادی کی ولادت کراری ضلع الہ آباد میں ۲۲ رجب ۱۳۵۷ھ/۱۷؍ستمبر ۱۹۳۸ء میں ہوئی۔ آپ کے والد مولانا سید محمد جواد صاحب عالم باعمل تھے۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرکے لکھنؤ گئے اور معروف درسگاہ جامعہ ناظمیہ میں داخلہ لے کر جید اساتذہ سے کسب علم کیا درجہ قابل تک تحصیل علم کے بعد عازم عراق ہوئے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تقریباً دس سال رہ کر فقہ و اصول حدیث و تفسیر میں مہارت حاصل کی۔ نجف اشرف میں آپ نے آیت اﷲ باقر الصدر آیت اﷲ سید ابوالقاسم الخوئی، آیت اﷲ محسن الحکیم طباطبائی سے کسب فیض کیا آقای باقر الصدر آپ پر بہت زیادہ مہربان تھے۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد ایک عرصے تک مظفرپور (بہار) کی کمرہ جامع مسجد میں پیش نمازی کے فرائض انجام دئیے۔ مضمون نگاری اور تصنیف و تالیف کا جوانی ہی سے شوق تھا۔ آپ کے مضامین اس وقت کے موقر جرائد میں شائع ہوتے تھے۔ الہ آباد میں آپ نے ’’کارخیرکمیٹی‘‘ اور’’ تنظیم خمس و زکوٰۃ‘‘ کا قیام کیا جن کے ذریعہ غریب و مفلس مومنین کی مدد کی جاتی تھی اس کے علاوہ آپ نے ’’مدرسہ انوارالعلوم‘‘ قائم کیا جس میں سینکڑوں طلباء مشغول تحصیل علوم اہلبیت علیھم السلام ہیں۔آپ نے اپنے وطن میں تحریک دینداری چلائی اور لوگوں کو پابند شریعت بنایا۔ آپ کا موعظہ دلپذیر ہوتا تھا زبان میں اثر اتنا تھا کہ موعظہ سے متاثر ہوکر لوگ شریعت پر عمل کرنے کا عہد لے کر اُٹھتے تھے۔ آپ کی مجالس بھی اصلاحی ہوتی تھیں۔ مجالس کے ذریعہ قوم کو اصلاحی پیغام دیتے تھے۔ الہ آباد میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں آپ کا نمایاں حصہ ہے۔ خطیب اعظم مولانا غلام عسکری صاحب مرحوم آپ کی خدمات سے بیحد متاثر ہوئے اور انھیں ادارۂ تنظیم المکاتب سے منسلک ہونے کی دعوت دی جسے آپ نے قبول فرمایا۔ پہلے ممبر بنے پھر نائب صدر اور آخر میں تنظیم المکاتب کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ ادارہ تنظیم المکاتب کی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے اور ادارہ کو بام عروج پر پہنچایا۔ ایک طویل مدت تک ابوظہبی میں خدمات انجام دیں وہاں کے مومنین آپ کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ بڑی تعداد میں ہندو بیرون ہندمنعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے تھے اور ولولہ انگیز تقریر کرتے تھے۔ آپ کی علمی خدمات اور فعالیت سے متاثر ہو کر رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اﷲ خامنہ ای مد ظلہ نے ہندوستان میں مہاراشٹرکے لیے اپنا نمائندہ منتخب فرمایا۔ اس سبب سے آپ ابوظہبی چھوڑ کر ممبئی منتقل ہوئے اور وہاں خدمات کا آغاز کرکے ’’ادارۂ اسلام شناسی‘‘ قائم کیا۔ مگر افسوس کہ آفتاب علم و عمل ۱۰؍محرم ۱۴۲۱ھ/۱۵؍اپریل ۲۰۰۰ء کو ابوظہبی میں غروب ہوا جسد خاکی ہندوستان لایا گیا اور ۱۶؍اپریل کو الہ آباد میں آسودہ لحد ہوئے۱؎۔ آپ کا شمار کثیرالتصانیف علماء میں ہوتاہے آپ کے فرزند مولانا احسان حیدر صاحب قبلہ نے آپ کی تحریر کردہ تصنیف، تالیف اور ترجمہ کی تعداد تین سو سے زائد تحریر کی ہے جن میں سے اکثر نایاب ہو چکی ہیں۔ آپ کا علمی شاہکار ترجمۂ قرآن مجید ہے جس کا منصوبہ آپ نے نجف اشرف کے قیام کے دوران بنایا تھا جو بحمداﷲ پورا ہوا۔ ترجمہ قرآن موسوم بہ انوارالقرآن: یہ ترجمہ ۱۴۰۷ھ/ ۱۹۸۷ء میں کیا جس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ پہلا ایڈیشن تنظیم المکاتب لکھنؤ سے ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا دوسرا ایڈیشن ۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷ء میں انصاریان پبلیکشنز قم ایران سے شائع ہوا جو ۱۲۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ شروع میں رئیس الواعظین مولانا سید کرار حسین صاحب مرحوم کا مضمون ہے جس میں آپ نے تفصیل سے ترجمہ کے محاسن بیان فرمائے ہیں۔ ڈاکٹر پیام اعظمی صاحب کا تحریر کردہ قطعۂ تاریخ ہے۔ اے پیام اس بزم میں ہے شمع بھی تنویر بھی دیکھئے ہے ترجمہ کے ساتھ ہی تفسیر بھی ۱۹۹۰ء ’’کچھ اپنی باتیں‘‘ کے عنوان سے مترجم علیہ الرحمہ نے ترجمہ کرنے کی غرض و غایت بیان فرمائی ہے۔ ’’میں اس سلسلے میں نہ دوسروں کی تنقید کا قائل ہوں نہ تنقیص کا میرے ذہن میں صرف دو ہی باتیں تھیں جن کے تحت یہ کام کرنا چاہتا تھا اور آج بھی انھیں کے پیش نظر خدمت انجام دے رہا ہوں۔‘‘ ۱۔ ایک ایسا ترجمہ مختصر تفسیر کے ساتھ منظر عام پر آجائے جس سے طلاب علوم کو معنی قرآن کے سمجھنے میں سہولت ہو اور وسیع ترین مطالب کے بجائے الفاظ ومعانی قرآن پر توجہ مرکوز رہے۔ ۲۔ ترجمہ وتفسیر کے ذیل میں قدم قدم پر اس مقصد کی طرف توجہ دلائی جائے جس کے لیے قرآن حکیم نازل ہوا ہے اور جواس کی آیات کا واقعی مدعا اور مقصد ہے۔ ‘‘ اس مترجمہ قرآن پر پُر مغز اور تحقیقی حاشیہ مندرج ہے جو فہم آیات اور درک مطالب میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ترجمہ کی زبان سادہ اور سلیس ہے عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ جدید لب و لہجہ کا یہ ترجمہ دیگر تراجم میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ نمونہ ترجمہ سورہ الضحیٰ بنام خدائے رحمن و رحیم ’’قسم ہے ایک پہر چڑھے دن کی (۱) اور قسم ہے رات کی جب وہ چیزوں کی پردہ پوشی کرے (۲) تمہارے پروردگار نے نہ تم کو چھوڑا ہے اور نہ تم سے ناراض ہوا ہے۔ (۳) اور آخرت تمہارے لیے دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ (۴) اور عنقریب تمہارا پروردگار تمہیں اسقدر عطا کرے گا کہ خوش ہو جاؤ (۵)کیا اس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے (۶) اور کیا تم کو گم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا ہے (۷) اور تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا ہے (۸) لہٰذا! تم یتیم پر قہر نہ کرنا (۹) اور سائل کو جھڑک مت دینا (۱۰) اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو برابر بیان کرتے رہنا۔(۱۱)‘‘ حواشی پر مطالب کی تشریح اس حد تک کی گئی ہے کہ مدعائے قرآن کی وضاحت ہوجائے بیجا واقعات نقل کرنے سے گریز کیا گیا ہے اور آیات سے بنی نوع انسانی کی اصلاح کے لیے مطالب اخذ کئے تاکہ انسان عبرت حاصل کر سکے۔ چند آثار علمی: ترجمہ اقتصادنا شہید باقرالصدر فلسفتنا ابو طالب مومن قریش ترجمہ استاد عبداﷲ خنیزی امام صادق ااور مذاہب اربعہ ترجمہ انوار عصمت (خلاصہ کتاب الخصال شیخ صدوقؒ) ترجمہ کتاب معالم المدرستین علامہ مرتضیٰ عسکری خطائے اجتہادی کی کرشمہ سازی نظریہ عدالت صحابہ اصول و فروع حسین منی مجموعہ مجالس محافل و مجالس ۲ جلد مطالعہ قرآن ذکر و فکر عقیدہ و عمل عقیدہ و جہاد مجموعہ احادیث قدسیہ نقوش عصمت انامن الحسین سعید اختر، گوپالپوری(م ۱۴۲۳ھ) سرزمین گوپالپور صوبہ بہار میں یکم رجب المرجب ۱۳۴۵ھ/۵ جنوری ۱۹۲۷ء میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حکیم سید ابوالحسن صاحب تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ء تک جامع العلوم جوادیہ عربی کالج میں زیر تعلیم رہے اور بورڈ سے مولوی، عالم، فاضل کے امتخانات پاس کئے، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہائی اسکول کیا۔ قیام افریقہ کے دوران تنزانیہ گورنمنٹ کا سواحلی زبان کا امتحان نمایاں امتیاز سے پاس کیا۔ دسمبر ۱۹۵۹ء میں تنزانیہ گئے جہاں لنیڈی، عروشیہ، اور دارالسلام جماعتوں میں دسمبر ۱۹۶۹ء تک امام جمعہ و جماعت رہے۔ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۷۸ء تک آپ کی تمام صلاحیتیں اور کوششیں افریقہ میں دین حق کی تبلیغ کے لیے وقف رہیں۔ آپ نے ’’بلال مسلم مشن‘‘ قائم کیا۔ اس مشن کے ذریعہ کینیا اور تنزانیہ میں تبلیغ کا کام شروع ہوا ۔ افریقہ کے مشرقی کنارے پر مقامی افراد مذہب شیعہ اثنا عشری سے روشناس ہوئے۔اور افریقی نژادلوگ شیعہ ہونے لگے۔ ۱۹۶۸ء میں تنزانیہ اور ۱۹۷۰ء میں کینیا میں مشن کو رجسٹرڈ کرایا گیا۔ رفتہ رفتہ رسائل، کتب، اور مراسلت کے ذریعہ مشن کا حلقہ اثراتنا وسیع ہو گیا کہ پولینڈ، گیانا تک ایمان کی روشنی پھیل گئی۔ گیانا میں تو اتنی آبادی ہوگئی کہ ایک ادارہ ’’شیعہ پایونیرایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا۔ مشن کے شعبے مختلف شہروں میں قائم کئے گئے اور اسکول وغیرہ کا قیام عمل میں آیا۔ بڑے پیمانے پر کتب کی اشاعت کی گئی اور دو رسالوں کا اجرا ہوا ایک انگریزی اور دوسرا سواحلی زبان میں۔ تصنیف و تالیف آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں آپ کی کتابوں کے ترجمے شائع ہوئے جن میں انگریزی، فرنچ، اٹالین، جاپانی، تھائی، انڈونیش، نائجیریائی قابل ذکر ہیں۔ ’’ادارہ مجمع جھانی‘‘ ایران سے بڑی تعداد میں آپ کی کتب شائع ہوکر مختلف ممالک میں تقیسم کی گئیں لوگ آپ کی تحریروں کو بہت شوق سے پڑھتے ہیں۱؎۔ ترجمہ تفسیر المیزان: آپ کا سب سے اہم علمی کارنامہ علامہ محمد حسین طباطبائیؒ کی تفسیر ’’تفسیرالمیزان‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ یہ تفسیر فلسفی و کلامی تفسیر ہے۔ جسے محققین نے عالم اسلام کی اہم ترین تفسیر قرآن شمار کیا ہے جو اعلیٰ مطالب اور دقیق مفاہیم پر مشتمل ہے۔ اس تفسیر کو عربی زبان سے انگریزی قالب میں ڈھالنے میں آپنے بھرپور فن اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔ زبان کی روانی اور سلاست سے محسوس ہی نہیں ہوتا یہ ترجمہ ہے یا انگریزی زبان میں لکھی جانے والی مستقل تفسیر ۔ مغربی ممالک یورپ وغیرہ میں یہ تفسیر بہت مقبول ہوئی صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی اس سے استفادہ کرتے ہیںاور اپنے اعتراضات کے جوابات پڑھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں ۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں یہ تفسیرموجود نہ ہو۔ یہ تفسیر تقریباً ۹ جلدوں میں سازمان تبلیغات اسلامی ایران سے شائع ہوئی۔ یورپ میں بھی اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ دیگر آثار: خورشید خاور اتمام حجت کربلا شناسی از واج امام حسین نظام زندگی اشعریت امامت غناکی حرمت۱؎ وفات: ۱۴۲۳ھ/۲۰؍جون ۲۰۰۲ء کو تنزانیہ میں وفات ہوئی۔ محسن علی،شیخ (طبع ۱۴۲۶ھ) حجۃ الاسلام مولانا شیخ محسن علی مد ظلہ العالی کا شمار پندرہویں صدی کے نامور مفسرین قرآن میں ہوتا ہے۔ آپ کی ولادت ۱۳۶۰ھ/۱۹۴۰ء بمقام منتوکہ بلتستان کے علمی و ادبی خانوادے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد مولانا حسین جان (متوفی ۱۳۷۴ھ) سے حاصل کی ان کی وفات کے بعد بلتستان کے نامور عالم دین مولانا سید احمد الموسوی سے تلمذ کیا۔ ۱۳۸۲ھ میںمدرسہ مشارع العلوم حیدرآباد سندھ میں داخلہ لیا اس کے بعد دارلعلوم جعفریہ خوشاب میں مولانا شیخ محمد حسین صاحب سے کسب علم کیا۔ دو سال قیام کے بعد جامعۃ المنتظر لاہور میںزیر تعلیم رہ کر علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم سے استفادہ کیا۔ ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۶ء میں عراق روانہ ہوئے اور نجف اشرف میں آیت اﷲ ابوالقاسم خوئی اور آیت اﷲ شہید باقر الصدر سے فیضیاب ہوئے نجف اشرف میں آٹھ سال قیام کے بعد پاکستان واپس آئے اور اسلام آباد ’’جامعۂ اہلبیت‘‘ کی بنیاد رکھی جہاں ہزاروں کی تعداد میں تشنگان علوم اہلبیتؑ سیراب ہو رہے ہیں۔ یہ درسگاہ پاکستان کی ممتاز درسگاہ ہے۔ ۱۹۷۹ء میںاس درسگاہ سے ’’ماہنامہ الذہرا‘‘ کا اجراء کیا جس میں علمی و تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے۱؎۔ آپ قرآنیات کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں آپ کی علمی یادگار تفسیر قرآن مجید ہے۔ الکوثر فی تفسیر القرآن: یہ تفسیر ادارہ جامعۃ الکوثر اسلام آباد پاکستان سے ۱۴۲۶ھ/۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی۔ جدید لب و لہجہ اور نئے اسلوب کی حامل تفسیر جس میں اولاً ہر سوہ کے شروع میں سورہ کا خلاصہ بیان کیا ہے تاکہ قاری کو پڑھنے سے پہلے سورہ کے مشمولات کا علم ہوجائے۔ اس کے بعد آیات کا سلیس زبان میں ترجمہ بعدہ تفسیر کلمات کے عنوان سے ہر ہر لفظ کی صرفی، نحوی، لغوی وضاحت کی ہے۔ اس کے بعد آیات کی تفسیر مع شان نزول اور اس سے مربوط واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ تیسرے نمبر پر ’’اہم نکات‘‘ کے عنوان تفسیر کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ عصری تقاضوں کے پیش نظر اعتقادی، فقہی، سماجی، سائنسی، تاریخی، اقتصادی اور دیگر اہم موضوعات پر عالمانہ استدلال اور منطقی انداز میں گفتگو کی ہے۔ شرعی دلائل کے علاوہ عقلی، منطقی دلائل سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ مستشرقین کے اعتراضات کے مسکت جوابات دئے ہیں۔ اس تفسیر سے قبل آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا تھا۔ ترجمہ قرآن مجید مع حاشیہ: اس کا پہلا ایڈیشن دارالقرآن جامعہ اہلبیت اسلام آباد پاکستان سے ۱۴۲۱ھ/ دسمبر ۲۰۰۰ء میں اور دوسرا ایڈیشن ۱۴۲۲ھ/مارچ ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا۔ ترجمہ نہایت جامع ہے۔ نمونہ ترجمہ: سورہ تکاثر بنام خدائے رحمن و رحیم ’’ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ تم قبروں کے پاس تک جا پہنچے ہو، ہرگز نہیں عنقریب تمہیں معلو م ہو جائے گا۔ پھر ہر گز نہیں، تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے ہر گز نہیں! کاش تم یقین علم رکھتے۔ تو تم ضرور جہنم کو دیکھ لیتے پھر اسے یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ پھر اس روز تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے۔‘‘ دیگر آثار علمی: النہج السوی فی معنی المولیٰ والولی۔ (عربی زبان میں نجف اشرف سے ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی۔) المعجم المفہرس لتالیف اہل السنۃ فی فضائل اہلبیت محنت کا اسلامی تصور اسلامی فلسفہ اور مارکسزم۱؎ نیاز حسین نقوی (طبع ۱۴۲۶ھ) مولانا سید نیاز حسین صاحب کا شمار پاکستان کے ارباب علم و فن میں ہوتا ہے۔ اعلیٰ علمی استعداد کے حامل ہیں سطحیات کی تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے قم تشریف لے گئے اور وہاں جید اساتذہ سے کسب علم کیا۔ آپ کا اہم کارنامہ تفسیر قرآن ہے۔ انوار الحجۃ فی تفسیر المصحف: یہ تفسیر زیر نظر مولانا سید نیاز حسین نقوی لکھی گئی جسے محققین کی ایک جماعت نے تحریر کیا، موئسسہ امام المنتظرقم ایران سے ۱۴۲۶ھ میں شائع ہوئی۔ محققین حضرات جنھوںنے یہ تفسیری خدمت انجام دی۔ ان میں مولانا سید محمد نقوی، مولانا سید محمد حسن نقوی، مولانا سید علی نقی نقوی، مولانا سید مجتبیٰ حیدر شیرازی، مولانا علی اصغر سیفی، مولانا غلام محمد مجاہدی دامت برکاتھم قابل ذکر ہیں۔ تفسیر جدید لب و لہجہ کی عام فہم سادہ اور سلیس ہے۔ عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر آیات کی تشریح کی گئی ہے۔ اسلوب نگارش: سب سے پہلے سورہ کے مشمولات کو بطور خلاصہ بیان کیا، اس کے بعد سوروں کے اسماء کی وجہ تسمیہ بیان کی ، سورہ کی شان نزول، خصوصیات سورہ، فضائل سورہ کے علاوہ ہر ہر آیت کی لغوی، ادبی، تشریح کی گئی ہے۔ مشکل آیات کی حاشیہ پر وضاحت کی ہے اعتراضات کے شافی جوابات بھی دئیے گئے ہیں۔ تقریباً۱۴قدیم و جدید تفاسیر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ پہلی جلد میں تفصیلی مقدمہ درج ہے جس میں تعارف قرآن، اقسام وحی، اصول تفسیر، ظواہر کتاب، محکم و متشابہ آیات کا تعارف، قرآن مجید میں متشابہات کا فلسفہ، مفسرین کے نظریات، ناسخ و منسوخ کی بحث اور اس کا فلسفہ، مسئلہ تحریف قرآن جیسے موضوعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ حسین سحرؔ، پروفیسر(طبع ۱۴۲۷ھ) آپ علم و ادب کی معروف شخصیت ہیں۔ اردو ادب میں آپ کو خاص مقام حاصل ہے۔ علمی و ادبی کارنامہ قرآن مجید کا ترجمہ ہے جو ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوا۔ فرقان عظیم: اشاعت اول ۲۰۰۶ء ناشر شرکت پرنٹنگ پریس، لاہور سورہ نصر کا ترجمہ (اے پیغمبر) مدد آجائے جب اﷲ کی اورہو جائے حاصل فتح جوق در جوق آ رہے ہیں لوگ سب اﷲ کے دین میں تو اپنے رب کی تسبیح و ثناء کے ساتھ اس سے مغفرت مانگیں یقیناً وہ معافی دینے والا ہے۔ ترجمہ سورہ کوثر (اے پیغمبر) عطا فرمائی ہم نے آپ کو کوثر تو اپنے رب کی خاطر آپ ادا کیجئے نماز اور کیجئے قربانی یقینا آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہوگا مصطفی حسین انصاری (م ۱۴۲۷ھ) ریاست جموں وکشمیرکے مایہ نازعالم دین اور ، مفسر قرآن مولانا مصطفیٰ حسین انصاری کی ولادت ۶ جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ؍۳۱ مارچ ۱۹۴۵ خانقاہ سوختہ نواکدل سرینگر کے ایک معزز علمی و مذھبی خانوادے میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد مولانا حسن علی انصاری خود روحانی و علمی شخصیت کے مالک تھے۔ مولانا مصطفیٰ نے ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجدسے حاصل کی اور انکے محضر میں ہی قرآن، احادیث اور اصول دین سیکھ لئے۔ مروجہ تعلیم مقامی تعلیمی ادارے سے حاصل کی اور گورنمنٹ ہائی اسکول رنگ ٹینگ نواکدل سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مزید اسلامی تعلیم کیلئے لکھنئو گئے جامعہ ناظمیہ میں جیداساتذہ سے کسب علم کیا اور ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔ ۱۹۶۴ء میںعراق کے شہر نجف اشرف چلے گئے جہاں باب مدینۃالعلم کے عرفانی و علمی سایہ میں بزرگ علمائے دین اور اساتذہ سے کسب فیض کرتے رہے اور حوزہ علمیہ میں مراجع عظام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے اپنا منفرد مقام بنایا۔ فقہ، اصول، تفسیر۔ حدیث تاریخ اور فلسفہ سے آراستہ ہوکر روحانی پیشوائی کی صف میں قدم رکھا۔ عراق میں جب حوزہ علمیہ بعثی ظلم وجورکی موج میںآ گیا تو آپ اپنے چند رفقاء کے ساتھ پاکستان چلے گئے اور وہاں تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور لاہور بورڈ سے F.A.کا امتحان بھی پاس کیا۔ عراق میں آپنے آیت اللہ محسن الحکیم آیت اللہ الخوئی آیت اللہ باقر الصدر آقای مدرس افغانی، آقای سید عبدالکریم کشمیری جیسے اساتذہ کے دروس میں شرکت کی۔ پاکستان میں کچھ عرصے قیام کے بعدپھر عراق چلے گئے اور ۱۹۷۱ء میں کشمیرواپس تشریف لائے۔ کشمیر میں قیام کے بعدآپنے شہر شہر قریہ قریہ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا اور تحریر و تقریر کے ذریعہ علوم و معارف اھلبیت کی ترویج میں مشغول ہو گئے۔ آپ شعلہ بیان خطیب بھی تھے۔ سحر انگیز بیان ہوتا تھا ۔ کشمیری اور اردوزبان میں خطابت کرتے تھے۔ آپنے سجاد آباد سرینگر کی جامع مسجد میں تاریخ ساز خطبے دئے اور سوالات کے شافی جوابات بھی دیئے۔ گاوکدل سرینگر کی مسجد میں باطل عقائد کے خلاف آپکا علمی جہاد ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ آپکو تصنیف و تالیف سے خاص شغف تھا۔ تفسیر قرآن اور قرآن شناسی میں مہارت رکھتے تھے۱؎۔ تفسیر کشف الانیق فی شرح قانون العمیق : آپ نے تفسیر نویسی کا آغاز ۱۹۷۷ء میں کیا ۔ آپنے یہ تفسیر کشمیری زبان میں لکھی جو سفینہ پبلشنز سرینگر سے شائع ہوئی ۱۳۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ قر آن پاک کے پہلے پارہ کاکشمیری ترجمہ و تفسیرہے جو سورہ الحمد اورسورہ البقرہ کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ ’’ترجمہ و تفسیر کرنچ کیا ضرورت‘‘ کے عنوان کے تحت تفسیرکی انفرادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’قرانک ست پرن دال‘‘ اورفضائل بسم اللہ کے بعد آیات کی تفسیر و ترجمہ سادہ اور سلیس کشمیری زبان میں کیا ہے۔ دوسری تفسیر اردو زبان میں ہے۔ تفسیر منھاج القرآن : اس تفسیر کی پہلی جلد ۲۰۰۲ء میں سرینگر سے شائع ہوئی جو ۲۹۰ صفحات پر مشتمل ہے دوسری جلد۳۰۵ صفحات پر مشتمل ہے ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی دوسری جلد میں سورہ آل عمران سورہ النساء اور سورہ المائدہ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ تفسیر منھاج القرآن کا اسلوب تحریر ـ۔ سب سے پہلے بہ تناسب موضوع یا طوالت تفسیر آیات قرآنکی خاص تعداد کولکھاگیا ہے۔ آیات کا اردو ترجمہ یا بہ الفاظ دیگر آیات الہٰی سے ماخوذ مطالب کوسادہ اورسلیس زبان مین بیان کیاہے۔ کتب تفاسیر و احادیث کے مطالعہ کے بعد مؤلف نے نہایت تدبروتفکر کے ساتھ آیات کی تفسیر لکھی ہے اور تفسیر میں درج ذیل نکات کا خیال رکھا ہے۔ جہاں ضرورت ہو الفاظ کے معنی مختصر انداز میں پیش کئے ہیں۔ بعض آیات کی شان نزول بیان کی ہے لیکن اس میں مؤلف نے اپنے اسلوب تفسیر کی رعایت کی ہے۔ بعض جگہوں پر آیات کی مناسبت سے تاریخی واقعات قلمبندکئے ہیں۔ کسی کسی جگہ مناسب اور بہ وقت علمی و سائنسی مباحث بھی چھیڑے گئے ہیں۔ روایات کے ذریعہ قرآن فھمی کو قاری کیلئے آسان بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے بعض موضوعات (مثلًا صبر ، توکل، قناعت، شجاعت، جھاد) کو قرآن کی دوسری آیات کے ذریعہ واضح کیا ہے۔ یہ تفسیر ایک علمی اور تحقیقی تفسیر ہے مگر افسوس کہ مکمل نہ ہو سکی تیسری جلد بھی آمادہ تھی لیکن زیور طبع سے آراستہ ہونے سے پہلے ہی مو لانا دارالبقا کی طرف کوچ کر گئے۱؎۔ اپنی اس تفسیرکی خصوصیات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔ ’’میں نے اس تفسیر میں سیدھی اور صاف بات بتانے کی کوشش کی ہے اور اس بات پر معتبر روایات شواہد میں قلمبند بھی کئے ہیں اور جہاں آیات الٰہی کا اشارہ یا مقصد تھا اسکو کھل کے پیش کیا۔ ہر تاریخی واقعہ کو کلام الہی ارشاد رسول اکرم اور اھلبیت عظام کی آراء میں تحریر کیا ہے۔ ‘‘ منابع تفسیری : تفسیرمجمع البیان، تفسیر برھان بحرانی، تفسیر رو ح المعانی آلوسی تفسیر کبیر فخر الدین رازی، تفسیر در منثور، سیوطی ، تفسیر عیاشی ،تفسیر بیضاوی کے علاوہ کتب احادیث و تواریخ کے حوالے موجود ہیں۔ دیگر تالیفات : آفتاب نبوت مطبوعہ ۱۹۷۰ کروٹ انتقام ، قبیلہ ، آخری تبسم گلستان تطھیر کی مہکتی کلیاں سیرت النبی صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم جلوہ طور مردآہن سوانح مولا علیؑ امام غائب بجواب امام غائب مطبوعہ ۱۹۸۱ المیزان اسلام میں حق طلاق نور سے نور تک میرے جگر کا لہو مجرم خیابان رخت سفر وفات: شب جمعہ ۲۸ ربیع الاول ۱۴۲۷ھ؍۲۷ اپریل ۲۰۰۶ء کو اسپتال میں رحلت کی اور سرینگر میں آسودۂ لحد ہوئے۔ امان اﷲکربلائی،قاری(طبع ۱۴۲۷ھ) مولانا قاری امان اﷲ کربلائی کو سندھی زبان میں مہارت حاصل ہے۔ آپ کو قرآن شناسی کا شوق پہلے ہی سے تھا۔ سندھی زبان بولنے والوں پر سندھی زبان میں ترجمہ کرکے احسان عظیم کیا۔ ترجمہ سے آپ کی اعلیٰ استعداد کا اندازہ ہوتا ہے۔ ترجمہ رواں اور سادہ زبان میں ہے۔ یہ ترجمہ مولانا حافظ فرمان علی مرحوم کے اردو ترجمہ سے سندھی قالب میں ڈھالا ہے۔ آپ کی یہ کوشش لائق تحسین ہے۔ القرآن الحکیم سندھی ترجمہ طبع دوم ۲۰۰۶ء صفحات ۸۸۰ ناشر پیر محمد ابراہیم ٹرسٹ یہ نسخہ مکتبۃ العلوم کراچی میں راقم نے دیکھا ہے۔ ابن حسن کربلائی (م ۱۴۲۸ھ) پندرہویں صدی کے ممتاز مفسر قرآن مولانا ابن حسن کربلائی خانوادہ باقرالعلوم کی نمایاں شخصیت تھے۔ مولانا سید محمد باقر آپ کے نانااور مولانا سید محمد ہادی صاحب آپ کے دادا تھے۔مولانا سید ابن حسن کی ولادت ۴؍رمضان ۱۳۴۹ھ/۲۴؍جنوری ۱۹۳۱ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا سید محمد حسن (شہید) کاشمار جید علماء و فضلاء میں ہوتاتھا۔ مولانا سید محمد حسن اپنے بڑے صاحبزادے مولانا سید محمد مہدی صدر الافاضل جو بغرض تکمیل علوم دینیہ عراق گئے تھے ان کے انتقال کی وجہ سے عراق مع اہل و عیال عراق ہجرت کر گئے تھے اور کربلا معلی میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ اس وقت مولانا سید ابن حسن صاحب سندالافاضل کے طالب علم تھے۔ لہٰذا آپ نے عراق کے حوزہ علمیہ میں آیات عظام سے استفادہ کیا اور فقہ، اصول، تفسیر و حدیث میں ملکہ حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ کراچی چلے گئے، خوجہ شیعہ اثنا عشری جامع مسجد کھارا در میں امام جمعہ و جماعت کے فرا ئض انجام دیے آپ کے زہد و تقویٰ علم و اجتہاد، تفقہ و بصیرت، عبادت و ریاضت، سیرت و کردار کے سب قدرداں تھے۔ قومی، سماجی اور دینی امور میں آپ کی رائے فیصلہ کن سمجھی جاتی تھی۔آپ نے ’’جمع بین الصلاتین‘‘ کے اہم موضوع پر اردو زبان میںانتہائی گرانقدرتالیف پیش کرکے مخالفین کے تمام اعتراضات باطل کئے۔ دوسری تالیف ’’انوارالہدایۃ فی معرفۃ الولایۃ‘‘ ہے جو زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔ وفات: آپ نے ۲۸؍شعبان ۱۴۲۸ھ/۱۱؍ستمبر ۲۰۰۷ء سہ شنبہ کراچی میں رحلت کی اوروادیٔ حسین میں دفن ہوئے آپ کی اہم یادگار تفسیر قرآن ہے۔ تفسیرمنہج البیان فی تفسیرالقرآن: یہ تفسیر عربی زبان میں ہے اس کی پہلی جلد کراچی پاکستان سے ۱۹۸۶ئ/۱۴۰۶ھ میں شائع ہوئی جو ۵۲۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس جلد کے آغاز میں تفصیلی مقدمہ درج ہے جس میں عظمت قرآن، تنزیل قرآن، ترتیل قرآن، قرأت قرآن، تدوین قرآن، اعجاز قرآن ناسخ و منسوخ جیسے موضوعات پر استدلالی بحث کی گئی ہے۔ یہ تفسیر سورہ الحمد اور سورہ البقرہ کی عام فہم اور آسان زبان میں ہے۔ ابتداء تفسیر: ’’الحمدﷲ المتعال بجلال قدسہ عن مجانسۃ المخلوقات المتنزہ بکمال ذاتہ عن مشابیھہ المصنوعات المتقدس بکبریاء عظمتہ عن مماثلتہ الممکنات المتفضل علی عبادہ بار سال الرسل بالآیات البینات۔۔۔۔۔ الخ‘‘ اس تفسیر کی نگارش میں تقریباً بیس کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ جن میں تفسیر مجمع البیان، التبیان، تفسیرعیاشی، تفسیر قرطبی، تفسیر قمی، تفسیرالبرہان، تفسیر صافی، کتاب التوحید، معانی الاخبار، عیون الاخبارالرضا، علل الشرائع قابل ذکر ہیں۔ تفسیر علمی و ادبی ہونے کے علاوہ تاریخی حیثیت کی بھی حامل ہے۔ اس تفسیر کی بر صغیر ہندو پاکستان میں ہی پذیرائی نہیں ہوئی بلکہ عراق، ایران ، شام، لبنان اور دیگر عرب ممالک کے اہل علم اور صاحبان فکر و نظر نے بھی نہایت گرانقدر الفاظ میں اس تفسیر کی توصیف کی۔ مگر افسوس کہ مولانا کے مسلسل مرض و علالت کے سبب یہ تفسیر مکمل نہ ہو سکی یہاں تک کہ آپنے وفات پا ئی۔یہ کتاب کتب خانہ سلطان المدارس لکھنؤ میں محفوظ ہے۔ محمد، محسن (م ۱۴۲۹ھ) پندرہویں صدی کے نامور مترجم قرآن مولانا سید محمد محسن کی ولادت ۱۹۲۲ء کو اس عظیم خانوادے میں ہوئی جسے ’’خانوادۂ نجم العلمائ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کے دادا سرکار نجم الملت مولانا سید نجم الحسن طاب ثراہ امروہہ سے ہجرت کرکے لکھنؤ چلے گئے تھے۔ جنھیں بر صغیر ہند میں مرجعیت حاصل تھی۔ آپ کے فتاویٰ برصغیر میں رائج تھے۔ آپ جامعہ ناظمیہ لکھنؤ کے سربراہ تھے۔ سرکار نجم العلماء کے دونوں فرزند مجتہد تھے۔ مولانا سید محمد مجتہد دوسرے مولانا سید محمد کاظم مجتہد۔ مولانا سید محمد کاظم کے دو فرزند ہوئے مولانا سید محمد صادق مترجم قرآن دوسرے مولانا سید محمد محسن آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر خاندان کے علماء سے حاصل کی پھر جامعہ ناظمیہ میں سرکار نجم العلماء کے زیر نگرانی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا سرکار نجم العلماء آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی نگاہ رکھتے تھے۔ آپ نے جامعہ ناظمیہ میں مولانا سید خورشید حسن امروہوی، حافظ کفایت حسین، مولانا ایوب حسین سرسوی، مولانا سید محمد رضی، مولانا سید محمد ہاشم، مولانا سید محمد صادق طاب ثراہم سے کسب فیض کرکے مدرسہ کی آخری سند ’’ممتازالافاضل‘‘ حاصل کی۔ سرکار مفتی اعظم سید احمد علی صاحب نے اجازہ سے سرفراز فرمایا۔ تعلیمی فراغت کے بعد تبلیغی سفر کا آغاز کیا مختلف شہروں میں رہ کر خدمت دین انجام دی۔ا یک طویل عرصے تک بصراوی مسجد کلکتہ میں امام جمعہ و جماعت رہے۔ کچھ عرصے دارالعلوم سید المدارس امروہہ میں بحیثیت پرنسپل خدمت انجام دی ۔ آخری عمر میں لکھنؤ ہی میں رہے اور شیعہ کالج میں طلباء کو اسلامیات کی تعلیم دینے لگے۔ تدریسی مشاغل کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی مصروف رہے۔ آپ کا علمی و ادبی شاہکار منظوم ترجمہ قرآن ہے۔ منظوم ترجمہ قرآن:۔ یہ ترجمہ نظامی پریس لکھنؤ سے ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا۔ ترجمہ کا آغاز ۲۵مارچ ۱۹۸۴ء میں کیا اور ۲۴ جون ۱۹۸۶ء کو یہ ترجمہ پائے تکمیل کو پہنچا۔ جس میں بیس ہزار اشعار ہیں۔ اس ترجمہ کو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پسند کیا گیا اور ارباب علم و ادب نے اپنی گرانقدر آرا سے نوازا۔ گورنر بنگال پروفیسر سید نورالحسن صاحب نے تحریر کیا: ’’جناب سید محمد محسن صاحب قبلہ نے کلام پاک کا اردو نظم میں ترجمہ فرماکر اردو والوں کی بڑی خدمت انجام دی ہے۔ اردو نثر میں بہت سے ترجمے اب تک ہو چکے ہیں اور عوام کو مستفید کر رہے ہیں لیکن یہ منظوم ترجمہ ہے جو دل پر ایک خاص اثر قائم کرتا ہے جس سے کلام مجید کی اہمیت ان لوگوں کی نظروں میں بھی پوری طرح ابھر آتی ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ میں اردو والوں کی طرف سے مولانا کا شکرگذار ہوں کہ انھوںنے یہ نعمت ہم تک پہنچائی۱؎۔ ‘‘ جناب سید سبط رضی صاحب سابق وزیر تعلیم اترپریش رقمطراز ہیں: ’’قرآن پاک کا سلیس اردو زبان مین نثری ترجمہ بذات خود ایک کار نمایاں ہے لیکن منظوم ترجمہ اپنی تمام دشواریوں کے پیش نظر ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ آپ نے اس کارنامہ کو جس سعی بلیغ کے ساتھ سرانجام دیا وہ تاریخ ساز اور لائق تحسین و آفرین ہے۔‘‘ نمونہ: منظوم ترجمہ سورہ طارق بنام خدا کرتے ہیں ابتداء ترس اور رحم کھاتا ہے جو سدا بلا شبہ اس آسمان کی قسم نکلتا جو اس سے ہے اس کی قسم نکلتا ہے کیا تم سمجھتے ہو کیا ہے روشن ستارا نکلتا سدا کوئی شخص ایسا نہیں بر ملا حفاظت کا اس پر ملک اک سدا تو انسان اس پر تو ڈالے نظر کہ کس شے سے پیدا ہوا سر بسر اچھلتے ہوئے پانی سے لا کلام اور اس بات میں بھی نہیں شک کا نام جو پیٹھ اور سینہ کی بھی ہڈیاں انھیں سے نکلتا ہے وہ بے گماں تو وہ رب کہ جس نے کہ پیدا کیا تمہیں ایسے نطفہ سے ہے برملا وہ کر سکتا پیدا ہے بار دگر ہے قادر کہ دے دے حیات دگر وہ دن ہوگا باتیں چھپی سب تمام وہ ظاہر سبھی کر دی جائیںگی عام تو منکر کو اس حشر کے لا کلام خود ہی علم ہو جائے گا بس تمام نہیں رکھتا طاقت کہ ٹالے عذاب یہ ممکن نہیں رفع کر دے عذاب وہ ناصر نہ پائے گا اپنا کوئی مدد کر دے اس کی نہ ہوگا کوئی تو اس آسماں کی ہے بیشک قسم ہے بارش ہمیں ہوتی جس سے بہم اس طور پر اس زمیں کی قسم جو ارزاق کرتی ہے ہم کو بہم جو دانوں کے روئیدہ ہونے کے وقت ہے پھٹتی وہ کتنی ہی ہوتی ہو سخت کہ قرآن اس میں نہیں ہے کلام یہ ہے فیصلہ کرنے والا مدام یہ حق اور باطل ہے اس میں ضرور اور اس بات کو تم سمجھنا نہ دور مٹانے کو کفار حق کے یہ سب ہیں بھر پور کوشاں جو شاہ عرب ادھر میں سزا کا بھی ان کی نظام بنائے ہوئے ہوں جدا لا کلام بنی چھوڑو کفار کو ان کے حال اسی پر رکھو جو بھی ان کا ہے حال زیادہ نہیں رہنے دو تھوڑے روز رہیں وہ اسی حال پر بس ہنوز مولانا نے ترجمہ میں سادہ اور سلیس زبان استعمال کی ہے دیگر آثارعلمی: آپ نے رسالہ ’’مجاہد‘‘ کا اجراء کیا جو ۱۹۳۹ء سے ۱۹۶۹ء تک جاری رہا اس کے علاوہ کتاب ’’تاریخ معصومین‘‘ ، حالات جناب مختار، ترجمۂ دعائے کمیل (منظوم) وفات: آپ نے ۳؍صفرالمظفر ۱۴۲۹ھ/۱۱ فروری ۲۰۰۸ء بروز دوشنبہ رحلت کی اور حسینیہ غفرانمآب میں دفن ہوئے۔ مسرور حسن، مبارکپوری(۱۴۳۰ھ) مولانا مسرور حسن مرحوم پندرہویں صدی ہجری کے نمایاں مفسرین قرآن میں سے تھے۔ آپ کی ولادت ۱۳۶۵ھ/یکم اپریل ۱۹۴۵ء کو مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں ہوئی۔ والد ماجد حکیم عبدالمجید مشہور حکیم تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی اس کے بعد جوادیہ عربی کالج بنارس میں زیر تعلیم رہے۔ بنارس میں کچھ عرصہ قیام کے بعد لکھنؤ روانہ ہوئے اور سلطان المدارس میں مولانا سید محمد صاحب، مولانا الطاف حیدر صاحب، مولانا سید علی صاحب وغیرہ سے استفادہ کرکے صدرالافاضل کی سند حاصل کی۔ بعدہٗ مدرسۃ الواعظین میں نادرۃ الزمن مولانا ابن حسن نونہروی سے فیضیاب ہوئے اور مختلف شہروں کے تبلیغی دورے کئے۔ اس کے بعد حوزہ علمیہ قم ایران میں مصروف تحصیل ہوئے۔ ۱۹۸۳ء میں سازمان تبلیغات سے منسلک ہوئے اور افریقہ وغیرہ تبلیغ کے لیے گئے۔ ایک طویل عرصے سے مارشس میں امام جمعہ و جماعت تھے۔تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا ذاکری و خطابت بھی کرتے تھے۔ کامٹی ناگپور مجلس پڑھنے گئے تھے وہیں قلبی دورہ پڑا اور ۱۴۳۰ھ/ دسمبر ۲۰۰۹ء میں جان بحق ہوئے میت وطن لائی گئی اور وطن ہی میں آسودۂ لحد ہوئے۱؎۔ مجیدالبیان فی تفسیر القرآن: آپ نے تفصیلی تفسیر لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر افسوس کہ اس کی پہلی ہی جلد منظر عام پر آ سکی جس میں صرف ’’بسم اﷲالرحمن الرحیم‘‘ کی تفسیر ہے۔ محرم ۱۴۳۰ھ/ جنوری ۲۰۰۹ء میں فخرالاطباء اکیڈمی بیت المجید مبارکپور سے شائع ہوئی۔ ۶۲۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس جلد کی تاریخ تکمیل ۱۴؍شوال ۱۴۲۹ھ/۱۴ اکتوبر ۲۰۰۸ چہار شنبہ قم مقدسہ ایران ہے۔ مقدمہ حجۃ الاسلام مولانا نثار احمد صاحب زین پوری نے لکھا ۔ اس تفسیر میں سترہ فصلیں ہیں پہلی فصل اصول تفسیر اور تفسیر قرآن کی نزاکت دوسری فصل قرآن سے متعلق بعض امورکی وضاحت تیسری فصل بسم اﷲ پر ہر دور میں لکھنے کی مختلف جہت چوتھی فصل بسم اﷲ سر آغاز خلقت و حقیقت محمدیت پانچویں فصل بسم اﷲ تمام آسمانی کتابوں کی زینت چھٹی فصل بسم اﷲ اور زمانہ جاہلیت ساتویں فصل بسم اﷲ کی عظمت آٹھویں فصل زبان معصومین سے بسم اﷲ کی فضیلت نویں فصل ہر کام میں بسم اﷲکی اہمیت دسویں فصل ترک بسم اﷲ کی ممانعت گیارہویں فصل بزم خاصان خدا میں بسم اﷲ کی کرامت بارہویں فصل تاثیر بسم اﷲ کی حکایت تیرہویں فصل بسم اﷲ جزو ہر سورہ چودہویں فصل بسم اﷲ کی بآواز بلند قرأت پندرہویں فصل نقطۂ بسم اﷲ کی حقیقت سولہویں فصل افادات علماء ملت سترہویں فصل بسم اﷲ کے بارے میں اقوال علماء اہل سنت دیگر آثار علمی: امام منتظرؑ مطبوعہ تلخیص ار جح المطالب اسلامی انقلاب اور اقوام عالم کا مستقبل فلسفہ اخلاق امام جعفر صادق رئیس مذہب شیعہ تحفۂ سجادیہ (ادعیہ) تحفۂ مجیدیہ (ادعیہ و زیارات) زیارت قبور مومنین قرآن مکرم اور ہم برکات رحمانیہ فی شرح خطبہ شعبانیہ (زیر طبع) خطابات و خطبات ج ۱ (زیر طبع) یادداشت و شخصیات (غیر مطبوعہ) ہندوستان میں عزاداری کی تاریخ (غیر مطبوعہ) قلم اپنا (مضامین) (غیر مطبوعہ) مبارکپور کے شیعہ علماء و زعمائ (غیر مطبوعہ)۱؎ محمد شاکر نقوی، امروہوی الدرالفاخر البحرالذاخر مولانا سید محمد شاکر دام ظلہ العالی کی ولادت ۲؍ذی الحجہ ۱۳۴۷ھ/۱۲ مئی ۱۹۲۹ء کو سرزمین امروہہ پر ہوئی۔ آپ کے والد حاجی سید احمد صاحب مرحوم ریاست اکبرپور ضلع سیتاپور میں کورٹ آف آرٹ تھے۔ ۱۹۳۴ء میں سیدالملت مولانا سید محمد امروہوی نے رسم بسم اﷲ ادا کرائی۔اس کے بعد محلہ حقانی کے پرائمری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ دینی تعلیم کا آغاز دارالعلوم سید المدارس امروہہ سے کیا جہاں مولانا ڈاکٹر سید محمد حبیب الثقلین، مولانا سید صابر حسین، سید الملت مولانا سید محمد ، مولانا فخرالحسن، منشی مشتاق حسین جیسے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ۱۹۴۵ء میں تکمیل درس کے لیے لکھنؤ تشریف لے گئے جامعہ ناظمیہ میںداخلہ لیا اور اس طرح درجہ مولوی الف سے تحصیل علم کا سلسلہ شروع کیا۔ قوانین الاصول کا درس مولانا محمد مہدی زنگی پوری، فلسفہ و منطق مولانا کاظم حسین فقہ و اصول سرکار مفتی احمد علی، شرح باب حادی عشر مولانا خورشید حسن امروہوی، ادبیات کا درس مولانا سید رسول احمد گوپالپوری سے لیا ۔ اور مولانا ایوب حسین، مولانا محمد ہاشم صاحب سے بھرپور استفادہ کیا۔ مدرسہ کی آخری سند ممتازالافاضل امتیازی نمبرات کے ساتھ حاصل کی۔ سید العلماء مولانا سید علی نقی نقوی سے گھر پر رسائل کا خصوصی درس لیا۔ آپ کی علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے ۱۹۵۱ء میں جبکہ آپ زیر تعلیم تھے مدرسہ میں مدرس رکھے گئے۔ سرکار مفتی اعظم احمد علی صاحب مدرسہ کے پرنسپل تھے۔ مفتی صاحب کو آپ سے بیحد محبت تھی۔ پدرانہ شفقت فرماتے تھے۔ ماہ مبارک رمضان میں مفتی صاحب اپنی مسجد میںبعد نماز ظہر موعظہ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا بھی آپ کے موعظہ میں شرکت کے لیے گئے مفتی صاحب کی نگاہ جب آپ پر پڑی تو منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر آئے کہ اس موعظہ کو میرا شاگرد مکمل کرے گا۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی سب حیرت زدہ رہ گئے آج مفتی صاحب قبلہ یہ کیا فرما رہے ہیں۔ سارا مجمع مولانا کی طرف دیکھنے لگا آپ نے مفتی صاحب سے بہت اصرار کیا کہ حضور میں کہاں آپ کے موعظہ کو مکمل کر سکتا ہوں مگر استاد محترم کا حکم تھا اگر چہ یہ آپ کا سخت امتحان تھا مگر مفتی صاحب کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے موعظہ کہنا شروع کیا۔ آپ نے اسی نہج و اسلوب پر موعظہ کہا جس اسلوب پر بیان جاری تھا۔ سامعین نے داد و تحسین سے نوازا اور آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا اقرار کیا۔ مدرسہ کے نظم وضبط کے سلسلے میں سرکار مفتی اعظم آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے جب بھی مفتی صاحب لکھنؤ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو آپ ہی مدرسہ کی نگرانی فرماتے تھے۔ ۱۹۶۸ء میں مفتی صاحب کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوا۔ اس کے بعد امیرالعلماء مولانا سید حمیدالحسن صاحب مدرسہ کے پرنسپل منتخب ہوئے۔ آپ کی نگرانی میں مدرسہ نے ارتقائی سفر طے کیا اور مولانا بھی آپ کے ہمراہ مدرسہ کی ترقی میں کوشاں رہے۔ آپ نے مکمل طور پر اپنی ذات والا صفات کو مدرسہ کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ہر وقت مدرسہ کی ترقی اور تعلیمی معیار کی بلندی طلباء میں اخلاقی و تہذیبی قدروں کے تحفظ کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ آپ کا انداز تدریس بھی منفرد ہے فلسفی مباحث کو مثالوں کے ذریعہ اتنا آسان کر دیتے ہیں کہ طلباء کے لیے وہ درس سہل ہو جاتا ہے۔ آپ فلسفہ و منطق کے تدریس کے علاوہ علم ہیئت میں بھی عبور رکھتے ہیں۔ اس علم کی معروف کتاب ’تصریح‘‘ کا درس آپ ہی کے ذمہ ہے۔ علم ہئیت کے اصول و قوانین کو طلباء کے ذہنوں پر اس طرح نقش کردیتے ہیں کہ وہ آسانی سے سمت قبلہ دریافت کر لیتے ہیں۔ راقم کو بھی آپ سے تلمذ حاصل ہے۔ آپ کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ مدرسہ کے علاوہ گھر پر بھی بڑی تعداد میں طلباء درس لینے آتے ہیں جن میں دیگر مدارس کے طلباء بھی شامل ہوتے ہیں۔ آپ درسیات کے علاوہ طلباء کو تزکیہ نفس اور تہذیب نفس کے علاوہ شئون روحانیت کے تحفظ کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ طبیعت میں بلا کی سادگی پائی جاتی ہے نام و نمود سے دور گوشۂ مدرسہ میں مصروف تبلیغ رہتے ہیں۔مومنین کی حاجت روائی اور ان کی مدد کرنا محبوب مشغلہ ہے۔ کثیر تعداد میں آپ کے شاگرد دنیا میں تبلیغ دین میں مشغول ہیں۔ تصنیف و تالیف کا شوق عہد شباب سے تھا۔ پہلا مضمون ۸؍جولائی ۱۹۵۵ء میں پردے کے موضوع پر ’’پیام اسلام‘‘ میں شائع ہوا جسے بہت پسند کیا گیا بالخصوص سید العلماء مولانا سید علی نقی مرحوم نے اس کی بہت زیادہ تعریف کی۔ اس کے بعد سے مسلسل مضامین ہندوستان کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ عربی و فارسی کے مسلّم ادیب ہیں جس کا ثبوت آپ کا عربی و فارسی کلام ہے۔ منطق و فلسفہ کے علاوہ تفسیر قرآن پر بھی آپ کی دقیق نظر ہے۔ تفسیر کلینی: یہ تفسیر ۱۴۳۰ھ/۲۰۰۹ء میں عربی زبان میں تحریر فرمائی جو ابھی زیر طبع ہے۔ اس تفسیر کا اسلوب منفرد ہے۔ ثقۃ الاسلام شیخ محمد بن یعقوب کلینی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’الکافی‘‘ میں احادیث کے ذیل میں جو آیات قرآنی مستعمل ہوئی ہیں ان کی تفسیر روایات کے ذریعہ کی ہے۔ جس میں چھ سو سے زائد آیات شامل ہیں۔ ابتدائ: ’’الحمدﷲ الذی کان وحدہ ولم یکن دونہ نعلم نفسہ بنفسہ ولم یکن متنفس سواہ۔۔۔۔ اما بعد فہذا و کیف اقول ماہذا و کیف ادعی انہ کافی یکفی و کیف اجتری للتہدیۃ الی حضور الثقلین المتروکتین و عینای تنظر المقنطرات من التفاسیر و التراجم حولہما لدونہما حاجبات لظہورہما لا یمکن زیارت و جہہما نا طقاً او صامتاً ‘‘ اس تفسیر کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہو تا ہے کہ جب اس تفسیر کا بعض حصہ حوزہ علمیہ قم کے استاد بزرگوار حضرت آیۃ اﷲ احمدعابدی نے ملاحظہ فرمایا تو آپ نے فوراً مولانا کو انتہائی احترام و عقیدت کے ساتھ خط لکھا جس میں اس تفسیر کو قم روانہ کرنے اور اسے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم سماحۃ سیدی و مولای الجلیل الاجل الاستاد آیۃ اﷲ السید محمد شاکر دامت برکاتہ وجودہ الشریف سلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ منکم الدعا ’’امّا بعد، بخشی از تفسیر شما بدست من رسید تفسیری ابتکاری و شریف و عالمانہ بود کہ صمیمانہ تشکر و امتنان دارم و مشتاق ہستم ہر چہ زود ترکل تفسیر را ارسال بفرمائید تا بندہ انشاء اﷲ آن را درقم در آستانہ مقدسہ حضرت معصومہ سلام اﷲ علیھا بہ طبع برسانم استدعا دارم احمد عابدی قم ایران دیگر آثار علمی: (۱) آپ کی معرکۃ الاراء تصنیف ’’الظفرہ علی الطفرہ‘‘ ہے۔ علماء ایران و ہند نے قدردانی کی اور داد و تحسین سے نوازا۔ (۲) الحکمۃ البالغہ فی شرح الشمس البازغۃ (عربی، قلمی) (۳) توضیح الرسائل: ترجمہ رسائل شیخ مرتضیٰ انصاری (بحث قطع و ظن) (۴) ترجمہ تصریح (ہیئت) (۵) ترجمہ حمداﷲ (۶) ترجمہ صدرا (۷) ترجمہ شرح تجرید (۸) خدمات جامعہ ناظمیہ (۹) حیات سرکار مفتی اعظم (۱۰) حیدری نصاب (۱۱) جعفر تواب (۱۲) تاریخ ہزبری (۱۳) کتاب موسیٰ( رد اسما عیلیہ) خداوند قدس آپ کے سایہ مبارک کو قائم و دائم رکھے۔ (آمین) جعفر حسین استرزئی محترم سید جعفر حسین استرزی پشتو زبان کے ارباب علم و ادب میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپ کو قرآن مجید کے مطالعہ کا بڑاشوق ہے۔ آپ کا علمی و ادبی کارنامہ قرآن مجید کا پشتو زبان میں منظوم ترجمہ ہے۔ ترجمہ آپ نے پشاور پاکستان میں کیا جسے اہل علم و ادب نے پسند کیا۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ : ’’مترجم آن دانشمند محترم سید جعفر حسین استرزئی از پژوہشگران شیعہ در عصر معاصراست۔ این ترجمہ بہ صورت منظوم و بہ لغت پشتو درپیشاور پاکستان انجام پذیر فتہ است۲؎۔‘‘ مولانا مرتضیٰ حسین فاضلؔ : ’’سید جعفر صاحب استرزئی پایاں ضلع کو ہاٹ نے پشتو میں ترجمہ نظم کیا یہ ترجمہ پشاور پاکستان سے چھپ چکا ہے۳؎۔‘‘ شمیم الحسن آپ اردو زبان کے ارباب علم و ادب میں ممتاز ہیں۔ اردو ادب پر عبور حاصل ہے۔ آپ کا علمی و ادبی کارنامہ قرآن مجید کا منظوم ترجمہ ہے۔ منظوم ترجمہ قرآن مجید:۱؎ یہ ترجمہ مکمل پاکستان سے شائع ہو چکا ہے۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ ــ: ’’مترجم آن دانشمندان محترم شمیم الحسن کہ از پیروان امامیہ درہندوستان می باشد قرآن را بہ زبان اردوبہ صورت منظوم ترجمہ نمودہ است۲؎۔‘‘ محمدزکی، سید آپ نے قرآن مجید کے بیس سوروں کا ترجمہ کیا جو بغیر متن عربی کے زرین آرٹ پریس لاہور سے شائع ہوا تقریباً ۹۶ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ محمد اسحاق نجفی مولاناشیخ محمد اسحاق نجفی نے آیۂ نجوی کی تفسیر لکھی جس کا نام ’’تحقیق آیۃ نجوی‘‘ ہے۔ جس میں سورہ مجادلہ کی ۱۳آیت کی تفسیر بیان کی ہے۔ یہ کتاب کراچی سے شائع ہوئی۱؎۔ محمد فضل حق آپ نے سورہ الحمد کی تفسیر لکھی جو ’’البیان‘‘ کے نام سے معروف ہے، معلوماتی تفسیر ہے۔ جامعہ تعلیمات اسلامی کراچی سے شائع ہوئی۔ ۱۷۶ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ آپ کی دوسری تالیف ’’حکایات القرآن‘‘ ہے جس میں قرآن مجید کی روشنی میں حالات انبیاء علیھم السلام لکھیں ہیں۔ جامعہ تعلیمات اسلامی کراچی سے شائع ہوئی۔ ۵۲۸ صفحات پر مشتمل ہے۲؎۔ شاکر حسین، موسوی نجفی مولانا سید شاکر حسین موسوی صاحب نے قرآن پاک کا بلتستانی زبان میں ترجمہ کیا جو نہایت سلیس اور روان ہے۱؎۔ محمداحسن زیدی ڈاکٹر آف ریلجنز اینڈ سائنس آپ عصری علوم بالخصوص سائنس میں مہارت رکھتے ہیں۔ قرآنیات سے خاص شغف ہے۔ مطالعہ قرآن محبوب مشغلہ ہے۔ آپ نے ملازمت کی ذمہ داری کے باوجود قرآن مجید کا سلیس زبان میں ترجمہ کیا۔ ترجمہ عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر کیا ہے۔ زبان نہایت شستہ اور سادہ ہے۔ تعبیر القرآن، کے عنوان سے جناب سید محمد عسکری عابدی نوگانوی نے شائع کیا ہے۔ جو تقریباً ۱۰۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ملنے کا پتہ: C/85سادات کالونی ڈرگ روڈ کراچی سورہ الفیل کا ترجمہ: ’’اے نبی کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے پروردگار نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کیا اﷲ نے ہاتھی والوں کی چال اور مکر کو بیکار و بے نتیجہ نہیں کر دیا تھا۔ اور ان پر حملہ کے لیے ابابیل پرندوں کو مسلط ہو جانے کے لیے بھیجا گیا تھا اور وہ ابابیل پرندے ہاتھیوں والوں پر مٹی کے ڈھیلے برسا رہے تھے۔ انھیں ایسی ماردی گئی کہ جگالی کے لیے تیار کئے ہوئے بھوسے کی مانند ہو گئے۔ عرض ناشر میں سید محمد عسکری عابدی نے ترجمہ کی اشاعت کی اہمیت بیان کی ہے۔ دیباچہ سید برکت حسین رضوی کا ہے جس میں ترجمہ کی خصوصیات اور انفرادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ نسخہ مکتبۃ العلوم کراچی میں راقم نے دیکھا ۔ طیب آقا، جزائری، لکھنوی آیت اﷲ مفتی طیب آقا جزائری کی ولادت ۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ء کو لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد مفتی محمد علی صاحب اور دادا مفتی محمد عباس شوشتری تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔پھر جامعہ ناظمیہ میں زیر تعلیم رہ کر جامعہ کے جید اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ عربی فارسی بورڈ سے مولوی، عالم، فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کئے۔ تکمیل دروس کے بعداعلیٰ تعلیم کے لیے عراق روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ نجف اشرف میں گیارہ سال تحصیل کرکے فقہ، اصول، عقائد و کلام میں ملکہ حاصل کیا۔ نجف میں قیام ہی کے دوران آپ نے نماز جمعہ کے سلسلہ میں کتاب لکھی ’’ لمعہ ساطعہ ‘‘جو بہت مشہور ہوئی۔نجف سے کراچی واپس آئے اور درس و تدریس میں مشغول ہوئے اس کے بعد لاہور میں امام جمعہ منتخب ہوئے ’’ادارہ علوم آل محمد‘‘ قائم کیا۔ کچھ عرصہ قیام کے بعد ایران چلے گئے ۔آج کل قم مقدسہ میں مقیم ہیں۔ آپ کی تالیفات کی بڑی تعداد ہے۱؎۔ التعلیقات علی تفسیر القمی: آپ نے علامہ علی بن ابراہیم ’’قمی کی تفسیر جو’’ تفسیر قمی‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس پر حاشیہ لکھا یہ تفسیر حاشیہ کے ساتھ قم مقدسہ ایران سے کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ حاشیہ علمی اور تحقیقی ہے۲؎۔ محمد حسن رضوی، امروہوی پندرہویں صدی کے نامور مفسر قرآن ڈاکٹر مولانا محمد حسن رضوی کی ولادت ۲۰؍صفر۱۳۵۶ھ/۱۹۳۷ء میں ہوئی۔ والد ماجد مولانا سید انیس الحسنین مرحوم بلندپایہ عالم دین تھے۔ رضوی صاحب نے سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے ادبیات عربی و فارسی میں بی اے کیا۔ ساتھ ہی ساتھ مدرسہ مشارع العلوم حیدرآبادسے دینی تعلیم حاصل کی پھر جامعہ عربیہ پاکستان سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مشہد مقدس ایران میں رہ کر آقای فلسفی، آقای شریعتی اصفہانی، آقای مرزا مہدی پویا، سے استفادہ کیا اور اس سے قبل پاکستان میں علامہ رشید ترابی خطیب اعظم سید محمد دہلوی، علامہ سید محمد رضی امروہوی، مولانا ابن حسن جارچوی اور مولانا ثمرحسن امروہوی سے کسب علم کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد فیض عام کالج کراچی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلامک ریسرچ سینٹر میں بحیثیت ریسرچ اسکالر ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائرکٹر تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ آپ محقق، مصنف ہونے کے علاوہ بین الاقوامی ذاکر و خطیب بھی ہیں۔ ماہ محرم میں ۳۰ سال امریکہ میں مجالس کو خطاب کیا۔ آسٹریلیا، افریقہ، لندن میں بھی مجلسیں پڑھیں۱؎۔ قرأنیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ آپ کا علمی کارنامہ تفسیر قرآن ہے۔ ترجمہ قرآن: آپ نے قرآن مجید کا علیحدہ ترجمہ کیا جس کے حاشیہ پر آیات قرآنی ہیں اور جلی حروف میں ترجمہ لکھا ہوا ہے تاکہ اردوداں طبقہ آسانی سے قرآن کا ترجمہ سمجھ سکے۔ یہ ترجمہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی سے ۱۴۱۴ھ میں شائع ہو۱؎ا۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’عالم بارع آقای محمد حسن رضوی یکی از اعلام قرآنی امامیہ در قرن پانزدہم می باشد او ترجمہ و تفسیر را در سی جزء بہ صورت رحلی بہ زبان اردو انجام دادہ است۲؎۔‘‘ خلاصۃ التفاسیر: ۳۰جلدوں میں یہ تفسیر پاک محرم ایجوکیشن ٹرسٹ کراچی سے شائع ہوئی ۔ خصوصیات: تفسیر میں تمام اہم مکاتب فکر کی نمائندہ تفاسیر کا آسان اور واضح اردو زبان میں خلاصہ کیا ہے۔ تفسیر اھلبیت علیھم السلام کو اولین مقام دیا ہے۔ پیچیدہ اور دقیق مباحث سے احتراز کیا۔ جستہ جستہ اشعار عربی اور ادبی امثال کو خاص جگہ دی تاکہ دلچسپی برقرار رہے۔ جدید علوم سے کافی استفادہ کیا گیا ہے اور حوالے دیئے گئے ہیں۔ خاص طور پر تفسیر کبیر فخرالدین رازی، تفسیر مجمع البیان طبرسی، تفسیر روح البیان، تفسیر انوارالنجف، تفسیر کشاف، تفسیر بیضاوی، تفسیر قرطبی، تفسیر المیزان، تفسیر نمونہ، لسان العرب، مفردات راغب لغات القرآن، احکام القرآن سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ زبان و بیان صاف اور سلجھا ہوا ہے۔ دیگر آثار علمی: روح قرآن قرآن مجید کے ۱۰۰ موضوعات کی تفسیر انتخاب اصول کافی اصول کافی انگریزی ترجمہ انتخاب علل الشرائع انتخاب خصال شیخ صدوق انتخاب ثواب الاعمال تعارف عقائد شیعہ انتخاب از ترجمہ صواعق محرقہ اصول دین اثبات و معرفت خدا انتخاب معانی الاخبار روح و موت کی حقیقت انتخاب مفاتیح الجنان ریڈیو، ٹیلی ویژن پر اکثر آپ کے علمی مذاکرات بھی نشر ہوتے رہتے ہیں۔ بشیر حسین، نجفی فقیہ اھلبیت مرجع عالیقدر آیۃ اﷲ بشیر حسین کی ولادت جالندھر پنجاب کے علمی اور مذہبی خانوادہ میں ہوئی آپ کے والد ماجد صادق علی ایک دیندار انسان تھے۔ آپ کے چچا مولانا محمد ابراہیم اور مولانا خادم حسین اپنے زمانے کے بلند مرتبہ علماء میں سے تھے۔ آیۃ اﷲ بشیر حسین نے ابتدائی تعلیم انھیں دو بزرگوں سے حاصل کی ۱۹۴۷ء میں آپ کے خانوادے نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اور باتاپور نواح لاہور میں سکونت اختیار کی۔ باتاپور میں اس وقت بہت کم شیعہ تھے مگر آپ کے خانوادہ کی برکت سے اس قصبہ میں شیعوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ آپ کے بزرگوں نے معارف اہلبیت کی ترویج کی اور لوگوں کو پیروے اہلبیت علیھم السلام بنایا۔ آیۃ اﷲ بشیر نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۶۱ء میں جامعۃ المنتظر لاہور میں داخلہ لیا اور وہاں ۱۹۶۵ء تک تحصیل علوم میں مصروف رہ کر شیخ الجامعہ مولانا شیخ اختر عباس نجفی سے استفادہ کرتے رہے۔ اس کے بعد عازم عراق ہوئے اور نجف اشرف میں مصروف درس و بحث ہوئے۔ آیۃ اﷲ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی کے درس خارج میں شرکت کر کے فقہ و اصول میں اعلیٰ مہارت حاصل کی۔ آقای شیخ راستی شیخ مرزا کاظم تبریری، آقا سید محمد روحانی جیسے جید روحانی علماء سے کسب فیض کیا۔ نجف اشرف کی روحانی اور علمی فضا میں علوم اہلبیت کی تحصیل کے ذریعہ تزکیہ نفس علم و عرفان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوئے۔ آپ کو عقائد و کلام، فلسفہ و ادیبات میں مکمل عبور حاصل ہے۔ آپ کی فقہی آرا کو فقہاء احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کا قیام نجف اشرف میں ہے اور حوزہ علمیہ نجف کے زعیم حوزہ ہیں آقای خوئی کی وفات کے بعد آپ ہی حوزہ کی سر پرستی فرمارہے ہیں۔ یہ سرزمین ہند کو شرف حاصل ہے کہ ایک ہندوستانی عالم و فقیہٖ حوزہ کا زعیم ہے۔ جنوری ۲۰۰۹ء میں جب حقیر حج و زیارات کے لیے گیا تو نجف اشرف میں آپ سے ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا۔ موصوف نے حقیر کو خصوصی وقت دیا اور ہندوستان کے حالات اور دینی مدارس کے بارے میں دریافت کیا۔ جس سے ایسا محسوس ہوا کہ آپ رہتے نجف اشرف میں ہیں مگر دل ہندوستان میں رہتا ہے۔ آپ نے مجھے حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بارے میں بتایا اور آئندہ کے منصوبوں کی بھی جانکاری دی۔ آپ نے حوزہ کو حیات نو بخشی۔ طلباء کے قیام و طعام کا معقول انتظام فرمایا۔ جدید ہاسٹل قائم کئے اور کتب خانوں کی بنیاد رکھی۔ آپ کا سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ صدام کے زمانے میں اس کے مظالم برداشت کرتے رہے مگر آپ نے نجف اشرف نہیں چھوڑا اگر چہ بہت سے کرم فرما لوگوں نے رائے دی کہ آپ نجف چھوڑ کر کسی اور ملک چلے جائیں مگر آپ نے فرمایا اگر ہم ہی حوزہ چھوڑ کر چلے گئے تو پھر اس حوزہ کا کیا ہوگا جوہمارے اسلاف کی یادگار ہے اور شیعیت کی اساس ہے۔ آپ نے انتہائی ہمت و جرأت کے ساتھ صدامی مظالم کا سامنا کیا اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ وہیں مقیم رہے۔ آج آپ کی محنت رنگ لائی بحمداﷲ حوزہ علمیہ نجف پھر اپنی اصل حالت پر پلٹ آیا ہر طرف طلباء نظر آتے ہیں۔ روضہ اور مساجد میں سابقہ کی طرح درس و بحث کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ہر طرف علمی سرگرمیاں نظر آ رہی ہیں علماء درس و تدریس میں مصروف ہیں تحقیق اور علمی کام انتہائی تیزی سے انجام دئے جا رہے ہیں۔ یہ تمام حالات دیکھ کر دل بہت خوش ہوا یہ سب آپ ہی کی حسن تدبیر اور قربانی کا ثمرہ ہے۔ آپ کا شمار نجف اشرف کے بزرگ مراجع میں ہوتا ہے۔ آپ کے مقلدین دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ مجدد حوزہ ہیں۔ آپ کا وجود مسعود نعمت مترقبہ ہے خداوند عالم آپ کو حفظ و امان میں رکھے۔ تفسیر آیات الاحکام:آپ کی تفسیری خدمات میں تفسیر آیات الاحکام ہے جس میں فقہی احکام سے متعلق آیات قرآنی کی تفسیر بیان کی ہے جو نجف اشرف ۱؎سے شائع ہوئی۔ دیگر تالیفات حاشیہ مکاسب شیخ مرتضیٰ انصاری شرح کفایۃ الاصول شرح مقدمہ قوانین الاصول حاشیہ بر منظومہ (فلسفہ) کتاب الاصول (اصول فقہ) حاشیہ بر شرح تجرید قواعدفقہی حاشیہ شرح حادی عشر آپ کا درس خارج نجف اشر ف میں جاری ہے جس میں بڑی تعداد میں طلباء شرکت کرتے ہیں۔ رضی جعفر نقوی حجۃ الاسلام مولانا سید رضی جعفر صاحب کا تعلق کھجوا ضلع سارن صوبہ بہار سے ہے۔ آپ کی ولادت ۲۲؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کھجوا میں ہوئی۔ والد ماجد مولانا سید علی حیدر اعلیٰ اﷲ مقامہ اپنے عہد کے جید اور کثیرالتصانیف عالم تھے۔ آپ نے قرآن مجید اور ابتدائی دینی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی اس کے بعد بارہ سال کی عمر میں سلطان المدارس لکھنؤ میں داخلہ لیا اور ۱۹۶۲ء میں سندالافاضل کی سند حاصل کی۔ اس کے علاوہ عربی و فارسی بورڈ سے مولوی اور عالم کے امتحانات پاس کیے۔ ۱۹۶۵ء میں پاکستان چلے گئے اور جامعہ امامیہ مدرسۃ الواعظین کراچی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ’’ممتاز الواعظین‘‘ کی سند حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے فاضل عربی کیا۔ اس کے بعد قم ایران تشریف لے گئے۔ آقای اعتمادی مرحوم سے رسائل و مکاسب کا درس لیا اور وہاں سے عازم عراق ہوئے نجف اشرف میں جید علماء و فضلاء کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کیا۔ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۵ تک عراق میں مشغول درس و بحث رہے آیۃ اﷲ محسن الحکیم، آیۃ اﷲ خوئی، امام خمینی، آقای عبدالاعلیٰ سبزواری، آقای باقرالصدر ،آقای جواد تبریزی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ نجف اشرف سے واپسی کے بعد جامعہ امامیہ میں مشغول تدریس ہوئے اور طلاب علوم دینیہ کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے۔ آپ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ پاکستان میں ’’تنظیم المکاتب‘‘ آپ ہی کی سرپرستی میں رواں دواں ہے تقریباً ایک ہزار مدارس کی نگرانی فرما رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خطیب و مقرر بھی ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں مجالس کو خطاب کیا۔ اس کے علاوہ آپ پختہ کار صاحب قلم ہیں۔ بڑی تعداد میں تخلیقات منظر عام پر آ چکی ہیں۔ قرآنیات پر گہری نظر ہے۔ قرآن و تفسیر قرآن کے دروس بھی دئے ہیں جو بیحد مقبول ہوئے۱؎۔ آپ کا علمی شاہکار ترجمہ قرآن ہے جو بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔ راقم نے یہ ترجمہ ماہنامہ اصلاح لکھنؤ کے دفتر میںدیکھا جس کی کتابت مکمل ہو چکی ہے۔ پروف ریڈنگ کا کام جاری ہے۔ ترجمہ قرآن: یہ ترجمہ سلیس اور معنی خیز ہے علمی مطالب کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ حاشیہ پر ضروری وضاحت انتہائی محققانہ انداز میں کی گئی ہے اور ان تمام شکوک و شبہات کو دور کیا گیا ہے جو اکثر ذہن انسانی میں جنم لیتے رہتے ہیں۔ ثقیل الفاظ کی تشریح اور حل لغات کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ہر مطلب کو مع حوالہ نقل کیا ہے۔ ’’و وجدک ضالاً فہدیٰ‘‘ کا ترجمہ کیا’’ آپ کو کھویا ہوا پایا تو رہنمائی کی۔‘‘ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:’’اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل مکہ اور دنیا والوں کی نگاہوں سے آپ کی رسالت پوشیدہ گویا کھوئی ہوئی تھی پھر اعلان رسالت کے ذریعہ خدا وند عالم نے لوگوں کی رہنمائی آپ کی عظمت رسالت کی طرف کر دی۔ لفظ ’’ضال‘‘ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں ’’لفظ ضال کے بارے میں اہل تحقیق نے بہت سے معنی تذکرہ کیے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ’’ضال‘‘ عربی زبان میں اس درخت کو بھی کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو۔ تو گویا آیت کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وقت کے صحرا میں آپ ایک اکیلے درخت کی حیثیت سے کھڑے تھے۔ جس میں پھل لانے اور ایک پورا باغ پیدا کردینے کی صلاحیت موجود تھی۔ مگر آپ کے اعلان رسالت سے پہلے یہ صلاحیت لوگوں کے کام نہیں آ رہی تھی پھر جب خداوند عالم نے پہلی وحی بھیجی تو گویا لوگوں کی رہنمائی اس درخت کی طرف فرما دی۔‘‘ اس طرح کی تشریحات سے یہ ترجمہ مزین ہے جو بہت مفید کار آمد ہیں۔ دیگر تالیفات: عقائد الشیعہ مقصد حیات تلاش حق سوانح حضرت قنبر اﷲ اور عقل سوانح آقای باقر الصدر مسئلہ شفاعت اور قرآن تدوین حدیث و حالات محدثین نور و نار غزوات امیر المومنین ضرورت تقلید طرزبندگی سوانح حضرت کمیل راہنائے حج فقہ جعفری اور زکوٰۃ زاد سفر مؤلفین صدر اسلام وجود حضرت حجت اور عقل تلمیذ حسنین رضوی حجۃ الاسلام مولانا سید تلمیذ حسنین رضوی کی ولادت یکم جنوری ۱۹۴۱ء میں ہوئی۔ والد ماجد مولانا سید اظہار الحسنین عشروی صدرالافاضل اور مبلغ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ اپنے دور کے جید عالم دین تھے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ سلطان المدارس خیرپور میں حاصل کی۔ والد ماجد کے علاوہ مولانا مظاہر حسین گوپالپوری اور مولانا محمد قاسم صاحب سے استفادہ کیا دو سال جامعہ امامیہ لاہور میں درس حاصل کیا جہاں مولانا سید آغا جعفر ابن مولانا علی حید رکھجوی آپ کے ہمدرس تھے۔ ۱۹۵۹ء میں منشی فاضل اور ۱۹۶۱ء میں فاضل عربی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا اور سندھ یونیورسٹی سے ایم۔اے۔ عربی ، ۱۹۶۹ء میں درجہ اول پاس کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ۱۹۷۴ء میں ایم۔اے۔ فارسی اور ۱۹۷۹ء میں ایم۔اے۔ اردو پاس کیا۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۰ء تک ماہر مضمون اردو کی حیثیت سے صوبۂ سندھ کی نمایندگی کرتے ہوئے پرائمری، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی مدارس کا نصاب تیار کیا اور ۲۵نصابی کتب تحریر کیں۔ جن میں عربی کتب صوبۂ سندھ میں لازمی طور سے پڑھائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ مدرسہ مشارع العلوم حیدرآباد میں درس و تدریس اور خانۂ فرہنگ ایران حیدرآباد میں فارسی اور نیشنل سینٹر حیدرآباد میں عربی ادب کا درس دیتے رہے۔ ۱۹۸۴ء میں مسلم فاؤنڈیشن کے تعاون سے مومنین نیویارک امریکہ نے مجالس سے خطاب کرنے کی دعوت دی اور اس طرح امریکہ آنے جانے کا سلسلہ ۱۹۸۷ء تک جاری رہا۔ ۱۹۸۷ء میں حوزہ علمیہ مدینہ نیویارک میں درس کا سلسلہ شروع کیا اور ۱۹۸۹ء میں مسلم فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔ نیوجرسی کے مختلف اداروں آستانۂ زہرا، بیت ولی العصر اور بیت القائم کے ساتھ منسلک رہ کر مختلف خدمات انجام دیں اور بحمدﷲ یہ سلسلہ جاری ہے۔ ۲۰۰۰ء سے شاہ نجف لانگ آئی لینڈ میں ریزیڈنٹ عالم کی حیثیت سے خدمت دین میں مصروف ہیں۱؎۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بڑا شوق ہے کچھ آپ کی تالیفات ہیں اور کچھ کے ترجمے کئے۔ ترجمہ تفسیر الصافی: ملا فیض کاشانی کی مشہور تفسیر ’’الصافی‘‘ کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ ترجمہ نہایت شستہ اور صاف زبان میں ہے اس کے علاوہ تفسیر سورہ رحمن کا ترجمہ تفسیر میزان سے کیا۔ ترجمہ میں آپ کو اعلیٰ مہارت حاصل ہے۔ دیگر آثارعلمی: فضائل علی ابن ابی طالب فضائل کربلا اذان خیرالزاد لغات الحدیث جواہر پارے منابع حدیث زادالصالحین۱؎ علی قلی قرئی محترم سید علی قلی قرئی حیدرآبادی کا شمار پندرہویں صدی ہجری کے ممتاز انگریزی مترجمین قرآن میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ آپ کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے اور حیدرآباد دکن میں مقیم ہو گئے ۔ قرئی صاحب کو انگریزی زبان و ادب پر مکمل عبور حاصل ہے۔ قم مقدسہ ایران میں مقیم ہیں اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ آپ کی متعدد کتب انگریزی زبان میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ علمی اور یادگار کارنامہ ترجمہ قرآن (انگریزی) ہے جس کی زبان نہایت صاف و شفاف ہے۔ یہ ترجمہ بہت مقبول ہوا۔ پہلی بار یہ ترجمہ انصاریان قم ایران سے شائع ہوا۔ اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے دوسرا ایڈیشن لندن سے زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ شاہد حسین، میثم (طبع ۱۴۳۰ھ) مولانا سید شاہد حسین میثم نوجوان فعّال عالم دین ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۳۸۹ھ/۱۹۶۹ء نونہرہ ضلع غازی پور میں ہوئی۔والد سید احتشام علی مرحوم اور دادا سید طاہر حسین مرحوم جو پیشے سے انجینئر تھے۔ نانا نادرۃ الزمن علامہ ابن حسن نونہروی طاب ثراہ فن خطابت میں عالمی شہرت یافتہ تھے۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی۔ ایم۔ایس۔ سی۔ کرنے کے بعد ایران روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم میں تقریباً آٹھ سال تعلیم حاصل کی، ہمارے معاصر ہیں، ہم دونوں مدرسہ حجتیہ قم میں مشغول تحصیل علم تھے۔ آپ نے ہندوستان آنے کے بعد علی گڑھ میں ادارۂ امامیہ یوتھ آرگنائزیشن قائم کیا جس کے ذریعہ سماجی اور دینی خدمات انجام دیں۔ قم سے واپس آنے کے بعد سلطان المدارس لکھنؤ اور ’’صدرالافاضل‘‘ کی سند حاصل کی۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر کی بھی اچھی معلومات رکھتے ہیں۔ سافٹ ویئر کے علاوہ ہارڈ ویئر میںبھی ڈپلوما کیا۔ اس طرح آپ کو دینی و عصری علوم میں اعلیٰ مہارت حاصل ہے۔ تبلیغی سلسلے میں مختلف ممالک کے سفر کر چکے ہیں۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی شوق ہے۔ تفسیر آیات مشکلہ: اس کتاب میں منتخبہ تیس آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ سوال قائم کرکے جواب کی شکل میںتفسیر تحریر کی ہے۔ آپ تحریر کرتے ہیں: ’’جہاں تک کتاب میں اپنائی گئی روش کا تعلق ہے تو شاید پڑھنے والے کو ایسا لگے کہ اس کا انداز، رائج طریقہ کار سے ذرا مختلف ہے کیونکہ اس میں سوالات کے ذیل میں آیات کو پیش کیا گیا ہے۔ میں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ کتاب کی افادیت بڑھ جائے اور پڑھنے والے کو سابقہ مفسرین کے نظریات جاننے کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن میں اُٹھنے والے بہت سے جواب بھی مل جائے۔‘‘ وہ سوالات جو آپ نے قائم کئے: کیاآدم و حوانے گناہ کیا تھا؟ حضرت آدم کس کے خلیفہ تھے؟ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا تھا؟ کیا حضرت موسیٰ کو شیطان نے بہکا دیا تھا؟ کیا جناب ایوب پر شیطان کا غلبہ ہو گیا تھا؟ کیا جناب یونسؑ نے گناہ کیا تھا؟ کیا جناب عیسیٰؑ بچپن ہی میں نبی تھے؟ کیا حضرت رسول خداؐ نے کوئی گناہ کیا تھا جسے اﷲنے معاف کیا؟ اﷲ تعالیٰ شرک کو معاف کرتا ہے یا نہیں؟ کیا قرآن مجید میں شکر و عبادت کا مفہوم ایک ہے؟ بنی اسرائیل کی فضیلت کا سبب کیا تھا؟ کیا شفاعت کی درخواست بھی جائز نہیں؟ وغیرہ۔ اس کے علاوہ مفسرین کے درمیان اختلاف اور محققین کے نظریات کو بھی جگہ دی ہے۔ماخذ کے طور پر قدیم و جدید تفاسیر سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ یہ کتاب امامیہ یوتھ آرگنائزیشن علی گڑھ سے ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی۔ ۲۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ دیگر آثار علمی: یہودیت مطبوعہ دہلی ۲۰۰۲ امام زین العابدین مشکلات، جدو جہد اور کارنامے مطبوعہ علیگڑھ ۲۰۰۹ حیدر حسین سید حیدر حسین مرحوم، مشہور عالم شمس العلماء مولانا سید حسین رضا صاحب مدراسی کے فرزند تھے۔ مطالعہ قرآن سے خاص دلچسپی تھی۔ آپ کی علمی یادگار کتاب ’’جواہر فضائل‘‘ ہے۔ جس میں قرآن مجید کی ۴۲۳ آیات کی تفسیر بیان کی جو حضرات اہل بیت علیہم السلام سے متعلق ہیں۔ جسے آپ کے فرزند میر احمد صاحب نے اکرام حسین پریس پرہلاد گھاٹ بنارس سے شائع کیا ۔ مولانا سید محمد یوشع فیضی زنگی پوری پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’شمس العلماء مولانا سید حسن رضا صاحب نقوی اعلیٰ اﷲ مقامہ (مدراس) کی جلیل القدر ذات بابرکات جنوب میں بالعلوم اہل علم میں بالخصوص محتاج تعارف نہیں۔ مگر گوشہ نشینی کی وجہ سے شہرت عامہ حاصل نہیں ہوئی۔ آپ کے فرزند ارجمند سید حیدر حسین صاحب نقوی مغفور نے از راہ عقیدت ان آیات کو مع تفسیر شائع کرنے کا ارادہ کیا جو فضائل محمد و آل محمد میں وارد ہوئی ہیں۔‘‘ حجۃ الاسلام مولانا سید شمیم الحسن صاحب پرنسپل جامعہ جوادیہ بنارس رقمطراز ہیں:ـ ’’اس تفسیر میں در حقیقت مناقب آل رسول کا ایک بے بہا خزانہ ہے۔ اقوال معصومین علیہم السلام کی روشنی میں تفسیر مرتب کی گئی ہے۔ لہٰذا تفسیر بالرائے سے مرتب محترم بری ہیں۔‘‘ علی محمد نقوی، پروفیسر علامہ پروفیسر سید علی محمد نقوی کا شمار پندرہویں صدی کے مایہ ناز انگریزی مفسرین قرآن میں ہوتا ہے۔ آپ مشہور عالم، فاضل، متکلم اور فلسفی ہیں آپ کا تعلق خاندان اجتہاد سے ہے جد اعلیٰ آیت اﷲ سید دلدار علی غفران مآب طاب ثراب اور والد ماجد سید العلماء سید علی نقی نقوی تھے۔ آپ کی ولادت ۱۳۷۳ھ/۱۹۵۳ء میں ہوئی۔ دینی تعلیم والد ماجد سے حاصل کرکے اعلیٰ استعداد کے حامل ہوئے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔اے۔ انگریزی اور M.T.Hکیا۔ ۱۹۷۴ء میں نہائی دروس کی تکمیل کے لیے ایران روانہ ہوئے اور وہاں جید اساتذہ سے فیضیاب ہوئے۔ آپ نے محنت و لگن سے وہ اعلیٰ مقام حاصل کیا کہ آپ کا شمار ایران کے ممتاز علماء میں ہونے لگا اور دنیا میں مشہور اسلامی اسکالر کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ ایران کی وزارت تعلیم نے نصابی کتب بورڈ میں بطور ممبر نامزد کیا۔ آپ نے تصنیف و تالیف کا آغاز ایران میں قیام کے دوران ہی کر دیا تھا آپ کی فارسی کتب مشہور اشاعتی اداروں نے شائع کیں۔ پہلی مطبوعہ کتاب ’’آئی ڈیولوجی انقلابی اقبال‘‘ علامہ اقبال کی مذہبی نظریات پر مبنی ہے۔ دوسری کتاب ’’فرہنگ اصطلاحات اسلامی‘‘ ہے جو انتشارات اسلامی تہران سے شائع ہوئی۔ تیسری کتاب دو جلدوں میں امیر کبیر پبلکیشن سے شائع ہوئی۔ ’’جامعہ شناسی غریب گیرائی‘‘ تحقیقی کتاب ہے جس میں مغربی تہذیب سے مقابلہ آرائی کے لیے اسلام کے نئے نظریات مرحلہ و ار پیش کئے۔ یہ کتاب ایران کی یونیورسینٹر میں اسلامی تحریک، تہذیب و تمدن کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ ’’دانشور ایران‘‘ کے عنوان سے پہنچانے جائے لگے۔ یہ کتاب بیروت سے عربی زبان میں بھی شائع ہوئی۔ مولانا سید علی محمد نقوی کو عروج حاصل ہوا ان چار کتابوں سے جن میں انھوںنے اسلامی تہذیب کا احاطہ کیا ہے یہ کتابیں ایران کی وزارت تعلیم نے بی۔ایڈ۔ کے کورس میں داخل کیں۔ آپ پہلے ہندوستانی عالم ہیں جنھیںیہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی تحقیق کتابی شکل میں ’’اسلامی اعتقاد کا نصاب A Manual of Islamic Beliefلندن سے شائع ہوئی۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد آپ نے مذاہب کے تقابلی منصوبہ پر کام کیا۔ ہندوستانی فکر و مذاہب کا اسلام سے تفصیلی موازنہ کیا۔ یہ تخلیق دو ضخیم جلدوں میںتقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے پہلی جلد ہندوستان کے قدیم مذہبی خیالات پر مشتمل ہے۔ دوسری جلد میں ہندوستان کے جدید معاشرہ اور معاصرانہ مذاہب کے خیالات کا تجزیہ کیا ہے۔ کسی مسلمان کے ذریعہ اس موضوع پر پہلا کارنامہ ہے۔ آپ کا موجودہ پروجیکٹ مگم اوپس Magmumopusہے جو کہ انگریزی زبان میں قرآن مجید کی جامع تفسیر لکھنا ہے جس کی دو جلدیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں ایک پارہ کی تفسیر ایک جلد میں ہے اس طرح ۳۱ جلدوں میں تفسیر کی اشاعت کا پروگرام ہے۔ آخری جلد مضامین کی تفصیلی فہرست پر مشتمل ہوگی۔ اور قرآن پاک کا مکمل ترجمہ رومن رسم الخط میں بھی شائع کرنے کا منصوبہ ہے۔ دوسرا پروجیکٹ دس جلدوں میں اسلامی نظریات اور روحانی نظام کو پیش کرنا ہے۔ آپ کی تخلیقات عربی، کردش، ترکی، جرمنی، فرنچ اور انگریزی زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں۔ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر اور ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی ہیں۔ مسلم پر سنل لا بورڈ کے تاسیسی ممبر اور آل انڈیامسلم کونسل ہند کی ایکزکیوٹیو کونسل کے ممبر ہیں۔ مدینۃ العلوم کا لج کے تاسیسی جنرل سکریٹری اور صدر امامیہ مشن بھی ہیں۔ امریکہ، انگلینڈ، جاپان، کوریا، ہانگ کانگ وغیرہ ممالک میں اعلیٰ کانفرنسوں میں شرکت کر چکے ہیں۔ بیس سے زائد کتب طبع ہوچکی ہیں۔ سو سے زائد مقالے معیاری رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ خداوند عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ دیگر آثار علمی: دی میننگ آف دی ہولی قرآن (پارٹ ون) مع ترجمہ جامعہ شناسی ۲ جلد مطبوعہ تہران اے مینول آف اسلامک بلینس اینڈ پریکٹس مطبوعہ لندن ۱۹۹۰ء الالتجاح الغربی (عربی تہران) اے اسٹیڈی آف دی انڈین ریلجس تھاٹس دو جلد سوشیالوجی (مطبوعہ ایران) این انایٹک اسٹیڈی آف دی لائف دی پرافٹ اینڈ امام فارسی، (ایران) اے ڈکشنری آف اسلامک ٹرمناجولی (عربی۔ انگریزی) تہران دی ریلجیس تھاٹ آف علامہ اقبال تہران ۱۹۸۶ء اسلام وملّی گرائی الاسلا م والقیامۃ (عربی، قم) اسلام اینڈ نینشل ازم اسلام وملت کلک (ترکی) اسلام وملت خواضی (کردش) اقبال فلاسفی آف کلچر و ایجوکیشن ۱؎ رضا حسین، ڈاکٹر (طبع ۱۴۲۸ھ) ڈاکٹر سید رضا حسین نقوی کا تعلق ارباب علم و ادب میں ہوتا ہے۔ آپ کا پیشہ طبابت ہے دینی امور سے بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ مختلف اسلامی موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے گہرا شغف ہے۔ محکم آیات: آپ نے اس کتاب میں متعدد سوروں سے محکم آیات کو مع اردو ترجمہ کے جمع فرمایا ، اور سوہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۰ سے محکم آیات کا آغاز کیا ہے۔ اس تالیف کی بنیاد آیۃ کریمہ ’’ہوالذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ہُنَّ اُمُّ الکتاب وَ اُخر متشابہَات‘‘ ہے۔ مولانا سید حسن ظفر نقوی نے اپنی تقریظ میں تحریر کیا ہے کہ ’’متعدد بزرگ علمی شخصیات نے آیات محکمات اور آیات متشابہات کی تعریف و تفسیر ضرور بیان کی ہے مگر ایک جگہ تمام آیات محکمات کو میں نے نہیں دیکھا۱؎۔‘‘ یہ علمی کاوش نور ہدایت فاؤنڈیشن حسینیہ غفران مآب لکھنؤ سے نومبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی۲؎۔ نثار احمد، زین پوری مولانا نثار احمد صاحب کا شمار مشہور اہل قلم میں ہوتا ہے۔ ترجمہ نگاری کے میدان میں آپ کی خدمات یادگار ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء میں ہوئی۔ قصبہ زین پور ضلع سہارنپور سے تعلق ہے والد ماجد محمد اسماعیل صاحب نیک سیرت مذہبی انسان ہیں۔ ابتدائی تعلیم نوگانواں سادات اور منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم سیدالمدارس امروہہ میں زیر تعلیم رہ کر مولانا سید محمد عبادت طاب ثراہ مولانا سید عابد حسین صاحب، مولانا سید محمد ابوطالب صاحب سے کسب فیض کیا اور مولوی، عالم، فاضل کے امتحانات پاس کئے۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ گئے اور مدرسۃ الواعظین میں زیر تعلیم رہ کر مولانا سید وصی محمد صاحب، مولانا مجتبیٰ علی خاں ادیب الہندی سے کسب علم کرکے ’’واعظ‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ مدرسۃ الواعظین میں تعلیم کے دوران ماہنامہ ’’الواعظ‘‘ کے اولاً مدیر مسؤل پھر مدیر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد ۱۹۸۷ء میں عازم ایران ہوئے اور حوزہ علمیہ قم میں نہائی دروس کی تعلیم حاصل کی۔ ایران میں قیام کے دوران مجلہ ’’الحسین‘‘ سہ ماہی کے رکن اور ’’ثقلین‘‘ سہ ماہی کے مدیر اور ’’مجمع جہانی اہلبیتؑ‘‘ کے شعبہ اردو کے انچارج مقرر ہوئے۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں مدرس مقرر ہوئے اور اب بحمدﷲ آپ ہی کی نگرانی میں مدرسہ رواں دواں ہے۔ اس کے علاوہ آپ مدرسہ سلطان المدارس میں بھی تدریس فرماتے ہیں۔ ترجمہ نگاری میں اعلیٰ مہارت حاصل ہے۔ ایران میںقیام کے دوران ہی آپ نے فارسی کی اہم کتب کو اردو قالب میں ڈھالنے کا کام شروع کیا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ترجمہ تفسیر تسنیم: آپ نے آیت اﷲ الشیخ جوادی آملی کی معرکۃ الآرا تفسیر قرآن کو اردو پیکر عطا کیا۔ اس تفسیر کا نہج اور اسلوب تقریباً وہی ہے جو تفسیر ’’المیزان‘‘ کا ہے بلکہ اسے ’’المیزان‘‘ کا تتمہ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن زمانے کے ارتقاء اور ایران کے اسلامی انقلاب کی برکتوں سے اس میں کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو علامہ سید محمد حسین طباطبائی طاب ثراہ نامساعد حالات کی بنا پر قلمبند نہیں کر پائے تھے۔ مؤلف نے اس مایہ ناز تفسیر میں اصول تفسیر اور تفسیر بالرائے کے مفہوم کو واضح کیا اور اخباری نظریہ کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے اسے ادلہ کے ذریعہ رد کیا۔ یہ تفسیر عام لوگوں کی سطح سے بلند ہے کیونکہ آپ نے یہ تفسیر درس خارج میں شریک ہونے والے طلاب کے سامنے بیان فرمائی ہے جو یقینا اہل علم کے لیے انمول تحفہ ہے۔ تفسیر پر کلامی و فلسفی رنگ غالب ہے۔ مولانا نثار احمد صاحب نے اس کی پہلی جلد کا ترجمہ ۱۴۳۱ھ/۲۰۱۰ء میں مکمل کیا جو زیر طبع ہے۔ آپ نے اس تفسیر کا ترجمہ کرکے اردو زبان میں ایک گرانقدر علمی سرمایہ کا اضافہ کیا۔ خداوند عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ دیگر تراجم: ہو جاؤ سچوں کے ساتھ مطبوعہ ۱۹۹۱ء مطبوعہ پاکستان اہل ذکر ۱۹۹۲ء ایران شیعہ ہی اہلسنت ہیں ۱۹۹۴ء ایران اسرار نماز کی تجلی ۱۹۹۴ء ایران حدیث سے دفاع ۱۹۹۵ء صحیفہ کربلا مثالی خواتین نقیب اتحاد سوانح کاشف الغطاء سوانح محدث نوری آفتاب عدالت جوان اور شریک حیات کا انتخاب مطبوعہ ایران اسلام کی نظر میں خاندان آئینہ حقوق ترجمہ غررالحکم محبت قرآن و حدیث کی نظر میں تجلیات عصمت احادیث حضرت فاطمہ زہرا تجلیات ہدایت جمال منتظر آداب حرمین اولیاء خدا کی عظمتیں احیاء مقدسات امام رضا علیہ السلام اور مشہد مقدس حضرت معصومہ اور قم مقدسہ اہلبیت کے شیعہ اصول دین منارۂ ہدایت شاخسانہ عقد ام کلثوم نمونۂ صبر زینب حضرت علی اور نجف اشرف تاریخ اسلام رسالت رسولؐ انبیاء علیہم السلام ۲۰ حصے اصحاب ۱۶ حصے اصحاب حسینی ۶ حصے ترجمہ توضیح المسائل آیت اﷲ العظمیٰ سعید الحکیم رئیس احمد، جارچوی مولانا سید رئیس احمد کاشمار ان اہل قلم میں ہے جو زبان و قلم سے تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔ آپ مشہور خطیب بھی ہیں اور معروف قلمکار بھی۔ ۱۳۸۵ھ/۳۱ دسمبر ۱۹۶۵ء جارچہ میںولادت ہوئی گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ لہٰذا بچپن سے طبیعت کا رجحان مذہب کی طرف رہا۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی اس کے بعد ۲۲؍مارچ ۱۹۷۲ء کو منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں درجہ پنجم میں داخلہ لیا کچھ عرصہ زیر تعلیم رہ کر جونپور چلے گئے اور ناصریہ عربی کالج میں تعلیم حاصل کی او رمولانا محمودالحسن صاحب سے استفادہ کیا۔ تین سال قیام کے بعد جامعہ جوادیہ بنارس میں رہ کر مولانا احمد علی صاحب، مولانا احمد حسن صاحب، مولانا سید شمیم الحسن صاحب وغیرہ سے کسب فیض کرکے فخرالافاضل کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں مولانا محسن رضوی گوپالپوری مرحوم، مولانامجتبیٰ علی خاں ادیب الہندی مرحوم سے استفادہ کیا۔ بعدہٗ ایران گئے۔ تصنیف و تالیف کا بہت شوق ہے شاعری بھی کرتے ہیں کئی مرثیے شائع ہو چکے ہیں۔ ذاکری کے سلسلے میں امریکہ، لندن، کناڈا وغیرہ کے سفر کرتے رہتے ہیں۔ دہلی میں قیام ہے۔ پنجہ شریف کی مسجد میں پیش نماز ہیں۔ نومبر ۲۰۰۳ء میںماہنامہ ’’ناصر‘‘ کا اجراء کیا جس کے آپ ایڈیٹر ہیں اس رسالے میں معیاری مضامین شائع ہوتے ہیں۔ تفسیر قرآن: آپ نے سلیس و سادہ زبان میں قرآن مجید کی تفسیر تحریر کی جو ماہنامہ ’’ناصر‘‘ میں قسطوار شائع ہو رہی ہے۔ جس کا آغاز ماہ رجب ۱۴۳۱ھ/۲۰۱۰ء سے ہوا ابھی تک سورہ بقرہ کی تفسیر شائع ہوئی ہے امید ہے کہ مکمل طور پر یہ تفسیر کتابی شکل میں طبع ہوگی۔ نمونہ تفسیر: آیت ’’وَعَلَّمَ آدَمَ الاسمآئَ کُلَّہا ثم عَرَضَھم علی الملائکۃِ فقال اَنبؤنی باسمائِ ہَولآئِ اِن کنتم صَادِقِیْن‘‘ (بقرہ ۳۱) ترجمہ: اور اﷲ نے آدم کو کل کے کل اسماء کی تعلیم دی پھر انھیں ملائکہ کے آگے پیش کیا پھر کہا کہ مجھے ان سب کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ تفسیر: آیت وضاحت کرتی ہے کہ جو نام اﷲ نے آدم کو سکھائے ان ناموں کی شخصیات بھی موجود ہونا چاہئے تاکہ اسم اور مسمیٰ کو پہچانا جا سکے۔ اسماء کی اﷲ نے حضرت آدم کو تعلیم دی انھیں اسماء کی تعلیم ملائکہ کو بھی دی ورنہ عدل الٰہی پہ حرف آئے گا۔ البتہ جن کے یہ نام تھے وہ شخصیات پردۂ خفا میں تھیں حضرت آدم اور فرشتوں کو نام تو معلوم ہیں مگر امتحان یہ ہے کہ نام سے شخصیت کو پہچاننا ہے۔ پہلے اﷲ نے ان شخصیتوں کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا اس لیے ’’عرضھم ‘‘میں ’’ھم‘‘ کی ضمیر جمع مذکر ذوالعقول کی ہے یعنی وہ ذوالعقول تھے کہ جنھیں ملائکہ کے سامنے پیش کیا وہ اسماء نہیں تھے۔ یہیں سے دلیل قائم ہوتی ہے کہ حضرت آدم سے پہلے کچھ ذوالعقول حضرات موجود تھے کہ جن کے نام بھی تھے۔ لیکن جب انھیں ملائکہ کے سامنے پیش کیا گیا تو اسم اور مسمیٰ میں تطبیق نہیں کر سکے۔ دیگر آثار علمی: جزائے صبر تفسیر سورہ دہر جہاد اور اسلام اسلام میں عورت کی حیثیت راز خودی الصلوٰۃ معراج المومن دین است حسینؑ (مرثیہ) اذان (مرثیہ) ضرب تبسم (مرثیہ) یہ کتابیں شہید پبلیشنز دہلی سے شائع ہوئی ہیں۱؎۔ ولی الحسن رضوی مولانا سید ولی الحسن رضوی، ظفرالملت مولانا سید ظفرالحسن طاب ثراہ کے فرزند ہیں۔ بنارس میں ولادت ہوئی۔ عربی و فارسی کی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔ جامعہ جوادیہ بنارس سے عالم کا امتحان دیا۔ بنارس سے تاریخ میں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں ایم۔اے۔ کیا ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۸۴ء میں ایران روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم میں مشغول تحصیل ہوئے اور اسی دوران سازمان تبلیغات سے وابستہ ہوکر تحریری خدمات انجام دیتے رہے۔ آج کل صداد سیما ریڈیو تہران ایران میں ملازمت کر رہے ہیں مگر ان تمام مصروفیات کے باوجود آپ کی قلمی خدمات کا سلسلہ جاری ہے آپ کی اہم خدمت تفسیر قرآن ہے۔ جو قسطوار ماہنامہ ’’الجواد‘‘ میں شائع ہو رہی ہے۔ نہایت سادہ و سلیس اسلوب کی حامل تفسیر ہے جو بہت جلد کتابی شکل میں منظر عام پر آنے والی ہے اس کے علاوہ آپ کی سورہ قصص اور سورہ یوسف کی تفسیریں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ آپ کے مضامین اور ترجمے بھی بڑی تعداد میں زیور طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ محمد علی، کربلائی (۱۰۴۵ھ) الرسالۃ الواضحۃ فی تخریج الآیات: آیات قرآنی کی تخریج ہے۔ دوستوں اور ساتھیوں کی ضرورت کے پیش نظر استاد محترم علامہ خاتون عاملی کے حکم سے ’’تخریج الایات‘‘ تیار کی تاکہ آسانی سے مطلوبہ آیت تلاش کی جا سکے۔ استاد کے حکم کے پیش نظر انھوںنے اسے مرتب کیا اور والئی دکن عبداﷲ قطب شاہ کے نام معنون کیا۔ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی اس نسخہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قارئین کی رہنمائی کی کہ کس طرح آیت کو تلاش کیا جائے۔ اور ان حروف کی بھی نشاندہی کی ہے جو علامت کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں مثلاًف علامت فصل ہے، س علامت سجدہ ہے۔ دعلامت دخان ہے۔ یہ رسالہ دو حصوں میں ہے پہلے حصے میں آیات کی ترتیب ابتدائی حروف کے اعتبار سے اور دوسرے حصے میں آخری حروف کے اعتبار سے۔ اس طرح اگر آیت تلاش کرنے والے کو پہلے یا آخری الفاظ یاد ہیں تو وہ آسانی سے اپنی ضرورت کی آیت کو تلاش کر سکتا ہے۔ ابتدائی عبارت: ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم الحمدﷲ الذی نزل الفرقان تبیاناً للعالمین‘‘ اس کے متعدد نسخے پائے جاتے ہیں ایک نسخہ آصفیہ کتب خانہ حیدرآباد دکن، دوسرا رضا لائبریری رامپور، تیسرا ناصریہ لائبریری لکھنؤ ، اس کے علاوہ خدا بخش پٹنہ میں بھی اس کے نسخے موجود ہیں اختتامی عبارت: ’’وقد اتفق الفراغ من تحریرہ علی ید اقل العباد صادق بن ۔مولانا محمد طاہر شیرازی غفرلہما اس کے اوپر تاریخ فراغ محرم ۱۰۴۵ھ لکھی ہوئی ہے۔ ۲۴۴ اوراق ہیں۔کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ کا نسخہ اچھی حالت میں ہے۔ البتہ آخری حصہ مکمل نہیں ہے۔ باب الباء والصاد مع العین والغین آخری باب اس کتاب میں لکھا ہے۔ خاتمے کی عبارت: ’’مع العین انت الاعلیٰ یود ربک الاعلٰی لا علی وبالافق الاعلیٰ کر انجم ربکم الاعلیٰ ل ن او بہ الاعلیٰ ل فی ج من استعلی الدرجات العلی یوط ج والسموٰت العلی یوط ج مع القاف و ماقلی ل ض ج مع الواو فالٰی لطف قبا سیر تہا الاولی یو طبع۱؎‘‘ ناصربن حسین نجفی(۱۱۱۸ھ) عہد اورنگ زیب عالم گیر کے ممتاز عالم، فاضل اور حافظ قرآن تھے۔ نجف اشرف کے رہنے والے تھے۔ ہندوستان کب آئے اس کا صحیح علم نہیں ہو سکا۔ قرآن مجید سے والہانہ عشق تھا آپ نے قرآ ن کی قدیم اور مفصل ترین انڈکس تیار کی اور اسے بادشاہ عالمگیر کے نام معنون کیا۔ قاضی عبدالنبی کوکب نے سال وفات ۱۱۱۸ھ/۱۷۰۶ء لکھا ہے۔ الجد اول النورانیۃ فی استخراج آیات القرآنیۃ: اس انڈکس کے متعدد نسخے مختلف کتب خانوں میںمحفوظ ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کا مخطوطہ لعل محمد الہ آبادی کے قلم سے ۱۱۲۱ھ میں تیار ہوا۱؎۔ ڈاکٹر محمد سالم قدوائی لکھتے ہیں اس کے دو نسخے مکمل رامپور میں موجود ہیں۔ (۶۲۶ و ۶۲۷) دونوں نسخے اچھی حالت میں ہیں پہلا نسخہ ۱۲۰۰ھ/۱۷۸۵ء کا ہے اور دوسرے پر ۱۲۶۸ھ/۱۸۵۱ء درج ہے۔ ابتدائی عبارت: ’’الحمدﷲ الذی افاض جد اول برہ واحسانہ و فقنا للاہتداء بآیات ملکوتہ و سلطانہ‘‘ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ترجمہ: اکثر لوگوں کو معانی و مطالب قرآن مجید سمجھنے اور مفسرین کے خیالات سے واقف ہونے کے لیے لیکن آیتوں کے موقع و محل سے واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بنا پر ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جن کی مدد سے آیتیں نکالی جا سکیں۔ میں نے اس مہم کو آسان کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی ہے۔‘‘ آگے چل کر اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ایک جدول بنائی ہے جس میںپانچ خانے ہیں پہلے خانے میں آیت دوسرے میں سورہ تیسرے میں رکوع چوتھے میں پارہ اور پانچویں میں ربع پارہ لکھا ہے اور حروف تہجی کے لحاظ سے آیتوں کو مرتب کیا ہے۔ لفظ کے پہلے حرف کو باب اور دوسرے کو فصل قرار دیا ہے۔‘‘ نمونہ: السورۃ الرکوع الجزء ربع الاخر کان الناس امۃ واحدۃ فجعل الزوجین الذکر و فتحت السماء فکانت ابوابا البقرہ القیامۃ النباء العاشر ۲ ا ۱۰ ۲۹ ۳۰ اوائل ثلث اواسط الرابع اوائل۱ اختتامی عبارت: ’’ختم بالخیر والظفر بی التاسع عشر من شہرالصفر علی ید العبد الاحقر مہدی بن جعفر غفراﷲ لہ و لقاء ثوابہ یوم المحشر و صلی اﷲ علی محمد و آلہ خیرالبشر مادام اللیل والسحر و قد مضی من الہجرۃ الف و مأتان یدوم الخط فی القرطاس و کاتبہ رمیم فی التراب۔ ‘‘ یہ نسخہ نفیس و پاکیزہ ہے۔ ایک ہی خط میں تحریر ہے۔ دوسرے نسخہ ۶۲۷ کے شروع کے چند اوراق مختلف خط میں ہیں۔ اس کے بعد ایک ہی کاتب کا قلم معلوم ہوتا ہے۔ انڈیا آفس کے بھی دو کاتب ہیں صفحہ ۱۳۷ تک ایک اور اس کے بعد سے آخر تک یعنی ۲۲۶ تک دوسرا ۔ اس نسخہ کے کاتب یعنی آخری حصے کے ابومحمد محمد دہلوی ہیں۱؎۔ یہ کتاب اس فن میں لکھی گئی دوسری کتابوں سے مختلف ہے۔ بیشتر کتابوں میں الگ الگ کلمات کی تخریج کے سلسلے میں لکھا گیا ہے لیکن اس میں آیت یا جزء آیت کے استخراج کو مدنظر رکھا ہے۔ اس کی ترتیب بھی نسبتاًزیادہ آسان معلوم ہوتی ہے۔ اس کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے کسی آیت کی تلاش پہلے حرف کے حساب سے ہوگی۔ کتاب کے مقدمہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے ایک کتاب اس فن کی اور لکھی تھی جس میں اواخر آیات سے استخراج ہوتا ہے۲؎۔ سید محمد سید محمد بن مہدی حسینی نے ۱۲۵۷ھ میں ’’کشف الآیات محمد شاہی‘‘ تحریر کی اور محمد شاہ قاچار کے نام معنون کیا۔ یہ کتاب پہلے تبریز سے پھر جلالین کے ساتھ ۱۲۷۶ھ میں تہران سے شائع ہوئی۱؎۔ میرزا علی (تحریر۱۲۶۰ھ) میرزا علی بن محمد بن محمد حسین قمی نے بقول آقا بزرگ تہرانی صاحب الذریعہ ’’کشف الآیات‘‘ تحریر کی تھی۱؎۔ محمد رضا، سید علامہ محمد مومن خاتون آبادی کے فرزند مولانا سید محمد رضا معاصر شیخ حرعاملی (متوفی ۱۱۰۴ھ) نے ’’کشف الآیات‘‘ کے عنوان سے قرآن مجید کی معجم تیار کی تھی۱؎۔ ببر علی خاں، نواب (طبع ۱۲۹۲ھ) نواب ببر علی خاں بن محمد علی خاں صاحب کی تالیف ’’منازل القرآن‘‘ ہے یہ کتاب ۱۲۹۲ھ میں کتب خانہ اثنا عشری لاہور سے شائع ہوئی۔ اس میں مقدمہ، بارہ منزل اور خاتمہ ہے۱؎۔ محمد حسن علی آپ کی تالیف ’’رموز القرآن‘‘ ہے جو ۱۲۸۹ھ/۱۸۷۲ء میں کانپور سے شائع ہوئی۱؎۔ کاظم حسین رضوی، لکھنوی (م ۱۲۹۱ھ) سید کاظم حسین رضوی ابن ظفر علی حسن لکھنوی (۱۸۷۴ئ) کی تالیف ’’علم قرأت‘‘ ہے۔ جس میں قرأت کے اصول و قواعد تحریر کئے ہیں۱؎۔ غلام محمد مہدی واصفؔ(طبع ۱۲۸۲ھ) آ پ کی تالیف ’’فضائل الفرقان‘‘ ہے جو ۱۲۸۲ھ میں شائع ہوئی۱؎۔ محمدعلی(م ۱۲۱۹ھ) مولانا محمد علی الملقب بہ نو روز علی بن جمشید ہندی کی فارسی تالیف ’’مصباح القرائ‘‘ ہے۔ اس کا مخطوطہ رضا لائبریری رامپور میں شمارہ ۵۹ میں محفوظ ہے۔ نسخہ کا سال تصنیف ۱۲۱۹ھ ہے۔ کاتب کا نام آقا میر نواب کتابت کا سال ۱۲۷۴ھ ہے خط نسخ و نستعلیق کا نفیس نسخہ ہے ۳۶ اوراق پر مشتمل ہے۱؎۔ غلام مجتبیٰ مولانا غلام مجتبیٰ کی فارسی تالیف ’’رسالہ تجوید‘‘ ہے اس کا خطی نسخہ رضالائبریری رامپور میں شمارہ ۳۴ میں محفوظ ہے۔ کاتب کا نام محمدعلی زیدی کتابت کا سال ۱۲۴۷ھ ہے، خط نستعلیق ۱؎۔ آقا احمد، مجتہد مولانا آقا احمد مجتہد کی فارسی تالیف ’’رسالہ در مخارج حروف‘‘ ہے۔ اس کا خطی نسخہ رضالائبریری رامپور میں شمارہ ۳۴ میں محفوظ ہے۔ کاتب کا نام محمد علی سال کتابت ۱۲۴۷ھ خط نستعلیق ہے۱؎۔ محمد حسین، دہلوی (م ۱۲۹۶ھ) مولانا سید محمد حسین دہلوی (م ۱۲۹۶ھ) آپ کی تالیف ’’رسالہ تکمیل قرآن‘‘ ہے اس کتاب سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے اس الزام کو رد کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ عقلی و نقلی ادلہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن تحریف سے پاک ہے۱؎۔ محمد رضا، امروہوی(طبع ۱۳۳۸ھ) آپ کا تعلق سرزمین امروہہ سے تھا۔ آپ کی تصنیف ’’دافع البھتان عن تعلیم القرآن‘‘ ہے۔ ۱۳۳۸ھ/۱۹۱۹ء میں ریاض پریس امروہہ سے شائع ہوئی۔ قرآن مجید کے سلسلہ میں شیعوں پر لگائے گئے الزامات کو رد کیا ہے۱؎۔ حسن، سید (م ۱۲۶۰ھ) مولانا سید حسن(متوفی ۱۲۶۰ھ) بن حضرت آیت اﷲ سید دلدار علی غفرانمآب کی فارسی تصنیف ’’رسالہ تجوید‘‘ ہے۔ اس کا خطی نسخہ رضالائبریری رامپور میں شمارہ ۶۰ میں محفوظ ہے۔ اس نسخہ کی کتابت مصنف کی حیات میں ہوئی تھی۔ خط نستعلیق ہے۱؎۔ محمد،سید، سلطان العلماء (م ۱۲۸۴ھ) سلطان العلماء مولانا سید محمد، آیۃ اﷲ سید دلدار علی غفران مآب کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ ۱۷؍صفر ۱۱۹۹ھ/۱۷۹۴ء لکھنؤ میں متولد ہوئے۔ نہایت مقدس، پاکیزہ علمی ماحول میں نشوونما ہوئی۔ والد ماجد سے فقہ، اصول، تفسیر، حدیث، فلسفہ، منطق کی تعلیم حاصل کرکے درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ علمی لیاقت دیکھتے ہوئے والد ماجد نے ۱۲۱۸ھ میں اجازہ عنایت فرمایا۔ تکمیل دروس کے بعد فقہ اصول، تفسیر حدیث کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ بڑی تعداد میں طلبا نے استفادہ کیا۔ نواب امجد علی شاہ نے ’’سلطان العلمائ‘‘ کا خطاب دیا اور مختار کل کے علاوہ قاضی اور مفتی مقرر کیا۔ انگریزی دور میں بھی آپ کا اثر و رسوخ باقی رہا۔ انگریزی حکام بھی آپ سے متاثر تھے حاضری عدالت سے مستثنیٰ تھے اسلحہ رکھنے کی اجازت تھی اور دربار میں کرسی بھی معین تھی۔ بہادر شاہ ظفر نے جب شیعیت کا اعلان کیا تو درگاہ حضرت عباس علیہ السلام میں آپ ہی کے ذریعہ علم چڑھوایا۔ مرزا اسداﷲ خاں غالبؔ نے اپنے لیے وظیفہ کی کوشش کی تو آپ ہی سے رجوع کیا۔ آپ نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، نجف، کربلا، بڑی امدادیں بھجوائیں۔ نہریں بنوائیں، مسجدیں اور مسافرخانے تعمیر کرائے۔ آپ کے علم و فضل کے علماء عراق و ایران بھی قدرداں تھے۔ باقاعدہ مراسلت تھی۔ ۲۲؍ربیع الاول ۱۲۸۴ھ/۱۸۶۷ء کو لکھنؤ میں رحلت کی اور حسینیہ غفران مآب میں آسودۂ لحد ہوئے۔ آپ کی قرآنیات پر گہری نظر تھی۱؎۔ السبع المثانی: ڈاکٹر محمد سالم قدوائی لکھتے ہیں: یہ کتاب قرأت و تجوید سے متعلق ہے جس میں تجوید سے متعلق ضروری مسائل او رقرأت کے احکام پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کا قلمی نسخہ رامپور رضا لائبریری شمارہ ۳۴۰ میں موجود ہے۔ ۲۵؍اوراق ہیں ابتدائی عبارت: ’’افصح کلام یرتلہ البلغاء ترتیلا و ابلغ مقال یکون علی سبیل النجاۃ دلیلاً‘‘ یہ رسالہ سات فوائد پر مشتمل ہے اس لیے اس کا نام ’’سبع مثانی‘‘ رکھا۔ ان فوائد میں تجوید کے احکام سے بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں احادیث و روایات سے بھی استفادہ کیاہے۔ قرآن مجید صحیح پڑھنے کا طریقہ، حروف کے مخارج زیر و زبر کا اچھی طرح سمجھنا، تلاوت کا ثواب، حروف کی صحیح ادائیگی وغیرہ موضوعات پر تحقیقی بحث گئی ہے۔ اختتامی عبارت: ’’الحمدﷲ اولاً و آخرًا باطناً و ظاہراً انہ فی من سئل… واستغفراﷲ فتاب علی العباد تمت بالخیر۱؎‘‘ صاحب نزہۃ الخواطر: ’’الشیخ الفاضل العلامۃ محمد بن دلدار علی بن معین بن عبدالہادی الحسینی النقوی الشیعی النصیرآبادی ثم اللکھنوی، مجتہد الشیعۃ و امامہم فی عصرہ، ولد لسبع عشر خلون من صفر سنۃ تسع و تسعین و مائۃ والف بمدینۃ لکھنو و اشتغل بالعلم علی والد، من صباہ، ولازمہ ملازمۃ طویلۃ و فرغ من تحصیل العلوم المتعارفۃ ولہ نحو تسع عشرہ سنۃ فتصدی للدرس والافادۃ‘‘۱؎ دیگر آثار علمی: منہاج التدقیق سیف ماسح اصل اصول رد سید مرتضیٰ اخباری عجالہ نافعہ (عربی مطبوعہ) ضربت حیدریہ بجواب شوکت عمریہ بارقۂ ضیفمیہ، جواب تحفہ شاہ عبدالعزیز دہلوی (بحث متعہ) احیاء الاجتہاد بوراق موبقہ در بحث امامت جواب تحفۂ شاہ عبدالعزیز فوائد نصیریہ در زکوٰہ و خمس رسالہ جمعہ گوہرشاہوار، جواب سوالات نصیرالدین حیدربادشاہ بشارات محمدیہ قتال النواصب حاشیہ شرح سلّم ثمرۃ الخلافۃ رسالہ جذراحم ازاحۃ الفی ردعبدالحی سمّ الفار صمصام قاطع برق خاطف حاشیہ شرح کبیر حاشیہ شرح زبدۃ الاصول کشف الغطا۱؎ محمد مرتضیٰ، جونپوری(طبع ۱۳۳۷ھ) آپ مولانا سید حسن علی کے فرزند تھے۔ ۱۲۵۰ھ/۱۸۳۴ء میں متولد ہوئے۔ جید عالم، فقیہ، محدث اور صاحب سیرت و کردار تھے۔ امربالمعروف و نہی عن المنکر شیوہ تھا۔ علماء عراق و ایران سے علمی روابط تھے۔اصلاح قوم، اصلاح ذاکری ترویج علوم کے سلسلے میں بڑی محنت کی۔ تصنیف و تالیف کا بھی بڑا شوق تھا۔ ۱۳۳۶ھ میں زیارت سے مشرف ہوئے۔ مومنین بہت زیادہ عزت و احترام کرتے تھے۔ کثیر التصانیف تھے۔ قرآنیات کے سلسلے میں آپ کی دو تالیفات ہیں۔ ۱۔ فوائدالقرآن: مطبوعہ ،سید عبدالحسین تاجر کتب لکھنؤ ۲۔ فضائل و اثرات آیات قرآن: مطبوعہ جعفری پریس ۱۳۱۳ھ اس کتاب میں آیات کے خواص اور ان کے اثرات تحریر کئے ہیں۱؎۔ حیدر حسین(طبع ۱۳۳۱ھ) مولانا سید حیدر حسین نے قرآن پاک کے سلسلے میں آریوں کے اعتراضات کے جوابات کتاب ’’تقدیس القرآن‘‘ میں تحریر کئے ہیں۔ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ مطبع اصلاح کھجوا بہار سے ۱۳۳۱ھ میں شائع ہوئی۱؎۔ محمد، سید، رضوی(م ۱۳۲۹ھ) مولانا سید محمد رضوی نے قرآن مجید پر پادری عماد الدین عیسائی کے اعتراضات کے جواب میں کتاب لکھی ’’تنزیہہ الفرقان عن وسواس الانسان‘‘ یہ کتاب ۵۵۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی اشاعت شمس پریس آگرہ سے ہوئی۔ دوسری اشاعت مکتبۃ العلوم ٹرسٹ لائبریری ناظم آباد کراچی سے ہوئی۔ میر سید حسن مضطر نے تاریخ کہی ؎ کتاب حق نما تنزیہہ فرقان کہ باشد مظہر اعجاز حقا ندیدہ عالمی مثلش بعالم کذاں اعجاز قرآں شد ہویدا جواب کافی و دنداں شکن گشت عماد الدین تثلیثی غبی را چو شد مطبوع طبعم سال طبعش ز چرخ چار میں فرمود موسیٰ بگو مضطر چو من پیش مصنف جزاک اﷲ فی الدارین خیرا۱؎ ۱۲۹۴ھ غلام الحسنین، خواجہ، پانی پتی(م۱۳۵۶ھ) ماہر تعلیم تھے۔ آپ کی تالیف ’’تعلیم و قرآن‘‘ ہے۔ اس کتاب میں تعلیم سے متعلق آیات قرآنی کی تشریح کی ہے۔ ۱۳۴۳ھ/۱۹۲۴ء میں حالی پریس پانی پت سے شائع ہوئی۱؎۔ دوسری کتاب ’’تقدیس القرآن عن شبہات اہل الطغیان‘‘ ہے جو رفاہ عام پریس، لاہور سے شائع ہوئی۲؎۔ عابد اکبرآبادی(طبع ۱۳۱۸ھ) آپ کی تالیف ’’تقدیس القرآن‘‘ ہے مطبع اصلاح کھجوا بہار سے ۱۳۱۸ھ/ ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۱؎۔ محمود حسین(طبع ۱۴۰۰ھ) آپ کی معروف تالیف ’’قرآن جو میں سمجھا‘‘ ۶۴۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اپریل ۱۹۷۹ء میں جے آر پریس حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی۱؎۔ رضا لقمان، امروہوی(طبع ۱۳۴۲ھ) آپ کی ولادت امروہہ میں ہوئی۔ نجوم و فلکیات میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کی مشہور تالیف ’’قرآن حکیم اور فطری تقویم‘‘ ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تمام اسلامی تقریبات قمری حساب سے نہیں بلکہ شمسی اعتبار سے ہیں۔ یہ کتاب ۱۱۲؍صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۳۴۲ھ/اگست ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی۱؎۔ منظور حسن، جعفری(طبع ۱۳۹۶ھ) ڈاکٹر سید منظور حسن جعفری شفاء کی مشہور کتاب ’’قرآن میں سائنس‘‘ ہے جس میں ان آیات کی تشریح کی گئی ہے جو سائنس سے متعلق ہیں۔ یہ کتاب ۱۳۹۶ھ/مارچ ۱۹۷۶ء میں انجمن پریس کراچی سے شائع ہوئی۱؎۔ ذوالفقار حیدر مولانا ذوالفقار حیدر ایم اے کی کتاب ’’کفر و اسلام الجواب منکرین القرآن‘‘ ہے جس میں ستیارتھ پرکاش کے چودہ اعتراضات کے جوابات دئیے ہیں جو قرآن مجید سے متعلق ہیں ۔ یہ کتاب ۴۲۳ صفحات پر مشتمل ہے، سلطان فائن آرٹ لیتھو اینڈپرٹنگ پریس بمبئی سے شائع ہوئی۱؎۔ فضل حسین، نجفی مولانا سید فضل حسین نجفی صاحب کی کتاب ’’کھلے ہاتھ نماز کا قرآنی ثبوت‘‘ ہے۔ اس کتاب میں قرآن مجید سے ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کا ثبوت پیش کیا گیا ہے۔، کتب خانہ اثنا عشری، ملتان سے ۱۳۶۷ھ/۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی۱؎۔ محمد جعفر(م ۱۴۰۰ھ) مولانا سید محمد جعفر زیدی (م ۱۴۰۰ھ) کی کتاب ’’لفظ شیعہ کا قرآنی مفہوم‘‘ ہے جس میں قرآن مجید میں لفظ ’’شیعہ‘‘ آنے والی آیات کی تشریح کی گئی ہے۔ ۱۹۷۴ء میں امامیہ مشن لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ سبط حسین، مجتہد(م ۱۳۷۲ھ) مولانا سید سبط حسین بن رمضان علی جائسی لکھنوی۔ ۱۲۸۴ھ/۱۸۶۷ء میں ولادت ہوئی۔ لکھنؤ میں تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد ۱۹۰۱ء میں نجف اشرف گئے اور آقای شہرستانی اور آقای شیرازی کے درس میں تیرہ سال شرکت کرکے فقہ و اصول میں مہارت حاصل کی۔ علماء عراق و ایران نے گرانقدر اجازات سے نوازا۔ درجۂ اجتہاد پر فائز تھے۔ مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ اور مدرسہ منصبیۂ میرٹھ میں صدرمدرس رہے۔ آخر عمر میں جونپور چلے گئے وہیں ۱۳۷۲ھ ۴ مارچ ۱۹۵۲ء میں رحلت فرمائی۔ آپ کی گرانقدر تالیف ’’صنائع العقیان فی بحث تحریف القرآن‘‘ اردو زبان میں شائع ہو ئی ۔ اس کتاب میں تحریف قرآن کی نفی کی گئی ہے اور دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں۱؎۔ محمد حسن، خاں بہادر(طبع ۱۳۰۶ھ) آپ کی مشہور تالیف’’اعجاز التنزیل‘‘ ہے۔ اس کی پہلی اشاعت مرادآباد سے ۱۳۰۶ھ/۱۸۸۹ء میں ہوئی۔ دوسری اشاعت مفید عام پریس آگرہ سے ۱۹۰۴ء میں ہوئی۔ یہ کتاب ۵۰۳ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ محمد شاہ عالم، میرزا مولانامیرزا محمد شاہ عالم کی مشہور تالیف ’’تحقیق بسم اﷲ‘‘ ہے اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کے اعداد ۷۸۷ ہیں نہ کہ ۷۸۶ کتاب کے شروع میں متعدد علماء کی تقاریظ درج ہیں جن میں مولانا محمد سعید (م ۱۳۸۷ھ) مولانا محمدباقر (م ۱۳۴۶ھ) شامل ہیں۔ یہ کتاب نامی پریس لکھنؤ سے شائع ہوئی۱؎۔ فتح اﷲ مفتون یزدی(طبع ۱۳۸۵ھ) فتح اﷲ مفتون بن عبدالرحیم یزدی کی کتاب ’’راہ راست و عمل صالح‘‘ ہے جس میں تعلیم نفس اور اخلاقیات سے متعلق آیات قرآن کی تفسیر کی گئی ہے۔ ۲۰۷صفحات پر مشتمل ہے مکتبہ ابراہیمیہ حیدرآباد دکن سے ۱۹۶۵ء میں شائع ہوئی۱؎۔ مظفرعلی خاں، جانسٹھی(م ۱۳۵۴ھ) سید مظفر علی خاں(م ۱۳۵۴ھ) کی مشہور کتاب ’’دافع الہموم‘‘ ہے جو تین ابواب پر مشتمل ہے۔ ۱۔ ختوم متعلقہ آیات و سورہ ہای قرآنی ۲۔ ختوم متعلقہ بہ کلمات قرآنی، ادعیہ ماثورہ ائمہ علیھم السلام ۳۔ ختوم متعلقہ نماز ہای ہر حاجت۱؎ اظہار حسنین محمد علی قادیانی (م ۱۹۵۱ئ) نے تفسیر قرآن ’’بیان القرآن‘‘ میں جو غلط بیانیاں کی تھیں اس کی رد میں آپ نے ’’خون ثقلین‘‘ لکھی جو ۲۶۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اصلاح مشین پریس کھجوا سے شائع ہوئی۱؎۔ سعیدہ جعفر علی(طبع ۱۳۹۰ھ) آپ کی تالیف ’’قرآن کی پُر نور مثالیں‘‘ ہے جس میں قرآن مجید میں مستعمل مثالوں کی تشریح کی گئی ہے۔ مدراس سے ۱۹۷۰ء میں شائع ہوئی۱؎۔رضا علی، میرزا(طبع ۱۳۱۲ھ) آپ کی تالیف ’’مفیدالمستبصر‘‘ ہے۔ ۱۳۱۲ھ میں مطبع اثنا عشری لکھنؤ سے شائع ہوئی۱؎۔ امجاد حسنین، حکیم، امروہوی حکیم سید امجاد حسنین بن سید جواد حسنین امروہوی کی کتاب کا نام ’’رموز قرآن‘‘ ہے۔ جس میں آیات قرآنی کے خواص اور ان کے اثرات قلمبند ہیں۱؎۔ ممتاز احمد نقوی، امروہوی(طبع ۱۳۷۸ھ) آپ کی تالیف ’’علاج بالقرآن‘‘ ہے۔ اس کتاب میں قرآنی آیات کے ذریعہ انسانی امراض کا علاج تحریر کیا ہے۔ ۱۳۷۸ھ میں تنویر پریس لکھنؤ سے شائع ہوئی۱؎۔ احمد حسین، نواب، پریانوی(طبع ۱۳۱۱ھ) نواب شیخ احمد حسین پریانوی مشہور مصنف، عقائد و کلام و مناظرہ میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کی تالیف ’’علم الکتاب‘‘ ہے جو ۱۳۱۱ھ میں شائع ہوئی۱؎۔ احمد سلطان، میرزا، دہلوی آپ کی تالیف ’’تصحیف کاتبین‘‘ ہے اس کتاب میں تاریخ قرآن اور کاتبین کا ذکر ہے۔ مطبع اثنا عشری دہلی سے شائع ہوئی۱؎۔ علی ابراہیم لکھنوی(طبع ۱۳۸۵ھ) قاری علی ابراہیم کی ولادت لکھنؤ میں ہوئی سلطان المدارس میں تعلیم حاصل کرکے ’’صدرالافاضل‘‘ کی سند حاصل کی۔ قرآت و تجوید میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کی کتاب ’’تجوید و ترتیل‘‘ ہے۔ جو سرفراز قومی پریس لکھنؤ سے ۱۳۸۵ھ میں شائع ہوئی۱؎۔ احمد علی، محمد آبادی مولانا احمد علی صاحب کا تعلق محمد آباد سے تھا۔ آپ بڑے جید عالم جامع معقول و منقول تھے۔ آپ کی تالیف ’’تجوید و قرأت‘‘ ہے۔ جس میں تجوید کے اصول بیان کئے گئے۱؎۔ رفعت علی خاں، حکیم، امروہوی حکیم رفعت علی خاں کا تعلق سرزمین امروہہ سے تھا۔ امروہہ کے ارباب علم میں تھے۔ا ٓپ کی تالیف ’’تحفۃ الفرقان‘‘ ہے جو ۱۹۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ آغا محمد طاہر آزاد پریس دہلی سے شائع ہوئی۱؎۔ ابو تراب جعفری مولانا ابو تراب جعفری کی کتاب ’’اوضح البیان فی اسامی القرآن‘‘ ہے جس کا خطی نسخہ دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ اس نسخہ کی کتابت ۱۳۹۰ھ میں ہوئی۔ ۷۰ صفحات ہیں ہر صفحہ پر ۶ سطریں ہیں۔ اس کتاب میں قرآن مجید کے ناموں کی تشریح کی گئی ہے۱؎۔ تصدق حسین، شاہ پوری(طبع ۱۳۳۳ھ) مولانا سید تصدق حسین کی تالیف’’الجہروالاخفات فی قرأت الصلوٰۃ‘‘ ہے جو ۱۳۳۳ھ میں یونین سٹیم پریس لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ یعقوب علی، توسلی مولانا شیخ یعقوب علی توسلی کی تالیف ’’مختصرتجوید القرآن‘‘ ہے۔ اصل کتاب فارسی میں ہے۔ مولانا نصیر نجفی صاحب نے اسے اردو میں منتقل کیا۔ مقدمہ اور ۲۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ بولان مسلم پریس کوئٹہ سے شائع ہوئی۱؎۔ اقبال حسین، نصیرآبادی(طبع ۱۳۷۲ھ) مولانا سید اقبال حسین نقوی کی تالیف’’ممتحن القاری فی کلام الباری‘‘ یہ کتاب ۱۳۷۲ھ/ ۱۹۵۲ء میں موتک پور ضلع بارہ بنکی سے شائع ہوئی۔۱؎ علی نقی، قاری قاری مولانا سید علی نقی نقوی کی کتاب ’’موجزالبیان فی ترتیل القرآن‘‘ ہے جس میں ایک مقدمہ دو ابواب اور چند تنبیہات ہیں۔ مطبع یوسفی، دہلی سے شائع ہوئی۱؎۔ صولت حسین، نقوی، بنارسی(م ۱۳۷۰ھ) آپ کا تعلق سرزمین بنارس سے تھا۔ نامور اہل علم تھے۔ آپ کی وفات ۱۹۵۰ء میں ہوئی۔ آپ نے علوم قرآن سے متعلق کتاب لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔ اعجاز القرآن: یہ کتاب۱۳۷۳ھ میں الجواد بک ڈپو بنارس سے شائع ہوئی۔ اس میں اعجاز قرآن ثابت کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سوروں اور آیات کے خواص اور ان کے اثرات کا بھی ذکر کیا ہے۱؎۔ مسرور حسین، امروہوی(م ۱۳۷۶ھ) جناب سید معجز حسین کے فرزند تھے۔ ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں متولد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم نورالمدارس امروہہ میں حاجی مرتضیٰ حسین صاحب قبلہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں سرکار یوسف الملت مولانا یوسف حسین امروہوی سے کسب فیض کیا۔ بعد ازاں لکھنؤ میں مدرسۃ الواعظین میں علامہ سید سبط حسن اور ممتاز العلماء سیدابوالحسن سے استفادہ کیا۔ آپ کا شمار مدرسۃ الواعظین کے ممتاز طلاب میں ہوتا تھا۔ انجمن مویدالعلوم مدرسۃ الواعظین کے سکریٹری بھی رہے۔مدرسۃ الواعظین سے فراغت کے بعد ۱۳۵۲ھ/۱۹۳۳ء میں افریقہ مڈگاسکر تبلیغ کے لئے گئے۔ وہاں انتہائی محنت و کاوش سے ایک عالیشان شیعہ مرکز تعمیر کرایا جس میں ایک ٹاور بنوایا گیا جو آپ کے نام سے منسوب ہے۔ آپ مملکت فرانس کے گورنر جنرل کی کونسل کے بحیثیت شیعہ نمایندہ ممبر تھے۔ آپ نے ۱۳؍رجب ۱۳۷۶ھ/۱۳؍فروری ۱۹۵۷ء کو کراچی میں وفات پائی۱؎۔ اعجاز القرآن: تالیف ۱۹۳۰ء میں الواعظ صفدرپریس لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ جس میں اعجاز قرآن کے علاوہ علوم قرآن کے مباحث کو زیر بحث لایا گیا ہے۲؎۔ اس کے علاوہ آپ کی تالیفات میں ینا بیع المودۃ کا اردو ترجمہ اور کتاب مختار المسائل قابل ذکر ہیں۔ قلیچ بیگ (م ۱۳۴۸ھ) مرزا قلیچ بیگ کی ولادت ۱۲۷۰ھ میں ہوئی۔ آپ کی مشہور کتاب ’’اخلاق القرآن‘‘ ہے۔ جس میں قرآن مجید سے اخلاقی موضوعات کی وضاحت کی گئی ہے۱؎۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’مؤلف محترم آن موسوم بہ میرزا قلیچ بیگ (متولد ۱۲۷۰ھ) یکی از اعیان تفسیری امامیہ در قرن چہاردہم ہجری در دیار ہند می باشد۔ تفسیر او پیرامون اخلاق در قرآن می باشد۲؎۔‘‘ آپ کی دوسری تالیف ’’مفتاح القرآن‘‘ ہے جو ۱۴۰؍صفحات پر مشتمل ہے۔ خادم التعلیم پریس لاہور سے ۱۳۲۰ھ میں شائع ہوئی۳؎۔ محمد وزیر (م ۱۳۱۳ھ) مولانا سید محمد وزیر، مفتی محمد عباس شوشتری کے فرزند اکبر ۔ نہایت خوش مزاج،تہجد گذار، سحر خیز، خوش گفتار، مہمان نواز، خوش اخلاق تھے۔ والد ماجد کے علاوہ سلطان العلماء سید محمد، ممتاز العلماء سید محمد تقی صاحب سے تحصیل وتکمیل کی اور اجازے حاصل کئے ۔ ان کے علاوہ مولانا احمد علی محمد آبادی، مولانا بندہ حسین، مولانا ابوالحسن ابو صاحب سے بھی اجازات حاصل کئے جو ۱۲۹۸ھ میں عظیم آباد سے رسالہ کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ایک عرصہ تک آگرہ میں امام جمعہ و جماعت رہے اس کے بعد پٹنہ عظیم آباد میں اما م باندی بیگم صاحبہ کے یہاں منصب امامت پر فائز رہے۔ عظیم آباد پٹنہ ہی میں ۱۹؍شعبان ۱۳۱۳ھ/۱۸۹۷ء کو رحلت کی۔ مفتی صاحب آپ سے بیحد محبت فرماتے تھے جیسا کہ خطوط سے ظاہر ہے: ’’برخوردار سعادت آثار نورالابصار سلالۃ الاخیار پسندیدہ شعار خجسۃ اطوار صانہ اﷲعن طوارق اللیل والنہار ہدیہ پدر دور افتادہ طاقت ازکف دادہ، بجز یاوری و دعا ہای نیم شبی و سحری چیست کہ افسر خامہ و زینت سرنامہ تواند ﷲ خداوند کریم بفضل عمیم آن را بحسب مامول و نہج مسؤل مقبول سازد و پردۂ مفارقت از میان ما و شما براندازد…الخ۱؎ ‘‘ قصص الانبیائ: اس کتاب میں قرآن سے انبیاء علیھم السلام کے حالات قلمبند کئے ہیں اور ان کتب سے استفادہ کیا ہے جو معتبر اور مستند ہیں۔ صاحب الذریعہ آغا بزرگ تہرانی نے بھی اس تالیف کا ذکر فرمایا ہے۔ صاحب طبقات مفسران شیعہ: ’’سید محمد بن مفتی میر عباس مؤلف قصص الانبیاء کہ در کتاب تجلیات آن را بعنوان کتابی در احوال پیامبران ذکر نمودہ است و در الذریعہ نیز معرفی شدہ است۱؎۔‘‘ دیگر آثار علمی: شریعت سہلہ (فقہ عربی) رسالہ راحت رسا مثنوی زاد عقبیٰ مثنوی باغ مومنین رقعات فارسی مثنوی نان و کباب مثنوی شمس الضحیٰ کتاب المسائل مثنوی گوہر شب چراغ مثنوی رشک بوستاں مثنوی گلشن ہدایت۲؎ محمد لطیف انصاری(م ۱۳۹۹ھ) مولانا محمد لطیف انصاری (م ۱۳۹۹ھ) بلند مرتبہ عالم دین تھے۔ آپ کی معروف تالیف ’’کربلا کی کہانی قرآن کی زبانی‘‘ ہے جس میں ۹۷ آیات قرآنی سے واقعہ کربلا کا اثبات کیا سورہ والعصر اور سورہ والفجر کی تفسیر بیان کی ہے۔ یہ کتاب ۳۵۲صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۳۹۷ھ میں مکتبہ لطیف سرگودھا، القائم آرٹ پریس لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ غلام محمد زکی، سرورکوٹی مولانا غلام محمد زکی صاحب نے بچوں کی ضرورت کے پیش نظر ’’مفتاح القرآن‘‘ کتاب لکھی تاکہ بچے بآسانی قرآن مجید پڑھ سکیں۔ یہ کتاب ادارۂ معارف اسلام لاہور سے شائع ہوئی۔ ایم۔اے۔ انصاری(م ۱۴۰۳ھ) محترم ایم۔اے۔ انصاری صاحب نے آیت اﷲ العظمیٰ ابوالقاسم الخوئی مرحوم کی تفسیر ’’البیان فی تفسیر القرآن‘‘ کے باب ’’اعجاز القرآن‘‘ کا ترجمہ کیا جس کا عنوان ’’فلسفۂ معجزہ‘‘ رکھا۔ جس میں قرآن کا اعجاز، فضیلت قرآن، قرآن پر اعتراضات کے جوابات دئے ہیں۔ یہ کتاب جامعہ تعلیمات اسلامی کراچی سے ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء میں شائع ہوئی۱؎۔ خادم حسین(م ۱۴۰۵ھ) آپ نے آیت اﷲ محمد علی تسخیری کی کتاب کا ترجمہ کیا۔ ’’قرآن کی روشنی میں بین الاقوامی تعلقات‘‘ اس کتاب میں اسلام اور عالمی حکومت اور اسلامی دستور حکومت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب سازمان تبلیغات اسلامی تہران سے رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ میں شائع ہوئی۱؎۔ ظفر علی(طبع ۱۴۱۵ھ) آپ کی کتاب ’’مجربات قرآنیہ مع روائح الغائب فی دفع التردید والریب‘‘ ہے۔ جو ۱۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ ادارۂ منہاج الحسین لاہور سے ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء میںشائع ہوئی۱؎۔ محمد تقی نقوی(طبع ۱۴۱۴ھ) آپ کی تالیف ’’مدخل التفسیر‘‘ ہے جس میں قرآن مجید کے معجزہ ہونے کے دلائل، حقیقت معجزہ، اصول تفسیر، عدم تحریف قرآن، جمع قرآن جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ یہ آقای محمد فاضل موحدی کی کتاب کا ترجمہ ہے۔۴۶۱ صفحات پر مشتمل ہے ۱۴۱۴ھ میں مصباح ٹرسٹ لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ شرف الدین، بلتستانی(طبع ۱۴۰۷ھ) آپ کی تصنیف ’’مکتب تشیع اور قرآن‘‘ ہے جس میں تاریخ نزول قرآن، جمع قرآن، تحریف قرآن اور فہم قرآن سے بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء میں دارالثقافۃ الاسلامیہ پاکستان کراچی سے شائع ہوئی۱؎۔ نصیر حسین نقوی(طبع ۱۴۰۶ھ) اعجاز قرآن: یہ کتاب وفاق علماء شیعہ پاکستان لاہور کی جانب سے مارچ ۱۹۸۵ء میں الغدیر پرنٹنگ پریس سرگودھا سے شائع ہوئی۔ جس میں قرآن کے معجزہ ہونے کوثابت کیاگیا ہے۱؎۔ عنوانات: قرآن ایک معجزہ ہے، تشریح احکام کے لحاظ سے اعجاز قرآن، اخلاقی پہلو سے اعجاز قرآن، تاریخی حیثیت سے اعجاز قرآن۔ طالب حسین، کرپالوی آپ کثیر التصانیف عالم تھے کم عمری میں بہت زیادہ تحریری خدمات انجام دیں ہمیشہ دفاع آل محمد کرتے رہے۔ آپ کی تحریروں سے عاجز آکر دشمنان اہلبیتؑ نے آپ کو شہید کر دیا۔ مسئلہ تحریف قرآن: یہ کتاب جعفریہ دارالتبلیغ ساندہ کلاں لاہور سے شائع ہوئی ۶۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں ۳۲ عقلی دلائل ۲۳۲ آیات قرآنی، ۸۵ احادیث معصومین علیھم السلام ۷۵ اقوال علماء شیعہ سے ثابت کیا ہے کہ شیعوں کے نزدیک قرآن مکمل ہے اس میں کسی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے۱؎۔ محمد افضل حیدری(طبع ۱۴۱۰ھ) آپ نے آقای علی میلانی کی کتاب ’’تحریف قرآن‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا ،پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس میں تحریف قرآن کی نفی میں علماء شیعہ کے نظریات، نفی تحریف پر دلائل اور ان روایات کی تشریح کی ہے جس میں تحریف کا ذکر ہوا ہے۔ یہ کتاب ۱۴۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور سے ۱۴۱۰ھ میںشائع ہوئی۱؎۔ نجم الحسن، کراروی(م ۱۴۰۲ھ) مولانا سید نجم الحسن رضوی کی ولادت ۲؍صفر ۱۳۳۷ھ/۷ نومبر ۱۹۱۸ء کو کراری الہ آباد میں ہوئی جامعہ ناظمیہ اور سلطان المدارس میں تعلیم حاصل کی آپ کی تحریر کردہ کتب بہت زیادہ مقبول ہوئیں جن میں چودہ ستارے، ذکرالعباس، تاریخ اسلام قابل ذکر ہیں۔ ۹؍رمضان ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء میں آپ کی وفات ہوئی۔ قرآ ن سے متعلق آپ کی کتاب ’’روح القرآن‘‘ ہے۔ جو مقدمہ تفسیر قرآن ہے جس میں قرآنیات سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ تحریف قرآن پر استدلالی بحث ہے اور ان علماء کا تذکرہ ہے جنھوںنے تفسیر قرآن پر کام کیا ہے یہ کتاب ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ امامیہ کتب خانہ لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ فیاض حسین نقوی آپ نے ’’خود آموز قرآن مجید‘‘ نامی کتاب تحریر کی تاکہ لوگ آسانی سے قرآن مجید پڑھ سکیں ۔ یہ کتاب چودہ اسباق پر مشتمل ہے۔ چھ سورے مع ترجمہ درج ہیں۔ ایران سے شائع ہوئی۱؎۔ امتیاز حیدر، پرتاپ گڑھی(طبع ۱۴۱۶ھ) سید امتیاز حیدر بن اعجاز حیدر پرتاپ گڑھی کی کتاب ’’حقائق القرآن‘‘ ۲۵۱ صفحات پر مشتمل ہے جس میں آیات قرآنی کو سائنس کے ذریعہ حل کیا گیا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں عباس بک ایجنسی لکھنؤ سے شائع ہوئی۱؎۔ منتخب حسین(طبع ۱۴۱۳ھ) آپ کی تالیف کا نام ’’شرح قرآن‘‘ ہے۔ ۶۶۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۹۹۲ء میں جامعہ تعلیمات اسلامی کراچی سے شائع ہوئی۱؎۔ روشن علی، خاں(م ۱۴۱۶ھ) حجۃ الاسلام مولانا شیخ روشن علی خاں صاحب کو فقہ، اصول، عقائد و کلام میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کا تعلق سلطانپور سے تھا جامعہ ناظمیہ لکھنؤ سے ’’ممتاز الافاضل‘‘ کیا ۔ منصبیہ عربی کالج کے پرنسپل رہے۔ آخری عمر میں قم ایران میں مقیم ہو گئے تھے۔ آپ کی وفات ۱۹۹۵ء میں لکھنؤ میں ہوئی۔ حسینیہ غفرانمآب میں دفن ہوئے۔ آپ نے آقای شہید مطہری کی کتاب ’’تحریف قرآن‘‘ کا اردو ترجمہ کیا جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن تحریف سے محفوظ ہے۱؎ ۔ تہوّر علی، شاہ(طبع ۱۳۴۵ھ) آ پ کی تالیف ’’افصح الکلام‘‘ ہے جو حیدرآباد دکن، معین دکن،پریس سے ۱۳۴۵ھ میں شائع ہوئی۱؎۔ انصار حسین، واسطی(طبع ۱۴۰۱ھ) آپ کی تالیف ’’وظائف القرآن‘‘ ہے۔ جس میں قرآن مجید کے ۲۸ سورے منتخب کرکے ان کے خواص اور فضائل تحریر کئے ہیں۔ ۱۹۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۴۰۱ھ میں رحمت اﷲ بک ایجنسی سے شائع ہوئی۱؎۔ وجیہ الحسن زیدی (طبع ۱۴۱۰ھ) سید وجیہ الحسن زیدی کی تالیف ’’ضابطہ حیات‘‘ ہے۔ جس میں مختلف موضوعات سے متعلق آیات قرآنی کو جمع کیا گیا ہے۔ ۱۴۱۰ھ /۱۹۹۱ء میں پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، اسلام آباد سے شائع ہوئی۱؎۔ مظفر علی خاں، الہ آبادی جناب مظفر علی خانصاحب الہ آباد کی علمی و مذہبی فعال شخصیات میں تھے، انجمن ایمانیہ دریاآباد کے آنریری جنرل سکریٹری رہے۔ تصنیف و تالیف کا بڑا شوق تھا کئی اہم کتابیں لکھیں۔ مختصر حالات انبیاء : آپ نے اس کتاب میں مختصرا اور معتبر حالات انبیاء رقم کئے ہیں اور قرآن مجید نے جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب انجمن ایمانیہ دریاآباد الہ آباد سے شائع ہوئی۔ اب تک متعدد ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں ۔ دیگر آثار علمی: تحقیق نماز مطبوعہ ۱۹۷۲ء سوانح عمری جناب فاطمہ زہرا (مطبوعہ) حقیقت اسلام اور اس کے عقائد کتاب الاخلاق مسئلہ خلافت کا صحیح حل علی بن الحسین، زیدی (متولد ۱۳۵۴ھ) محترم سید علی بن الحسین کا تعلق نوریوں سرائے سنبھل ضلع مرادآباد سے ہے، والد ماجد سید مرتضیٰ حسن مرحوم تھے۔ ۴؍فروری ۱۹۳۵ء میں ولادت ہوئی۔ ابتدائی دینی و عصری تعلیم نوگانواں سادات میں حاصل کی، ۱۹۵۱ء میں ہائی اسکول پاس کیا۔ ۱۹۵۵ ء میں مرادآباد سے بی۔اے۔ کیا۔ اسی سال سایہ پدری سے محروم ہو گئے۔ لائبریری سائنس کا کورس کرکے سرکاری ملازمت کی۔ ۱۹۵۶ء میں آزاد لائبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ملازمت کا آغاز ہوا پھر دہلی، سری نگر، کمپالہ(یوگانڈا) اور نیروبی میں چالیس سال ملازمت کا سفر طے کیا۔ اس دوران مختلف کانفرنسوں، سمینار، ورکشاپ میں شرکت کرتے رہے جس میں علمی، تحقیقی گرانقدر مقالات پڑھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد قومی، ملی فلاحی کاموںمیں مصروف ہیں۔ امامیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ علی گڑھ کے بانی ممبران میں سے ہیں اس کا بنیادی مقصد قوم کے نادار اور ہونہار طلبا کی مالی امداد کرنا ہے۔ دوسرا ادارہ ’’حی علی الفلاح‘ سوسائٹی ہے جس کے تحت ایک اسکول درجہ پنجم تک سرکار سے منظورشدہ بنام ’’علی یونٹی اسکول‘‘ چل رہا ہے۔ آپ ایک طویل عرصے سے خدمت قلم و قرطاس میںمصروف ہیں آپ کی اہم خدمت فہرست مضامین قرآن ہے جو شائع ہو چکی ہے۔ ضیاء القرآن: ناشر اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن، ۲۰۰۴ء میں علی گڑھ سے شائع ہوئی۔ ۷۴۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں الفاظ و مضامین قرآن کی فہرست سازی کی گئی ہے۔ اس فہرست کے تمام بنیادی عنوانات، اس کی ذیلی سرخیاں اور کلیدی الفاظ کو الفبائی ترتیب کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ تاکہ مطلوبہ مطالب آسانی سے اور کم سے کم وقت میں تلاش کئے جا سکیں۔ اس فہرست کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ کسی آیت کی تشریح کی ضرورت ہے تو مستند مفسرین کی تفسیر سے نوٹ دیا گیا ہے۔ یہ معجم مضامین قرآن ہے۔ اس فہرست پر محترم باقر مہدی صاحب سرپرست ادارہ کا پیش لفظ ہے۔ فاضل نبیل مولانا سید محمد جابر جوراسی مد ظلہ کی تقریظ ہے جس کاعنوان ہے ’’کوزہ میں سمندر‘‘ دیگر آثار علمی: ہندوستان میں چاپ خانہ (۱۹۷۹ئ) مشعل راہ (۱۹۹۸ئ) علم کیمیا میں ذرائع ابلاغ (انگریزی) (۱۹۷۵ئ) مشرقی افریقہ میں لائبریری شپ بحیثیت پیشہ(انگریزی) (۱۹۷۹ئ) ٹکنالوجی اور سائنسی جڑیں اور پھل، انگریزی)۱۹۸۸ئ) قیصرحسین نجفی مولانا سید قیصر حسین نجفی کا تعلق شہر بنارس سے ہے۔ آپ کی ولادت یکم مئی ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔ والد ماجد ثقہ الاسلام مولانا سید محمد صاحب تھے۔ ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی پھر جوادیہ عربی کالج میں سرکار ظفرالملت مولانا سید ظفرالحسن صاحب کی سرپرستی میں سطحیات کی تعلیم مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے عراق روانہ ہوئے اور نجف اشرف میںآیت اﷲ عبداﷲ شیرازی، آقای مرتضوی، آقای مصطفوی سے فیضیاب ہوئے۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد تبلیغ دین میں مصروف ہوئے اور جوادیہ عربی کالج میں مدرس مقرر ہوئے اور سرکار ظفرالملت نے اپنی صاحبزادی کا عقد آپ سے کیا۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی شوق رہا۔ حفاظ قرآن: یہ کتاب تنویر پریس بنارس سے شائع ہوئی اس میں صدر اسلام سے تاحال ان افراد کا تذکرہ ہے جنھوںنے قرآن مجید حفظ کیا جن میں اصحاب، تابعین، تبع تابعین، علمائ، شامل ہیں۔ دیگر آثار علمی: عبیدکربلا (مطبوعہ) اعمال ماہ رمضان۱؎ (مطبوعہ) محمد حسین(م ۱۴۰۹ھ) مولانا محمد حسین ممتازالافاضل نے آقای صادق شیرازی کی کتاب ’’مہدی فی القرآن‘‘ کا ترجمہ کیا۔اس میں امام مہدی علیہ السلام سے متعلق ایک سوچھ آیات قرآنی کا ذکر کیا ہے اور ہر آیت کے ساتھ ایک ایک حدیث بھی نقل کی ہے۔ ۲۱۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۴۰۹ھ/۱۹۸۹ء میں ولی العصر ٹرسٹ رتہ متہ ضلع جھنگ سے شائع ہوئی۱؎۔ نذر حسن گوپالپوری( م ۱۴۰۳ھ) مولانا سید نذر حسن ابن سید محمدجعفر کا تعلق گوپالپور بہار سے تھا۔ آپ کی ولادت ۱۳۳۳ھ/۱۹۰۵ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مولانا سید راحت حسین صاحب سے حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ ایمانیہ بنارس میں مولانا سید ناظر حسن صاحب کے زیر سایہ تحصیل علم کا سلسلہ جاری رہا۔ بعدہ اعلیٰ دروس کے لیے لکھنؤ گئے اور سلطان المدارس میں زیر تعلیم رہ کر ۱۹۳۰ء میں صدرالافاضل کی سند حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد گوپالپور میں دینی اور قومی خدمات انجام دینے لگے۔ ۱۹۳۱ء کے بعد گوریا کوٹھی سیوان میں ہائی اسکول میں بحیثیت ہیڈ مولوی تقرر ہوا۔ پھر اس کے بعد حسین گنج میں اس عہدہ پر تقرر ہوا جہاں ایک عرصہ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں بحسن و خوبی سبکدوش ہوئے۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۸۲ء تک مدرسہ اسلامیہ کھجوہ سیوان میں صدر مدرس رہے اور ۲۵؍شعبان ۱۴۰۳ھ/ ۸ جون ۱۹۸۳ء کو جان بحق ہوئے۔ ایک عرصہ تک قلم و قرطاس کی خدمت کرتے رہے۔ مطالعہ قرآن محبوب مشغلہ تھا۔ قرآن مجید کو جدید علوم کی روشنی میں بھی دیکھتے تھے۱؎۔ ۱۔ قرآن اور سائنس: آپ نے سائنس کی تحقیقات کو قرآن کے ارشادات کے تناظر میں دیکھا۔ یہ کتاب بنارس سے شائع ہوئی۔ ۲۔ قرآن مہجور: مطبوعہ اصلاح لکھنؤ ۳۔ آیہ تطہیر اور مولانا شکور: مطبوعہ لکھنؤ ۴۔ آیہ تطہیر اور مولانا مودودی: مطبوعہ بنارس دیگر آثار علمی: المذہب مطبوعہ بنارس کتاب عترت مطبوعہ بنارس حقانیت اسلام مطبوعہ بنارس نصائح حضرت علی مطبوعہ لکھنؤ غلامی اور اسلام مطبوعہ بنارس عہد ناموں کی تعلیمات مطبوعہ پاکستان رموز سرالشہادتین مطبوعہ اصلاح وہابیت کی جھلکیاں مطبوعہ بنارس حسین منی مطبوعہ گورکھپور شیعیت کیا ہے مطبوعہ لکھنؤ وجود باری تعالیٰ اور فلاسفہ قدیم و جدید امامیہ مشن پاکستان الجہاد فی الاسلام مطبوعہ لکھنؤ معجزات حسینی مطبوعہ اصلاح قتیل کربلا، مجالس مطبوعہ لکھنؤ مجالس جعفریہ، مطبوعہ لکھنؤ فرہنگ فارسی و اردو مطبوعہ پٹنہ عقیدۂ اہلبیت و شعراء اردو مطبوعہ پٹنہ حکومت الھیہ و جمہوریہ مطبوعہ بنارس تعداد ازواج نبی مطبوعہ بنارس حسبنا کتاب اﷲ مطبوعہ بنارس معذب قومیں مطبوعہ بنارس معیار صداقت مطبوعہ بنارس دین اسلام غیروںکی نظر میں مطبوعہ لاہور حسینی کرامات و سائنس مطبوعہ کراچی بچے اور ان کا مستقبل مطبوعہ گوپالپور طیب رضا (طبع ۱۴۲۰ھ) مولانا سید طیب رضا کا تعلق اغوان پور ضلع مرادآباد سے ہے والد ماجد سید ریاض الحیدر نقوی دیندار، مذہبی انسان تھے۔ ۳۰؍جون ۱۹۶۳ء اغوان پور میں ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی، طبیعت کا میلان دینی تعلیم کی طرف ہوا تو منصبیہ عربی کالج میرٹھ میں داخلہ لیا سطحیات کی تکمیل کے بعد سلطان المدارس لکھنؤ میں زیر تعلیم رہ کر مولانا سید بیدار حسین، مولانا سید غلام مرتضیٰ مرحوم مولانا محمد جعفر مرحوم جیسے اساتذہ سے کسب علم کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے سیریا (شام) کا سفر کیا اور حوزہ علمیہ زینبیہ میں جید اساتذہ سے فیضیاب ہوئے جن میں آیۃ اﷲ سید احمد واحدی، آیۃ اﷲ شیخ اعتمادی، آیت اﷲ سید احمد فہری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد مدرسہ جامعۃ التبلیغ لکھنؤ میں تدریس کے فرائض انجام دئیے پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبۂ دینیات میں بعہدۂ لکچرر منتخب ہوئے۔ بحمدﷲ اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔ خطابت و ذاکری کا بھی شوق ہے کئی سال سے امریکہ میں عشرۂ مجالس کو خطاب کر رہے ہیں۔ خدمت قلم و قرطاس بھی معمولات میں شامل ہیں۔ متعدد کتب کے ترجمے کئے۔ علی فی القرآن: آپ نے آیت اﷲ سید صادق شیرازی کی کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کتاب میں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ تقریباً سو معتبر و مستند کتب کا سہارا لیا گیا ہے۔ ۵۲۸ صفحات پر مشتمل ہے، مجلس علماء و واعظین لکھنؤ کی جانب سے ۱۴۲۰ھ میں شائع ہوئی۔ مولانا مجتبیٰ علی خاں ادیب الہندی مرحوم کا مبسوط مقدمہ مندرج ہے۔ دیگر آثار علمی: مناظرہ بغداد امتحان ہے خون کا مسلمانوں کی ذمہ داریاں مہدی فی القرآن مہدی فی السنۃ ۱؎ مرغوب احمد آپ کی قرآنی تالیف ’’قرآن کا ایک اہم حکم‘‘ تنظیم غلامان آل محمد، لاہور سے شائع ہوئی۔ ۱۴۲ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ شاد گیلانی مولانا شاد گیلانی صاحب کی اہم تالیف ’’قرآن اور اہلبیت‘‘ ہے جس میں قرآن مجید کے ذریعہ عظمت اہلبیت ثابت کی گئی ہے۔ یہ کتاب ادارۂ علوم اسلامیہ لاہور، مدینہ پرینٹنگ ہاؤس، لاہور سے شائع ہوئی۔ ناصرحسین، فیض آبادی آپ کی تالیف ’’’قرآنی نظریہ خلافت‘‘ ہے جس میں خلافت کے نظریہ کو قرآن مجید کی روشنی میں حل کیا گیا ہے۔ یہ کتاب انجمن عباسیہ ناروال، سیالکوٹ سے شائع ہوئی ہے۱؎۔ غضنفرحسین، بخاری آپ نے سید مجید کی کتاب کا ترجمہ کیا جس کا نام ’قرآن میں ذکر حسینؑ‘‘ ہے۔ یہ کتاب خانہ فرہنگ جمہوریہ اسلامی ایران، کراچی سے شائع ہوئی۱؎۔ محمد نقی آپ کی مشہور کتاب ’’قرآن اور علی‘‘ ہے جس میں آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا قرآن مجید سے تعلق واضح کیا ہے۔ شیعہ ینگ مین سوسائٹی سہارنپور سے شائع ۱؎۔ ذوالفقار علی شاہ، حافظ مولانا حافظ سید ذوالفقار علی شاہ کی کتاب ’’گنجینۂ معارف‘‘ ہے جس میں قرآن مجید کے بعض الفاظ کی تشریح کی گئی ہے۔ جعفریہ بک ایجنسی لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ الفت حسین آپ کی تالیف ’’معجزۂ فرقان‘‘ ہے جس میں قرآن مجید کے معجزہ ہونے کو ثابت کیا ہے۱؎۔ نیاز محمد، ہمدانی آپ کی تالیف ’’مقام قرآن‘‘ ہے مجلس تعلیم القرآن لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ عزیز الحسن، بدایونی اعجاز القرآن: یہ کتاب دارالاشاعت اعجازیہ ناظم آباد کراچی ضیا برقی پریس سے شائع ہوئی۔ ۲۹۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’عدل الٰہی‘‘ کو آیات قرآنی کی روشنی میں ثابت کیا ہے۱؎۔ محمد مہدی، میرزا آپ کی مشہور تالیف ’’اعجاز قرآن پاک‘‘ ہے جو ۱۱۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ محراب ادب کراچی سے شائع ہوئی۱؎۔ انوار احمد، بلگرامی سیدانوار احمد صاحب کا تعلق اتر پردیش کے مردم خیز قصبہ بلگرام سے تھا۔ مشہور کتاب ’’تاریخ قرآن‘‘ ہے جو قرآن سینٹر لاہور سے شائع ہوئی۱؎۔ برکت حسین خاں آپ کی معروف تالیف ’’تاریخ قرآن‘‘ ہے مطبع اصلاح کھجوا سے شائع ہوئی۔ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ قرآن اور حیات رسول، اعجاز قرآنی، مفسرین قرآن کون ہیں؟، قرآن مجید بعد رسول۱؎۔ فتحیاب حسین، مرزا ’’دین فطرت‘‘ آپ نے اس کتاب میں مندرجہ ذیل موضوعات سے متعلق آیات قرآنی کی تفسیر کی ہے۔ خلقت بنی آدم، معاشرہ، ہدایت الٰہی، انبیائ، وجودباری تعالیٰ، عبادت الٰہی، حقوق الناس، نور ہدایت وغیرہ۔ ناظم آباد کراچی سے شائع ہوئی۔ ۱۸۴ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ مقرب علی خاں، جگرانوی مولانا کی تالیف ’’در ر سنیہ‘‘ ہے جس میں قرآن مجید کی دس آیتوں کے ذریعہ شہادت امام حسین علیہ السلام کا اثبات کیا ہے۱؎۔ احمد شاہ کاظمی آپ کی تالیف کا نام ’’لمع العرفان فی توضیح القرآن‘‘ ہے۔ یہ کتاب علوم قرآن سے متعلق ہے۱؎۔ احمد حسنین آپ کی کتاب ’’معارج العرفان فی علوم القرآن‘‘ ہے۔ ریاض پریس امروہہ سے شائع ہوئی۔ ۳۵۲ صفحات پر مشتمل ہے۱؎۔ سکندر زہرا زیدی محترمہ سکندر زہرا صاحبہ کی تالیف ’’نورالہدیٰ‘‘ ہے۔ جس میں اسرار و رموز قرآن بیان کئے گئے ہیں۔ عناوین: قرآن کے معنی و مفہوم، اسم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ آلہ و سلم حروف مقطعات کا تاریخی پس منظر، اسماء الٰہی اور اسماء رسول اﷲ سے حروف کا انطباق۔ یہ کتاب افریشیا پریس، ناظم آباد سے شائع ہوئی۱؎۔ یعقوب حسن، امروہوی آپ کی تالیف’’وضو مطابق قرآن‘‘ ہے جس میں شیعہ طریقہ وضو کو قرآن مجید سے صحیح ثابت کیا ہے۔ ادارۂ نظام الشریعۃ صوبہ سندھ تاج محل پریس حیدرآباد سے شائع ہوئی۱؎۔ حیدر حسن، نانوتوی مولانا سید حیدر حسن نانوتوی کی تالیف ’’اسرارالفرقان‘‘ ہے۔ آپ کا تعلق قصبہ نانوتہ ضلع سہارنپور سے تھا۱؎۔ غلام رضا ناصر، نجفی مولانا غلام رضا ناصر نجفی کی تالیف ’’التجوید‘‘ ہے ۵۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں تجوید کی تعریف، مخارج حروف، حروف کے صفات، اقلاب، تنوین اور نون ساکنہ کے احکام، ادغام، قلقلہ، لام کے احکام کا ذکر کیا ہے۔ ادارۂ پاسبان اسلام باب حیدر سرگودھا سے شائع ہوئی۱؎۔ سجاد حسین آپ کی تالیف ’’تنزیل الفرقان‘‘ ہے جو ۵۵۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ مکتبۃ العلوم ٹرسٹ کراچی سے شائع ہوئی۱؎۔ محمد حیدر آپ کی تالیف ’’تقدیس قرآن‘‘ ہے۔ ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ آگرہ سے شائع ہوئی۱؎۔ محمد صادق مولانا سید محمد صادق کے والد کا نام سید محمد باقر تھا۔ آپ کی تالیف’’رجعت‘‘ ہے جس میں رجعت سے متعلق آیات کا قرآنی کی تشریح کی ۱؎۔ ابو آفاق زیدی، لکھنوی(طبع ۱۴۱۳ھ) سید ابو آفاق زیدی کی ولادت لکھنؤ میں ہوئی آپ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ تعلیمی مرکز بھی چلا رہے ہیں۔ سماجی اور قومی معاملات میں پیش پیش رہتے ہیں۔ آپ کے چھوٹے بھائی مولانا سید ابو افتخار زیدی نے حوزہ علمیہ قم میں تعلیم حاصل کی۔ سید ابو آفاق صاحب کی ’’تالیف‘‘ تجوید کلام خدا‘‘ ہے۔ جو لکھنؤ سے ۱۹۹۲ء میںشائع ۱؎۔ فہرست مشمولات مقدمہ پیش گفتار ۳ تقریظ ۷ مقدمہ ۸ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم سب سے پہلے مفسرقرآن ۸ حضرت علیؑ اور تفسیر قرآن ۱۰ حضرت فاطمہ زہراؑ اور قرآن ۱۱ امام حسن مجتبیٰ ؑ اور تفسیر قرآن ۱۳ امام حسینؑ اور تفسیر قرآن ۱۴ امام زین العابدینؑ اور تفسیر قرآن ۱۶ امام محمد باقرؑ اور تفسیر قرآن ۱۸ امام جعفر صادقؑ اور تفسیر قرآن ۲۰ امام موسیٰ الکاظمؑ اور تفسیر قرآن ۲۱ امام علی رضاؑ اور تفسیر قرآن ۲۲ امام محمد تقیؑ اور تفسیر قرآن ۲۴ امام علی نقیؑ اور تفسیر قرآن ۲۵ امام حسن عسکریؑ اور قرآن ۲۷ امام مہدی اور قرآن ۲۹ عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن مسعود، میثم تمار،جابر بن عبداﷲ انصاری ۳۱ ابوالدردا، سعید بن جبیر ،ابوالاسود دئلی بصری، ابوصالح میزان ۳۲ مجاہدبن جبر، طاؤس بن کیسان یمانی، عطیہ بن سعد عوفی ۳۳ زید بن علی الشہید، ابو محمد اسماعیل سدی،جابر بن یزید جعفی، یحییٰ بن یعمر ۳۴ ابن ابی شعبہ حلبی، زید بن اسلم، داؤد بن ابی ہند، ابان بن تغلب ۳۵ محمد بن سائب کلبی، ہشام بن سالم ۳۶ اعمش کوفی، اسماعیل سکونی، ابو خالد کابلی، وہیب بن حفص، ابوحمزہ ثمالی ۳۷ منخل بن جمیل اسدی، حسن بن واقد مروزی، محمدبن فرات، ابن کثیر ہاشمی ،حمزہ بن حبیب زیات، ابن شعبہ حلبی، ۳۸ مالک بن عطیہ، ابوجنادہ سلولی،علی بن ابی حمزہ سالم، محمد بن خالد برقی ۳۹ ابوالحسن علی، سفیان بن عینیہ،دارم بن قبیصہ، ابن اسباط کندی، ابو صلت قمی ۴۰ ابن یسار بصری، محمد بن علی بن ابی شعبہ، معلی بن محمد بصری ، احمد بن صبیح ۴۱ ابوالعباس احمد بن اسفراینی، یونس بن عبدالرحمن، عبدالرزاق، محمد بن ابی عمیر ۴۲ ابن فضال کبیر، محمدبن یقطینی، حسن بن محبوب، علی بن مہزیار، ابوعبداﷲ محمد برقی، حسن بن اہوازی، ابو عبداﷲ سیاری ۴۳ بکر بن محمد مازنی، ابو جعفر محمد بن اورمہ قمی، ابو جعفر محمد، فضل بن شاذان،علی بن حسن فضال، ابوالاسحاق ثقفی ۴۴ حسین بن سعید اہوازی، حسن بن موسیٰ نوبختی، ابو عبداﷲ غاضری، حسان رازی، محمد بن محمد حارثی ۴۵ علی بن ابراہیم قمی، فرات بن ابراہیم، ابو نضر محمدمسعود عیاشی،ابو جعفر محمد بن علی جرجانی، ابن دول قمی ۴۶ محمد بن حسن شیبانی، شیخ صدوق،ابو علی محمد اسکافی، عباد بن عباس طالقانی، محمد بن علی جنّی ۴۷ سید شریف رضی، محمد بن نعمان مفید، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ ۴۸ شیخ احمد تیمیمی، ابوسعید سمان، ابوالفتح کراجکی، شیخ طوسی ۴۹ ابو علی محمد فتال نیشاپوری، ابو علی فضل بن حسن طبرسی، سید ضیاراوندی ۵۰ ابو الفتوح جمال الدین رازی، قطب راوندی، محمد بن ادریس حلّی،برہان الدین ابی الخیر حمدانی ۵۱ ابوالحسن علی نیریزی، سید رضی الدین بن طاؤس، سید احمد بن طاؤس،ابوزکریا یحییٰ حلی ۵۲ عبدالرزاق کاشانی، کمال الدین بن عتایقی، فخرالدین احمد بن متوّج،شیخ حسن بن محمد دیلمی ۵۳ فاضل مقداد، طیفور بن سراج الدین، زین الدین بیاضی، کمال الدین حسن استرآبادی ،شیخ تقی الدین ابراہیم کفعمی ۵۴ کمال الدین حسین واعظ کاشفی، شرف الدین الٰہی، میرابوالفتح حسینی ،ملا فتح اﷲ کاشانی ۵۵ مقدس اردبیلی، محمد بن احمد خواجکی ۵۶ شیخ مبارک ناگوری، شیخ ابوالفضل فیاضی، قاضی نوراﷲ شوشتری، میرزا محمد بن علی استرآبادی، میر محمد باقر میر داماد، ابوالمعالی شوشتری،ملا یعقوب بختیاری ۵۷ ملا صدر اشیرازی، امیر معزالدین حیدرآبادی، شیخ فاضل جواد،شیخ عبدعلی بن جمعہ حویزی، محمد مومن بن شاہ سبزواری، ملا محمد فیض کاشانی ۵۸ سید ہاشم بحرانی، میر محمد خاتون آبادی، میرزا محمد مشہدی، سید محمد رضا ،علی بن حسین عاملی ۶۰ فاضل ہندی ۶۱ علی بن قطب الدین بہبہانی، سید ابراہیم بن محمد صنعائی، شیخ حسین بن محمد عصفوری، سید عبداﷲ شبر،شیخ محمد علی قمشہ ای ۶۲ ملا محمد صالح برغانی ۶۳ میرزا محمد باقر لنگرودی، سید محمد کاشانی، علی اصغر قائینی، امیر محمد صادق خوانساری، شیخ محمد جواد بلاغی، ڈاکٹر محمد صادق تہرانی ۶۴ شیخ محمد نہاوندی، شیخ زین العابدین مازندرانی، سید محمدحسین طباطبائی، یعقوب الدین رستگار،سید مصطفی خمینی ۶۵ میرزا حسن مصطفوی، شیخ جعفر سبحانی، شیخ ناصر مکارم شیرازی ،میرزا محمد ثقفی تہرانی ۶۶ سید علی اکبر قرشی، سید عبدالحسین طیب، سید ابوالقاسم خوئی،علی اکبر ہاشمی رفسنجانی، عبداﷲ جوادی آملی ۶۷ شیخ محسن قرائتی ۶۸ فہرست طبقات مفسرین امامیہ دسویں صدی ہجری محمد طاہر دکنی ۷۱ محمد بن احمد خواجگی شیرازی ۸۱ گیارہویں صدی ہجری مبارک ناگوری، شیخ ۸۵ ابوالفیض، فیضی ۹۲ ابوالفضل،علامی ۱۰۰ نوراﷲ شوشتری، شہید ثالث ۱۰۲ شریف الدین شوشتری ۱۰۷ ابوالمعالی شوشتری ۱۰۸ عبدالحکیم سیالکوٹی ۱۱۰ حسین بن شہاب الدین العاملی ۱۱۳ علاء الدولہ شوشتری ۱۱۵ علی رضا تجلی ۱۱۶ بارہویں صدی ہجری نعمت خان عالی، مرزا ۱۲۱ صفی الدین بن ولی قزوینی ۱۲۴ ابوالحسن تاناشاہ ۱۲۵ محمد سعید اشرف، مازندرانی ۱۲۷ ارجمند، میرزا ۱۲۹ نامعلوم (مفسر) ۱۳۰ محمد کاظم ۱۳۱ محمد علی حزیں، لاہیجی ۱۳۲ تیرہویں صدی ہجری ذاکر علی، جونپوری ۱۳۹ غلام مرتضیٰ، فیض آبادی ۱۴۱ احمد آقا، بہبہانی ۱۴۲ نجف علی خاں، دہلوی ۱۴۴ ابراہیم، سید ۱۴۵ وزیر علی ۱۴۶ یاد علی، نصیرآبادی ۱۴۷ صفدر علی رضوی، دہلوی ۱۴۹ علی ، سید ،بن غفرانمآب ۱۵۱ محمد حسین ۱۵۸ محمد قلی کنتوری، مفتی ۱۶۰ نجف علی، نونہروی ۱۶۴ حسین، سید، سید العلماء ۱۶۶ امداد علی، لکھنوی ۱۲۷ محمد باقر، دہلوی ۱۷۴ رجب علی، ارسطوجاہ ۱۷۷ حیدر رضا ۱۸۰ محمد تقی، ممتازالعلماء ۱۸۳ محمد اخباری، میرزا، لکھنوی ۱۹۲ امداد علی خان، راجہ ۱۹۵ بندہ حسین، ملک العلماء ۱۹۷ حیدر علی ۲۰۰ نامعلوم (مترجم) ۲۰۱ چودھویں صدی ہجری محمد عباس، مفتی ۲۰۵ محمد ابراہیم ۲۱۴ احمد نذر، امروہوی ۲۱۸ علی محمد، تاج العلماء ۲۱۹ ناصر حسین، جونپوری ۲۲۴ محمد حسین قلی خاں، کانپوری ۲۲۷ مطاہر حسین فرقانی، امروہوی ۲۲۹ ابوالقاسم حائری ۲۳۲ محمد محسن، زنگی پوری ۲۳۷ محمد حسین، علن، بحرالعلوم ۲۴۱ آل محمد، امروہوی ۲۴۴ علی اکبر بن سلطان العلماء ۲۴۶ محمد اصفہانی، شیخ ۲۴۷ احمد حسین، امروہوی ۲۴۸ علی بیگ قزلباش، دہلوی ۲۵۱ محمد علی، طبسی، حیدرآبادی ۲۵۲ زوار حسین، سہارنپوری ۲۵۴ فرمان علی، حافظ ۲۵۵ بہادر علی شاہ ۲۶۰ غلام حسنین کنتوری ۲۶۲ محمدحسین، محقق ہندی ۲۶۵ اولاد حسن، امروہوی ۲۶۸ محمد ہارون ، زنگی پوری ۲۷۲ مقبول احمد، دہلوی ۲۷۸ اعجاز حسن، امروہوی ۲۸۱ محمد تقی بن محمد ابراہیم ۲۸۵ عبدالعلی ، ہروی ۲۸۷ حسین، سید، بلگرامی ۲۸۹ زیرک حسین، امروہوی ۲۹۰ محمد رضا، لاہرپوری ۲۹۴ آقا حسن،، لکھنوی ۲۹۵ ذاکر حسین، بارہوی ۲۹۷ محمد اعجاز حسن، بدایونی ۲۹۸ غضنفر علی، بی۔اے۔ ۳۰۱ فیاض حسین، خواجہ، کیرانوی ۳۰۲ مرتضی حسین، حکیم ۳۰۴ یوسف حسین، امروہوی ۳۰۵ علی اظہر، کھجوی ۳۰۸ غلام حسین، حیدرآبادی ۳۱۱ برکت علی شاہ ۳۱۳ بادشاہ حسین، سیتاپوری ۳۱۴ محمد خاں، لغاری ۳۱۶ علی، سید، حائری ۳۱۷ جعفر حسین، شاہ ۳۱۹ غلام علی اسماعیل ، حاجی ناجی ۳۲۱ اولاد حیدر، فوق بلگرامی ۳۲۳ شریف حسین، بھریلوی ۳۲۶ محمد علی، دہلوی ۳۲۹ محمد رضی، زنگی پوری ۳۳۲ امیر حسن، سہا، دہلوی ۳۳۶ افتخار حسین، غازی پوری ۳۳۸ راحت حسین، گوپالپوری ۳۳۹ باقر علی خاں، نجفی ۳۴۳ محمد احمد، سونی پتی ۳۴۴ علی حیدر، کھجوی ۳۴۶ اقبال حسین، لاہوری ۳۴۹ حفاظت حسین، بھیکپوری ۳۵۰ دلدار حسین، کندرکوی ۳۵۲ محمد سعید، لکھنوی ۳۵۴ حسن نواب رضوی ۳۵۷ حیدر حسین، نکہت، لکھنوی ۳۵۸ احمد علی، امرتسری ۳۵۹ احمد علی وفاخانی، پروفیسر ۳۶۳ محمدرضی کشمیری ۳۶۴ مہدی پویا، میرزا ۳۶۵ محمد عسکری، پروفیسر ۳۶۷ مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۸ مظہر علی ۳۷۲ امداد حسین کاظمی ۳۷۳ محمد جعفر، بجنوری ۳۷۷ علی،سید، گوپالپوری ۳۷۸ علی صفدر ۳۸۰ علی اطہر مرغوب ۳۸۱ احمد شاہ، قاضی ۳۸۲ محمد علی،خاں، نواب ۳۸۳ پندرہویں صدی ہجری مشتاق حسین، شاہدی ۳۸۷ افتخار حسین نقوی ۳۸۸ احمد علی، میر ۳۸۹ حسین بخش، جاڑا ۳۹۰ مجاور حسین حسینی،ڈاکٹر ۳۹۲ محمد حسن صلاح الدین، نجفی ۳۹۴ محمد حبیب الثقلین، امروہوی ۳۹۵ محمد صادق،سید ،آل نجم العلماء ۳۹۷ ملک محمد شریف ۴۰۳ فیروز حسین قریشی ۴۰۶ آغا مہدی، رضوی ۴۰۷ مرتضیٰ حسین، فاضل، لکھنوی ۴۰۹ قائم رضا، نسیم امروہوی ۴۱۴ علی نقی نقوی، سیدالعلماء ۴۱۸ کرار حسین، پروفیسر ۴۲۴ ظفر حسن، ادیب اعظم، امروہوی ۴۲۵ صفدرحسین، نجفی ۴۳۰ محمد شفا، نجفی ۴۳۵ ریاض حسین، قدوسی ۴۳۷ محمد یوسف ، حسین آبادی ۴۳۸ ایم۔ایچ۔ شاکر ۴۴۱ قیصر عباس ۴۴۲ طالب جوہری ۴۴۳ محمد رضی، آل نجم العلماء ۴۴۵ سردار نقوی، امروہوی ۴۴۸ ذیشا ن حیدر، جوادی ۴۵۱ سعید اختر گوپالپوری ۴۵۶ محسن علی، نجفی ۴۵۹ نیاز حسین، نقوی ۴۶۲ حسین سحر، پروفیسر ۴۶۴ مصطفی حسین، کشمیری ۴۶۵ امان اﷲ ،کربلائی ۴۶۹ ابن حسن، کربلائی ، لکھنوی ۴۷۰ محمد محسن، آل نجم العلماء ۴۷۲ مسرور حسن، مبارکپوری ۴۷۶ محمد شاکر نقوی، امروہوی ۴۷۹ جعفر حسین، استرزئی ۴۸۴ شمیم الحسن ۵۸۵ محمد زکی ۴۸۶ محمداسحاق ، نجفی ۴۸۷ محمد فضل حق ۴۸۸ شاکر حسین موسوی، نجفی ۴۸۹ محمداحسن، زیدی ۴۹۰ طیب آغا جزائری، لکھنوی ۴۹۱ محمد حسن رضوی، ڈاکٹر، امروہوی ۴۹۲ بشیر حسین، نجفی ۴۹۵ رضی جعفر نقوی ۴۹۸ تلمیذ حسنین رضوی ۵۰۱ علی قلی قرئی، حیدرآباد ی ۵۰۳ شاہد حسین، میثم ۵۰۴ حیدر حسین ۵۰۶ علی محمد، پروفیسر ۵۰۷ رضا حسین، ڈاکٹر ۵۱۰ نثار احمد، زین پوری ۵۱۱ رئیس احمد ، جارچوی ۵۱۵ ولی الحسن رضوی ۵۱۸ متعلقات قرآن محمد علی، کربلائی ۵۲۱ ناصر بن حسین حسنی ۵۲۳ محمد،سید ۵۲۶ علی، میرزا ۵۲۷ محمد رضا ۵۲۸ ببر علی خاں، نواب ۵۲۹ محمدحسن علی ۵۳۰ کاظم حسین رضوی، لکھنوی ۵۳۱ غلام محمدمہدی واصف ۵۳۲ محمد علی ۵۳۳ غلام مجتبیٰ ۵۳۴ آقا احمد، مجتہد ۵۳۵ محمد حسین، دہلوی ۵۳۶ محمد رضا، امروہوی ۵۳۷ حسن، سید ۵۳۸ محمد، سید، سلطان العلماء ۵۳۹ محمد مرتضیٰ ، جونپوری ۵۴۳ حیدر حسین ۵۴۴ محمد،سید، رضوی ۵۴۵ غلام الحسنین، خواجہ، پانی پتی ۵۴۶ عابد ، اکبرآبادی ۵۴۷ محمود حسین ۵۴۸ رضا لقمان، امروہوی ۵۴۹ منظور حسن جعفری ۵۵۰ ذوالفقار حیدر ۵۵۱ فضل حسین، نجفی ۵۵۲ محمدجعفر ۵۵۳ سبط حسین، مجتہد ۵۵۴ محمد حسن خان بہادر ۵۵۵ محمد شاہ عالم، میرزا ۵۵۶ فتح اﷲ مفتون، یزدی ۵۵۷ مظفر علی خاں، جانسٹھی ۵۵۸ اظہار حسنین ۵۵۹ سعیدہ جعفر علی ۵۶۰ رضا علی، میرزا ۵۶۱ امجاد حسنین، حکیم، امروہوی ۵۶۲ ممتاز احمد، امروہوی ۵۶۳ احمد حسین، نواب ،پریانوی ۵۶۴ احمد سلطان، میرزا، دہلوی ۵۶۵ علی ابراہیم، لکھنوی ۵۶۶ احمد علی، محمدآبادی ۵۶۷ رفعت علی خاں، حکیم، امروہوی ۵۶۸ ابو تراب جعفری ۵۶۹ تصدق حسین، شاہ پوری ۵۷۰ یعقوب علی، توسلی ۵۷۱ اقبال حسین، نصیرآبادی ۵۷۲ علی نقی، قاری ۵۷۳ صولت حسین، بنارسی ۵۷۴ مسرور حسین ،امروہوی ۵۷۵ قلیچ بیگ، مرزا ۵۷۶ محمد وزیر ، شوشتری ، لکھنوی ۵۷۷ محمد لطیف انصاری ۵۷۹ غلام محمد زکی، سرورکوٹی ۵۸۰ ایم۔اے۔ انصاری ۵۸۱ خادم حسین ۵۸۲ ظفر علی ۵۸۳ محمد تقی نقوی ۵۸۴ شرف الدین بلتستانی ۵۸۵ نصیرحسین نقوی ۵۸۶ طالب حسین، کرپالوی ۵۸۷ محمد افضل، حیدری ۵۸۸ نجم الحسن، کراروی ۵۸۹ فیاض حسین نقوی ۵۹۰ امتیاز حیدر پرتاپ گڑھی ۵۹۱ منتخب حسین ۵۹۲ روشن علی خاں ۵۹۳ تہور علی شاہ ۵۹۴ انصار حسین، واسطی ۵۹۵ وجیہ الحسن، زیدی ۵۹۶ مظفر علی خاں، الہ آبادی ۵۹۷ علی بن الحسین، زیدی ۵۹۸ قیصر حسین، نجفی ۶۰۰ محمد حسین ۶۰۱ نذر حسن، گوپالپوری ۶۰۲ طیب رضا، اغوانپوری ۶۰۵ مرغوب احمد ۶۰۷ شاد گیلانی ۶۰۸ ناصر حسین، فیض آبادی ۶۰۹ ٖغضنفر حسین، بخاری ۶۱۰ محمد نقی ۶۱۱ ذوالفقار علی شاہ، حافظ ۶۱۲ الفت حسین ۶۱۳ نیاز محمد، ہمدانی ۶۱۴ عزیزالحسن،بدایونی ۶۱۵ محمد مہدی، میرزا ۶۱۶ انوار احمد بلگرامی ۶۱۷ برکت حسین خان ۶۱۸ فتحیاب حسین، مرزا ۶۱۹ مقرب علی خاں، جگرانوی ۶۲۰ احمد شاہ کاظمی ۶۲۱ احمد حسنین ۶۲۲ سکندر زہرا زیدی ۶۲۳ یعقوب حسن، امروہوی ۶۲۴ حیدر حسن، نانوتوی ۶۲۵ غلام رضا، ناصر، نجفی ۶۲۶ سجاد حسین ۶۲۷ محمد حیدر ۶۲۸ محمد صادق ۶۲۹ ابوآفاق زیدی، لکھنوی ۶۳۰ فہرست الفبائی آ آل محمد، امروہوی ۲۴۴ آقا حسن،قدوۃ العلمائ، لکھنوی ۲۹۵ آقا مہدی، رضوی، لکھنوی ۴۰۷ آقا، احمد، مجتہد ۵۳۵ الف ابراہیم، سید ۱۴۵ ابوآفاق زیدی، لکھنوی ۶۳۰ ابوتراب، جعفری ۵۶۹ ابوالحسن تاناشاہ ۱۲۵ ابوالفضل علامی ۱۰۰ ابوالفیض فیضی ۹۲ ابوالقاسم، حائری ۲۳۲ ابوالمعالی شوشتری ۱۰۸ ابن حسن کربلائی، لکھنوی ۴۷۰ احمد آقا، بہبہانی ۱۴۲ احمد حسین، پریانوی ۵۶۴ احمد حسین، امروہوی ۲۴۸ احمد حسنین ۶۲۲ احمد سلطان میرزا، دہلوی ۵۶۵ احمد شاہ کاظمی ۶۲۱ احمد شاہ قاضی ۳۸۲ احمد علی وفاخانی، پروفیسر ۳۶۳ احمد علی امرتسری ۳۵۹ احمد علی، میر ۳۸۹ احمد علی، محمدآبادی ۵۶۷ احمد نذر، امروہوی ۲۱۸ ارجمند، میرزا ۱۲۹ اظہار حسنین ۵۵۹ اعجاز حسن، امروہوی ۲۸۱ افتخار حسین نقوی ۳۸۸ افتخار حسین، غازی پوری ۳۳۸ اقبال حسین، لاہوری ۳۴۹ اقبال حسین، نصیرآبادی ۵۷۲ الفت حسین ۶۱۳ امان اﷲ کربلائی ۴۶۹ امتیاز حیدر، پرتاپ گڑھی ۵۹۱ امداد علی خاں، راجہ ۱۹۵ امداد حسین کاظمی ۳۷۳ امداد علی، لکھنوی ۱۷۲ امجاد حسنین، امروہوی ۵۶۲ امیر حسن، سہادہلوی ۳۳۶ انصار حسین واسطی ۵۹۵ انوار احمد، بلگرامی ۶۱۷ اولاد حسن، امروہوی ۶۶۸ اولاد حیدر، فوق، بلگرامی ۳۲۳ ایم۔ایچ۔ شاکر ۴۴۱ ایم۔اے۔ انصاری ۵۸۱ ب بادشاہ حسین، سیتاپوری ۳۱۴ باقر علی خان، نجفی ۳۴۳ ببر علی خاں، نواب ۵۲۹ برکت حسین، خان ۶۱۸ برکت علی شاہ ۳۱۳ بشیر حسین، نجفی ۴۹۵ بندہ حسین ، ملک العلماء ۱۹۷ بہادر علی شاہ ۲۶۰ ت تصدق حسین، شاہ پوری ۵۷۰ تلمیذ حسنین رضوی ۵۰۱ تہور علی شاہ ۵۹۴ ج جعفر حسین شاہ ۳۱۹ جعفر حسین، استرزئی ۴۸۴ ح حسن، سید، بن غفرانمآب ۵۳۸ حسن نواب، رضوی ۳۵۷ حسین بن شہاب الدین عاملی ۱۱۳ حسین، سید، سیدالعلماء ۱۶۶ حسین، سید، بلگرامی ۲۸۹ حسین بخش ، جاڑا ۳۹۰ حسین سحر، پروفیسر ۴۶۴ حفاظت حسین، بھیکپوری ۳۵۰ حیدر رضا ۱۸۰ حیدر حسین نکہت، لکھنوی ۳۵۸ حید رعلی ۲۰۰ حیدر حسین ۵۴۴ حیدر حسن، نانوتوی ۶۲۵ خ خادم حسین ۵۸۲ د دلدار حسین، کندرکوی ۳۵۲ ذ ذاکر علی، جونپوری ۱۳۹ ذاکر حسین، بارہوی ۲۹۷ ذوالفقار حیدر ۵۵۱ ذوالفقار علی شاہ ۶۱۲ ذیشان حیدر جوادی ، علامہ ۴۵۱ ر راحت حسین، گوپالپوری ۳۳۹ رجب علی، ارسطوجاہ ۱۷۷ رضا حسین، ڈاکٹر ۵۱۰ رضا علی، میرزا ۵۶۱ رضا لقمان، امروہوی ۵۴۹ رضی جعفر نقوی، علامہ ۴۹۸ رفعت علی خاں، امروہوی ۵۶۸ روشن علی خاں ۵۹۳ ریاض حسین، قدوسی ۴۳۷ رئیس احمد، جارچوی ۵۱۵ ز زوار حسین، سہارنپوری ۲۵۴ زیرک حسین، امروہوی ۲۹۰ س سبط حسین، مجتہد ۵۵۴ سجاد حسین ۶۲۷ سردار نقوی، امروہوی ۴۴۸ سعید اختر، گوپالپوری ۴۵۶ سعیدہ جعفر علی ۵۶۰ سکندر زہرا زیدی ۶۲۳ ش شاد گیلانی ۶۰۸ شاکر حسین، موسوی، نجفی ۴۸۹ شاہد حسین، میثم ۵۰۴ شرف الدین بلتستانی ۵۸۵ شریف الدین شوشتری ۱۰۷ شریف حسین، بھریلوی ۳۲۶ شمیم الحسن ۴۸۵ ص صفدر حسین، نجفی ۴۳۰ صفدر علی، دہلوی ۱۴۹ صفی الدین بن ولی قزوینی ۱۲۴ صولت حسین، بنارسی ۵۷۴ ط طالب حسین، کرپالوی ۵۸۷ طالب جوہری، علامہ ۴۴۳ طیب آقا، جزائری، لکھنوی ۴۹۱ طیب رضا، اغوانپوری ۶۰۵ ظ ظفر حسن، امروہوی ، ادیب اعظم ۴۲۵ ظفر علی ۵۸۳ ع عابد، اکبرآبادی ۵۴۷ عبدالحکیم، سیالکوٹی ۱۱۰ عبدالعلی، ہروی ۲۸۷ عزیزالحسن، بدایونی ۶۱۵ علی مرزا ۵۲۷ علی ابراہیم، لکھنوی ۵۶۶ علی اکبر بن سلطان العلماء ۲۴۶ علی اطہر مرغوب ۳۸۱ علی اظہر، کھجوی ۳۰۸ علی حیدر، کھجوی ۳۴۶ علی رضا تجلی ۱۱۶ علی بن حسین زیدی ۵۹۸ علی بیگ قزلباش، دہلوی ۲۵۱ علی، سید، حائری ۳۱۷ علی، سید، ابن غفرانمآب ۱۵۱ علی، سید، گوپالپوری ۳۷۸ علی قلی قرئی، حیدرآباد ی ۵۰۳ علاء الدولہ شوشتری ۱۱۵ علی صفدر ۳۸۰ علی محمد، تاج العلماء ۲۱۹ علی محمد، پروفیسر ۵۰۷ علی نقی نقوی ۴۱۸ علی نقی، قاری ۵۷۳ غ غلام حسنین کنتوری ۲۶۲ غلام الحسنین ، پانی پتی ۵۴۶ غلام حسین، حیدرآبادی ۳۱۱ غلام رضا ناصر، نجفی ۶۲۶ غلام مجتبیٰ ۵۲۴ غلام علی اسماعیل ۳۲۱ غلام مرتضیٰ، فیض آبادی ۱۴۱ غضنفر حسین، بخاری ۶۱۰ غضنفرعلی، بی۔اے۔ ۳۰۱ غلام محمد واصف ۵۳۲ غلام محمد زکی سرور کوٹی ۵۸۰ ف فتح اﷲ مفتون، یزدی ۵۵۷ فتحیاب حسین، مرزا ۶۱۹ فرمان علی، حافظ ۲۵۵ فضل حسین، نجفی ۵۵۲ فیاض حسین نقوی ۵۹۰ فیاض حسین، خواجہ، کیرانوی ۳۰۲ فیروز حسین قریشی ۴۰۶ ق قائم رضا نسیم، امروہوی ۴۱۴ قلیچ بیگ، مرزا ۵۷۶ قیصر عباس ۴۴۲ قیصر حسین، نجفی ۶۰۰ ک کاظم حسین، رضوی، لکھنوی ۵۳۱ کرار حسین، پروفسیر، کراچی ۴۲۴ م مبارک، شیخ ،ناگوری ۸۵ مترجم، نامعلوم ۲۰۱ مجاور حسین حسینی ۳۹۲ مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۸ محسن علی، نجفی ۴۵۹ محمد ابراہیم ۲۱۴ محمد اخباری، مرزا ۱۹۲ محمد اصفہانی، شیخ ۲۴۷ محمد اعجاز حسن، بدایونی ۲۹۸ محمد احمد ، سونی پتی ۳۴۴ محمد اسحاق، نجفی ۴۸۷ محمد احسن زیدی ۴۹۰ محمد افضل حیدر ی ۵۸۸ محمد بن احمد خواجکی، شیرازی ۸۱ محمد باقر، دہلوی ۱۷۴ محمد تقی، ممتازالعلماء ۱۸۳ محمد تقی بن محمد ابراہیم ۲۸۵ محمد تقی نقوی ۵۸۴ محمد،سید، سلطان العلماء ۵۳۹ محمد جعفر، بجنوری ۳۷۷ محمد جعفر ۵۵۳ محمد حسین، قلی خاں، کانپوری ۲۲۷ محمد حسین، بحرالعلوم ۲۴۱ محمد حسین ۱۵۸ محمد حسین، محقق ہندی ۲۶۵ محمد حسین ۶۰۱ محمد حسن صلاح الدین، نجفی ۳۹۴ محمد حبیب الثقلین امروہوی ۳۹۵ محمد حسن رضوی، امروہوی ۴۹۲ محمد حسن علی ۵۳۰ محمدحسین، دہلوی ۵۳۶ محمد حسن خاں بہادر ۵۵۵ محمدحیدر ۶۲۸ محمد خاں لغاری ۳۱۶ محمد رضا، لاہرپوری ۲۹۴ محمد رضی، زنگی پوری ۳۳۲ محمد رضی ،کشمیری ۳۶۴ محمد رضی آل نجم العلماء ۴۴۵ محمد رضا ۵۲۸ محمد رضا، امروہوی ۵۳۷ محمد،سید ۵۲۶ محمد،سید، رضوی ۵۴۵ محمد زکی ۴۸۶ محمد سعید اشرف، مازندرانی ۱۲۷ محمد سعید، لکھنوی ۳۵۴ محمد شفا، نجفی ۴۳۵ محمد شاکر امروہوی، علامہ ۴۷۹ محمد شاہ عالم مرزا ۵۵۶ محمد صادق، آل نجم العلماء ۳۹۷ محمد صادق ۶۲۹ محمد طاہر، شاہ دکنی ۷۱ محمد عباس، مفتی ۲۰۵ محمد علی، شیخ، دہلوی ۳۲۹ محمد علی، حزیں لاہیجی ۱۳۲ محمد علی طبسی، حیدرآبادی ۲۵۲ محمد علی خاں،نواب ۳۸۳ محمد علی ۵۳۳ محمد عسکری، پروفیسر ۳۶۷ محمد علی ،کربلائی ۵۲۱ محمد فضل حق ۴۸۸ محمد قلی، مفتی، کنتوری ۱۶۰ محمد کاظم ۱۳۱ محمد لطیف انصاری ۵۷۹ محمد مرتضیٰ، جونپوری ۵۴۳ محمد مہدی، مرزا ۶۱۶ محمد محسن آل نجم العلماء ۴۷۲ محمد محسن، زنگی پوری ۲۳۷ محمد نقی ۶۱۱ محمد وزیر شوشتری ۵۷۷ محمد ہارون ، زنگی پوری ۲۷۲ محمد یوسف ، حسین آبادی ۴۳۸ محمود حسین ۵۴۸ مرتضیٰ حسین، حکیم ۳۰۴ مرتضیٰ حسین، فاضل ۴۰۹ مرغوب احمد ۶۰۷ مسرور حسن، مبارکپوری ۴۷۶ مسرور حسین، امروہوی ۵۷۵ مشتاق حسین شاہدی ۳۸۷ مصطفی حسین، کشمیری ۴۶۵ مطاہر حسین فرقانی، امروہوی ۲۲۹ مظہر علی ۳۷۲ مظفر علی، جانسٹھی ۵۵۸ مظفر علی خاں، الہ آبادی ۵۹۷ مقبول احمد، دہلوی ۲۷۸ مقرب علی خاں، جگرانوی ۶۲۰ ملک محمد شریف ۴۰۳ ممتاز احمد، امروہوی ۵۶۳ منظور حسن جعفری ۵۵۰ منتخب حسین ۵۹۲ مہدی پویا، مرزا ۳۶۵ ن ناصر بن حسین، حسنی ۵۲۳ ناصر حسین، فیض آبادی ۶۰۹ ناصر حسین، جونپوری ۲۲۴ نثار احمد زین پوری ۵۱۱ نجف علی خاں، دہلوی ۱۴۴ نجف علی، نونہروی ۱۶۴ نجم الحسن، کراروی ۵۸۹ نذر حسن، گوپالپوری ۶۰۲ نصیر حسین نقوی ۵۸۶ نعمت خاں عالی ۱۲۱ نوراﷲ شوشتری، قاضی ۱۰۲ نیاز حسین نقوی ۴۶۲ نیاز محمد، ہمدانی ۶۱۴ و وجیہ الحسن زیدی ۵۹۶ وزیر علی ۱۴۶ ولی الحسن رضوی ۵۱۸ ی یاد علی، نصیرآبادی ۱۴۷ یعقوب حسن، امروہوی ۶۲۴ یعقوب علی، توسلی ۵۷۱ یوسف حسین، امروہوی ۳۰۵ فہرست تفاسیر، تراجم، حواشی احسن الحدائق صفدر علی رضوی، دہلوی ۱۴۹ انتخاب روح الجنان احمد نذر ، امروہوی ۲۱۸ ایجازالتحریر در آیۂ تطہیر ناصر حسین،جونپوری ۲۲۵ اساس البیان علی صفدر ۳۸۰ اعظم المطالب فی آیات المناقب احمد حسین، امروہوی ۲۴۹ اتقان البرہان محمد حسین محقق ہندی ۲۶۶ انس الوحید فی تفسیر آیۃ العدل والتوحید قاضی نوراﷲ شوشتری ۱۰۵ انوارالبیان فی تفسیر القرآن غلام علی اسماعیل حاجی ناجی ۳۲۲ انوار القرآن اولاد حسن، امروہوی ۲۶۹ انوارالقرآن راحت حسین گوپالپوری ۳۴۰ انوارالقرآن ذیشان حیدر، جوادی ۴۵۲ امامۃ القرآن محمد ہارون ،زنگی پوری ۲۷۳ انوارالنجف فی اسرارالمصحف حسین بخش جاڑا ۳۹۰ احسن الحدیث طالب جوہری ۴۳۳ انوارالحجۃ فی تفسیر المصحف نیاز حسین نقوی ۴۶۲ بحرالمعانی محمد بن احمد خواجکی، شیرازی ۸۱ برہان المجادلہ فی تفسیر المباہلہ محمد اعجاز حسن، بدایونی ۲۹۹ البیان محمد فضل حق ۴۸۸ پارہ الٓم غضنفر علی بی۔اے۔ ۳۰۱ توضیح المجید فی تنقیح کلام اﷲ المجید سید علی بن غفرانمآب ۱۵۳ تقریب الافہام در تفسیر آیات الاحکام محمد قلی کنتوری ، مفتی ۱۶۲ تنویرالبیان فی تفسیرالقرآن محمد حسین بحرالعلوم ۲۴۱ تتمہ ینابیع الانوار محمد ابراہیم ۲۱۶ تکملہ لوامع التنزیل سید علی حائری ۳۱۷ التکمیل حکیم مرتضیٰ حسین ۳۰۴ توحیدالقرآن محمد ہارون، زنگی پوری ۲۷۳ تلخیص تفسیر مجمع البیان ڈاکٹر محمد حبیب الثقلین، امروہوی ۳۹۶ توضیح البیان فی تفسیر القرآن محمدرضی رضوی، کشمیری ۳۶۴ تعلیقات تفسیر رضوی آغا مہدی رضوی، لکھنوی ۴۰۷ التعلیقات علی تفسیر القمی طیب آغا جزائری، لکھنوی ۴۹۱ تفسیر آیۂ انما المشرکون نجسٌ قاضی نوراﷲ شوشتری ۱۰۶ تفسیر آیۂ وکذالک جعلناکم امۃ وسطاًالخ سید العلماء سید حسین ۱۷۰ تفسیر آیۂ تطہیر محمد باقر دہلوی ۱۷۵ تفسیر آیۂ انک لعلی خلق عظیم محمد باقر دہلوی ۱۷۶ تفسیر آیات قرآن آل محمد ، امروہوی ۲۴۴ آیات جلی علی بیگ قزلباش، دہلوی ۲۵۱ تفسیر آیۂ نور محمدعلی طبسی، حیدرآبادی ۲۵۳ تفسیر آیۂ اینما غلام حسنین کنتوری ۲۶۳ تفسیر الآیات اعجاز حسن ، امروہوی ۲۸۲ تفسیر آیۂ لاینال عہدی الظالمین اعجاز حسن، امروہوی ۲۸۲ تفسیر آیات فضائل محمد تقی لکھنوی ۲۸۶ تفسیر آیۂ اناکل شیٍ خلقنا بقدرٍ عبدالعلی ہروی ۲۸۸ تفسیر آیۂ قربیٰ غلام حسین حیدرآبادی ۳۱۱ تفسیر آیہ تطہیر غلام حسین، حیدرآبادی ۳۱۱ تفسیر آیۂ مباہلہ غلام حسین، حیدرآبادی ۳۱۲ تفسیر آیۂ نجویٰ محمد اسحاق نجفی ۴۸۷ تفسیر آیات الاحکام حافظ بشیرحسین،نجفی ۴۹۷ تفسیر آیۂ نور مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۹ تفسیر آیۂ تطہیر مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ تفسیر آیۂ خلافۃ مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ تفسیر آیۂ سورہ آل عمران مظہر علی ۳۷۲ تفسیر آیۂ تطہیر محمد جعفر بجنوری ۳۷۷ تفسیر آثار حیدری شریف حسین بھریلوی ۳۲۷ تفسیر آیۂ تطہیر حفاظت حسین بھیکپوری ۳۵۰ تفسیر آیات دلدار حسین ، کندرکوی ۳۵۲ تفسیر آیۂ تطہیر محمد سعید، لکھنوی ۳۵۵ تفسیر آیۂ الولایۃ محمدسعید ،لکھنوی ۳۵۵ تفسیر آیات مشکلہ شاہد حسین میثم ۵۰۴ تفسیر اکبری شیخ ابوالفضل ، علامی ۱۰۰ تفسیر جواہر فضائل حیدر حسین ۵۰۶ تفسیر جزائے صبر تفسیر سورہ ٔ دہر رئیس احمد جارچوی ۵۱۷ تفسیر رضی محمد رضی، زنگی پوری ۳۳۲ تفسیر سورۂ الحمد محمد تقی لکھنوی ۲۸۵ تفسیر سورۂ الحمد سیدالعلماء سید حسین ۱۶۹ تفسیر سورہ ٔالحمد و اخلاص مشتاق حسین شاہدی ۳۸۷ تفسیر سورہ اخلاص سید ابوالمعالی ۱۰۹ تفسیر سورہ اخلاص شیخ محمد علی حزیں لاہیجی ۱۳۵ تفسیر سورۂ بقرہ سیدالعلماء سید حسین ۱۶۹ تفسیر سورہ توحید سیدالعلماء سید حسین ۱۷۰ تفسیر سورۂ توحید مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ تفسیر سورہ حشر شیخ محمد علی حزیں لاہیجی ۱۳۵ تفسیر سورہ دہر شیخ محمد علی حزیں لاہیجی ۱۳۵ تفسیر سورۂ کہف عبدالعلی ہروی ۲۸۸ تفسیر سورۂ قصص ولی الحسن رضوی ۵۱۸ تفسیر سورۂ ممتحنہ مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۹ تفسیر سورۂ والعصر مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۹ تفسیر سورۂ والشمس مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ تفسیر سورۂ یوسف میرزا ارجمند ۱۲۹ تفسیر سورۂ یوسف راجہ امداد علی خاں ۱۹۶ تفسیر سورۂ یوسف علی اکبر،لکھنوی ۲۴۶ تفسیر سورۂ یوسف بہادر علی شاہ ۲۶۱ تفسیر سورۂ یوسف محمد تقی لکھنوی ۲۸۵ تفسیر سورۂ یوسف ولی الحسن رضوی ۵۱۸ تفسیر سورہ ہل اتیٰ سیدالعلماء سید حسین ۱۶۹ تفسیر قرآن بادشاہ حسین، سیتاپوری ۳۱۴ تفسیر قرآن مرتضیٰ حسین، فاضل ۴۱۰ تفسیر قرآن مجید محمد حسن صلاح الدین،نجفی ۳۹۴ تفسیر قرآن میراحمد علی ایم۔اے۔ ۳۸۹ تفسیر قرآن مرزا نعمت خاں عالی ۱۲۲ تفسیر قرآن مجید علی رضا تجلی ۱۱۷ تفسیر القرآن وزیر علی ۱۴۶ تفسیر قرآن نجف علی نونہروی ۱۶۵ تفسیر قرآن مرزا محمد اخباری ۱۹۲ تفسیر قرآن نامعلوم ۱۳۰ تفسیر قرآن سید علی نقی نقوی ،سیدالعلماء ۴۲۰ تفسیر قرآن ظفر حسن ، امروہوی ،ادیب اعظم ۴۲۶ تفسیر قرآن اولا دحیدر فوق، بلگرامی ۳۲۳ تفسیر قرآن جسٹس افتخار حسین ۳۳۸ تفسیر قرآن حیدر حسین نکہت، لکھنوی ۳۵۸ تفسیر قرآن پروفیسر احمد علی، وفاخانی ۳۶۳ تفسیر قرآن مجید عبدالعلی ہروی ۲۸۷ تفسیر قرآن محمد رضا، لاہرپوری ۲۹۴ تفسیر قرآن مرزا مہدی پویا ۳۶۶ تفسیر قرآن پروفیسر علی محمد نقوی ۵۰۸ تفسیر قرآن رئیس احمد جارچوی ۵۱۵ تفسیر قرآن ولی الحسن رضوی ۵۱۸ تفسیر قرآن محمداحمد سونی پتی ۳۴۵ تفسیرقرآن علی حیدر کھجوی ۳۴۷ تفسیر کلینی محمد شاکر نقوی، امروہوی ۴۸۱ تفسیرالکوثر شیخ محسن علی نجفی ۴۵۹ تفسیر المتقین امدادحسین کاظمی ۳۷۴ تفسیر متقین نواب محمد علی خاں ۳۸۳ تفسیر منافقین نواب محمدعلی خاں ۳۸۳ تفسیر یوسفی یوسف حسین،امروہوی ۳۰۷ ترجمہ قرآن محمد حسین قلی خاں، کانپوری ۲۲۷ ترجمہ قرآن محمد اصفہانی، شیخ ۲۴۷ ترجمہ قرآن فرمان علی، حافظ ۲۵۶ ترجمہ قرآن مقبول احمد، دہلوی ۲۷۹ ترجمہ قرآن سید حسین، بلگرامی ۲۸۹ ترجمہ قرآن ڈاکٹر زیرک حسین، امروہوی ۲۹۱ ترجمہ قرآن علی اظہر، کھجوی ۳۰۸ ترجمہ قرآن شاہ جعفر حسین ۳۱۹ ترجمہ قرآن شیخ محمد علی، دہلوی ۳۳۰ ترجمہ قرآن باقر علی خاں، نجفی ۳۴۳ ترجمہ قرآن اقبال حسین، لاہوری ۳۴۹ ترجمہ قرآن موسوم بہ لوامع القرآن مرزا احمد علی، امرتسری ۳۶۰ ترجمہ قرآن پروفیسر محمد عسکری ۳۶۷ ترجمہ قرآن موسوم بہ گلشن جنت علی اطہر مرغوب نقوی ۳۸۱ ترجمہ قرآن موسوم بہ اسلامی صحیفہ خواجہ فیاض حسین ۳۰۲ ترجمہ قرآن غلام مرتضیٰ فیض آبادی ۱۴۱ ترجمہ قرآن سید ابراہیم ۱۴۵ ترجمہ قرآن حیدر رضا ۱۸۰ ترجمہ قرآن الکریم ڈاکٹر مجاور حسین الحسینی ۲۹۲ ترجمہ قرآن سید محمد صادق (آل نجم العلمائ) ۳۹۹ ترجمہ قرآن ادیب اعظم ظفرحسن امروہوی ۴۲۸ ترجمہ قرآن صفدر حسین ،نجفی ۴۳۱ ترجمہ قرآن محمدیوسف حسین آبادی ۴۳۸ ترجمہ قرآن الحکیم ایم۔ایچ۔ شاکر ۴۴۱ ترجمہ قرآن مجید شیخ محسن علی،نجفی ۴۶۰ ترجمہ قرآن پروفیسر حسین سحر ۴۶۴ ترجمہ قرآن قاری امان اﷲ،کربلائی ۴۶۹ ترجمہ قرآن محمد محسن (آل نجم العلمائ) ۴۷۳ ترجمہ قرآن جعفر حسین استرزئی ۳۱۹ ترجمہ قرآن شمیم الحسن ۴۸۵ ترجمہ قرآن،بلا متن محمد زکی ۴۸۶ ترجمہ قرآن تاج العلماء علی محمد ۲۱۹ ترجمہ قرآن شاکر حسین موسوی،نجفی ۴۸۹ ترجمہ قرآن محمد احسن زیدی ۴۹۰ ترجمہ قرآن ڈاکٹر محمد حسن رضوی، امروہوی ۴۹۲ ترجمہ قرآن رضی جعفر نقوی ۴۹۹ ترجمہ قرآن علی قلی قرئی، حیدرآبادی ۵۰۳ ترجمہ قرآن بندہ حسین،ملک العلماء ۱۹۷ ترجمہ قرآن میراحمد علی ۳۸۹ ترجمہ تفسیر اصفیٰ مطاہر حسین فرقانی، امروہوی ۲۳۰ ترجمہ تفسیراصفیٰ قائم رضا نسیم، امروہوی ۴۱۵ ترجمہ تفسیرالبیان محمد شفا، نجفی ۴۳۵ ترجمہ تفسیرالصافی تلمیذ حسنین رضوی ۵۰۲ ترجمہ تفسیرالمیزان سعید اختر، گوپالپوری ۴۵۷ ترجمہ تفسیرپیام قرآن قیصر عباس ۴۴۲ ترجمہ تفسیرتسنیم نثار احمد زین پوری ۵۱۲ ترجمہ تفسیرشیخ ابن عربی امیر حسن، سہادہلوی ۳۳۶ ترجمہ تفسیرطبری محمد سعید اشرف، مازندرانی ۱۲۸ ترجمہ تفسیرکبیر صفی الدین بن ولی قزوینی ۱۲۴ ترجمہ تفسیرمنہج الصادقین امداد علی، لکھنوی ۱۷۳ ترجمہ تفسیرمنشورجاوید صفدر حسین، نجفی، لاہوری ۴۳۲ ملاجیون امیر حسن، سہادہلوی ۳۳۶ ترجمہ تفسیرنمونہ صفدر حسین، نجفی، لاہوری ۴۳۱ ترجمہ تفسیرفرات کوفی ملک محمد شریف ۴۰۳ ترجمہ تفسیرسورۂ رحمن تلمیذ حسنین رضوی ۵۰۲ ترجمہ تفسیرسورۂ یٰسین افتخار حسین نقوی ۳۸۸ ترجمہ تفسیرسورۂ یٰسین ریاض حسین قدوسی ۴۳۷ حاشیہ قرآن ذاکر حسین، بارہوی ۲۹۷ حاشیہ تفسیربیضاوی ملا محمد طاہر دکنی ۷۸ حاشیہ تفسیربیضاوی قاضی نوراﷲ شوشتری ۱۰۵ حاشیہ تفسیر بیضاوی (ثانی) قاضی نوراﷲ شوشتری ۱۰۵ حاشیہ تفسیربیضاوی شریف الدین شوشتری ۱۰۷ حاشیہ تفسیربیضاوی ملا عبدالحکیم سیالکوٹی ۱۱۱ حاشیہ تفسیربیضاوی حسین بن شہاب الدین عاملی ۱۱۴ حاشیہ تفسیربیضاوی میرعلاء الدولہ شوشتری ۱۱۵ حاشیہ تفسیرکشاف ابوالحسن تاناشاہ ۱۲۵ حاشیہ تفسیرمجمع البیان نجف علی، نونہروی ۱۶۵ حجۃ البالغہ در تفسیر سورۂ فاتحہ آغا مہدی، لکھنوی ۴۰۷ خلاصۃ التفاسیر محمدحسین ۱۵۸ خلاصۃ التفاسیر محمد ہارون زنگی پوری ۲۷۳ خلاصۃ التفاسیر ڈاکٹر محمد حسن رضوی، امروہوی ۴۹۳ درس قرآن حکیم محمد رضی، آل نجم العلماء ۴۴۶ ذریعۃ المغفرت ذاکر علی جونپوری ۱۳۹ ذیل البیان فی تفسیر القرآن آقا حسن ، لکھنوی ۲۹۵ رموزالتنزیل سید علی گوپالپوری ۳۷۸ رفع القدر فی تفسیر آیۂ شرح الصدر قاضی نوراﷲ شوشتری ۱۰۶ سحاب المطیر قاضی نوراﷲ شوشتری ۱۰۶ سرّاکبر تفسیر سورۂ والفجر رجب علی ارسطوجاہ ۱۷۸ سواطع الالہام شیخ ابوالفیض فیضی ۹۴ شجرۃ الطور فی شرح آیۃ النور شیخ محمد حزیں لاہیجی ۱۳۴ صراط المستقیم حسن نواب رضوی ۳۵۷ صالحین نواب محمد علی خاں ۳۸۳ ضیاء البیان محمد خاں لغاری ۳۱۶ ظلّ ممدود محمد ابراہیم ۲۱۵ عجائب التفسیر و غرائب التنزیل حیدر علی ۲۰۰ غریب القرآن نجف علی خاں، دہلوی ۱۴۴ قانون قدرت زوارحسین،سہارنپوری ۲۵۴ قرآن مجید کے سو موضوعات کی تفسیر ڈاکٹر محمد حسن رضوی امروہوی ۴۹۴ کتاب مبین برکت علی شاہ ۳۱۳ کشف الغطا رجب علی ارسطوجاہ ۱۷۸ کشف الانیق فی شرح قانون العمیق مصطفی حسین، کشمیری ۴۶۶ لمع العرفان فی توضیح القرآن قاضی احمد شاہ ۳۸۲ لوامع التنزیل سید ابوالقاسم، حائری ۲۳۳ مجمع البرہان فی تفسیرالقرآن فیروز حسین، قریشی ۴۰۶ مجیدالبیان فی تفسیرالقرآن مسرور حسن، مبارکپوری ۴۷۶ محکم آیات ڈاکٹر رضا حسین ۵۱۰ مصباح البیان محمدمحسن، زنگی پوری ۲۳۸ مطالعہ قرآن پروفیسر کرار حسین ۴۲۴ مطالعہ قرآن پروفیسر سردار نقوی، امروہوی ۴۴۹ معارف القرآن حفاظت حسین بھیکپوری ۳۵۰ منبع العیون المعانی مطلع شموس المثانی شیخ مبارک،ناگوری ۷۹ منہج البیان فی تفسیر القرآن ابن حسن ،کربلائی، لکھنوی ۴۷۱ منہاج السداد یاد علی نصیرآبادی ۱۴۷ منہج السداد راجہ امداد علی خاں ۱۹۶ منہاج القرآن مصطفی حسین، کشمیری ۴۶۶ نخبۃ التفاسیر محمد کاظم ۱۳۱ نصرۃ النعیم آغا مہدی رضوی، لکھنوی ۴۰۷ نورالانوار احمد آقا، بہبہانی ۱۴۳ ینابیع الانوار سید محمد تقی ،ممتاز العلماء ۱۸۵ فہرست متعلقات قرآن آیات احکام مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۹ التغنی فی القرآن غلام حسنین، کنتوری ۲۶۳ الردالقرآنیۃ علی الکتب المسیحیۃ سید علی نقی نقوی ،سیدالعلماء ۴۲۲ اصالۃ القرآن مرزا مہدی پویا ۳۶۶ اصول دین اور قرآن سید علی نقوی،سیدالعلماء ۴۲۲ ازہارالتنزیل دروجہ سورۂ قرآنیۃ محمد محسن زنگی پوری ۲۳۹ اعجازقرآن مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۹ القرآن والکتابۃ سید اعجاز حسن، امروہوی ۲۸۴ الناسخ والمنسوخ فی القرآن محمد علی حزیں ۱۳۵ اورادالقرآن محمد ہارون، زنگی پوری ۲۷۷ بحث ماورای طبعی قرآن مجید مرزا مہدی پویا ۳۶۶ تاریخ قرآن مجید مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ تجویدالقرآن محمد اعجاز حسن بدایونی ۲۹۹ تجویدالقرآن محمد علی حزیں ۱۳۵ تحریف قرآن راحت حسین، گوپالپوری ۳۴۲ تحریف قرآن ظفر حسن، امروہوی ،ادیب اعظم ۴۲۸ تذکرہ حفاظ شیعہ سید علی نقی نقوی، سیدالعلماء ۴۲۲ تعلیمات قرآن آغا مہدی،رضوی، لکھنوی ۴۰۷ تفہیم القرآن ڈاکٹر زیرک حسین، امروہوی ۲۹۳ حسینیہ قرآنیہ غلام حسنین، کنتوری ۲۶۴ حفاظ قرآن قیصر حسین، نجفی ۶۰۰ حقائق القرآن سید ظفر حسن امروہوی ،ادیب اعظم ۴۲۸ حکایات القرآن محمد فضل حق ۴۸۸ خطیب قرآن مرتضیٰ حسین،فاضل ۴۱۱ خواص السورو الآیات محمد علی حزیں ۱۳۵ رسالۂ قرأت خواجہ فیاض حسین ۳۰۳ رسالۂ قرأت سید علی بن غفرانمآب ۱۵۷ روح قرآن ڈاکٹر محمد حسن رضوی،امروہوی ۴۹۴ روح قرآن نجم الحسن،کراروی ۵۸۹ سورۂ اخلاص ثلث قرآن کے برابر مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ علم نحو کی مشق بذریعہ قرآن مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۷۰ علوم القرآن محمد ہارون، زنگی پوری ۲۷۵ علوم القرآن مجتبیٰ حسن، کامونپوری ۳۶۹ فتنہ تفسیربالرائے امداد حسین کاظمی ۳۷۶ فضائل القرآن محمد علی حزیں ۱۳۵ فہرست الفاظ القرآن محمد اعجاز حسن، بدایونی ۲۹۹ قرآن مجید کی نزولی ترتیب مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ قرآن کے علوم پنجگانہ مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۷۰ قرآن اور زندگی مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۷۰ قرآن و حدیث کا فرق مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۷۰ قرآن اور زندگی پروفیسر کرار حسین ۴۲۴ قرآن مکرم اور ہم مسرور حسن ، مبارکپوری ۴۷۸ قصص القرآن سید ظفر حسن امروہوی ۴۲۸ کتاب فضل القرآن محمد اعجاز حسن، بدایونی ۲۹۹ لغات القرآن محمد اعجاز حسن ،بدایونی ۲۹۹ مانزل فی اہلبیت فی القراان آغا مہدی،لکھنوی ۴۰۷ متعہ اور قرآن مرتضیٰ حسین فاضل ۴۱۱ مجمع الآیات (انڈکس) سید ظفر حسن،امروہوی ۴۲۸ مسئلہ شفاعت اور قرآن رضی جعفرنقوی ۵۰۰ مطالعہ قرآن سید ذیشان حیدر جوادی ۴۵۵ مضامین قرآن کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۷۰ مطالعہ آیات قرآن مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ معین القراء ڈاکٹر زیرک حسین، امروہوی ۲۹۳ معارج الفرقان فی علوم القرآن اعجاز حسن، امروہوی ۲۸۲ مفتاح القرآن مقبول احمد، دہلوی ۲۸۰ مفتاح القرآن غلام محمد زکی ۵۸۰ مقدمات قرآن محمد اعجاز حسن ،بدایونی ۲۹۹ مقدمہ قرآن محمد رضی ،زنگی پوری ۳۳۳ مقدمہ تفسیر قرآن سید علی نقی نقوی ۴۲۱ مقدمہ تفسیر قرآن مجتبیٰ حسن کامونپوری ۳۶۹ مواعظ القرآن حفاظت حسین ،بھیکپوری ۳۵۱ نخبۃ القراء حکیم علی اظہر کھجوی ۳۰۹